!آزاد سمجھے جانے والے ڈیجیٹل میڈیا کی آزادی بھی ختم
نئے قوانین کے ذریعہ ڈیجیٹل میڈیا اور او ٹی ٹی جیسے پلیٹ فارمس پر قدغن !!
نور اللہ جاوید، کولکاتا
جعلی خبروں اور من گھڑت کہانیوں کی حقیقت سامنے لانے والے ’فیکٹ چیکرس‘ کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار
میڈیا اور دیگر اداروں کو ریگولرائز کرنے کا عمل کوئی برا نہیں ہے کیونکہ ڈیجیٹل میڈیا کے دائرکار میں وسعت اور نئے نئے پلیٹ فارموں کے وجود میںآنے کے بعد ایک نئے قانون کی ضرورت تھی تاہم سوال یہ ہے کہ نئے قوانین کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ اگر نئے قوانین کے ذریعہ مخالفین کی آواز کو دبانا مقصود ہے تو پھر نئے قوانین پر سوالات اٹھنے لازمی ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب بھارت میں میڈیا کی آزادی زوال کا شکار ہے، پوری دنیا میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے ۔رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (RSF) کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان کی درجہ بندی 180 ممالک میں 150 سے نیچے گر کر 161 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ ایک سال میں 11 پوائنٹس کی گراوٹ ہے جو اپنے آپ میں ایک غیر معمولی بات ہے۔بھارت میں میڈیا کی آزادی میں گراوٹ کے کیا معانی ہیں؟ آخر میڈیا کی آزادی میں گراوٹ اور زوال کے اسباب کیا ہیں، میڈیا اور صحافی کس طرح سے کام کررہے ہیں اور قارئین و ناظرین کے سامنے کس طرح سے خبریں پیش کی جارہی ہیں؟ ان سوالوں کے جواب میں ہی میڈیا کے زوال کے اسباب وعلل پوشیدہ ہیں۔ بھارت کا قومی میڈیا بالخصوص بیشتر الیکٹرانک میڈیا مرکزی حکومت اورحکم راں جماعت کے آگے اپنی آزادی اور معروضیت سے دستبردار ہوگیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ دست برداری یا خود سپردگی رضاکارانہ ہو سکتی یا پھر حالات کی مجبوری کا نتیجہ۔ یہ نکتہ اہم ہے کہ بھارتی میڈیا اپنے سماجی اور جغرافیائی پس منظر کی وجہ سے مخصوص ذہنیت کا حامل بن گیا ہے۔ میڈیا کے اس رویے کی قیمت پورا ملک چکا رہا ہے، نتیجے میں آج پسماندہ طبقات، اقلیتیں اور دلت و قبائلیوں کے ایشوز اور بنیادی مسائل میڈیا سے غائب ہیں۔ پورے میڈیا کا محور ایک پارٹی اور اس کا لیڈر بن گیا ہے۔ لیڈر کی مدح سرائی اور لیڈر پر اٹھنے والے ہر ایک سوال کے دفاع کو میڈیا نے اپنی ذمہ داری بنالی ہے۔منی پور فرقہ واریت کی آگ میں جھلستا رہا لیکن چونکہ منی پور کی بدامنی اور خلفشار سے لیڈر پر سوال اٹھ رہے تھے اس لیے اس پرخاموشی اختیار کرلی گئی۔اس طرح کی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ 2023 میں درجنوں ایسے مواقع آئے جہاں میڈیا کو حکومت سے سوال پوچھنا چاہیے تھا مگر وہ خاموش رہا یا پھر غیر ضروری ایشوز کو اٹھاتا ہوا نظر آیا۔سائنٹفکٹ مزاج، معروضیت پسندی اور حقائق پسندگی کا فروغ میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ مگر میڈیا نے اندھ بھکتی، اندھ وشواش، غیر معروضیت اور پروپیگنڈے کو پھیلانا ہی اپنا مشن بنالیا ہے۔اس درمیان انٹرنیٹ کی وسعت اور ڈیجیٹل میڈیا کی توسیع نے آزاد میڈیا کی کمی کی کسی قدر بھرپائی کی۔ حالیہ برسوں میں بھارت میں ڈیجیٹل میڈیا بالخصوص چند نیوز ویب پورٹل نے اپنی جرأت مندانہ رپورٹنگ کے ذریعہ حکومت کی غلط کاریوں کی نشاندہی کی اور حکومت سے سوالات پوچھے ۔