!بابری مسجد کے بعد ملک کی سیکڑوں مساجد کو متنازع بنانے کی تیاری
ہندو قوم پرستی کا تفاخر اور احساس عدم تحفظ کا عجیب امتزاج
نور اللہ جاوید، کولکاتا
مسلمانوں کو جنونی طبقے کی مہمات سے حکمت اور صبرو استقامت سے نمٹنے کی ضرورت
22؍ جنوری 2024 کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح اور آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے والے حکم رانوں کے رویے کو بھارت کی تاریخ میں کس طرح بیان کیا جائے گا؟ آیا اس واقعے کو بھارت میں ہندتو کے نقطہ عروج کے طور پر یاد رکھا جائے گا یا پھر اس کے سیکولر کردار، گنگا جمنی تہذیب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایات کے زوال کے طور پر درج کیا جائے گا؟ اس پر کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا ۔ بابری مسجد کی شہادت سے لے کر رام مندر کی تعمیر تک ملک کی سیاست اور اکثریتی طبقے کی سوچ و فکر مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔ چنانچہ چند سال قبل تک ملک کا ایک طبقہ جس میں لبرل مسلمان بھی شامل تھے ملک کے اتحاد و سالمیت اور اتحاد و ہم آہنگی کی خاطر مسلمانوں کو بابری مسجد سے دستبردار ہونے کا مشورہ دے کر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے اگر ہم نے بابری مسجد سے دست برداری کا فیصلہ کرلیا اور رام مندر کی تعمیر کے لیے زمین دے دی تو ملک بھر کی مساجد ہندو انتہا پسندوں سے محفوظ ہوجائیں گی ۔ ملک کے اکثریتی طبقے کا جوش انتقام سرد پڑجائے گا۔ اس دوران بابری مسجد کی ملکیت کے قبضے پر مسلمانوں نے اصولی موقف پیش کیا کہ وہ ملکیت سے متعلق عدالت کے فیصلے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مسلمانوں نے کسی قسم کا ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا ۔مگر دوسری طرف رام مندر کی تحریک کے کسی بھی لمحے میں ہندوؤں کی جانب سے یہ نہیں کہا گیا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو تیار ہیں۔ جبکہ بی جے پی مسلسل انتخابی منشور میں اس عزم کو دہراتی رہی کہ وہ رام مندر کی تعمیر کے لیے پابند عہد ہے۔ جب کہ اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کا برملا اعلان کرتی کہ وہ آئین اور قانون کی پاسداری کرے گی۔مگر ہجوم کی قیادت کرنے والی بی جے پی، جس نے دن کے اجالے میں اشتعال انگیز نعروں کے ذریعہ ہندوؤں کے اندر جنون بھڑکاتے ہوئے بابری مسجد کو شہید کروایا، اس سے کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرے گی؟ بابری مسجد کی ملکیت کے قضیے کے دوران ہندو فریق مسلسل یہ عزم دہراتا رہا کہ عدالت کا فیصلہ کچھ بھی ہو وہ بہر صورت رام مندر کی تعمیر کرے گا۔اس لیے یہ سوال آج بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ مسلمانوں کا موقف درست تھا کہ وہ بابری مسجد کی ملکیت پر عدالت کے فیصلے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔مگر آج بھارت کے مسلمانوں کے سامنے اس سے کہیں زیادہ بڑے سوالات ہیں ۔یہ صرف سوالات ہی نہیں بلکہ چیلنجز ہیں۔ ایسے ہی موقعوں پر قوموں کے اجتماعی شعور اور فکر و عمل کا امتحان ہوتا ہے۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کی پارلیمنٹ نے مذہبی مقامات ایکٹ 1991 پاس کرکے مساجد اور دیگر مذہبی مقامات کو متنازع بنانے اور اس کے نام پر فتنہ اٹھانے کے تمام دروازوں کو بند کرنے کی کوشش کی تھی مگر آج ملک کی عدالتیں ہی اس ایکٹ کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اس ایکٹ کے باوجود ملک کے مختلف مقامات پر واقع تاریخی مساجد کو متنازع بنانے اور اس پر ملکیت کا دعویٰ کرنے والی ہندو انتہا پسندوں کی عرضیوں کو عدالتیں سماعت کے لیے قبول کر رہی ہیں ۔جبکہ مذہبی مقامات ایکٹ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ 1949میں مذہبی مقامات کی نوعیت کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ خانی نہیں کی جائے گی ۔