بچوں کی ہمہ جہت ذہنی نشوونما کیسے کی جائے؟

مشاہدے کی نظر تیز کرنے اور ذہانت کو پروان چڑھانے کے لیے بچوں کو بازار لے جائیں

فاروق طاہر، حیدرآباد

بچوں کی ذہانت کو پروان چڑھانے کے لیے والدین انہیں اپنے دماغ کی تمام صلاحیتوں کو استعمال کرنے دیں، کیونکہ ہر بچے دماغ کا بے شمار صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ بیشتر موقعوں پر بچے نہیں جانتے کہ ذہانت کو کیسے استعمال کیا جائے جس کی وجہ سے وہ الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس الجھن کو ان کی جسمانی حرکات (باڈی لینگویج) سے بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔بچے اعتماد کی کمی اور شرم کی وجہ سے الجھن کا شکار نظر آتے ہیں۔ بچوں میں ذہانت کے کام کرنے کے طریقے کو معلوم کرنے سے پہلے ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ان کا دماغ کیسے کام کرتا ہے۔ ہمارے دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں ایک بایاں حصہ اور دوسرا دایاں حصہ۔ بایاں دماغ اور دایاں دماغ دونوں مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں۔
دماغ کے دو حصے
ہم اپنے بچے میں ذہانت کو اس وقت دیکھ سکتے ہیں جب وہ بائیں اور دائیں دماغ میں توازن پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ بچہ جو دماغ کے دونوں حصوں کو استعمال کرتا ہے اس میں تخلیقی تخیل کے ساتھ ساتھ منطقی و تجزیاتی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔
بچے کی ذہانت کو فروغ دینے کا مطلب ہے کہ اسے اپنے دماغ کے دونوں حصوں کو استعمال کرنے دیا جائے۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بچے کے دماغ کا کون سا حصہ فعال ہے۔
بائیں دماغ کے افعال
بائیں دماغ کے بہت سے کام ہوتے ہیں۔ ہم کچھ اہم افعال پر ایک نظر ڈالیں گے۔
بائیں دماغ کا اہم کام منطقی طور پر سوچنا ہے۔ اس سے مراد، منطقی تجزیہ (Logical Analysis) ہے۔ اپنے بائیں دماغ کا استعمال کرنے والے بچے ریاضی کو بہت پسند کرتے ہیں۔ بچے استدلال (Reasoning) میں انتہائی ماہر ہوتے ہیں۔ وہ جلد کسی بھی چیز کے پیچھے چھپی وجہ جان لیتے ہیں، لیکن یہ بچے راستے یاد نہیں رکھ سکتے، ان میں ڈرائنگ کا شوق دوسروں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ کچھ نیا کرنے کے لیے ان میں دوسروں کے مقابلے کم جوش پایا جاتا ہے تاہم، کتابوں کے حوالے سے ان کا رویہ بہت مثبت ہوتا ہے۔ وہ ہر دم کچھ نیا سیکھنا پسند کرتے ہیں۔
بچوں میں منطقی فکر کو کیسے فروغ دیں؟
بچوں میں منطقی فکر کو فروغ دینے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ چند آسان تجربات کے ذریعے اسے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ والدین اگر بیان کردہ تجاویز پر عمل کریں گے تو ان کے بچے میں منطقی سوچ یقیناً پروان چڑھے گی۔ ان کے عملی علم (Practical Knowledge) میں بہتری آئے گی۔ اپنے بچوں میں عملی علم کو بہتر بنانے کے لیے ایک والد کی جانب سے کیے اقدامات و تجربات یقیناً آپ کو پسند آئیں گے۔
ایک باپ ہر اتوار کو اپنی نو سالہ اورچھ سالہ بیٹیوں کے ساتھ ترکاری خریدنے بازار جاتا ہے۔ ترکاری خریدنے سے پہلے وہ اپنی لڑکیوں کو چند کام سونپتا ہے۔ تفویض کردہ ذمہ داری کے مطابق بچیاں اپنے والد کی جانب سے خریدی گئی سبزیوں کو ان کی قیمتوں اور مقدار کے ساتھ یاد رکھیں گی اور واپس گھر آکر انہیں کاغذ پر نوٹ کریں گی۔ یہ کام دونوں لڑکیاں علیحدہ طور پر انجام دیتی ہیں۔ والد دونوں میں سے بہتر طریقے سے کام انجام دینے والی لڑکی کو کامیاب قرار دیتا ہے۔
بچوں کو عملی تعلیم کیسے دیں
بچیاں مقابلہ آرائی کا سوچ کر ہی پرجوش و پرعزم ہو جاتی تھیں۔ وہ سب سے پہلے اپنے والد کی خریداری پر توجہ مرکوز کرتیں۔ والد صاحب نے پہلے بھینڈی خریدی یا پھر پھول گوبھی خریدی، کتنی خریدی اور کتنے میں خریدی وغیرہ۔ والد صاحب نے دکاندار سے مول تول کیا یا نہیں؟ بچیوں نے ہر چیز کا مشاہدہ کیا۔ گھر آنے کے بعد سب سے پہلے ان کا کام ان امور کو نوٹ کرنا تھا، جیسے کون سی سبزی کتنی اور کتنے میں خریدی گئی وغیرہ۔
