بچوں کو تعلیم کا حق دلانے کے لیے ایک ماں کی جرات مندانہ لڑائی
مذہبی تعصب کے خلاف ہمت کی ایک مثال۔ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا سبق
امروہا : (دعوت نیوز ڈیسک)
یہ کہانی ایک ایسی ماں کی ہے جو اپنے تین بچوں کے حقوق کے لیے لڑنے کا عزم رکھتی تھی، اور اس نے ثابت کر دیا کہ جب تک ہم ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے، اس کی جڑیں ہمارے سماج میں گہری ہوتی جاتی ہیں۔ اتر پردیش کے ضلع امروہا کی رہائشی صابرہ نے اپنے بیٹوں کے اسکول سے نکالے جانے کے بعد جو جدوجہد شروع کی وہ نہ صرف ان کے تعلیمی حقوق کے تحفظ کا معاملہ تھا بلکہ ایک سماجی پیغام بھی تھا جو ہمیں بتاتا ہے کہ ظلم کے سامنے خاموشی اختیار کرنا دراصل ظلم کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔
صابرہ کا بیٹا سات سالہ ریحان خان محض اس وجہ سے اسکول سے نکال دیا گیا تھا کہ وہ ٹفن میں نان ویج کھانا لے کر گیا تھا۔ 2 ستمبر کو صابرہ کو اسکول سے فون آیا کہ وہ آ کر اپنے بیٹے کو جلدی لے جائے۔ چنانچہ جب وہ اسکول پہنچی تو اس نے اپنے بیٹے کو بے حد غمگین پایا جو پانچ گھنٹے تک اسکول کے کمپیوٹر لیب میں بند رہا تھا۔ جب صابرہ نے اس کی وجہ پوچھی تو پرنسپل نے صاف طور پر بتا دیا کہ ریحان اور اس کے دو بھائیوں کو نان ویج کھانا لانے کی وجہ سے نکال دیا گیا ہے۔
صابرہ نے پرنسپل کی اسلام مخالف اور نفرت انگیز باتوں کو اپنے موبائل کیمرے میں ریکارڈ کرلیا۔ اس نے فوراً ضلعی حکام اور پولیس سے مدد کی درخواست کی مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد صابرہ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور بالآخر عدالت نے فیصلہ سنایا کہ صابرہ کے تین بچوں کو دو ہفتوں کے اندر دوسرے سی بی ایس ای اسکول میں داخلہ دلایا جائے۔
صابرہ کی کہانی نہ صرف ایک ماں کی جرأت کی داستان ہے بلکہ یہ ہمیں ایک اہم پیغام بھی دیتی ہے کہ جب بھی ظلم کا سامنا ہو ہمیں اس کے سامنے ہار نہیں ماننا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں جن میں ہم ماحول، سسٹم یا حکام پر زیادتی کا الزام عائد کر کے خاموش ہو جاتے ہیں جبکہ اس خاموشی سے ظلم کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ صابرہ نے نہ صرف اپنے بچوں کے حق میں آواز اٹھائی بلکہ اس نے ہمارے سامنے ایک عملی نمونہ بھی پیش کیا کہ انصاف کے لیے جدوجہد کبھی بے سود نہیں ہوتی۔
ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے نہ صرف انفرادی سطح پر تبدیلی آتی ہے بلکہ اس سے ایک اجتماعی پیغام بھی پہنچتا ہے۔ جب کمزور لوگ آواز بلند کرتے ہیں اور طاقتوروں کو جواب دہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف ان کا گھمنڈ ٹوٹتا ہے بلکہ اس کے اثرات پورے معاشرے میں پڑتے ہیں اور انصاف کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں نیز، کمزوروں کو حوصلہ ملتا ہے تاکہ وہ بھی اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔
صابرہ کی جدوجہد نے ثابت کیا کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور اپنے حقوق کا دفاع کرنا ہر فرد کا حق ہے۔ اس سے نہ صرف ہمیں اپنے حق میں تبدیلی لانے کی طاقت ملتی ہے بلکہ ہم پورے معاشرتی ڈھانچے کو مزید منصفانہ بنا سکتے ہیں۔صابرہ کی کامیابی میں سبق یہ ہے کہ نا انصافی کے خلاف اپنی سکت کے مطابق ضرور لڑنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے چھوٹے قدم کسی بڑے انقلاب کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتے ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024