بدرالدین اجمل کی شکست سے آسام میں کانگریس کی راہ ہموار

مسلمانوں کے بنیادی مسائل کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ حالیہ انتخابات میں ظاہر

شبانہ جاوید ،کولکاتا

اسمبلی انتخابات 2026 میں پارٹی کے وقار کی بحالی کےلیے بدرالدین اجمل پُرعزم
ملک کی سیاست میں 2024 کے لوک سبھا انتخابات اور اس کے نتائج کا تذکرہ برسوں تک رہے گا۔ کیوں کہ یہ انتخابات کئی معنوں میں اہم تھے۔ ملک میں بڑھتے فرقہ وارانہ تناؤ، بے چینی، انتشار، ڈر اور خوف کے سائے میں یہ انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں برسر اقتدار جماعت سیاسی طور پر مضبوط سے مضبوط تر ہونے کا دعویٰ کر رہی تھی لیکن اس کے باوجود ملک کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ انتخابات کے نتیجے نے دنیا بھر کے لوگوں کو حیران کر دیا۔ ان انتخابات نے بی جے پی کے 400 پار کے نعرے بے بنیاد ثابت کر دیا جبکہ اپوزیشن پارٹیوں کو مضبوطی ملی۔ وہ لوگ جو ڈر اور خوف کے سائے میں تھے اب ان کے اندر امید جاگی کہ اپوزیشن کے ذریعہ ان کے مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی۔
حالیہ انتخابات میں مختلف پارٹیوں نے کئی نئے چہروں کو سیاست میں متعارف کرایا ہے اور کئی ایسے چہرے بھی ہیں جنہیں لوگوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں ایک اہم نام آسام کے ڈهوبرِی سے تین بار ایم پی رہ چکے بدرالدین اجمل ہیں۔ بدرالدین اجمل جو خود اپنی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف کے سربراہ ہیں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور شکست بھی ایسی ویسی نہیں بلکہ دس لاکھ سے زائد ووٹوں سے اٹھانی پڑی۔ جبکہ کانگریس لیڈر رقیب الحسن نے بازی جیت لی۔بدرالدین اجمل نے اپنی پارٹی کی جانب سے آسام کے نواگاؤں، کریم گنج اور ڈھوبری لوک سبھا حلقے سے امیدوار کھڑے کیے تھے لیکن ان تینوں ہی سیٹوں پر ائے آئی یو ڈی ایف کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ خود پارٹی چیف بدرالدین اجمل بھی ملک میں سب سے زیادہ ووٹوں سے ناکام ہونے والے امیدواروں کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔
اے آئی یو ڈی ایف کو لوک سبھا انتخابات میں ملنے والی کراری شکست کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملک کی سیاست میں زور و شور کے ساتھ سامنے آنے والے کا آخر یہ حال کیوں ہوا اور آخر اس کی وجوہات کیا ہیں؟ بدرالدین اجمل جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آسام کے مسلمانوں کی ایک مضبوط آواز بن کر ابھرے تھے آخر انہیں اتنی جلدی لوگوں کی ناراضگی کا کیوں سامنا کرنا پڑا؟ یہ کچھ ایسے سوال ہیں جس کے جواب خود بدرالدین اجمل بھی تلاش کر رہے ہیں۔ تاہم، انہوں نے ہار کے باوجود نتائج پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں میں جو ڈر اور خوف پایا جاتا تھا تھا نتائج نے اس کو ختم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ ایسا تھا جو بے چینی محسوس کر رہا تھا اور اپنے ہی ملک میں خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہا تھا لیکن نتائج نے ان لوگوں کا حوصلہ بڑھایا ہے اور ملک کی جمہوری روح کو باقی رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوش ہیں کہ انتخابات کے نتائج سے ملک میں ناراضگی اور دکھ کی جو سونامی آئی ہوئی تھی وہ دور ہوئی۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم ہندوستان کے شہری نہیں ہے بلکہ کہیں اور سے آئے ہیں، ہم اپنے مذہب اپنے رسم و رواج کا تحفظ نہیں کر پا رہے تھے۔ ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ مسجدیں ختم ہو جائیں گی اذان کو بند کر دیا جائے گا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ اپوزیشن مضبوط رہے گی۔ اب کوئی بھی سی بی آئی اور ای ڈی کا ڈر نہیں دکھا سکے گا اور دیگر سرکاری ایجینسیوں کا غلط استعمال بھی بند ہوگا۔ انتخابات کے نتیجے سے لوگوں میں خوشی کی لہر ہے۔ میں بھی خوش ہوں انڈیا اتحاد کا پرفارمنس اچھا رہا۔ ہمارا ملک جمہوری ملک ہے وہ باقی رہنا چاہیے جہاں ہر شہری خود کو محفوظ سمجھے۔ بدرالدین اجمل نے مزید کہا کہ میں اپنے حریف کانگریس امیدوار کو مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے لوگوں نے تین بار کامیاب کیا ہے اور ایک بار کانگریس کو موقع دیا ہے۔ ہماری پارٹی ہار کی وجوہات کا پتہ لگائے گی جو ذمہ دار ہوں گے ان کے خلاف کارروائی بھی ہوگی۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر بدرالدین اجمل جو لوگوں میں پھیلے ہوئے انتشار، بے چینی، ڈرا ور خوف کا اظہار کر رہے ہیں انہوں نے اسے ختم کرنے کے لیے کیا کیا؟ کیا انہوں نے اس کے خلاف کچھ اقدامات کیے یا سرکار سے اس معاملے پر جواب مانگا؟ کیا بدرالدین اجمل لوگوں کی آواز نہیں بن پائے؟ وہ کیوں لوگوں کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے انہیں شکست سے دو چار کرا دیا کیونکہ ڈھوبری ایک ایسا لوک سبھا حلقہ ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بدرالدین اجمل کو مسلمانوں کا سہارا نہیں ملا۔
رقیب الحسین نے 1,471,885 ووٹ حاصل کیے جبکہ AIUDF کے سربراہ بدرالدین اجمل نے صرف 459,409 ووٹ حاصل کیے، جس کے نتیجے میں دس لاکھ سے زیادہ ووٹوں کا فرق رہا۔ یہ نتیجہ رائے دہندگان میں بدرالدین اجمل کے لیے قابل اعتبار نقصان کی نشان دہی کرتا ہے۔ اے آئی یو ڈی ایف نے ریاست کی 14 پارلیمانی نشستوں میں سے تین پر انتخاب لڑا لیکن وہ کھاتہ بھی نہیں کھول سکی۔ یہ مغربی آسام کا ڈھوبری، جنوبی آسام کا کریم گنج اور وسطی آسام کا نوگاؤں ہیں جہاں مسلمان ووٹروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ارب پتی پرفیوم تاجر بدرالدین اجمل نے اپنے کاروبار کو دنیا بھر میں پھیلانے کے ساتھ آسام کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ آسام میں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے لیکن یہاں ڈی ووٹر اور این آر سی کا ایشو سب سے اہم ہے۔ آسام میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ڈی ووٹر کی فہرست میں شامل ہے۔ ساتھ ہی این آر سی معاملے میں ایک بڑی آبادی ڈی ٹینشن کیمپ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ مسلم آبادی والے کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں کے لوگ ڈی ووٹر ہیں اور سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں بدرالدین اجمل نے یہاں کے لوگوں کو جن میں ہر فرقے کے لوگ شامل ہیں انہیں روزگار فراہم کیا اور تعلیمی، صحت اور دیگر سماجی کاموں کے ذریعہ لوگوں کی مدد کی۔ 2005 میں انہوں سیاست میں قدم رکھتے ہوئے آسام یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے سیاسی جماعت کی تشکیل دی، بعد میں انہوں نے پارٹی کو نیا نام دیتے ہوئے آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے ملک بھر میں اسے نئی پہچان دلائی۔ بدرالدین اجمل کی سیاست میں داخلے سے لوگوں کو امید پیدا ہوئی تھی کہ وہ مسلمانوں کے مسائل سامنے لانے اور حل کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں لوگوں کا زبردست تعاون ملا اور کانگریس کا گڑھ سمجھے جانے والے آسام میں ان کی پارٹی نے کانگریس کے ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کی پارٹی کو 2006 کے اسمبلی انتخابات میں دس سیٹوں پر کامیابی ملی تھی جبکہ 2011 میں اسمبلی کی 18 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی تاہم، 2018 کے اسمبلی الیکشن میں ان کی پارٹی کو پانچ سیٹوں کا نقصان ہوا تھا۔ بدرالدین اجمل نے 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں پہلی بار حصہ لیا جس کے نتیجہ میں انہیں کامیابی ملی۔ اس کے بعد وہ لگاتار تین بار ڈھوبری لوک سبھا حلقے سے کامیاب ہوتے رہے۔
سماجی کارکن محمد آزاد منڈل اجمل اور ان کی پارٹی کے شان دار کامیابی کے بعد کراری شکست کے لیے بدرالدین اجمل کو ہی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اجمل لوگوں کے ووٹ تو حاصل کر رہے تھے لیکن ان کے مسائل سے آنکھیں چرا رہے تھے۔ ڈی ووٹر کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔ ڈی ٹینشن کیمپ میں زندگی گزارنے والے لوگوں کے لیے بھی اجمل نے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاست میں لیڈر ووٹروں کے مسائل کو بھول جاتے ہیں لیکن اجمل کی سیاسی اننگ کی شروعات انہی مسائل کو سامنے رکھ کر ہوئی تھی اس لیے ووٹر ان سے ہی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن انہیں مایوسی ہی مل رہی تھی۔ ایسے میں کانگریس نے ان ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کی اور آسام کے بنگالی مہاجروں میں بدرالدین اجمل کی مسیحا جیسی شبیہ کو سخت نقصان پہنچایا۔ کانگریس لیڈر رقیب الحسین نے جو سابق میں ریاستی وزیر بھی رہ چکے تھے، ڈھوبری کے ووٹروں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کافی پہلے سے ہی شروع کر دی تھی، ساتھ ہی کانگریس پارٹی یہ پیغام دینے میں کامیاب رہی ہے کہ AIUDF بی جے پی کی’ B ٹیم‘ ہے۔ کانگریس، ووٹروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ اگر وہ ریاست میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے اجمل کو روکنا ہوگا۔
آسام سے تعلق رکھنے والے ایک اسکالر سبھرانگشو پرتیم سرما نے بدرالدین اجمل کی شکست کی وجہ ریاست میں بنگلہ بولنے والے مسلمانوں میں ان کی گھٹتی ہوئی مقبولیت کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں کانگریس امیدوار رقیب الحسین اس بات کو لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب رہے کہ صرف کانگریس ہی ریاست میں بنگالی بولنے والے عوام کی حقیقی نمائندہ ہو سکتی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران کانگریس امیدوار یہ بھی بتانے میں کامیاب رہے کہ ریاست میں بی جے پی اور اے آئی یو ڈی ایف کی قیادت کے درمیان خفیہ سمجھوتہ ہے۔
مولانا اجمل کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ ان کا بی جے پی کے وزیر اعلیٰ ہیمانتا بسوا سرما کے ساتھ خفیہ اتحاد ہے اور وہ اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کے لیے بی جے پی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ کانگریس نے ان کی پارٹی کو ہندوستانی اتحاد میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کی پارٹی کو بی جے پی کی بی ٹیم کہا جاتا تھا۔ شاید یہ پروپیگنڈا اندر ہی اندر سرایت کر گیا اور ایک ایم ایل اے نے اجمل اور ان کی پارٹی کی سیاسی بساط الٹ دی۔
آسام میں کانگریس کو تین سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن ڈھوبری حلقے سے کانگریس کی جیت کو کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔ آسام میں مسلم ووٹ حاصل کرنے کے لیے کانگریس کو بدرالدین اجمل کی پارٹی، اے آئی یو ڈی ایف سے آگے بڑھ کر لوگوں کو اعتماد میں لینا تھا۔ کیوں کہ مسلم ووٹر خود کو مرکزی دھارے کی جماعتوں سے الگ کر کے مسلم پارٹیوں کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن اجمل کی دس لاکھ ووٹوں سے شکست اور ان کے حریف رقیب الحسین کی کامیابی نے کانگریس کو ایک نئی زندگی دے دی ہے، جو ریاست میں اپنی کھوئی سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔
یاد رہے کہ ڈھوبری کو بنگالی بولنے والے مہاجر مسلمانوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی سرحد بنگلہ دیش کے ساتھ ملتی ہے۔ وسطی آسام کے کچھ حصوں میں اقتدار حاصل کرنے والے رقیب الحسین کے لیے یہ ان کا پہلا پارلیمانی انتخاب ہے جبکہ رقیب الحسین 2001 سے لگاتار پانچ بار آسام کے ساما گوری اسمبلی حلقے سے ایم ایل اے منتخب ہو رہے ہیں۔ دہائیوں سے کانگریس ڈھوبری اور اس سے ملحقہ گول پارہ اور بارپیٹا اضلاع میں بااثر رہی ہے۔ آہستہ آہستہ AIUDF یہاں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی اور کانگریس نے اپنی جگہ کھو دی۔ رقیب الحسین کی جیت کانگریس کے لیے کھوئی ہوئی زمین کو دوبارہ حاصل کرنے کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے۔
لوک سبھا انتخابات میں بدرالدین اجمل کا نقصان نہ صرف ان کے لیے ایک ذاتی دھچکا ہے بلکہ ان کی پارٹی AIUDF کے لیے بھی ایک بڑا نقصان ہے۔ پارٹی کو اب اپنی بنیاد کو دوبارہ مضبوط کرنے اور ڈھوبری اور اس سے باہر کے ووٹروں سے دوبارہ جڑنے کا چیلنج درپیش ہے۔ بدرالدین اجمل نے بھی کہا کہ ان کی پارٹی شکست کے وجوہات تلاش کرے گی کیونکہ ہمیں 2026 کے اسمبلی انتخابات کے لیے تیار ہونا ہے، اپنی پارٹی کی عزت کو دوبارہ پانا ہے اور آگے کا راستہ طے کرنا ہے۔ بہرحال اس الیکشن کے نتائج نے یہ ثابت کیا ہے کہ آج کا ووٹر بیدار ہو چکا ہے۔ ایسے میں بدرالدین اجمل 2026 کے اسمبلی انتخابات کے لیے کیا حکمت عملی اپنائیں گے یہ دیکھنا اہم ہوگا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جون تا 22 جون 2024