گفتگو کے ذریعے بائیں دماغ کی نشوونما
ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر والدین جب سبزی خریدنے جاتے ہیں تو بچوں کو ساتھ نہیں لے جاتے۔ وہ اپنے بچوں سے گھر میں، ان کے کمرے میں، ٹیلی ویژن کے سامنے، یا پھر کھانے کی میز پر ملتے ہیں۔ جب بھی آپ کام کے لیے باہر جائیں تو اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی لے کر جائیں۔ جب والدین بچوں کے ساتھ باہر جاتے ہیں تو ان کے ساتھ بات چیت ہوتی ہے اور ان کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ خریداری کے دوران کی جانے والی گفتگو سے والدین بچے کی انداز فکر کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔
جب باپ اپنے بچے کو سبزی خریدنے کے لیے ساتھ لے جاتا ہے تو اس وقت بچے کے ذہن میں ایک مقصد ہوتا ہے۔ مقصد کے ذہن میں آتے ہی بچے کی فکر کو ایک راہ ملتی ہے کہ اسے کچھ یاد رکھنا ہے۔ ذہنی طور پر وہ خود کو تیار پاتا ہے۔ جس سے اسے سبزیوں کے نام، پیمائشی اکائیوں اور کاروبار کیسے کیا جاتا ہے جیسے امور کو ازخود سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
اس طرح بائیں دماغ کی نشوونما کا عملاً آغاز ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے بچوں کو اپنے کاموں میں شامل کرتے ہیں تو ان کا بایاں دماغ موثر طریقے سے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ذہنی نشوونما کے فروغ کے لیے آج کے مشینی دور میں اس عملی علم کی فراہمی بہت ضروری ہے۔
غور سے دیکھیں بچوں کی آنکھیں بہت کچھ بولتی ہیں
ایک مرتبہ ایک بزرگ مجھ سے ملاقات کے لیے آئے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میرا پوتا گھر پر ہی رہتا ہے تنہائی پسند ہے۔ میں اس کی شخصیت سنوارنا چاہتا ہوں۔ میں کیا کروں؟
میں نے عرض کیا ’’آپ کو اپنے پوتے پر کتنا اعتماد ہے؟
وہ حیرانی سے مجھے دیکھنے لگے اور کہا ’’بھلا میں کیسے جان سکتا ہوں کہ میرے پوتے پر میرا کتنا اعتماد ہے۔ مجھے یہ کیسے معلوم ہوگا، اسے معلوم کرنے کا پیمانہ کیا ہے، اعتماد کی پیمائش میں کیسے کروں گا؟
میں نے کہا ’’آج سے آپ اپنے پوتے کو غور سے دیکھیں‘‘۔
بزرگ مسکرائے اور کہا ’’میں تو اسے روز ہی دیکھتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا ’’میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس پر توجہ دیجیے ،اس کی حرکات سکنات اور دیگر سرگرمیوں کا بغور مشاہدہ کیجیے۔ اس کی باڈی لینگویج پر نظر رکھیے۔ یہ کب بدلتی ہے؟ وہ کب عجیب محسوس کرتا ہے؟ وہ کب آرام دہ محسوس کرتا ہے؟ اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں کو کس طرح رکھتا ہے انہیں کیسے حرکت دیتاہے؟ اس کی آنکھیں کیا کر رہی ہیں؟ کیا اس کی پلکیں نیچے ہیں؟ کبھی کبھی آپ کو اس کی آنکھوں میں اعتماد نظر آئے گا۔ اگر اس کی باڈی لینگویج سے آزادانہ اظہار ہوگا تو وہ آزادی سے گفتگو کرے گا۔ کسی چیز کو اگر وہ جلد محسوس کر لیتا ہے تو وہ پر اعتماد ہے۔ اگر باڈی لینگویج میں خلل و تذبذب ہے تو جان لیجیے کہ اس کے اندر اعتماد کی کمی ہے۔ اپنے پوتے کی باڈی لینگویج کو اپنے چشم تصور میں لاکر بتائیے کہ وہ کیسی ہے؟
بزرگ میری وضاحت سے مطمئن ہوئے۔ اس دن سے وہ روزانہ اپنے پوتے کا بغور مشاہدہ کرنے لگے۔ دروازے کی گھنٹی بجنے پر اس کی آنکھیں کیا بولتی ہیں؟ اگر بچے کے والد دروازے سے داخل ہوتے ہیں تو وہ ناچنے لگتا۔ کوئی انجان آدمی آتا ہے تو وہ فوری اندر چلا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ غیر شناسا لوگوں کے سامنے آنے سے گھبراتا ہے۔ نامعلوم افراد کو دیکھ کر اس کی باڈی لینگویج سکڑ جاتی ہے۔
