اعظم ۔ منیش بمقابلہ ایشورپا۔ویر پکشپا
بدعنوانی کے معاملات میں حکومت کے دوہرے رخ کی ایک اور مثال
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
دلّی میں بی جے پی کا داو الٹا پڑ سکتا ہے۔ شراب پالیسی میں کیجریوال کے نائب کو پھانسنا اتنا آسان نہیں
منیش سسودیا کی درخواستِ ضمانت جس دن مسترد ہوئی اسی دن اعظم خان کی ضمانت کو منسوخ کروانے کی کوشش بھی ناکام ہوگئی۔ یہ دونوں واقعات مودی اور یوگی حکومت کی بد حواسی کا مظہر ہیں ۔ کسی کھلاڑی کو جب اپنی مہارت پر اعتماد ہو تو وہ امپائر کو اپنے ساتھ ملا کر دھوکہ دہی کی کوشش نہیں کرتا لیکن جب اسے اپنی شکست کا خوف لاحق ہوجاتا ہے تو وہ بے ایمانی پر اتر آتا ہے۔ عام آدمی پارٹی اور سماجوادی پارٹی اگر ممتا بنرجی یا مایاوتی کی مانند حزب اختلاف کے اتحاد سے الگ رہیں تو ہو سکتا ہے کہ بی جے پی گرتے پڑتے پھر سے اگلا پارلیمانی انتخاب بھی جیت جائے بصورتِ دیگر کمل کا کھلنا تقریباً ناممکن ہے۔ اڈانی کی بدعنوانی نے بی جے پی کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کی شبیہ بہت بگاڑ دی ہے۔ بی جے پی کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہی پڑے گی۔ چنئی میں اسٹالن کی سالگرہ میں شرکت کرکے اکھلیش یادو نے اپنے ارادے ظاہر کردیے۔ ان پر دباو بنانے کی خاطر یوگی سرکار سماجوادی پارٹی کے اعظم خان کی ضمانت منسوخ کرانے کے لیے ہائی کورٹ پہنچ گئی۔ اعظم کو پریشان کرکے یوگی نہ صرف اکھلیش یادو پر دباو بناتے ہیں بلکہ اپنے کٹر رائے دہندگان کو بیوقوف بھی بناتے ہیں۔ وہ انہیں اس خوش فہمی کا شکار بناتے ہیں کہ ان کا چہیتا وزیر اعلیٰ مسلمانوں کو سبق سکھا رہا ہے۔
منیش سسودیا کو جس دن پانچ روزہ ریمانڈ کے خاتمے پرعدالت میں حاضر ہوکر ضمانت کا مطالبہ کرنا تھا اسی دن یو پی کی حکومت نے تیرہ معاملوں میں اعظم خان کی ضمانت منسوخ کرنے سے متعلق الہ باد ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کردی۔ عدالت نے اس عرضی پر سماعت کرنے سے انکار کرکے یوگی حکومت کے گال پر زور دار طمانچہ رسید کیا۔ ہائی کورٹ نے اس احمقانہ عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ جس عدالت نے اعظم خان کو ضمانت دی ہے، اسی عدالت کے پاس جاکر ضمانت منسوخ کرانے کی عرضی داخل کرنے کا متبادل حکومت کے پاس موجود ہے اس لیے اسے عدالتِ عالیہ کا دروازہ نہیں کھٹکھٹانا چاہیے۔ منیش سسودیا نے جب سپریم کورٹ سے مداخلت کرکے ضمانت کی درخواست کی تھی وہاں سے انہیں اسی طرح کا جواب ملا تھا لیکن اس سے منیش سسودیا کا نقصان ہوگیا جبکہ اعظم خان فائدے میں رہے۔ یہ تو خیر عارضی نفع نقصان ہے لیکن اس سے حکومت کی اس بے چینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس نے اس کی نیند حرام کر رکھی ہے۔
