
بابا صاحب ڈاکٹر امبیڈکر کو آر ایس ایس اور بی جے پی کے ذریعہ ہائی جیک کرنے کی کوشش
دلت سماجی مفکر اور مصلح کو مسلم مخالف بتاکر دلتوں کو ورغلانے کی سازش
شہاب فضل، لکھنؤ
مین اسٹریم میڈیا نے وقف کے خلاف احتجاج کو امن و قانون کا مسئلہ بناکر پیش کیا، مسلمانوں کو ہدف ملامت بنانا قابل مذمت
بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر ایسے ایک دلت آئیکن ہیں جنہیں آر ایس ایس، اس کی سیاسی شاخ بی جے پی، ان کی ہم نوا تنظیمیں اور ادارے ہائی جیک کرنے میں ایک مدت سے لگے ہوئے ہیں۔ اس کا ایک نمونہ ڈاکٹر امبیڈکر کی یوم پیدائش 14 اپریل کو دیکھنے کو ملا جب سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے کانپور کی ایک عوامی تقریب میں کہا کہ ڈاکٹر امبیڈکر اور سنگھ (آر ایس ایس) دونوں نے ہندو سماج کی ترقی اور بہبود کے لیے کام کیا۔ میڈیا میں ان کے یہ جملے نقل کیے گئے ہیں: ’’بھیم راؤ امبیڈکر نے 1934 میں سنگھ کی شاکھا میں جاکر کہا تھا کہ آر ایس ایس اور ہمارے درمیان خیالات کو لے کر اختلافات ہیں، پھر بھی قربت دکھائی دیتی ہے۔ بھارت میں سنگھ سماجی کام کر رہا ہے تاکہ بھارت وشو گرو بنے۔ ہمارے آپسی اختلافات اور تلخیوں میں الجھنے کا فائدہ غیر ملکی حملہ آوروں نے اٹھایا۔ بھارت کو لوٹا اور پیٹا بھی۔ سنگھ ملک میں ہندو سماج کو منظم کرنے کا کام کر رہا ہے‘‘۔ سنگھ سربراہ نے کانپور کے کاروالو نگر میں آر ایس ایس کے دفتر کیشو بھون میں بھیم راؤ امبیڈکر ہال کا افتتاح کرتے ہوئے یہ باتیں کہیں۔ علی گڑھ میں اپنی عوامی تقریبات میں بھی سنگھ سربراہ نے یہی باتیں دہرائیں۔
چھوت چھات پر مبنی منووادی طبقاتی نظام پر ڈاکٹر امبیڈکر کے حملے اور ان کی انقلابی تحریک سے ہر کوئی واقف ہے۔ڈاکٹر امبیڈکر نے منواسمرتی کی کاپی جلائی۔ نام نہاد اعلیٰ ذاتوں کے لیے مخصوص تالاب سے پانی لینے کی اجتماعی تحریک کی قیادت کی اور ذات پات کے خلاف انیہیلیشن آف کاسٹ جیسی کتاب لکھی جس میں انہوں نے منوواد اور برہمن واد کے چیتھڑے اڑا کر رکھ دیے۔ انہوں نے برہمن نوازی، سماجی اونچ نیچ اور ورن نظام پر مبنی قدیم ہندوستانی سماجی، مذہبی و ثقافتی نظام پر پے در پے حملے کیے اور اسے کسی بھی مہذب سماج کے لیے لعنت اور کینسر سے تعبیر کیا۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر امبیڈکر کو دلت آئیکن کہا جاتا ہے۔ جبکہ سنگھ پریوار اسی برہمن نواز نظام کا علم بردار ہے اور اسی کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کے لیے اس نے ضروری سمجھا کہ وہ ڈاکٹر امبیڈکر کو ہائی جیک کرے اور ان کی اصل تحریک کو سبوتاژ کرتے ہوئے جستہ جستہ ڈاکٹر امبیڈکر کی باتوں کو عوامی سطح پر پیش کرے جسے میڈیا بڑھا چڑھا کر نمایاں کرے اور برادران وطن کی ذہن سازی کرے۔
آر ایس ایس خیمہ اپنی اس حکمت عملی پر حالیہ کچھ برسوں سے زیادہ شدت کے ساتھ کام کرتا ہوا نظر آتا ہے، جس کا بنیادی مقصد سیاسی فائدہ کے لیے برادران وطن کو منظم و متحرک کرنا ہے۔ جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا گیا، آر ایس ایس اور ہم نوا تنظیمیں ہمیشہ یہ کوشش کرتی ہیں کہ عوام میں ایسا بیانیہ رائج کیا جائے جو ان میں کنفیوژن پیدا کرے، انہیں گمراہ کرے، ان کے اندر یک رخی سوچ پیدا کرے اور بنیادی مسائل سے انہیں بھٹکانے کے لیے ایسے امورو مسائل پر انہیں بحث و گفتگو میں الجھائے جس سے ان کی فلاح و بہبود اور ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