بابری مسجد ملکیت کا مقدمہ سنانے والی سپریم کورٹ کی بڑی بنچ نے بھی اپنے فیصلے میں مذہبی مقامات ایکٹ کی پرزور وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ایکٹ میں ممکنہ حد تک توسیع کرنے کی ضرورت ہے، مگر آج خود سپریم کورٹ کا رویہ اپنے ہی فیصلے کے برخلاف ہے۔ گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی مسجد پر ہندو تنظیموں کی عرضیوں پر عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔عدالت کی اجازت سے گیان واپی مسجد کے وضو خانہ کا سروے کیا جارہا ہے۔ صرف گیان واپی اور متھرا کی شاہی مسجد ہی نہیں بلکہ بدایوں کی 800سالہ تاریخی مسجد ، الہ آباد کی شاہی مسجد سے لے کر مدھیہ پردیش اور کرناٹک تک کم و بیش 800 سے زائد ایسی مساجد ہیں جنہیں ہندو دائیں بازوں کی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ یہ مساجد مندروں کو توڑ کر تعمیر کی گئیں ہیں ۔ایسے میں یہ سوال ہے کہ مسلمانوں کا موقف کیا ہونا چاہیے؟ کیا بابری مسجد کی طرح ان مساجد کے معاملے میں بھی ہماری توجہ صرف قانونی جنگ لڑنے تک محدود رہنا چاہیے اور عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے موقف کا بار بار اعادہ کرنا چاہیے؟
سوال صرف ان 800 مساجد کا ہی نہیں ہے بلکہ اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ اس فہرست میں کوئی توسیع نہیں ہوگی۔تاہم حالیہ دنوں میں مساجد کے خلاف دو طرح کے مزید رویے سامنے آئے ہیں ۔پہلا رویہ سڑکوں کی توسیع اور ٹریفک نظام کو بہتر بنانے کے نام پر مساجد کو مسمار کرنے کی حکومتی کوشش ہے ۔حالیہ دنوں میں نئی دہلی میں واقع تاریخی سنہری باغ مسجد کو منہدم کرنے کی کوشش کا معاملہ ہمارے سامنے ہے۔ مسجدکی عمارت آثار قدیمہ میں شامل ہے اس لیے اس کو منہدم نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ وہی مسجد ہے جو تحریک آزادی کے دوران مجاہد آزادی مولانا حسرت موہانی کا مسکن ہوا کرتی تھی۔آزادی کے بعد بھی مولانا حسرت موہانی نے اسی مسجد کو اپنا مسکن بنایا ۔آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے جب وہ دہلی آتے تو سرکاری بنگلہ میں قیام کرنے کے بجائے اس مسجد میں قیام کو ترجیح دیتے تھے۔دوسرے یہ کہ خود کارپوریشن کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ سنہری باغ مسجد کی وجہ سے ٹریفک نظام میں کوئی خلل نہیں پڑتا ہے ۔تیسری بات یہ ہے کہ سنہری باغ مسجد دہلی کے ان وقف جائیدادوں میں شامل ہیں جن پر مقدمات چل رہے ہیں اور عدالت نے اس پر روک لگا رکھی ہے۔ ان حقائق کے باوجود این ڈی ایم سی نے خاموشی سے مسجد کو منہدم کرنے کے لیے شہریوں سے رائے طلب کی کہ آیا ٹریفک نظام کو بہتر بنانے کے لیے سنہری باغ مسجد کو منہدم کر دیا جانا چاہیے یا نہیں؟ جبکہ اسی دہلی میں گول ڈاک خانہ کے بشمول کئی ایسی عمارتیں ہیں جن کی وجہ سے ٹریفک نظام میں خلل پڑتا ہے۔مگر اس سے متعلق این ڈی ایم سی خاموش ہے۔
30؍ جنوری 2023 میں، شاہی مسجد، اتر پردیش کے سید آباد، پریاگ راج (الٰہ آباد) میں جی ٹی روڈ پر واقع 16ویں صدی کی مسجد کو ہائی وے کی توسیع کے نام پر منہدم کر دیا گیا جبکہ 16جنوری 2023کو نچلی عدالت میں اس معاملے میں سماعت شروع ہوگئی تھی۔2021میں کورونا کے عروج کے دوران مسجد غریب نواز کو اتر پردیش میں بارہ بنکی کی ضلعی انتظامیہ نے غیر قانونی قرار دے کر منہدم کردیا۔اکتوبر 2017کو شیعہ کمیونیٹی کو بنگلور کی شیعہ جامع مسجد کی زمین عطیہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ نومبر 2022میں اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں ایک 300 سالہ پرانی مسجد کو زمین بوس کر دیا گیا۔ مظفر نگر کے ایس ڈی ایم نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہراہ کو وسعت دینے کے لیے توڑ پھوڑ کی گئی تھی اور مقامی لوگ مقررہ مدت تک ڈھانچے کو منتقل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ایودھیا کی تزئین کے نام پر ایک درجن سے زائد مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی بلکہ 30لاکھ روپے میں ایک مسجد کو فروخت کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔
مساجد پر دعوؤں کے بر خلاف تیسرا رویہ جنونی ہندوؤں کا عام مساجد پر حملوں کا بھی ہے۔حالیہ دنوں میں رام نومی، درگا پوجا اور دیگر ہندو تہواروں کے موقع پر جنونی ہندو نوجوانوں کے ذریعہ مساجد پر حملے، بھگوا جھنڈا لہرانے، توڑ پھوڑ کرنے اور انہدامی کارروائی تک کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ 2022 میں تریپورہ میں جہاں مسلمانوں کی بیشتر آبادی غربت اور مفلوک الحالی کا شکار ہے، فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آئے ۔تریپورہ میں مسلمانوں کے جانوں و مالوں پر حملہ کرنے کے علاوہ مساجد میں آتشزنی اور توڑ پھوڑ کا نیا ٹرینڈ سامنے آیا جو اب ملک بھر میں پھیل گیا ہے۔ مسجدوں کو مندروں سے بدلنے کی تحریک ہندو قوم پرستی کی فتح پسندی اور عدم تحفظ کے عجیب امتزاج کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ ایک بیانیہ پیش کرتا ہے کہ ہندو، ماضی میں مسلم حکم رانوں کے ظلم و تشدد کا شکار رہے ہیں۔ مسلم حکم رانوں نے مندروں کو منہدم کرکے مساجد کی تعمیر کرائی وغیر۔ لہٰذا مسلم حکم رانوں کے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے یہ کارروائیاں ضروری ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان تینوں رویوں کے تئیں بی جے پی کی قیادت والی مرکزی اور ریاستی حکومتیں خاموش ہیں بلکہ مساجد پر حملے اور توڑ پھوڑ کے واقعات پر حکومتیں اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہیں۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کو اپنی مساجد کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟ کیا محض وہ قانونی چارہ جوئیوں کے ذریعہ اپنے مساجد کی حفاظت کرسکتے ہیں؟ جب الٰہ آباد ہائی کورٹ گیان واپی مسجد سے متعلق یہ کہہ سکتی ہے کہ مذہبی مقامات ایکٹ کا اس معاملے میں نفاذ نہیں ہوتا تو پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ملک کی دیگر عدالتیں اسی طرح کا رویہ اختیار نہیں کریں گی؟ 32 سال بعد بی جے پی لیڈر نے اس ایکٹ کو ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ (اس معاملے میں دعوت کے گزشتہ شمارے میں تفصیلی گفتگو کی جاچکی ہے)۔ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے بعد کئی دہائیوں تک چلنے والی رام مندر تحریک کا اختتام نہیں ہے بلکہ ہندو بالا دستی کو منوانے کے ایک نئے دور کی شروعات ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے آزمائش اور امتحان کی گھڑی ہے۔ تاریخ اپنے دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف جنونی ہندتو طاقتوں کے رویے کو درج کرنے کی تیاری ہے تو دوسری طرف حکمت، صبر واستقامت اور چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنی مساجد کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو درج کرنے کی بھی تیاری ہے۔
جنونی ہندوؤں کا مساجد کے خلاف تیسرا رویہ مساجد پر حملوں کا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے مختلف آلات سے لیس ہندو جنونی نوجوانوں کو مذہبی جلوسوں کے دوران مساجد اور مسلم مزارات وغیرہ کو نشانہ بناتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ 2022 میں کئی ہندو تہواروں بشمول رام نومی اور ہنومان جینتی کے موقعوں پر مسلح ہندو ہجوم مسلمانوں کے محلوں میں داخل ہوا اور مساجد پر بھگوا جھنڈے لگاتے ہوئے فحش نعرے لگائے۔ 2022 میں تریپورہ میں جہاں مسلمانوں کی بیشتر آبادی غربت اور مفلوک الحالی کا شکار ہے، فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے۔ اس ریاست میں مسلمانوں کے جانوں و مالوں کو نشانہ بنانے کے روایتی طرز کے برعکس مساجد میں آتشزنی اور توڑ پھوڑ کا نیا ٹرینڈ سامنے آیا تھا اور اب یہ ٹرینڈ ملک بھر میں پھیل گیا ہے۔ مسجدوں کو مندروں سے بدلنے کی تحریک ہندو قوم پرستی کی بالادستی کی خواہش اور احساس عدم تحفظ کے عجیب امتزاج کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک بیانیہ تو یہ ہے کہ ہندو ماضی میں مسلم حکم رانوں کے ظلم و تشدد کا شکار رہے ہیں، مسلم حکم رانوں نے مندروں کو منہدم کرکے مسجدیں تعمیر کروائیں وغیر۔ لہٰذا مسلم حکم رانوں کے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے یہ کارروائیاں ضروری ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان تینوں رویوں کے تئیں بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی اور ریاستی حکومتیں نہ صرف خاموش ہیں بلکہ مساجد پر حملے اور توڑ پھوڑ کے واقعات پر حکومتیں اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کو اپنی مساجد کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟ کیا محض قانونی چارہ جوئیوں کے ذریعہ مساجد کی حفاظت ممکن ہے؟ جب الٰہ آباد ہائی کورٹ گیان واپی مسجد سے متعلق یہ کہہ سکتی ہے کہ مذہبی مقامات ایکٹ کا اس معاملے میں نفاذ نہیں ہوتا تو پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ملک کی دیگر عدالتیں اسی طرح کا رویہ اختیار نہیں کریں گی؟ 32 سال بعد بی جے پی لیڈر نے اس ایکٹ کو ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔(اس پر دعوت کے گزشتہ شمارے میں تفصیلی گفتگو کی جا چکی ہے) ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے بعد کئی دہائیوں تک چلنے والی رام مندر تحریک کا اختتام نہیں ہے بلکہ یہ ہندو بالادستی کو منوانے کے ایک نئے دور کی شروعات ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے آزمائش اور امتحان کی گھڑی ہے۔تاریخ اپنے دو راہے پر کھڑی ہے ایک طرف جنونی ہندتو طاقتوں کے رویے کو درج کرنے کی تیاری ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی حکمت، صبر و استقامت،آزمائش و ابتلا کا سامنے کرنے کی سکت اور چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی مساجد کی حفاظت کرنے کی استعداد کو بھی درج کرنے کے لیے تیاری ہے۔
ایم ایس گولوالکر جو ہندتو کے نظریہ ساز ہیں، انہوں نے اپنی سب سے مشہور کتاب ’’بنچ آف تھاٹس‘‘ میں دعویٰ کیا کہ جہاں بھی کوئی مسجد یا مسلم محلہ ہے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی اپنی جگہ ہے علیحدہ علاقہ ہے۔ جبکہ بھارت کی سرزمین پر حق صرف ہندوؤں کا ہے‘‘۔ گولوالکر نے اپنی پوری تحریر میں قوم کی ایک تعریف کرتے ہوئے ہندو ثقافت اور علاقے کے درمیان فطری ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ان کے مطابق بھارت کی سرزمین پر صرف ہندوؤں کا حق ہے، وہی اس مٹی کے وارث ہیں۔ دیگر طبقات مسلمان اور عیسائی ہندوؤں کی ثقافت کے لیے خطرہ ہیں۔ گولوالکر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مسلمانوں نے ہندوؤں کے وطن کو صرف لطف اندوزی کا ذریعہ بنایا ہے۔انہوں نے مسلمانوں کی مساجد کی موجودگی کو ہندو وطن کی علامتی خلاف ورزی کے مترادف قرار دیا ہے۔آج مسلمانوں کی مساجد اور تاریخی مقامات سے متعلق ہندو دائیں بازو کا جو رویہ ہے وہ دراصل ہندتو کے مفکرین کی اسی سوچ کا نظریہ ہے۔ہندتو کے مفکرین اور نظریہ سازوں کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے پاس تاریخی شواہد نہیں ہیں۔چنانچہ بابری مسجد ملکیت کے مقدمے کی طویل قانونی لڑائی میں وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی ہندو مندر کو منہدم کرکے کی گئی تھی۔مسلم فن تعمیر میں علاقائی اظہار کی کسی بھی علامت کو یہ دکھا کر یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ مسجد کی تعمیر میں مندر کے ٹوٹے ہوئے حصے کا استعمال کیا گیا ہے۔ جبکہ بھارت میں آج جو مغل فن تعمیر ہے وہ ایرانی اور بھارتی تہذیب و ثقافت کی مشترکہ وراثت اور میل ملاپ کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔
بابری مسجد، گیانواپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کے تاریخی حوالے کو یہاں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ تاہم، مسجد کو لے کر ہندوؤں کے دعوے کس طرح بے بنیاد ہیں اس کی سب سے بڑی مثال اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں واقع شمسی جامع مسجد ہے۔ یہ مسجد بھارت کی سب سے بڑی اور قدیم ترین مسجد ہے جو اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں 800 سال قدیم قومی ورثے کا حصہ ہے ۔ایک سال قبل تک یہ مسجد غیر متنازع تھی مگر گزشتہ سال ایک مقامی ہندو نے اس مسجد کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بھگوان شیو کی مندر کو توڑکر اس مسجد کی تعمیر کی گئی ہے۔ دائیں بازو کے ہندو قوم پرست گروپ اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا (ABHM) کی حمایت یافتہ درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ مسجد ایک غیر قانونی ڈھانچہ ہے۔ اس مسجد کو بھگوان شیو کے دسویں صدی کے منہدمہ مندر پر تعمیر کیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہندوؤں کے پاس زمین پر حق ملکیت ہے۔ دوسری طرف اس مسجد کا ریکارڈ 1856 کے ریکارڈوں میں مسجد کے طور پر ملتا ہے۔ مقامی مسلمانوں کے مطابق وہ گزشتہ کئی صدیوں سے بغیر کسی رکاوٹ سے یہاں نماز پڑھتے ہوئے آرہے ہیں۔ 1223 میں بادشاہ شمس الدین التمش نے اسے تعمیر کیا تھا۔ غیر قانونی ہونے کا دعویٰ انتہائی غلط ہے جو دائیں بازو کے اس بیانیے پر منحصر ہے کہ بھارت کی زیادہ تر مساجد، مندروں کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی ہیں۔
شمسی جامع مسجد ہی نہیں ملک کی تمام مساجد سے متعلق ہندوؤں کے دعوے تاریخ کی کسوٹی پر کھرے نہیں اترتے۔ زیادہ تر مورخین ان دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔مادی ثبوت کے فقدان کے باوجود صرف عوامی حمایت کی بنیاد پر ہندو دائیں بازو کے حوصلے بلند ہیں۔ بابری مسجد کی طرح ستمبر 2023 کے وسط میں، مدھیہ پردیش میں کمال مولا مسجد کے احاطے میں ہندو دیوی سرسوتی کی مورتی رکھنے کی کوشش کے الزام میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار شدگان میں سے ایک ہندو مہا سبھا کے ایک کارکن نے دی کاروان کو بتایا کہ دیوی اس کے خواب میں آئی اور اس سے کہا کہ کمال مولا مسجد غیر قانونی ہے اور یہ اس کی جگہ ہے ۔
ایریزونا یونیورسٹی میں ہندوستانی تاریخ کے پروفیسر رچرڈ ایٹن کہتے ہیں کہ’’ اس بات کے کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہیں کہ مسلم دور حکومت میں مندروں کو توڑ کر مساجد کی تعمیر کی گئی ہے۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات کے دعوے غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد ہیں‘‘۔ دراصل بی جے پی اور ہندو دائیں بازو نے بھارت کی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی نہیں بلکہ ایجاد کرنے کی کوشش کی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مغل تاریخ کے پروفیسر سید علی ندیم رضوی کہتے ہیں کہ بھارت کی تاریخ کے پولرائزڈ ورژن افسانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔یہ صرف سیاسی ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ بابری مسجد کی شہادت و ملکیت کے مقدمے عدالتی کارروائی اور اب رام مندر کی تعمیر کو ہندو قوم پرست جماعتیں مسلمانوں کی بے بسی کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ ان کا پیغام یہ ہے کہ ہم جب چاہیں مزید مساجد کو تباہ کر سکتے ہیں اور مزید مسلم مخالف تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں۔ بی جے پی اور ہندو انتہائی دائیں بازو کے حامی انتخابی طاقت کو برقرار رکھنے اور مسلمانوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے بابری مسجد کے انہدام کی حکمت عملی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کو چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں!