اعظم خان پر کسی ذاتی یا تنظیمی بدعنوانی کا الزام نہیں ہے۔یہ مقدمات جوہر یونیورسٹی کے لیے کسانوں کی زمین سے متعلق ہیں۔ حکومت کے اکسانےپر کچھ لوگ عرصہ دراز کے بعد اپنی زمین پر قبضے کا بہتان گھڑ رہے ہیں۔ یہ معاملے رام پور کے عظیم نگر تھانے میں درج کرائے گئےاور مقامی عدالت میں پیش ہوئے۔ اس نے اعظم خان کی ضمانت منظور کرلی ۔اتر پردیش میں زبردست سرکاری دباو کے باوجود نچلی عدالت سے ضمانت کا مل جانا اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ان گیارہ مقدمات میں کوئی دم نہیں ہے۔ اس ضمانت کی منسوخی کی بابت یوگی حکومت کا یہ دعویٰ شرمناک ہے کہ ٹرائل کورٹ نے اعظم خان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے طویل مجرمانہ تاریخ پر غور نہیں کیا۔سرکاری وکیل بھول گئے کہ کسی پر اوٹ پٹانگ الزامات لگا دینے سے کوئی مجرم ثابت نہیں ہوجاتا۔ اعظم خان کے وکیل کا جواب تھا کہ کورٹ نے سبھی شواہد پرغور کرنے کے بعد ہی ضمانت منظور کی ہے۔ اصل مجرمانہ تاریخ تو یوگی کی ہے۔ جسٹس دنیش کمار سنگھ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’’اگر ریاستی حکومت کو لگتا ہے کہ اعظم خان کی مجرمانہ تاریخ کو نچلی عدالت کے نوٹس میں لائے جانے کے باوجود ٹرائل کورٹ نے اس پر غور نہیں کیا ہے، تو وہ اسی عدالت کے سامنے درخواست کرسکتی ہے‘‘۔
اعظم خان کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ’’اگر ملزم مدعا علیہ مقدمے میں تعاون نہ کرے اور ضمانت کے ضوابط اور شرائط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو قانون کے مطابق ریاست کے پاس درخواست داخل کرنے کی آزادی ہے‘۔ یہی دلیل دلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کے وکیل نے راؤز ایوینیو کورٹ میں پیش کی کہ ملزم سی بی آئی کا مکمل تعاون کرتے رہے ہیں اور آگے بھی ضمانت کی شرائط پر کاربند رہیں گے لیکن عدالت نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور ریمانڈ میں اضافہ کردیا۔ منیش سسودیا کو سی بی آئی نے دلی شراب پالیسی کے تحت بدعنوانی معاملے میں چھبیس فروری کو گرفتار کیا تھا۔ ان سے اس روز تقریباً آٹھ گھنٹے کی لمبی پوچھ گچھ کے بعد حراست میں لے لیاگیا تھا۔ اگلے دن راؤز ایوینیو کورٹ میں پیش کیا گیا تو عدالت نے انہیں پانچ دنوں کی سی بی آئی ریمانڈ میں بھیج دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف اٹھائیس فروری کو منیش سسودیا نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا مگر عدالتِ عظمیٰ نے ان کی عرضی پر سماعت کرنے سےانکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے ہائی کورٹ جائیں ۔
سپریم کورٹ کے کڑے تیور سے دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو اندازہ ہوگیا کہ منیش سسودیا کے ساتھ بھی ستیندر جین جیسا معاملہ ہوگا اور انہیں بھی طویل عرصہ قیدو بند کی صعوبت اٹھانی پڑے گی ۔ ستیندر جین تو خیر صرف وزیر صحت تھے اور کورونا کے بعد ان کی مصروفیت خاصی گھٹ گئی تھی مگر منیش سسودیا کا معاملہ مختلف تھا۔ سچائی تو یہ ہے کہ دہلی حکومت اصلاً وہی چلاتے تھے۔ کل تینتیس محکموں میں اٹھارہ محکمے وہی سنبھال رہے تھے۔ان میں خزانہ اور تعلیم جیسی اہم وزارتیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کیجریوال کو سسودیا سمیت جین کا استعفیٰ لے کر دوسروں کو یہ ذمہ داری سونپنے پر مجبور ہونا پڑا تاکہ کام چلایا جا سکے۔ ستیندر جین اور منیش سسودیا کی گرفتاری کے اسباب مختلف ہیں۔ جین کو یہ ثابت کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا کہ سیاست کے اس حمام میں سب ننگے ہیں ۔ بدعنوانی کے خلاف عالمِ وجود میں آنے والی عام آدمی پارٹی کا وزیر صحت بھی اس مرض میں مبتلا ہے لیکن منیش سسودیا کی گرفتاری کا مقصد عآپ کی حکومت کو مفلوج کرکے اروند کیجریوال کو دلی میں الجھائے رکھنا ہے ۔ اس طرح ان کی کل ہند سرگرمیوں پر لگام لگے گی ۔
دہلی میں تقسیم کار اس طرح کی تھی کہ سارے انتظامی امور منیش سسودیا کے ذمہ کر دیے گئے تھے۔ اس کی وجہ سے اروند کیجریوال کو ملک بھر میں پارٹی کو منظم کرنے اور انتخابی مہمات چلانے کی فرصت مل جاتی تھی۔ بی جے پی کے اندر مودی اور شاہ کی جوڑی جو کرتی ہے وہی کام عام آدمی پارٹی میں اروند اور منیش مل کر کرتے تھے۔ اس میں فرق یہ تھا کہ امیت شاہ ہنوز سیاسی تگڑم بازی کے علاوہ کسی اور میدان میں اپنی مہارت ثابت نہیں کرسکے اس کے برعکس منیش سسودیا نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے جو کیا اس کا توڑ بی جے پی کے پاس نہیں ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخاب میں بی جے پی کی ناکامی کا ایک سبب عآپ کےتعلیمی نظام کی کامیابی ہے۔ دلی میں سرکاری اسکولوں کا معیار اس قدر بلند کردیا گیا ہے کہ والدین نجی اداروں سے اپنے بچوں کو نکال کر وہاں داخل کرنے لگے۔یہ گھر گھر میں محسوس کیا جانے والا ایسا فائدہ ہے جس نے جھاڑو کو بڑھت دلائی۔ بی جے پی اب چاہتی ہے کہ وہ کام بند ہوجائے لیکن ایسا نہیں ہوگا۔پہلے سے جاری وساری کام آگے بڑھاتے رہنا بہت آسان ہے لیکن سسودیا کی ہمدردی میں بی جے پی کے خلاف غم و غصہ بڑھے گا اور جو لوگ اسے پارلیمانی انتخاب میں ووٹ دیتے تھے وہ اب نہیں دیں گے۔
منیش سسودیا کی مدتِ حراست کے دس مارچ تک بڑھانے پران کی اہلیہ نےکہا کہ گزشتہ بیس سال سے ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے ۔منیش سسودیا نے عدالت سے فریاد کی کہ ان سے بار بار لگاتار کئی گھنٹوں تک ایک ہی سوال کر کے ذہنی طور پر ٹارچر کیا جاتاہے۔ کیا منیش سسودیا کی فلاح وبہبود سے فائدہ اٹھانے والے ان کے کرب کو محسوس نہیں کریں گے اور انتخاب کے وقت اس کا انتقام نہیں لیں گے؟ خاص طور سے ایک ایسے ماحول میں کہ جب عام آدمی پارٹی کے کارکنان ملک کے طول و عرض میں احتجاج کرکے بی جے پی کو بے نقاب کررہے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میڈیا اروند کیجریوال کا ایسا دشمن نہیں ہے جیسا کہ سماجوادیوں یا کانگریسیوں کا ہے اس لیے عام آدمی پارٹی کو بدنام کرنے کے لیے ویسے شوشے نہیں چھوڑے گئے جیسا دوسروں کے خلاف چھوڑ گئے، اس لیے ان کی ہوا خراب کرنا سہل نہیں ہے۔ اروند کیجریوال کے نرم ہندوتوا کی وجہ سے بہت سارے لوگ انہیں سنگھ کی بی ٹیم سمجھتے ہیں۔ کئی لوگوں کے نزدیک وہ پکے ہنومان بھگت ہیں اور انہیں مسلمانوں کا ہمدرد قرار دینا ناممکن ہے اس لیے ہندوتوا نواز رائے دہندگان بھی ان کے معتوب ہونے پر ناراض ہوسکتے ہیں جو بی جے پی کا سیدھا نقصان ہے۔