کچھ اسی رخ پر وزیر اعظم مودی اور یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی کے حالیہ بیانات بھی ہیں جن میں امبیڈکر جینتی پر امبیڈکر کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ہریانہ کے ضلع حصار میں امبیڈکر جینتی پر ہوائی اڈے کے نئے ٹرمینل کا افتتاح کرنے کے بعد وزیر اعظم نے عوامی جلسہ میں کہا کہ سماجی انصاف اور غریبوں کا بہبود ڈاکٹر امبیڈکر کا خواب تھا۔ انہوں نے یہ بھی جوڑا ‘‘ہم نے وقف قانون میں ایک ترمیم یہ کی ہے کہ وقف بورڈ اب کسی بھی آدی واسی کی زمین و جائیداد کو چھو بھی نہیں سکتا‘‘۔ انہوں نے ہندو مسلم کے بیچ خلیج بڑھانے کی اپنی پرانی روش کے مطابق یہ بھی کہا کہ ’’کانگریس کو اگر واقعی مسلمانوں سے ہمدردی ہے تو اسے کسی مسلمان کو اپنا صدر بنانا چاہیے‘‘۔
یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تو امبیڈکر جینتی پر آگرہ، لکھنؤ اور کئی دیگر مقامات پر عوامی تقریبات میں کہا کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کے لیے آئین سے بڑھ کر شریعت ہے تو میں بھی ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ بھارت تو بابا صاحب کے بنائے آئین سے چلے گا۔ ایسے لوگوں کو وہاں چلے جانا چاہیے جہاں شریعت کا قانون لاگو ہے۔ جو بھی بھارت کے آئین کی توہین کرتا ہے وہ بابا صاحب کی توہین کر رہا ہے۔ یاد کرو وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے 1952 میں بابا صاحب کو ہرانے کا کام کیا تھا‘‘۔
مہراج گنج اور گورکھپور میں عوامی تقریبات میں یوگی یہاں تک کہہ گئے کہ وقف سے آزاد کرائی جانے والی زمینوں پر پوری ریاست میں غریبوں کے لیے مکان بنیں گے۔ انہوں نے کہا ’’یو پی میں وقف کے نام پر لاکھوں ایکڑ زمین پر قبضہ کیا گیا۔ سب کی جانچ کراکے انہیں آزاد کرایا جائے گا۔ ان زمینوں پر اب غریبوں کے لیے گھر، اسکول، کالج اور میڈیکل کالج بنیں گے۔ اتر پردیش کے غریبوں کا اپنے آشیانے کا خواب پورا ہوجائے گا‘‘۔
اسی طرح لکھنؤ میں ’’بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر سمّان ابھیان’’ کے تحت منعقدہ ایک ریاستی سطح کے پروگرام میں یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ کانگریس نے ڈاکٹر امبیڈکر کی آخری رسومات دہلی نہیں ہونے دی تھیں‘‘ اس پرانی پارٹی نے بھارتی آئین کے معمار کا میموریل بنانے سے روک دیا تھا۔ انہیں لوگوں نے بابا صاحب امبیڈکو کو الیکشن میں ناکام کیا‘‘۔ وزیر اعلیٰ کی اس تقریر کو ایکس اور تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر وسیع پیمانے پر نشر کیا گیا۔
ڈاکٹر امبیڈکر اور وقف کے نام پر ملک کے اکثریتی طبقہ کو ورغلانا اور اکسانا شر انگیز اور لائق مذمت ہے۔ اس سے تشدد و جارحیت کو بڑھاوا ملے گا جو کسی بھی طرح سے ملک اور سماج کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہندو مسلم ٹکراؤ میں کچھ سیاست دانوں کو فائدہ نظر آتا ہوگا مگر یہ لوگ جس سماج سے فائدہ اٹھاتے ہیں اسی کو سب سے زیادہ نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔
ان مثالوں سے واضح ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر جینتی کے آس پاس کے دنوں میں وقف قانون کو اس ٹکراؤ کو بڑھانے کا بہانہ بنایا گیا۔ سنگھ، بی جے پی اور اس کی ہم نوا تنظیموں کی بیان بازیوں کو اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
