بابری مسجد کے متبادل کے طور پر تعمیرشدنی مسجد کےڈیزائین اور نام تبد یلی

مسجد کا نیا نام ‘مسجد محمدؐ بن عبداللہ‘ ہوگا ۔ چیارٹیبل کینسر ہاسپٹل کی بھی تعمیر

ارشد افضل خان/ طانڈیا ٹومارو

ایودھیا/ممبئی: ایودھیا سے 25 کلومیٹر دور دھنی پور میں مجوزہ مسجد کا ڈیزائن اور نام تبدیل کر دیا گیا ہے جسے 15ویں صدی کی  شہید کردہ تاریخی بابری مسجد کا متبادل بنایا جانا تھا۔
مسجد کا نام اب محمد بن عبداللہ رکھا جائے گا تاہم، مقامی مقبول زبان میں لوگ مجوزہ مسجد کو ’مسجد ایودھیا‘ کہتے ہیں اور لوگوں کو یاد دلاتے ہیں کہ نئی مسجد بابری مسجد کا متبادل ہے جو ایک بار ایودھیا میں اس کے غیر قانونی انہدام سے پہلے اپنی آن بان اور شان کے ساتھ کھڑی تھی۔اس مسجد کو6؍ دسمبر 1992 کو ایک جنونی ہندو ہجوم نے مسمار کردیا تھا۔
پچھلا ڈیزائن کسی مینار کے بغیر تھا۔ اب منصوبہ ہے کہ اسے ہندوستان اور دیگر ممالک میں موجود عظیم الشان مساجد کی طرز پر تعمیر کیا جائے گا۔ اس میں اونچے مینار اور بڑے گنبد ہوں گے۔
مجوزہ مسجد پانچ ایکڑ اراضی پر تعمیر کی جائے گی جو سپریم کورٹ نے 2019 میں اپنے ایودھیا فیصلے کے ذریعے الاٹ کی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے زمین کی ملکیت بابری مسجد کے حق میں ہونے کے ثبوت ہونے کے باوجود اپنے فیصلے کے ذریعے بابری مسجد کے مقام کی 2.77 ایکڑ اراضی رام مندر کی تعمیر کے لیے رام جنم بھومی ٹرسٹ کو منتقل کر دی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ مسجد کو غیر قانونی طور پر گرایا گیا تھا۔
مجوزہ مسجد کے ڈیزائن اور نام میں تبدیلی کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے، انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن اور ایودھیا مسجد ٹرسٹ کے چیئرمین ظفر فاروقی نے جو دھنی پور مسجد کمپلیکس کی تعمیر میں شامل ہیں، کہا کہ ’’نیا ڈیزائن پونے کے آرکیٹیکٹ عمران شیخ نے تیار کیا ہے جس کو آل انڈیا رابطہ مسجد (AIRM) کے بینر تلے ممبئی میں منعقدہ حالیہ ایک میٹنگ میں حتمی شکل دی گئی ہے۔ اس اجلاس کا اہتمام بی جے پی لیڈر حاجی عرفات نے کیا تھا۔ نئے ڈیزائن کے مطابق مسجد پچھلے ڈیزائن کے مقابلے سائز میں بڑی ہوگی اور اس میں ایک وقت میں نو ہزار سے زائد نمازیوں کی گنجائش ہوگی۔ ظفر فاروقی نے کہا کہ اجلاس میں تمام فرقوں کے تقریباً ایک ہزار علماء بشمول سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
مسجد کے نام کا اعلان کرتے ہوئے حاجی عرفات شیخ، سابق چیئرمین مہاراشٹرا ریاستی اقلیتی کمیشن نے کہا کہ اس بڑی مسجد میں ایک وقت میں نو ہزار نمازیوں کی گنجائش ہوگی۔ اس کے پانچ مینار ہوں گے جو اسلام کے پانچ ستونوں کلمہ شہادت، نماز،  روزہ، حج اور زکوٰۃ کی علامت ہوں گے۔ اس کے پانچ دروازوں کے نام پیغمبر اسلام اور آپ کے چار خلفاء کے اسمائے گرامی سے موسوم ہوں گے۔
عمران شیخ نے کہا کہ ’’یہ مسجد تاج محل سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گی‘‘۔ انہوں  نے کہا کہ مسجد کے نام پر تمام مسلکوں کے علماء کا اتفاق ہے۔ ظفر فاروقی نے مزید کہا کہ رابطہ مسجد کے مولانا عبداللہ ابن قمر اور دیگر علمائے کرام نے اس نام پر اتفاق کیا ہے۔ یہ مسجد ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کی علامت ہوگی۔
عمران شیخ نے ظفر فاروقی کو پہلی اینٹ تحفے میں دی اور کہا کہ جلد ہی اس کی بنیاد رکھی جائے گی۔ انہوں نے تمام مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ آگے آئیں اور دل کھول کر فنڈز میں حصہ ڈالیں۔ عمران شیخ نے کہا کہ ’’فنڈز کا مسئلہ نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ دیہاڑی کے مزدور اور رکشہ راں بھی مسجد کے فنڈز میں اپنا حصہ ڈالیں گے‘‘۔
انہوں نے کہا ’’ہم تین سو بستروں کا خیراتی کینسر ہسپتال بنائیں گے۔ بین الاقوامی فارما کمپنی ووکارڈ گروپ کے چیئرمین ڈاکٹر ہابیل خوراکی والا نے خیراتی بنیادوں پر ہسپتال کے قیام اور اسے چلانے پر رضامندی ظاہر کی ہے، ظفر فاروقی نے بتایا کہ ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے پروفیسر ایس ایم اختر کے تیار کردہ ہسپتال کا ڈیزائن وہی رہے گا اور میوزیم، تحقیقی مرکز اور لائبریری 1857 کی بغاوت کے عظیم مجاہد آزادی مولوی احمداللہ شاہ فیض آبادی کے لیے وقف رہے گی۔‘‘
ظفر فاروقی نے چند ماہ قبل مسجد ٹرسٹ نے ملک کی مختلف ریاستوں میں چندہ اکٹھا کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم جلد مجوزہ مسجد کی تعمیر شروع کر دیں گے۔ مجوزہ مسجد اور ہسپتال کے نقشے اب بھی ایودھیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے پاس ہی ہیں کیونکہ مسجد ٹرسٹ کو اتھارٹی سے نقشہ جاری کرنے کے لیے ترقیاتی خرچ کے طور پر اتھارٹی کو ایک کروڑ روپے ادا کرنے ہیں۔ اتر پردیش کی حکومت نے مسجد اور ہسپتال کی تعمیر کے لیے تمام ضروری این او سیز دے دیے ہیں۔
یاد رہے کہ بابری مسجد کو ہندوؤں کے ایک جنونی ہجوم نے 6 دسمبر 1992 کو سیکیورٹی فورسز کی موجودگی میں مسمار کر دیا تھا۔ اس وقت مرکز میں پی وی نرسمہا راؤ کی زیر قیادت کانگریس اور یوپی میں کلیان سنگھ کی زیر قیادت بی جے پی حکومت تھی۔ سیکیورٹی فورسز نے پورے ملک سے جمع ہونے والے ہندووں کے ہجوم سے مسجد کو بچانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔ بی جے پی کے سینئر لیڈران بشمول سابق نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی اور ان کی پارٹی کے کئی ساتھی اس وقت بابری مسجد کے قریب ہی موجود تھے اور انہدام کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2023