بے باکی، جرأت مندانہ صحافت کی وجہ سے نوکری سے محروم ہونے والے کئی سینئر صحافی ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم سے اپنی صحافتی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مین اسٹریم کی خود سپردگی اور اس کی جی حضوری اور چاپلوسی کی عادی حکم رانوں کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کی آزادی، بے باکی اور مین اسٹریم میڈیا کی بے عملی کے تدارک کی کوششیں کسی بھی صورت میں قابل برداشت نہیں تھیں۔ چنانچہ گزشتہ چند سالوں سے ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنے اور ریگولیٹ کرنے کی بات کی جارہی تھی۔ گزشتہ سال 2022 میں ہی حکومت نے قانون کا مسودہ جاری کیا اور عوام کی رائے طلب کی مگر اب سرمائی اجلاس کے دوران تین قوانین کی پارلیمنٹ میں منظوری کے بعد ڈیجیٹل میڈیا، انٹرنیٹ اور او ٹی ٹی جیسے پلیٹ فارم کو ’باقاعدہ‘ کرنے کے لیے ایکٹ بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ریگولرائز کرنے کا عمل کوئی برا نہیں ہے۔ڈیجیٹل میڈیا کے دائرکار میں وسعت ، نئے نئے پلیٹ فارم کے وجود میں آنے کے بعد نئے قانون کی ضرورت تھی تاہم سوال یہ ہے کہ نئے قوانین کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ اگر نئے قوانین کے ذریعہ مخالفین کی آواز کو دبانا مقصود ہے تو پھر نئے قوانین پر سوال اٹھنے لازمی ہیں اورسوال یہ بھی ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشن بل 2023، براڈکاسٹنگ سروسز (ریگولیشن بل 2023) اور ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023 پر سوالات ہی کیوں اٹھ رہے ہیں؟ آخریہ کیوں کہا جارہا ہے کہ ان تین بلوں کی منظوری کے بعد ڈیجیٹل میڈیا کی آزادی سلب ہوجائے گی؟ کیا یہ صرف اندیشے اور خدشات ہیں یا پھر کچھ زمینی حقائق بھی ہیں؟
پارلیمنٹ کےسرمائی اجلاس کے دوران جس طریقے سے اپوزیشن کے ممبران کو یک طرفہ معطل کیا گیا وہ پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ میں غیر معمولی واقعہ ہے۔ایک ساتھ کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں ممبران پارلیمنٹ کو معطل نہیں کیا گیا ہے۔اپوزیشن کی غیر موجودگی میں پاس ہونے والے قوانین میں ٹیلی کام کے یہ تینوں بلس بھی شامل ہیں۔ ٹیلی کام بل2023سرمائی اجلاس کے دوران 18دسمبر کولوک سبھا میں پیش کیا گیا اور بالترتیب 20 اور 21 دسمبر کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں منظور کرلیا گیا۔ٹیلی کمیونیکیشن بل 2023 ٹیلی کام سیکٹر کے ریگولیٹری فریم ورک کی تشکیل نو کرتا ہے اور بل کو پارلیمنٹ میں متعارف کرانے کے محض تین دن کے اندر پاس کرادیا گیا ۔ لوک سبھا میں اس پر ایک گھنٹہ 4منٹ تک بحث ہوئی اور 4ممبران پارلیمنٹ نے اپنی بات رکھی۔ٹیلی کمیونیکیشن بل پرراجیہ سبھا میں صرف ایک گھنٹہ 11منٹ تک بحث ہوئی ۔اس دوران اس بل پر وزیر کے علاوہ 7افراد نے بحث کی جس میں ایک بھی اپوزیشن کا ممبر نہیں ہے۔پارلیمنٹ میں طویل بحث و مباحثہ، ممبران کے اعتراضات پر ٹریژری پنچ کے جوابات کے بعد ہی کوئی بھی بل جامع ہوتا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر بحث و مباحثہ سے گریزاور فرار کی راہ اختیار کی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال پارلیمنٹ کے زوال کی عکاسی کرتی ہے۔جمہوریت میں کیا ایسے کوئی قانون کا کوئی اخلاقی جواز ہے جس پر بحث سے اپوزیشن کو دور رکھا گیا ہے۔