بزرگ کو جب یہ علم ہوگیا کہ ان کا پوتا نامعلوم افراد سے گھبراتا ہے تو وہ نماز کے لیے اسے روزانہ مسجد لے جانے لگے۔ شروع میں وہ کئی انجان لوگوں کو دیکھ کر اپنے دادا سے لپٹ جاتا۔ یہ دیکھ وہ بزرگ لوگوں کو سلام کرتے اور ان سے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتے۔ پوتے کو بھی انہیں سلام کرنے کو کہتے اور اس کا ہاتھ بھی مصافحے کے لیے آگے بڑھاتے۔ چند دنوں کے بعد بچہ اب مسجد میں بغیر کسی اجنبیت کے آرام سے ادھر ادھر گھومنے لگا۔ بہت ہی قلیل وقت میں اسے انجان لوگوں کا سامنا کرنے کی بھی عادت پڑگئی۔ بچے کی گھر میں جس طرح کی باڈی لینگویج تھی بالکل اسی طرح اب گھر کے باہر بھی آزادانہ طور پر اسی باڈی لینگویج کا اظہار ہونے لگا۔
باڈی لینگویج شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے
بزرگ کو پڑوس کی ایک بلڈنگ میں سالگرہ کی تقریب میں مدعو کیا گیا۔ وہ تقریب میں اپنے ساتھ پوتے کو بھی لے گئے۔ تقریب میں بہت زیادہ لوگ موجود تھے۔ بچے نے بڑے لوگوں کے اتنے بڑے مجمع کو ایک ساتھ آج تک نہیں دیکھا تھا۔ بچے نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ وہ آوازیں سن رہا تھا لیکن آنکھیں کھولنے بالکل تیار نہیں تھا۔ بچے کے برتاو سے بزرگ کو خفت محسوس ہوئی، کیونکہ دوسرے بچے اچھل کود کر رہے تھے شور مچا رہے تھے اور ان کا پوتا آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔ وہ پوتے کو لے کر باہر آگئے۔ ان کو احساس ہوگیا کہ ان کا پوتا نئے لوگوں سے کتراتا ہے۔ وہ اس کے باڈی لینگویج کے سکڑاو کو وسعت دینا چاہتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اسے ہر روز نئی جگہ لے جانے کا فیصلہ کیا۔
والدین کے لیے بچوں سے متعلق سمجھنے والی سب سے اہم بات ان کے بچوں کا برتاو ہے۔ انہیں خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کا بچہ کسی خاص صورت حال میں کیسا برتاو کرتا ہے۔ بچوں کو ہی نہیں کسی بھی آدمی کی باڈی لینگویج اسے سمجھنے کا ایک بہترین اشارہ ہے۔ اگر بچے کی باڈی لینگویج کسی دباو سے آزاد ہوگی تبھی وہ اس کا آزادنہ طور پر استعمال کر سکے گا۔ آزادنہ باڈی لینگویج کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ بچہ پر اعتماد ہے اور جس بچے میں اعتماد ہوگا وہ اپنی استعدادوں کو بہتر طریقے سے استعمال کر سکتا ہے۔
شرمیلے بچے بھی ذہین ہوتے ہیں
یہ ایک خام خیالی ہے کہ شرمیلے بچے اپنی ذہانت کا بھر پور استعمال نہیں کرتے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل بچے اکیلے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تنہائی پسند ذہنوں میں تخلیقی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو عیاں کرنے کے لیے صرف ایک تھپکی اور ایک دھکے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان امور پر آگے چل کر گفتگو کریں گے۔ اگر وہ بزرگ ابتدا میں ہی پوتے کی جسمانی حرکات و سکنات کے اظہار کو سمجھ لیتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اپنے پوتے کو بہتر طریقے سے سمجھتے تھے۔
والدین کو کیا کرنا چاہیے
والدین روزانہ دس منٹ اپنے بچوں کی باڈی لینگویج کا بغور مطالعہ کریں۔ یہ معاملہ صرف بچوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ ہمارے ساتھیوں (Colleagues) کو بھی لاحق ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھیوں کے چہرے ہمیں بہت کچھ بتا دیتے ہیں۔ جسمانی اظہار خاموش ضرور ہوتا ہے لیکن یہ چیخ چیخ کر لوگوں کی شخصیت کا تعارف پیش کرتا ہے۔ اگر ہم جلیسوں اور افراد خاندان کی باڈی لینگویج بہتر اور مناسب ہو تو اس طرح کا ماحول ترقی کے لیے بہترین ثابت ہوتا ہے۔ اگر بچوں کے بدن کی بولی سے بے تکلفی کا اظہار نہ ہو تو ان کی نشوو نما پر بھی قد غن لگ جاتا ہے اور ان کی شخصیت ٹھٹھر جاتی ہے۔
[email protected]
9700122826
***

 

***

 یہ ایک خام خیالی ہے کہ شرمیلے بچے اپنی ذہانت کا بھر پور استعمال نہیں کرتے۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل بچے اکیلے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تنہائی پسند ذہنوں میں تخلیقی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو عیاں کرنے کے لیے صرف ایک تھپکی اور ایک دھکے کی ضرورت ہوتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023