بدگمانی: دلوں کو توڑنے والا خاموش گناہ

سوچ کی لغزش، بدگمانی کی صورت میں تعلقات کو روند دیتی ہے

0

فرزانہ ناہید، حیدرآباد

انسانی دل شیشے کی مانند ہوتا ہے — شفاف، نازک اور حساس۔ اس پر اگر ذرا سا بھی غبار جم جائے تو نہ صرف اس کی شفافیت متاثر ہوتی ہے، بلکہ اس میں نظر آنے والے چہرے بھی بگڑ جاتے ہیں۔ اسی دل کے آئینے پر سب سے زیادہ خطرناک دھبہ بدگمانی کا ہوتا ہے — ایک ایسا دھبہ جو نہ صرف صاف دل کو داغدار کر دیتا ہے بلکہ رشتوں کی حرارت کو بھی سرد مہری میں بدل دیتا ہے۔
بدگمانی ایک خاموش گناہ ہے، مگر اس کی بازگشت گونجدار ہوتی ہے — دلوں میں بداعتمادی، ذہنوں میں وسوسے، اور رشتوں میں دراڑیں۔ یہ وہ بیماری ہے جو تندرست سماج کی رگوں میں سرایت کر جائے تو بھروسے کا خون کر دیتی ہے۔
ہم روز مرہ کی زندگی میں کتنی ہی بار ایسے واقعات سے گزرتے ہیں جہاں ہمیں علم نہیں ہوتا، ثبوت نہیں ہوتے، مگر صرف ایک خیال آتا ہے — اور ہم اسے یقین کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔
فون بند ہوا؟ ہم سمجھے جان بوجھ کر بند کیا گیا ہے۔
کسی نے بات کاٹ دی؟ ہم سمجھے یہ توہین تھی۔
کسی نے مسکرا کر کچھ کہا؟ ہم سمجھے یہ طنز تھا۔
کسی نے ہماری غیر موجودگی میں بات کی؟ ہم سمجھے وہ شکایت کر رہا تھا۔
یہ گمان جب دلیل کے بغیر یقین بن جاتا ہے، تب انسان نہ صرف خود اذیتی کا شکار ہوتا ہے، بلکہ اپنے آس پاس ایک ایسا خول بُن لیتا ہے جو اسے رشتوں کی گرمی سے محروم کر دیتا ہے۔
قرآن ہمیں خبردار کرتا ہے:
’’اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘(سورہ حجرات: 12)
اسلام ہمیں حسنِ ظن سکھاتا ہے — دوسروں کے بارے میں اچھا سوچنا، ان کی بات کو نرمی سے لینا، ان کے عمل کو مثبت زاویے سے دیکھنا۔ بدگمانی صرف ایک سوچ نہیں، ایک رویہ ہے — جو دلوں کو ویران، تعلقات کو کھوکھلا، اور معاشرے کو بے سکون بنا دیتا ہے۔
بدگمانی وہاں حرام ہو جاتی ہے جہاں انسان کے پاس نہ کوئی دلیل ہو، نہ کوئی علامت، نہ ہی کسی برائی کا ظاہری قرینہ۔ محض دل میں اٹھنے والا شک، جس کی جڑ صرف شیطان ہو، وہ ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ وہ کسی کے کردار، نیت، یا عزت پر ایک تیر ہے — وہ بھی بغیر کمان کے چلایا گیا تیر۔
اور بدگمانی صرف دوسروں کو نقصان نہیں دیتی، یہ خود انسان کا سکون چھین لیتی ہے۔ وہ ہر بات، ہر حرکت، ہر خاموشی میں خطرہ ڈھونڈتا ہے۔ ایک عام سا جملہ بھی اسے طنز لگتا ہے، خاموشی بھی سازش محسوس ہوتی ہے، اور محبت بھی اداکاری۔
ایسا انسان تنہا رہ جاتا ہے — اس کے تعلقات ٹوٹتے جاتے ہیں، اور ایک دن وہ خود اپنی ذات سے بھی بدگمان ہو جاتا ہے۔
آج کا معاشرہ جس بے اعتمادی اور انتشار کا شکار ہے، اس کی جڑ میں یہی غیر ضروری بدگمانیاں پل رہی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دلوں میں نرمی ہو، رشتوں میں گرمجوشی ہو، اور سماج میں امن ہو — تو ہمیں بدگمانی کے خلاف اعلانِ جنگ کرنا ہوگا۔
کبھی کبھی صرف ایک حسنِ ظن — کسی تعلق کو بچا لیتا ہے، ایک معافی — کسی دل کو جوڑ دیتی ہے، اور ایک نرم بات — کسی زندگی کو بدل دیتی ہے۔
پس، بدگمانی کے مقابل حسنِ ظن کو شعار بنائیں، ورنہ دل کی زمین بنجر ہو جائے گی اور رشتوں کے درخت سوکھ جائیں گے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025