ٹیلی کام بل 2023 حکومت کو عوامی ہنگامی حالات کے دوران جرائم کے ارتکاب پر اکسانے کے واقعات پر روک لگانے کا اختیار دیتا ہے۔ انتظامیہ کو عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے ٹیلی کام نیٹ ورک پر پیغامات کی نگرانی اور ان کا نظم کرنے کا اہم اختیار بھی فراہم کرتا ہے۔نیزقومی سلامتی کے مد نظر نشریاتی اور آن لائن پلیٹ فارمز پر پروگراموں کو معطل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔تاہم اس بل میں ٹیلی کمیونیکیشن سروسز کی تعریف کو وسعت دیتے ہوئے ہوئے آزادانہ طور پر رپورٹنگ کرنے والے اور گزشتہ دہائی کے دوران جعلی خبروں، پروپیگنڈا خبروں اور من گھڑت کہانیوں کے حقائق کو سامنے لانے والے ’فیکٹ چیکرس‘ کے خلاف کارروائی کی راہ بھی کھول دی ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن سروس کے حصول پر نئے بائیو میٹرک رجسٹریشن کو اور سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ بائیو میٹرک معلومات جمع کرنے کو لازمی قرار دینے سے رازداری کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔کئی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ یہ بل 1885کے ٹیلی گراف کا متبادل ہے۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ اسٹریٹجک کاسمیٹک تبدیلیوں کے ساتھ بالکل نئی بوتل میں پرانی شراب ہے۔ قانونی ماہرین، آزاد میڈیا کے اسٹیک ہولڈرز اور حکومت مخالف ناقد اپوزیشن کا الزام ہے کہ ٹیلی کمیونیکشن سروسز کے ذریعہ میڈیا پر مکمل اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ’’انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن (IFF)‘‘ نے پارلیمنٹ میں پاس ان تینوں قوانین کا تجزیہ کرتے ہوئے کئی اہم سوالات کھڑے کیے ہیں ۔ساتھ ہی دعویٰ کیا ہے کہ ٹی وی پروگراموں کی بڑھتی ہوئی سنسرشپ کی وجہ سے بل کی محتاط جانچ کی وکالت کی ہے ۔مشہور انگریزی اور ہندی نیوز پورٹل ’’دی کوئنٹ‘‘کی سی ای او اور شریک باری ریتو کپور کہتی ہیں کہ بادی النظر میں اس بل کا مقصد خبروں سمیت آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرنا ہے۔مگر اس کا دائرہ کار کافی وسیع اور مبہم ہے۔ فی الحال اس بل میں نہیں بتایا گیا ہے کہ سزا، روک تھام یا پھر سنسنر شپ کن اصولوں کی خلاف ورزیوں پر لگائے جائیں اور اس کے کیااسباب ہوسکتے ہیں۔ ڈرافٹ براڈکاسٹنگ بل میں مواد کی چھان بین کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کی بات کہی گئی ہے۔ براڈکاسٹرس صرف ان پروگراموں کو نشر کرسکتے ہیں جوکمیٹی کے ذریعے تصدیق شدہ ہوں۔ نیوز میڈیا کے لیے اس ضابطے پر عمل کرنا مشکل ہوگا کیوں کہ کسی بھی میڈیا ہاوس میں خبروں کی جانچ کی ذمہ داری ایڈیٹر کی ہوتی ہے ۔اس لیےخبروں کے معیار کو جانچنے کے لیے کمیٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈیجیٹل نیوز مواد کے تخلیق کار میگھناد ایس کہتی ہیں ان قوانین میں صحافی اور مواد تخلیق کار کے درمیان فرق کو دھندلا دیا گیا ہے۔ کوئی بھی آن لائن سوشل کمنٹری کرتا ہے بشمول کامیڈین، انسٹاگرام میم پیجز، یہاں تک کہ وہ واٹس ایپ کمیونٹیز چلانے والے کو براڈکاسٹنگ بل میں نیوز میڈیا کے لیے تجویز کردہ انہی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔میگھناد نے ٹیلی کام بل میں ٹیلی کام سروسز کے صارفین کے لیے قابل تصدیق بائیو میٹرک پر مبنی شناخت کو لازمی قرار دیے جانے پر کہا کہ یہ صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جب کوئی صحافی خبریں شیئر کرے گا تو وہ اپنی خبروں کے ذرائع کو گمنام نہیں رکھ سکتا بلکہ ان کو ظاہر کرنا ہوگا جبکہ سپریم کورٹ بھی تسلیم کرچکا ہے کہ صحافیوں کے لیے اپنی خبر کے ذرائع کو واضح کرنا لازمی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ ان صحافیوں اور سوشل میڈیا پر سرگرم افراد کوٹارگیٹ کرنے کا اندیشہ ہے جو حکومت مخالف مواد تخلیق کرتے ہیں یا پھر حکومت کی کارکردگی پر سوال کھڑا کرتے ہیں ۔کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے اس کا فیصلہ مکمل طور پر حکومت کے ہاتھ میں ہے ۔
