
بچوں کی ذہنی و جذباتی نشوونما
نئی نسل میں مثبت رویے پیدا کرنے کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی کی ضرورت
فاروق طاہر ،حیدرآباد
ممتا کے جذبے سے سرشار ماں
میں نے ایک بہت اچھی مثال دیکھی ہے۔ ہمارے ساتھ ایک خاتون کلرک( ٹائپسٹ) اورڈیزائنر کا کام کرتی تھیں۔ وہ اکثرادبی ،تہذیبی و شخصیت سازی کے لیکچرس سننے کے لیے جایا کرتی تھیں ۔ ان پروگراموں میں اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جایا کرتی تھیں۔ ان کا بیٹا سات آٹھ سال کا تھا اور بیٹی ،بیٹے سے دو سال بڑی تھی۔ مجھے خاتون کی یہ عادت اچھی لگی۔ بچے ہر ادبی ،تہذیبی،ثقافتی پروگراموں، ادبی شخصیات کے لیکچرس، کانفرنسوں اورڈراموں وغیرہ میں ہمیشہ اپنی ماں کے ساتھ موجود رہتے تھے۔ ہم اپنے بچوں کو ایسے پروگراموں میں شرکت کے لیے نہیں لے جاتے ہیں ۔ ہمیں ایسے مواقع دستیاب رہتے ہیں لیکن پھر بھی ہم ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچوں میں منطقی فکر پروان چڑھے توانہیں منطقی فکر کو مہمیز کرنے والے مختلف قسم کے لوگوں سے ملنے دیں۔ اپنے بچے کو ایسے لوگوں کے لیکچرس سننے کی ترغیب دیں اور ایسے لیکچرس میں اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جائیں۔
میراایک طالب علم تھاجو آٹھویں جماعت میں تھا۔ وہ جماعت اور اسکول سب کا پسندیدہ تھا۔ وہ نرمی سے گفتگو کرتا،لہجہ پست رکھتا،کبھی جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور نہ ہی کسی سے الجھتا تھا۔ اس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔ اپنی بات کو مناسب طریقے سے دوسروں تک پہنچاتا۔ میں خود سے سوال کرتا کہ یہ لڑکا ایسا کیسے بنا؟مجھے اپنے سوالوں کا جواب چند ہی دنوں میں مل گیا۔ ایک دن اسکول سے لڑکے کو جانے میں کسی قدر تاخیر ہونے کے باعث اس کی ماں اسے لینے آئی۔ اس کو دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ بچے نے یہ سب اوصاف اپنی ماں سے حاصل کیے ہیں۔ ماں اوربیٹے کے بات کرنے کے انداز میں کوئی فرق نہیں تھا۔ لڑکے کی ماں نے مجھ سے بہت نرمی اور سکون سے بات کی۔
بچوں پروالدین کے قول و فعل طور طریقوں کا گہرا اثر پڑتا ہے یا پھر بچے اپنے اردگرد کے ماحول سے سیکھتے اور اثر لیتے ہیں۔
ایک شادی میں شرکت کے موقع پر میں نے دیکھا کہ بچے کھیل رہے ہیں۔کھیل کے دوران ایک بچے کے منہ سے بری بات نکل گئی۔دوسرے بچے اسے ناگواری سے دیکھنے لگے۔ بچے کی ماں خاموش کھڑی رہی اور تھوڑی دیر کے بعد کہا ’’’میں کیا کر سکتی ہوں؟‘‘۔ بچہ وہی زبان بولتا ہے جس ماحول میں وہ رہتاہے۔ میں اسے لاکھ منع کروں کوئی نہ کوئی گالی یا برا لفظ اس کے کان میں پڑہی جاتاہے۔