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمانوں نے 14 سو سالہ تاریخ میں کئی بڑے چیلنجوں کا سامنا کیا ہے۔بحیثیت قوم مسلمانوں کے سامنے اس سے کہیں زیادہ مشکلات پیش آئی ہیں۔مسلمانوں نے سقوط غرناطہ بھی دیکھا ہے اور سقوط دہلی کے بعد انگریزی استبداد کا مقابلہ بھی کیا ہے۔اس لیے آج ہمارے سامنے جو چیلنجز ہیں وہ کوئی اتنے بڑے نہیں ہیں کہ جن سے بحیثیت قوم ہم نمٹ نہیں سکتے ہیں۔ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی حکمت عملی کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کہتے ہیں اس وقت جو حالات درپیش ہیں وہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہیں ۔مگر ہم اجتماعی شعور اور ادارک کے ذریعہ ان حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ دراصل مساجد کے خلاف دائیں بازو کی تحریک کا تعلق اقتدار کے حصول سے ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے ایشوز کے ذریعہ ہندو ووٹوں کو متحرک اور پولرائز کیا جا سکتا ہے اس لیے وہ اپنی مہم بابری مسجد، گیان واپی اور متھرا کی شاہی عیدگاہ تک محدود نہیں کریں گے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اس مہم میں توسیع ہوسکتی ہے۔ قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ بابری مسجد کے معاملے میں مسلمانوں نے ایک اصولی موقف اپنایا تھا کہ وہ عدالت کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو تیار ہے۔ اسی موقف کی وجہ سے سپریم کورٹ کی بنچ نے ثبوت اور دلائل مسلمانوں کے حق میں ہونے کے باوجود ملک کی اکثریت کے جذبات کے احترام میں مندر کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ اس لیے اب مسلمانوں کو اس طرح کے عزم کا اعادہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔مسلمانوں کو پوری قوت کے ساتھ یہ بات کہنی چاہیے کہ ملک میں ایک بھی ایسی مسجد نہیں ہے جو مندر کو منہدم کرکے مسجد بنائی گئی ہے۔ کیوں کہ مقبوضہ زمین پر تعمیر ہونے والا عبادت خانہ مسجد نہیں ہوسکتی ہے۔ اسلام میں مقبوضہ زمین پر مسجد کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے اور وہ مسجد نہیں ہوسکتی ہے۔ پوری مسلم تاریخ میں مسلمانوں نے اپنی شریعت کی پاسداری کی ہے۔ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ مساجد سے متعلق مقامی اور علاقائی سطح پر ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے۔ سنہری مسجد کے معاملے میں ہوم ورک کے ذریعہ این ڈی ایم سی کی مسجد کو منہدم کرنے کی سازش کوناکام بنانے میں ہم کامیاب رہے ہیں۔علاوہ ازیں مقامی سطح ملک کے تمام طبقات کے ساتھ مل کر اتحاد قائم کرنے اور ایک دوسرے کی عبادت خانوں کی حفاظت کے لیے مشترکہ عہد نامہ پر اتفاق رائے بنانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ تیسرے یہ کہ ملک کی دیگر اقلیتوں کو بھی اس میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ ادارک کرانا چاہیے کہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ہندو جنونی اس وقت مسلمانوں کی مساجد اور تاریخی عمارات کے خلاف ہیں تو کل ان کے جنون کی زد میں ان کے چرچ اور گرودوارے بھی آسکتے ہیں۔ جہاں تک نئی مساجد کی تعمیر کا سوال ہے تو اس کے لیے کاغذات کی درستگی، اکاونٹ میں شفافیت، نقشہ کی میونسپلٹی کی منظوری کے بعد ہی تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
***
***
بابری مسجد کے ساتھ ساتھ صرف گیان واپی اور متھرا کی شاہی مسجد ہی نشانہ پر نہیں ہےبلکہ بدایوں کی 800سالہ تاریخی مسجد ، الہ آباد کی شاہی مسجد سے لے کر مدھیہ پردیش اور کرناٹک تک کم و بیش 800 سے زائد ایسی مساجد ہیں جن پر ہندو دائیں بازوں کی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ یہ مساجد مندروں کو توڑ کر تعمیر کی گئیں ہیں ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 3 فروری 2024