!بابری مسجد کے بعدمسجد بدر ۔۔۔

ایودھیا میں واقع ایک وقف مسجد رام مندر ٹرسٹ کو 30 لاکھ روپیوں میں بیچ دی گئی

ابو حرم معاذ عمری

مسلمانوں کا فروخت کے معاہدے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ۔ قانونی لڑائی جاری ہے
نو تعمیر شدہ رام مندر کامپلیکس کے آس پاس موجود دیگر مساجد بھی امکانی خطرات کے گھیرے میں
فیض آباد کے سینئر صحافی ارشد افضل خان سے ہفت روزہ دعوت کی خصوصی بات چیت
بھارت میں گنگا جمنی تہذیب کا نعرہ لگانے والے تو بہت ہیں لیکن جب اس کو عملی جامہ پہنانے کی بات آتی ہے تو یہی لوگ بغلیں جھانکتے لگتے ہیں اور جو کھلم کھلا تشدد پر ابھارنے والے ہیں ان کا تو پھر اس فہرست میں شمار ہی نہیں ہوتا ہے۔ ملک کی تاریخ کا سب سے مشہور بابری مسجد مقدمہ اور اس سے متعلقہ حقائق کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں جس میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے گواہوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے بجائے حق و انصاف کا خون کرتے ہوئے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو سامنے رکھ کر فیصلہ سنا دیا تھا۔ آج اسی سرزمین ایودھیا میں ایک اور معاملہ ایک الگ روپ میں سامنے آیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ پچھلے دنوں ایودھیا میں مندر ٹرسٹ کے چند لوگوں نے اسی شہر میں واقع مسجد بدر نامی ایک وقف مسجد کے متولی کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ مسجد کو مندر ٹرسٹ کو فروخت کر دیں۔ حیرت و افسوس کی بات یہ ہے کہ اس متولی نے نجانے پیسوں کی لالچ میں یا کسی دباؤ اور دھمکیوں کے زیر اثر ان کے مطالبے کو قبول کرلیا اور باقاعدہ سودا بھی مکمل ہوگیا اور صرف تیس لاکھ روپیوں میں وہ مسجد مندر ٹرسٹ کو بیچ دینے کی قانونی دستاویزات تیار کرلی گئیں۔ ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ تقریباً پندرہ لاکھ روپے پیشگی ادا بھی کیے جاچکے ہیں۔
جیسے ہی یہ معاملہ سامنے آیا وہاں کے مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب پھیل گیا۔ کئی لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے متولی اور مسجد کمیٹی کے ایک رکن کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا جس نے بطور گواہ متولی اور مندر ٹرسٹ کے درمیان ہونے والے فروخت کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
مسلمانوں نے ایودھیا کے ضلع مجسٹریٹ سے اپیل کی ہے کہ مسجد کے متولی اور مندر ٹرسٹ کے درمیان ہونے والے رجسٹرڈ Agreement to Sale کو منسوخ کیا جائے۔ ساتھ ہی اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ میں بھی یہی شکایت درج کرائی گئی ہے۔
یاد رہے کہ مسجد بدر تقریباً سو سال قدیم مسجد ہے جو ایودھیا کے پنجی ٹولہ علاقے میں رام جنم بھومی کہلائے جانے والے علاقے سے متصل ہے اور اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ میں وقف جائیداد نمبر 1213 کے طور پر رجسٹرڈ ہے اور سرکاری گزٹ اور دیگر دستاویزات میں بھی بحیثیت مسجد ہی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے متولی محمد رئیس نے محض 30 لاکھ روپے میں رام جنم بھومی تیرتھ کھیترا ٹرسٹ کے ہاتھوں اس مسجد کو فروخت کردیا ہے۔
ایودھیا میں وقف املاک کو بچانے کے لیے بنائی گئی ایک مقامی کمیٹی، مرکزی شکایت کنندہ اور انجمن تحفظِ مساجد و مقابر کے صدر اعظم قادری نے کہا کہ ایودھیا کے محلہ پنجی ٹولہ میں ایک قدیم مسجد ’مسجد بدر‘ نام سے واقع ہے۔ یہ کوئی بند پڑی ہوئی مسجد نہیں ہے بلکہ یہاں پنج وقتہ نمازیں بلا تعطل ادا کی جاتی ہیں لہذا اس کو بیچے جانے کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
مقامی مسلمانوں کے ایک وفد نے ایودھیا کے ضلع مجسٹریٹ سے ملاقات کی اور مسجد کے متولی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور متولی اور ٹمپل ٹرسٹ کے درمیان کیے گئے ’فروخت کے معاہدے‘ کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا اور میمورنڈم بھی سونپا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس ضمن میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ایودھیا کے ضلع مجسٹریٹ نتیش کمار نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مسجد بدر کی فروخت سے متعلق درخواست میرے دفتر کو موصول ہوئی ہے اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (انفورسمنٹ) امت سنگھ کو باقاعدہ اس کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اسی طرح رام جنم بھومی پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر ایم پی شکلا نے کہا کہ ان کے پاس بھی شکایت موصول ہوئی ہے اور پولیس بھی اس معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔
اس پورے معاملے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ پورے ملک میں اس وقت جتنی بھی وقف املاک ہیں وہ وقف بورڈ کے ماتحت ہیں اور ان وقف کی جائیداد کے سلسلے میں یہ قانون موجود ہے کہ وقف کی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد نہ تو بیچی جاسکتی ہے نہ کسی کو تحفتاً اور ہدیتاً دی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود مندر ٹرسٹ نے موقوفہ مسجد کو خریدنے کی کوشش کی اور اس کے متولی نے فروخت کرنے پر رضا مندی بھی ظاہر کی جو ایک نہایت نازک جذباتی معاملہ ہے اور سراسر قانون شکنی بھی ہے۔
اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ کے سینئر وکیل آفتاب احمد نے کہا کہ ’’مرکزی وقف ایکٹ اور سپریم کورٹ کی طرف سے وقتاً فوقتاً دیے گئے مختلف احکام کے مطابق کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ وقف کی املاک بیچنے، منتقل کرنے یا تحفہ دینے کی کوشش کرے۔ ایودھیا کی مسجد بدر کو بیچنے کا ناپاک معاہدہ کرنے میں ملوث افراد نے قانوناً جرم کا ارتکاب کیا ہے، ان کے خلاف فوری طور پر مقدمہ درج کیا جانا چاہیے اور اس ’ایگریمنٹ ٹو سیل‘ کو بھی فوری طور پر منسوخ کیا جانا چاہیے۔‘‘
ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مندر ٹرسٹ اس مسجد کو خریدنے کے لئے اتنی کوششیں کررہا ہے؟ اور کیوں قانون شکنی کی تک نوبت آگئی ہے تو جب اس سلسلے میں تحقیقات کی گئیں تو کچھ اور ہی معاملہ سامنے آ یا ہے۔ فیض آباد کے سینئر صحافی ارشد افضل خان نے ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دراصل نو تعمیر شدہ رام مندر کامپلیکس کے آس پاس تقریباً چودہ مساجد ہیں اور ان کا کامپلیکس سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن مندر ٹرسٹ چاہتا ہے کہ ایک کرکے تمام مساجد کو ختم کردیا جائے یا ان کو تحلیل کرکے رام مندر کامپلیکس کا حصہ بنالیا جائے اور اس کام کی شروعات مسجد بدر سے کردی گئی ہے ۔
ایک اور اہم بات انہوں نے یہ کہی کہ اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد کئی لوگوں نے آواز اٹھائی پھر بھی اس پر کوئی ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی ۔(تادم تحریر) معاملہ ابھی عدالت میں بھی مہیں پہونچا ہے بلکہ اگلے کچھ دنوں میں یہ کیس عدالت میں شروع ہوگا اور وہاں اس’ سیل ٹو اگریمنٹ ‘ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جائے گا ۔ تب کہیں جاکر عدالت کی ایماء پر ایف آئی آر درج کی جاسکتی ہے ۔پھر اس کے بعد رجسٹری ڈیپارٹمنٹ میں بھی معاہدے کو منسوخ کرنے کی ایک الگ سے درخواست دی جائے گی ۔یہ سارا معاملہ مقامی وقف ایکٹیوسٹ اعظم قادری اور ان کے ساتھی انجام دے رہے ہیں ۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ پہلے بابری مسجد پر قبضہ جمالیا گیا اس پر رام مندر تعمیر کی جارہی ہے اور اگلے سال جنوری میں اس کے افتتاح کی خبریں بھی سامنےآرہی ہیں اور ساتھ ہی ان مندر ٹرسٹ والوں کی مکمل کوششیں جاری ہیں کہ آس پاس کے مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں پر بھی مکمل قبضہ کرکے اس علاقے کو پورے طریقے سے اپنے کنٹرول میں لے لیا جائے ۔ اور ان کا پہلا نشانہ مسجد بدر بن گئی ۔جس ضمن میں ایک دو لوگوں کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے اس کے نئے قانونی دستاویزات بھی بن گئے لیکن ابھی بھی قوم زندہ ہے اور اس کے بعد آنے والے مراحل کے لئے جد و جہد کی جارہی ہےاور پرامن طریقے سے قانونی لڑائی کا آغاز بھی ہوچکا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ عدالت جس نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا فیصلہ سنایا تھا اب مذکورہ مقدمے میں کیا کردار ادا کرتی ہے اور اس غیر قانونی خرید و فروخت کی تلافی کس طریقے سے کی جاتی ہے؟ فیض آباد کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قانونی لڑائی لڑتے ہوئے اس ناجائز فروخت کے معاہدے کو کالعدم قرار دیں، ورنہ تاخیر کے نتیجے میں مسئلہ پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ ابھی بھی معاملہ کچھ زیادہ آگے نہیں بڑھا ہے، وقت باقی ہے لہٰذا فوری مناسب اقدامات کیے جائیں تو کئی پیش آمدہ مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

 

***

 اس پورے معاملے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ پورے ملک میں اس وقت جتنی بھی وقف املاک ہیں وہ وقف بورڈ کے ماتحت ہیں اور ان وقف کی جائیداد کے سلسلے میں یہ قانون موجود ہے کہ وقف کی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد نہ تو بیچی جاسکتی ہے نہ کسی کو تحفتاً اور ہدیتاً دی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود مندر ٹرسٹ نے موقوفہ مسجد کو خریدنے کی کوشش کی اور اس کے متولی نے فروخت کرنے پر رضا مندی بھی ظاہر کی جو ایک نہایت نازک جذباتی معاملہ ہے اور سراسر قانون شکنی بھی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 اکتوبر تا 21 اکتوبر 2023