
اکھلیش ترپاٹھی
لکھنؤ:سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے اندر بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش کے درمیان یہ قیاس آرائیاں زور پکڑتی جا رہی ہیں کہ سینئر رہنما اور سابق کابینی وزیر محمد اعظم خان جلد ہی پارٹی سے اپنا رشتہ توڑ سکتے ہیں۔ ان خدشات کو اس وقت مزید تقویت ملی جب ان کی اہلیہ اور سابق رکن پارلیمنٹ تزئین فاطمہ نے ایک واضح اور معنی خیز بیان دیا جسے ایس پی سے ممکنہ علیحدگی اور کسی نئی سیاسی صف بندی کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔
اعظم خان، جو اس وقت علالت اور قید کی حالت میں ہیں، طویل عرصے سے اتر پردیش کی سیاست، بالخصوص ریاست کے مسلم ووٹروں میں ایک نمایاں شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ رامپور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے جب تزئین فاطمہ سے پوچھا گیا کہ آیا انہیں ایس پی سربراہ اکھلیش یادو سے کوئی مدد ملی ہے؟ تو انہوں نے صاف لفظوں میں کہا: ” نہیں، ہمیں کسی سے کوئی مدد نہیں ملی۔ ہم کسی سے کوئی امید نہیں رکھتے۔ ہمارا واحد سہارا اللہ ہے، وہی ہمارا محافظ ہے۔”
تزئین فاطمہ کے اس بیان کے بعد پارٹی کے اندر ایک نئی سیاسی ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ ایس پی کے اندرونی حلقوں میں دو واضح دھڑوں کا تاثر ابھرنے لگا ہے — ایک وہ جو اعظم خان کے وفادار ہیں اور دوسرا وہ جو موجودہ قیادت یعنی اکھلیش یادو کے ساتھ کھڑا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق، امکان ہے کہ اعظم خان اور ان کے اہل خانہ سماج وادی پارٹی سے قطع تعلق کر کے کانگریس یا کسی دیگر جماعت کا دامن تھام لیں۔ اس ضمن میں اعظم خان اور وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے درمیان کسی درپردہ مفاہمت کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں، جس کے تحت ممکنہ طور پر ان کی رہائی کے بدلے ایس پی سے فاصلہ اختیار کرنے کی شرط طے کی گئی ہو۔
ان قیاس آرائیوں میں انجنیا کمار سنگھ کا نام بھی سامنے آ رہا ہے، جو اس وقت مرادآباد ڈویژن کے کمشنر اور یوگی حکومت کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ بطور ضلع مجسٹریٹ رامپور، انہوں نے اعظم خان، ان کی اہلیہ اور بیٹے عبداللہ اعظم پر کئی مقدمات قائم کیے تھے، لیکن حالیہ دنوں میں ان کا نرم رویہ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اعظم خان کے بیشتر مقدمات میں کمزور پیروی کی جارہی ہے جس کے باعث انہیں متعدد مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے، صرف ایک مقدمہ باقی ہے جس کا فیصلہ جلد متوقع ہے — جو ان کی رہائی اور اگلی سیاسی چال کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق، کانگریس میں شمولیت کے لیے اندرونی سطح پر تیاریاں جاری ہیں، اور کپل سبل — سینئر وکیل و راجیہ سبھا رکن — اس عمل کی قیادت کر رہے ہیں۔ اعظم خان کی رہائی کے بعد، امکان ہے کہ وہ اور ان کا خاندان رسمی طور پر کانگریس میں شامل ہو جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو کانگریس کو ریاست میں مسلم ووٹروں کی صورت میں نئی توانائی مل سکتی ہے، خاص طور پر وہ ووٹر جو برسوں سے اعظم خان کے وفادار رہے ہیں۔
تزئین فاطمہ کے بیان پر ایس پی کے سینئر رہنما اور سابق ایم پی ایس ٹی حسن نے اسے غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی اور اکھلیش یادو نے ہمیشہ اعظم خان کا ساتھ دیا ہے۔
دوسری جانب مرادآباد کی رکن پارلیمنٹ اور اعظم خان کی وفادار روچی ویرا سنگھ نے پارٹی قیادت پر یہ کہتے ہوئے کھل کر تنقید کی: "جب سب سے زیادہ ضرورت تھی، تب کہاں تھے اکھلیش یادو؟ آج بھی کوئی مدد نظر نہیں آتی۔”
اس لفظی جنگ سے ایس پی کے داخلی خلفشار کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ اعظم خان کے تربیت یافتہ کئی ارکان اسمبلی و پارلیمنٹ اگر پارٹی سے بغاوت کرتے ہیں تو ایس پی کو خاص طور پر مسلم ووٹروں کے بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تجزیہ نگار اس بات پر بھی حیران ہیں کہ تزئین فاطمہ اور عبداللہ اعظم کی رہائی کے بعد اکھلیش یادو یا کوئی سینئر ایس پی لیڈر ان سے ملاقات کے لیے نہیں گیا اور نہ فون کیا — یہ خاموشی سیاسی دوری کی کھلی علامت سمجھی جا رہی ہے۔
اگر اعظم خان واقعی ایس پی کو خیر باد کہہ کر کانگریس میں شامل ہوتے ہیں تو اس کے اثرات نہ صرف ایس پی کی طاقت پر ہوں گے بلکہ یو پی کی سیاسی ترتیب میں بھی ایک بڑی تبدیلی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ برسوں سے ریاست میں جدوجہد کرتی کانگریس کو ایک نئی سیاسی زندگی میسر آ سکتی ہے۔
(بشکریہ: انڈیا ٹوماروڈاٹ نیٹ )
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025