منیش سسودیا اور ستیندر جین کا استعفیٰ قبول کرنے سے قبل دلی کے ایل جی وی کے سکسینہ نے تھوڑا بہت ناٹک کیا مگر لا محالہ انہیں قبول کرنا ہی پڑا۔ یہ عجب تماشا تھا کہ ایک طرف بی جے پی ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہی تھی اور دوسری جانب ان کا پٹھو تاریخ کی عدم موجودگی جیسی معمولی باتوں کا بہانہ بناکر استعفیٰ نا منظور کر رہا تھا۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ لوگ کنفیوژن کا شکار ہیں اور دوسرے یہ کہ عام آدمی پارٹی کو ٹارچر کرنا چاہتے ہیں یعنی پہلے استعفیٰ مانگیں گے اور پھر اس کو قبول بھی نہیں کریں گے۔ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے استعفوں کی منظوری کے بعد راج کمار آنند اور کیلاش گہلوت کو اضافی قلمدان سونپا نیز سوربھ بھاردواج اور آتشی کو کابینہ میں وزیر مقرر کردیا۔ ویسے یہ فیصلے مجبوری میں کیے جارہے ہیں لیکن ان سے عام آدمی پارٹی میں مختلف لوگوں کو کام کرنے کا موقع ملے گا اور ایک نئی قیادت ابھر کر سامنے آئے گی۔ ایسا ہونا نہ صرف عآپ کے لیے نیک شگون ہے بلکہ مخالفین کے لیے بری خبر ہے۔
مہاراشٹر کے ایکناتھ شندے کی طرح بی جے پی نے منیش سسودیا پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی مگر وہاں آپریشن لوٹس ناکام ہوگیا۔ وہ اگر کامیاب ہوجاتا تو صرف ایک آدمی کے ٹوٹ جانے سے کیجریوال بے دست و پا ہوجاتے لیکن اب ان ذمہ داریوں کے بہت سارے لوگوں میں منقسم ہوجانے سے خطرہ کم ہوگیا ہے۔ بہت سارے لوگوں کو خریدنا اور ڈرانا آسان نہیں ہوتا۔ملک میں ایک طرف تو اڈانی کے اوپر بدعنوانی کے سنگین الزامات لگ رہے ہیں اور دوسری جانب منیش کو جس معاملے میں پھنسایا جارہا ہے اس کا موازنہ کیا جائے تو ہنسی آتی ہے۔ کیجریوال نے نومبر 2021 میں شراب کی نئی حکمت عملی بنائی جس کا مقصد دلی سے شراب مافیا کا خاتمہ، سرکاری آمدنی میں اضافہ، شرابیوں کی شکایت دور کرنے کے لیے ہر وارڈ میں شراب کی دکانوں کی یکساں فراہمی بتایا گیا۔نرم ہندوتوا کے حامی کیجریوال کو شرابیوں کی یہ خیرخواہی مہنگی پڑ گئی۔ اس نئی پالیسی پر بائیس جولائی 2022 کو دلی کے ایل جی وی کے سکسینہ نے منیش سسودیا کے خلاف سی بی آئی کو تفتیش کی اجازت دے دی۔ سی بی آئی تو خیر ضابطوں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگا رہی ہے لیکن بی جے پی والے غلط طریقہ سے شراب کے ٹھیکیداروں کے ایک سو چوالیس کروڑ روپے معاف کرنے کی بات کررہے ہیں۔
