بڑھتا ہوا خاندانی قرض اور گھٹتی ہوئی بچت غربت سے ابھرنے میں حائل

معاشی عدم مساوات کی بڑھتی ہوئی خلیج معیشت کے لیے ناسور

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

روایتی طور سے ہمارے ملک میں زیادہ بچت کرنے اور کم سے کم قرض لینے کا رواج رہا ہے مگر حالات سے مجبور ہوکر لوگ قرض لے رہے ہیں ۔ گزشتہ مالی سال کی تیسری سہ ماہی (اکتوبر تا دسمبر) میں خاندانی قرض جی ڈی پی کے سب سے اونچے ریکارڈ 39.1فیصد پر پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ سال یہ تناسب 36.7فیصد رہا تھا۔ سال 2021کی جنوری تا مارچ کی مدت میں خاندانی قرض کا تناسب 38.6فیصد پر آگیا تھا۔ کیونکہ کورونا وبا کی وجہ سے لوگوں کو اپنے کنبوں کے مریضوں کو بچانے کی فکر تھی۔ اس قرض کا 72فیصد حصہ غیر رہائشی قرض ہے جو رہائش کے لیے حاصل کیے جانے والے قرض کے مقابلے میں تیز رفتاری سے بڑھتی جارہا ہے۔ رہائشی قرض میں 12.2فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ غیر رہائشی قرض میں 18تا30فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ موتی لال اوسوال فائنانشیل سروسز لمیٹیڈ کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق قرض کے ڈیٹا ظاہر کر رہے ہیں کہ لوگ جائیدادیں خریدنے کے بجائے ادھر ادھر کی چیزیں خریدنے پر زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ دیگر مطالعہ میں پایا گیا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد بھی روز بروز بڑھ رہی ہے جو قرض کی ادائیگی کے لیے زیادہ شرح سود پر پرسنل لون لے رہے ہیں۔ کھپت کسی معاشی نظام کی اہم بنیاد ہوتی ہے۔ ہماری معیشت کا 60فیصد کھپت سے چلتا ہے۔ قوت خرید بڑھنے یا مستقبل کو لے کر مثبت یقین کی وجہ سے کھپت بڑھتی ہے جو ایک اچھی بات ہے۔ لیکن غیر محفوظ قرضے بینکوں پر بوجھ بن جاتے ہیں اور مالیاتی نظام کے لیے ایک طرح سے چیلنج بن جاتے ہیں ۔ آر بی آئی نے کئی دفعہ کریڈٹ کارڈ بقایہ، صارف قرض اور پرسنل لون میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس ضمن میں بینکوں کو چوکنا رہنے تک کا مشورہ دیا ہے۔ گزشتہ سال آر بی آئی نے غیر محفوظ قرضے بینکوں کے لیے مہنگے کردیے۔ قرض بڑھنے کے ساتھ ساتھ وقت پر قسط وار ادائیگی نہ کرنے یا ڈیفالٹ کرنے کے معاملات میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جو ممکنہ خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ موتی لال اوسوال کی رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ دوسری معیشتوں کے مقابلے میں ملک میں خاندانی قرضے اب بھی کم ہیں۔ مگر خاندانوں اور کنبوں کا غیرمحفوظ قرض بغیر کسی گارنٹی کی سطح کے آسٹریلیا اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کے تقریباً برابر ہے۔ یہ دیگر بڑی معیشتوں سے بھی زیادہ ہے جو قابل تشویش ہے۔ ایک طرف خاندان پر قرض کا دباؤ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف فطری طور پر ان کی بچت تقریباً پانچ دہائیوں میں کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ خاندان کے پاس موجود کل رقم اور سرمایہ کاری میں سے قرضے کی رقم نکالنے کے بعد جو رقم رہ جاتی ہے اسے ہی خاندانی بچت کہتے ہیں۔ قرض بڑھنے اور بچت کم ہونے کا حساب واضح ہے۔ اس لیے ہمارے بزرگ ہمیں متنبہ کرتے آئے ہیں کہ چادر کے حساب سے ہی پاوں پھیلائے جائیں۔
آج دنیا کے بیشتر ممالک میں معاشی اور سماجی عدم مساوات اپنا پیر پسارے ہوئے ہے جو بہت ہی تشویش ناک ہے، مگر ہم اسے اپنے ملک میں بڑی آسانی سے بغیر قیل وقال کے قبول کرتے ہوئے صحیح قرار دیتے ہیں، کیونکہ معاشی طور سے خوش حال لوگ اپنے اطراف میں مفلسی سے لڑتی ہوئی آبادی سے اتنی بے رخی سے کیوں پیش آتے ہیں؟ دراصل ذات پات بھی تفریق کی وجہ ہے جو ہندو سماج کو ورن ویوستھا کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ ذات پات کا نظام اصلاً پیشہ وارانہ تفریق کی بنیاد پر ہی وجود میں آیا تھا مگر بعد میں نچلی ذات خصوصاً دلتوں کے استحصال اور ظلم و جبر کے ایک ادارتی سسٹم میں تبدیل ہو گیا۔ نا برابری ہماری معاشی زندگی میں بھی نظر آتی ہے اور حالت یہ ہے کہ سماجی اور معاشی طور پر متوسط طبقہ اس پر فخر کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ بھارت میں دو یا تین ملکوں کے بعد ہی سب سے زیادہ ارب پتی بستے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری 60فیصد آبادی یعنی ایک ارب لوگ یومیہ 258روپے سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اور اکیس فیصد یعنی پچیس کروڑ افراد یومیہ 160 روپے سے کم اجرت پاتے ہیں۔ حکم راں طبقہ بڑے زورو شور کے ساتھ لوگوں کے دماغوں میں یہ بات ٹھونستا ہے اور فخر سے کہتا ہے کہ ہم دنیا کی بڑی معیشت میں سے ایک ہیں مگر وہ یہ نہیں سوچتا کہ ملک کی جی ڈی پی میں بہتری سے عام شہریوں اور حاشیے پر پڑے لوگوں کو حصہ مل رہا ہے یا نہیں؟ ایک فیصد سیٹھوں کے پاس قومی دولت کا 40.1فیصد اور آمدنی کا 22.6فیصد حصہ ہے۔ بڑے دس فیصد امیروں کے پاس ملک کی 77فیصد دولت ہے۔ نیتی آیوگ کے دعویٰ کے مطابق تقریباً 13.5کروڑ لوگوں کو خط افلاس سے سے نکال لیا گیا ہے مگر ان پر غیر یقینیت کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے کیونکہ شادی، بیماری اور بچوں کے تعلیمی اخراجات سے وہ لوگ دوبارہ اسی زمرے میں شامل ہوجاتے ہیں ۔یہ سوال اہم ہے کہ آیا جمہوریت میں یا کسی فلاحی ریاست میں ایسی معاشی نابرابری زیادہ دنوں تک چل سکتی ہے؟ جو دولت کے حصول میں لگے ہوئے ہیں وہ تو ٹھیک ہے لیکن بے وسائل (Have nots) کو بھی ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
حکومت مختلف اسکیموں کے ذریعہ پیسے تو دیتی ہے مگر حالات نہیں بدلتے جیسا کہ مذکورہ سطور میں ذکر آیا کہ ملک میں کل پچیس کروڑ لوگ بی پی ایل کے زمرے میں آتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ایک ارب لوگ یومیہ 3.10ڈالر سے کم پر زندگی گزارنے پر مجور ہیں۔ وہیں پچیس کروڑ سے زائد لوگ محض دو ڈالر یعنی 166.71روپے سے بھی کم پر گزارا کرتے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ ملک سے غربت کا خاتمہ ہے لیکن کیا وہ دولت (وسائل) کی کمی، منصوبوں کی خامی، ضرورتمندوں تک رسائی یا نفسیاتی مسئلہ ہے؟آج 80 کروڑ لوگوں کو پانچ کلو مفت اناج دیا جارہا ہے اور دیہی علاقوں میں منریگا کے تحت سو دنوں کے تنخواہ کے ساتھ روزگار کی گارنٹی ہے۔ ایسے سب منصوبوں کا مقصد غربت کا  خاتمہ ہے۔ جب ڈیٹا کے ذریعہ بتایا گیا ہے کہ ملک میں پندرہ فیصد لوگ ہی خط افلاس سے نیچے ہیں تو روزگار کی شرح تغذیہ کی سطح(Nutrition Level) ہنگر انڈیکس اور ہیومن ڈیولپمنٹ کے دیگر اشاریے میں بھی جھلکنا چاہیے۔ سی ایم آئی ای کے صارف لیبر اینڈ گھریلو سروے کے مطابق ملک میں شرح بے روزگاری جنوری 2024میں 6.8فیصد سے بڑھ کر فروری 2024میں 8فیصد ہوگئی۔ جہاں شہری علاقوں میں شرح بے روزگاری کم ہوئی ہے وہیں دیہی علاقوں میں اس میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ 2024میں ایف ایم سی جی اشاریہ میں تنزلی کے لیے کئی عوامل کو ذمہ دار گردانا گیا ہے۔ بنکوں میں زیادہ این پی اے ہونے اور خالص گھریلو مالی بچت کے ساتھ خاندانی بچتوں میں تنزلی کا خوف ہے جو گزشتہ سالوں کے 7.1فیصد کے مقابلے میں 2023میں پانچ فیصد کی تیزی سے تنزلی دکھاتی ہے کیونکہ کم آمدنی اور زیادہ EMI اور اس کے علاوہ اس میں صارف اخراجات کو متاثر کرنے والی بھرپور معاشی تبدیلی سے لے کر دیگر روز مرہ کے اخراجات کو متاثر کرنے والی مہنگائی تک شامل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ 25 کروڑ خاندانوں کی سماجی اور معاشی حالت پر نظر رکھی جائے او انہیں بہتر بنیادی ڈھانچے فرام کیے جائیں۔ اس کے علاوہ حکومت پر لازم ہے کہ معیاری تعلیم اور نگہداشتِ صحت فراہم کرے اور بہتر روزگار کے لیے صنعتوں کے حسب حال خصوصاً ایم ایس ایم ای (بہت چھوٹی، چھوٹی اور متوسط صنعتوں) کے لیے ہنر مندیاں پیدا کی جائیں۔
***

 

***

 ضرورت اس بات کی ہے کہ پچیس کروڑ خاندانوں کی سماجی اور معاشی حالت پر نظر رکھی جائے اور انہیں بہتر بنیادی ڈھانچے فرام کیے جائیں، اس کے علاوہ حکومت پر لازم ہے کہ معیاری تعلیم اور نگہداشتِ صحت فراہم کرے اور بہتر روزگار کے لیے صنعتوں کے حسب حال خصوصاً ایم ایس ایم ای ( بہت چھوٹی، چھوٹی اور متوسط صنعتوں) کے لیے ہنرمندیاں پیدا کی جائیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مئی تا 1 جون 2024