بچے مثبت اور منفی دونوں چیزوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کو مثبت سے صحیح انداز میں فائدہ اٹھانے اور منفی چیزوں سے بچانے کے لیے ہمیں انہیں مناسب ماحول فراہم کرنا ضروری ہے۔ بچوں کی عمر کے لحاظ سے انہیں زندگی میں کس چیز کی ضرورت درپیش ہے اور کن حالات و افراد اور اشیاء سے بچایا جائے اس کے لیے والدین کی جانب سے سنجیدہ منصوبہ بندی ضروری ہے۔والدین کو خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کی زندگی میں ان کی عمر کے حساب سے کون سے اور کیسے واقعات رونما ہونے چاہیے تاکہ ان کے مطابق وہ غور و فکر اور تدبر کرنے کے لائق بن سکیں۔
بعض افراد اپنے بچوں کی ذہانت کو فروغ دینے کے لیے مذہبی رسومات تنتر منتر اور وظائف سے کام لیتے ہیں تو بعض نام نہاد نفسیاتی تراکیب و معالجہ کو اختیار کرتے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہیں۔ہماری زندگی ہمیں روزانہ سکھاتی رہتی ہے۔ جب ہماری زندگی ہمارے بچے کی زندگیسے رابطے میں آتی ہے، تو وہیں سے بچوں کی ذہنی ترقی کاآغاز ہونے لگتا ہے۔
جذباتی پختگی
ہمیں اکثر و بیشتر موقعوں پراحساس ہوتا ہے کہ ذہانت کی طرح جذباتی پختگی بھی ضروری ہے۔ جذباتی میقاس(Emotional Quoiten) بھی ذہانت کی طرح اہم ہے۔ جذباتی میقاس ، جذباتی پختگی کے لیے اہم گردانی جاتی ہے۔ ہمارے لیے جذباتیت بھی ضروری ہے۔ ایک متوازن جذبات سے لیس بچہ بحیثیت انسان بہتر زندگی گزارتا ہے۔ بچے کی ذہنی نشوونما کی طرح اس کے جذباتی نشوونما کی بھی ہمیں سعی و جستجو کرنا چاہیے۔
اکثر گھرانے جذباتی وابستگی سے عاری اور جذباتی پختگی فراہم کرنے والے ماحول سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ایسا گھرجہاں کا ہر فرد صرف اپنے معمولات میں مصروف رہے وہاں جذباتی وابستگی بہت کم پائی جاتی ہے۔جن گھروں میں ماحول دوستانہ ہو ،ایک دوسری کی خوشی پر سبھی دل سے خوش ہوتے ہوں ایسے ماحول میں بچے زیادہ خوش اور خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں۔
اکثر والدین سے ایک شکایت میں نے بارہا سنی ہے کہ ’’میرابچہ تعلیم میں بہت اچھا ہے۔‘‘ لیکن وہ اکیلا ہے،تنہائی پسند ہے۔ اس کے پاس کوئی سماجی نقطہ نظر نہیں ہے۔اگر خاندان میں کوئی شادی ہو، عید و تہوار ہو،نئے گھر میں منتقلی کی تقریب ہو ،وہ ان تقاریب میں شرکت نہیں کرتا یا پھر ان میں شرکت سے بچنے کے بہانے تلاش کرتا ہے۔ہمارے پڑوسی کے بچے کو دیکھو وہ ہر تقریب میں شرکت کرتا ہے۔ اسے سب پسند کرتے ہیں۔لیکن میرا بیٹا ایسا کیوں نہیں کرتا؟‘‘
اگر آپ اپنے بچے میں جذباتیت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں اور اس کے جذبات میں توازن پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ بڑا کام چھوٹے چھوٹے کاموں کی مناسب انجام دہی سے ممکن ہے۔
بچوں کی جذباتیت
کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے بچے کتا پالنا چاہتے ہیں۔ وہ کبھی پرندے مثلاً کبوتر یا چڑیا گھر میں لانا چاہتے ہیں تو کبھی بلی، تو بچوں کو فوراً نا نہ کہیں۔ درحقیقت، بچے کتے کے پلّے، بلی کے بچوں کو پالنے کی صورت میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ کبھی بچوں کے ایسے لگاؤ والے جذبات پر روک نہ لگائیں۔
اس طرح کی ایک مثال میرے دل کو چھو گئی۔ میرا ایک دوست اور اس کے گھر والوں کو عمدہ نسل کے بکرے پالنے کا شوق تھا۔ایک دن میرا دوست اپنے گھر ’’جانو‘‘ نامی ایک بکری کا بچہ لے کرآیا۔جانو میرے دوست کے نوزائیدہ لڑکے ساتھ پروان چڑھنے لگا۔جب بچہ دس سال کا ہوگیا تو جانو بھی لگ بھگ اسی عمر کو پہنچ چکاتھا ۔ اب جانو عمر کی وجہ سے مختلف عوارض کی وجہ سے تھکابجھارہنے لگا۔ وہ ایک جان لیوا عارضے میں مبتلا ہوگیا تھا۔
جانو کی موت اب یقینی تھی اسے یاتو موت کے حوالے کردیا جائے یا پھر ذبح کردیا جائے۔بچے کی ماں کہہ رہی تھی کہ ”مگر میرا بچہ جانو سے اتنا پیار کرتا ہے کہ ہم اس کے سامنے یہ سب کیسے کر سکتے ہیں، لیکن گھروالوں نے بھاری دل سے فیصلہ کیا کہ جو بھی ضروری ہے وہ کیا جائے۔ جانو کو درد سے نجات دلانا بھی ضروری تھا۔ گھر کے سبھی افرادبکرے کی تکلیف نہیں دیکھ پا رہے تھے اور لڑکا آنکھوں میں آنسو لیے جانو کو دیکھ رہاتھا۔ خاندان کے سبھی افراد کاگرمائی تعطیلات میں شہر سے باہر جانے کا پروگرام پہلے ہی سے طے تھا۔گھر والوں نے بچے کو سمجھایا کہ جانواب بہت بوڑھا ہوچکا ہے اور بیمار بھی اس لیے اسے ساتھ نہیں لے جاسکتے ۔ بچے میں اتنی سوجھ بوجھ آچکی تھی کہ وہ سمجھ گیا کہ جانو کو اب ساتھ نہیں لے جاسکتے۔
وہ سب ایک مہینے کے بعد گھرواپس آنے والے تھے۔ یہ پہلے سے طے ہوچکا تھاکہ جب وہ سفر پر روانہ ہوجائیں گے تو قصائی جانو کو ذبح کردے گا۔ بچہ واپسی کے وقت ٹرین میں بہت زیادہ پریشان تھا۔میرادوست اس کی دل جوئی میں لگا رہا لیکن بچے کی بے چینی کم نہیں ہورہی تھی۔سفر کے دوران اکثر وہ بجھا بجھا ساتھا ۔کسی سے زیادہ بات بھی نہیں کرتاتھا۔
جب میرا دوست اور اس کے گھر والے گھر پہنچے تب بچہ گاڑی سے اترتے ہی سیدھا جانو کے چھپر کی طرف بھاگا۔ وہاں خالی چھپر کو دیکھ کر وہ زور زور سے رونے لگا۔ اس کے رونے کی آواز سن کر گھر والے کے ہاتھوں سے سامان چھوٹ گیا۔ سب لوگ رنجیدہ ہو گئے۔ سب رو رہے تھے۔ گھر والوں نے اس دن بچے میں پنہاں جذبہ محبت کی قدر کو سمجھا۔ میرے دوست نے بتا یا کہ جس وقت جانو اس دنیا سے رخصت ہوا، اسی وقت اس کا بیٹا ٹرین میں پریشان تھا۔ میرے دوست کے بیٹے کو اس کے پریشان ہونے کی وجہ معلوم نہیں تھی۔ اسے کسی نے بتایانہیں پھر اسے کیسے پتا چلا کہ اب جانو نہیں رہا۔
یہ محبت تمام بچوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ بچوں کو چھوٹے چھوٹے واقعات پر اپنے جذبات کے اظہار کا موقع فراہم کیاجائے۔ ان کے جذبات کے اظہار پر کسی قسم کی پابندی عائد نہ کی جائے۔