مین اسٹریم میڈیا نے وقف کے خلاف احتجاج کو امن و قانون کا مسئلہ بناکر پیش کیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس گمراہ کن بیانیہ کے ذریعہ ملک کی مختلف ریاستوں میں وقف کے مسئلہ پر کشیدگی کا ماحول پیدا کیا گیا ہے، جس میں مین اسٹریم میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے جو نئے وقف قانون کے خلاف احتجاج کو امن و قانون کے مسئلہ کے طور پر پیش کررہا ہے۔ مغربی بنگال کے ضلع مرشدآباد میں نئے وقف قانون کے خلاف احتجاج میں تشدد دیکھنے کو ملا جس میں جانی بوجھی شر انگیزی کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ بی جے پی کا یہ بیانیہ کہ ریاستی وقف بورڈ کسی بھی زمین جائیداد کو وقف قرار دے کر اس پر اپنا دعویٰ کر سکتا ہے سراسر غلط ہے، مگر اس پر گفتگو نہیں کے برابر ہے۔
مین اسٹریم میڈیا کے ایک مخصوص طبقہ نے نفرت انگیز بیانیہ کو آگے بڑھانے اور جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے کو ہی اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ مثال کے طور پر صحافی راہل شیو شنکر، جنہوں نے وقف کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کی سماعت اور اس سلسلہ میں عارضی طور سے قانون کی متعدد شقوں کو نافذ نہ کرنے کی ہدایت کے باوجود اپنے ایکس ہینڈل پر یہ لکھ دیا کہ عدالت نے بل کی مخالفت کرنے والی پارٹیوں کو کوئی راحت نہ دیتے ہوئے کل سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شیو شنکر نے چیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت والی بینچ کے ذریعہ حکومت کے سالیسٹر جنرل سے پوچھے گئے مشکل سوالات کو جان بوجھ کر چھپا دیا، جس پر ایکس پر کئی لوگوں نے راہل شیو شنکر کا مذاق اڑایا اور انہیں جھوٹی خبریں پھیلانے والا قرار دیا۔
ڈاکٹر امبیڈکر کی ستائش اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی ستائش کے ساتھ ساتھ کیا یہ ضروری ہے کہ سنگھ اور بی جے پی کے لوگ مسلمانوں کو ہدف ملامت بنائیں اور نفرت پھیلائیں؟
ڈاکٹر امبیڈکر کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جھوٹا پروپیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر امبیڈکر کی طرف منسوب کردہ یہ جھوٹی باتیں کہ مسلمانوں کو بھارت میں نہیں رہنا چاہیے، وہ بھارت میں بلوہ کرتے رہیں گے، بھارت کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔ مسلم سماج سماجی اصلاح اور سائنس کا مخالف ہے، مسلمان کبھی بھی محب وطن نہیں ہوسکتا وغیر۔ حالانکہ ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنی کسی بھی کتاب یا تقریر میں یہ باتیں قطعی نہیں لکھیں اور نہ کسی تقریر میں کہیں۔ مگر پروپیگنڈا مشینری انہیں پھیلانے میں لگی رہتی ہے اور اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دے رہی ہے۔
ان تمام مثالوں سے بآسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلم دشمن عناصر نہ صرف وقف بلکہ ڈاکٹر امبیڈکر کے نام پر بھی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ وہ سنگھ اور بی جے پی کے ہی بیانیہ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ اس خطرناک چال کا حصہ ہے جس میں سنگھ اور ان کے ہم نوا گزشتہ دنوں ڈاکٹر امبیڈکر کے بہانے مسلمانوں کے خلاف بالواسطہ طور سے جارحانہ انداز اپنائے ہوئے نظر آئے اور یہ سلسلہ لگا تار جاری ہے۔ اس کے سدّ باب کے لیے کیا کِیا جا سکتا ہے، اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025