گزشتہ سال انیس اگست کو سی بی آئی نے ایکسائز محکمہ میں چھان بین کے دوران کوئی مشین پکڑی۔ اس سے دستاویز کو کسی اجنبی نیٹ ورک پر بھیجنے کا پتہ چلا۔ ایک افسر کی اطلاع کے مطابق اس نیٹ ورک کو امسال وسط جنوری میں سسودیا کے دفتر سے برآمد کیا گیا۔ اس کے اندر سے زیادہ تر فائلوں کو نکال دیا گیا تھا مگر سی بی آئی نے ان کا پتہ لگا لیا۔ سی بی آئی کی جانچ پڑتال میں معلوم ہوا کہ کمیٹی کے تجویز کردہ چھ فیصد کمیشن کو بارہ فیصد کردیا گیا۔ اس بابت سسودیا نے کسی جانکاری کا انکار کردیا اور تفتیش میں مدد نہیں کی نیز کئی موبائل فونز ضائع کر دیے۔ یہ سارا معاملہ دنیش اروڑا نامی ایک تاجر کے عآپ کو بیاسی لاکھ روپے چندہ دینے سے سامنے آیا۔ اس سے متعلق شک ہے کہ اس کو چونکہ سسودیا نے فائدہ پہنچایا اس کے عوض یہ امداد ملی۔ اتنی رقم تو مہاراشٹر کے ایک رکن اسمبلی کو خریدنے اور ملک بھر کی سیر کرانے پر خرچ ہوگئی ہوگی اور اڈانی کو جو دیا گیا وہ تو اس سے کروڑ گنا زیادہ ہے۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت کی یہ سختی حیرت انگیز ہے۔
شیو سینا (ادھو) کے رکن پارلیمان سنجے راوت نے منیش سیسودیا کے خلاف کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا بی جے پی میں ہمالیہ سے لائے گئے سنت، مہاتما یا سادھو بیٹھے ہیں؟ سنجے راوت نے بی جے پی سے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ ’’جس طرح بی جے پی اپوزیشن کے رہنماؤں کو گرفتار کر رہی ہے، مجھے ڈر ہے کہ مستقبل میں جب بی جے پی کے رہنما اقتدار سے باہر ہوں گے اور انہیں بھی اسی طرح ستایا یا گرفتار کیا گیا تو ان کی مدد کرنے کے لیے کون آئے گا؟‘‘
سنجے راوت کا سوال کہ کیا بی جے پی میں سارے سادھو سنت ہیں درست نہیں ہے لیکن ان کے ساتھ سنت مہاتما جیسا سلوک ضرور ہوتا ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی کے وزراء اور اس کے اراکین اسمبلی شدید قسم کی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں اور ان پر ہر کام کرنے کے لیے چالیس فیصد تک رشوت وصول کرنے کا الزام ہے۔ جنوب کی واحد بی جے پی حکومت کے وزیر اعلیٰ ’پے سی ایم‘ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں مگر ان کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ اس کا ایک اور ثبوت ابھی حال میں اس وقت سامنے آیا جب بی جے پی کے رکن اسمبلی ویرپکشپا کے بیٹے کو نہ صرف چالیس لاکھ روپے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا بلکہ ان کے گھر سے بھی چھ کروڑ روپے نقد برآمد کیے گئے۔ بنگلورو واٹر سپلائی اینڈ سیوریج بورڈ کے چیف اکاؤنٹنٹ اور رکن اسمبلی کے بیٹے پرشانت کمار مدل کو کرناٹک لوک آیوکت کے عہدیداروں نے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ لوک آیوکت نے پرشانت کے ساتھ اس کے والد مدل ویرپکشپا کو کلیدی ملزم قرار دیا۔ ویرپاکشپا ضلع داونگیری کے چناگیری اسمبلی حلقہ سے بی جے پی کے با رسوخ رکن اسمبلی ہیں۔
یہاں پر رشوت ستانی کا معاملہ بے حد صاف ہے۔ پرشانت کے والد ویرپاکشپا صابن اور ڈٹرجنٹ لمیٹڈ (کے ایس ڈی ایل) کے چیئرمین ہیں۔ ان کے بیٹے پرشانت کمار نے کرناٹک سوپ اینڈ ڈٹرجنٹ لمٹیڈ کو خام مال فراہم کرنے کے لیے ٹینڈر کے عمل کو ختم کرنے کے لیے اسی لاکھ روپے رشوت مانگی تھی اور وہ اپنے دفتر میں چالیس لاکھ روپے لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ پرشانت کو تو لوک آیوکت پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا اور بی جے پی نے اپنی شبیہ بچانے کے لیے ویرپاکشپا کو استعفیٰ دینے کا حکم بھی دے دیا مگر گرفتار نہیں کیا ۔ موصوف ہنوز فرار ہیں۔ اس معاملے میں کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ سدارمیا نے کہا کہ ہم جو بات اتنے دنوں سے وہ کہہ رہے ہیں اب وہ کھل کر سامنے آگئی ہے۔ چالیس فیصد کمیشن لینے کا ایک اور ثبوت سامنے آیا ہے۔ ویرپاکشپا کے استعفے سے کچھ نہیں ہو گا، اس معاملے میں جو لوگ ملوث ہیں ان سب کو سامنے لایا جائے۔ سدارمیا کے مطابق بی جے پی نے کمیشن لے لے کر اپنی تجوری بھرلی ہے اور ریاست کے خزانے کو خالی کر دیا ہے۔
کرناٹک میں اگلے چند ماہ کے اندر انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے یہ واقعہ حکمراں بی جے پی کے لیے شدید جھٹکے سے کم نہیں ہے۔ بی جے پی پہلے ہی وزیر اعلیٰ بومئی کی خراب شبیہ سے پریشان ہے اور اس دوران یہ نئی مشکل کھڑی ہوگئی ہے۔ ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے حجاب کے شدید مخالف ایشورپاّ نے ایک بی جے پی کے حامی ٹھیکیدار کو رشوت کے لیے اس قدر ہراساں کیا کہ اس کو خودکشی کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ ایشورپا کے حامیوں نے وزیر موصوف کی ایماء پر کنٹراکٹر سے ایک کام کیلئے چالیس فیصد کمیشن طلب کیا تھا ۔وہ کنٹراکٹر ضلع اڈپی کے لاج میں مردہ پایا گیا۔ اس نے اپنے پیام میں وزیر اعظم نریندر مودی،وزیر اعلیٰ بسواراج بومائی اور سینئر بی جے پی لیڈر بی ایس یدی یورپا سے اپیل کی کہ اس کی موت کے بعد اس کے بیوی اور بچوں کی مدد کی جائے ۔ کنٹراکٹر نے اپنے پیام میں واضح طور پر تحریر کیا تھا کہ دیہی ترقیات و پنچایت راج کے وزیر کے ایس ایشورپا اس کی موت کے لیے مکمل ذمہ دار ہیں۔ وہ یہ فیصلہ اپنی خواہشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں ایشورپا نے ٹھیکیدار کو پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔ ایشورپا نے نہ نا کر کے بعد استعفی تو دیا مگر چند ماہ کے اندر انہیں کلین چٹ مل گئی۔ ایک طرف اعظم خان اور منیش سسودیا پر بیجا الزامات اور دوسری جانب ایشورپا اور ویرپاکشا کے خلاف کھلے ثبوت کے باوجود نرمی بی جے پی کے دوغلے پن کی منہ بولتی تصویر نہیں تو کیا ہے؟
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
مہاراشٹر کے ایکناتھ شندے کی طرح بی جے پی نے منیش سسودیا پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی مگر وہاں آپریشن لوٹس ناکام ہوگیا۔ وہ اگر کامیاب ہوجاتا تو صرف ایک آدمی کے ٹوٹ جانے سے کیجریوال بے دست و پا ہوجاتے لیکن اب ان ذمہ داریوں کے بہت سارے لوگوں میں منقسم ہوجانے سے خطرہ کم ہوگیا ہے۔ بہت سارے لوگوں کو خریدنا اور ڈرانا آسان نہیں ہوتا۔ملک میں ایک طرف تو اڈانی کے اوپر بدعنوانی کے سنگین الزامات لگ رہے ہیں اور دوسری جانب منیش کو جس معاملے میں پھنسایا جارہا ہے اس کا موازنہ کیا جائے تو ہنسی آتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023