اسی پس منظر میں ایک اور واقع کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا۔میرے دوست کا ایک پندرہ سال کا لڑکا گھر میں ایکوریم لانے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ پہلے تو میرے دوست نے انکار کردیا لیکن بچہ بضد تھا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ بھلا ایکوریم لانے میں کیا قباحت ہے؟ میرادوست سمجھ گیا اور فش ٹینک لانے پر راضی ہوگیا۔ اکثر والدین فکر مند رہتے ہیں کہ بچوں کی کسی سرگرمی سے ان کی پڑھائی میں حرج ہوگا۔پہلے بچے سے وعدہ لیا گیا کہ مچھلیوں کی دیکھ بھال میں وہ اپنی پڑھائی خراب نہیں کرے گا۔پھر میرے دوست نے اپنے بیٹے کو فش ٹینک لانے کی اجازت دے دی۔
جب میں ان کے گھر گیا تو دیکھا کہ بچے نے ٹینک کو بہت خوبصورتی سے سجایا تھا۔ ٹینک کی تزئین میں اس کے دوستوں نے بھی اس کی مدد کی تھی۔ لڑکا مجھے بہت ساری معلومات فراہم کرنے لگا وہ بتارہاتھا کہ مچھلیاں کس قسم کی چیزیں کھاتی ہیں، ٹینک کو کیسے صاف کیاجاتاہے، ٹینک کی صفائی کرتے وقت کن امور کا خیال رکھناچاہیے اور ٹینک میں پانی کا درجہ حرارت کیوں بڑھتا یا کم ہوتا ہے۔ اگر مچھلی کو آکسیجن نہ ملے تو پھر کیا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس کی وجہ سے دوباتیں واقع ہوئیں۔ایک فطرت سے لڑکے کی محبت کا اظہار ہوا اور دوسرا اس نے ایک ایسی دنیا کی تخلیق کو انجام دیا جہاں مچھلیوں کو رکھا جاسکتا تھا۔ وہ غور وفکر کرتا کہ وہ اس دنیا کوبہتر بنانے کے لیے کیاکرسکتاہے اور اسے کیسے فیصلے لینےچاہئیں۔ ’’میں ان مچھلیوں کا خیال رکھتا ہوں، میں نے ان کی ذمہ داری لی ہے، یہ میری مچھلیاں ہیں۔‘‘ اس احساس نے بچے کے اعتماد کو بہت زیادہ بڑھا دیا۔
پھر اس نے ایک تجربہ کرکے مجھے دکھایا۔ جب وہ ٹینک کے قریب جاتا تو طرح طرح کی مچھلیاں اکٹھی ہو کر لڑکے کی طرف تیرنے لگتی تھیں۔ شاید انہیں امید تھی کہ انہیں لڑکے سے کچھ کھانے کوملے گا۔ لڑکے نے یہ تجربہ کسی جادوگر کی طرح انجام دیا۔
مچھلی کے ٹینک کی قیمت کیا ہوگی؟ لیکن لڑکے نے جو اعتماد حاصل کیا اور جس جذباتی لگاؤ نے اسے مچھلیوں سے جوڑا، اس کی کوئی قیمت نہیں ہو سکتی۔
farooqaims@gmail.com
***
بچے مثبت اور منفی دونوں چیزوں کودیکھتے رہتے ہیں۔ ان کو مثبت سے صحیح انداز میں فائدہ اٹھانے اور منفی چیزوں سے بچانے کے لیے ہمیں انہیں مناسب ماحول فراہم کرنا ضروری ہے۔ بچوں کی عمر کے لحاظ سے انہیں زندگی میں کس چیز کی ضرورت درپیش ہے اور کن حالات و افراد اور اشیاء سے بچایا جائے اس کے لیے والدین کی جانب سے سنجیدہ منصوبہ بندی ضروری ہے۔والدین کو خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کی زندگی میں ان کی عمر کے حساب سے کون سے اور کیسے واقعات رونما ہونے چاہیے تاکہ ان کے مطابق وہ غور و فکر اور تدبر کرنے کے لائق بن سکیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025