بہت سے حکومت کے وزرا اکثر فیک نیوز پھیلاتے ہیں مگر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی مگرمعلومات درست ہونے کے باوجود صحافیوں کو کارروائی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ کیرالا سے تعلق رکھنے والی نیوز پورٹل ’’مکتوب میڈیا‘‘ جو عام طور پر اقلیتی مسائل پر تجزیاتی اور تحقیقاتی خبریں نشرکرتا ہے، کے بانی ایڈیٹر اسلاہکیالکاتھ نے اپنے تجربات کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 30 اکتوبر کو ایک فری لانسر صحافی نے کیرالا پولیس پر مسلم مخالف تعصب برتنے کا الزام عائدکیا تو پولیس نے فری لانسر کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی اور اس کا فون ضبط کر لیا گیا۔ تاہم مجھے بھی ممکنہ ملزم بنایا گیا اور کئی گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی گئی۔حکومت اور اس کے اداروں کے خلاف تنقیدی کہانیاں شائع کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کرنے اور گرفتار کرنے کے ایسے کئی واقعات گزشتہ چند سالوں میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ اس سے نہ صرف صحافیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے بلکہ خوف کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے جو سیلف سنسرشپ کا باعث بنتا ہے۔
ٹیلی کمیونیکشن بل کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کو انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کرنے کا مطلق اختیار دے دیا گیا ہے۔حکومت جب چاہے گی انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بندکرسکتی ہے۔جموں و کشمیر اور منی پور میں انٹرنیٹ سروس کی بندش مہینوں کی گئی ہے اس کی وجہ سے ان دونوں ریاستوں کے عوام کو نہ صرف سماجی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ معاشی مشکلات سے بھی دوچار ہونا پڑا۔یہ بل مرکزی حکومت کے ذریعہ مقرر کردہ افسران کو کسی بھی جگہ تلاشی کرنے کی اجازت دیتا ہے جہاں ’’غیر مجاز‘‘ٹیلی کام آلات رکھے گئے ہیں وہ اسے ضبط کرسکتے ہیں۔بل کے تحت حکومت کے اختیارات کو بہت وسیع پیمانے پر بیان کیا گیا ہے اور مداخلت کے خلاف شکایت کرنے اور قانون کے غلط استعمال سے متعلق شکایت کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا ہے۔نیا بل منی پور کے تشدد پر کسی بھی سوشل میڈیا پیغام کو’’کشیدگی کو ہوا دینے والا‘‘قرار دے کر بلاک کرنے کا اختیار حکومت کو فراہم کرتا ہے۔بل مرکزی حکومت کو ’’عوامی ہنگامی صورتحال یا عوامی تحفظ کے مفاد میں‘‘جیسی وجوہات کی بناء پر کسی بھی ٹیلی کمیونیکیشن آلات کے ذریعے بھیجے گئے پیغامات کو روکنے کی اجازت دیتا ہے۔بل کا ایک اور متنازعہ پہلو ٹیلی کمیونیکیشن سروسز کی تعریف ہے۔موجودہ تعریف اب بھی بہت وسیع ہے اور اس کے دائرہ کار میں کسی بھی مواد کو شامل کرنے کی گنجائش ہے۔ یہ واٹس ایپ، پے ٹی ایم اور گوگل پے جیسی خدمات کا احاطہ کر سکتا ہے۔
ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم تنظیم انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن (IFF) نے کیبل ٹی وی پر نافذکوڈ سے مجوزہ کوڈز کی مماثلت اور اس کے نتیجے میں ٹی وی پروگراموں کی بڑھتی ہوئی سنسرشپ کی وجہ سے بل کی محتاط جانچ پڑتال کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ناشر کی آن لائن آزادانہ تقریر، اظہار رائے کی آزادی اور فنکارانہ تخلیقی صلاحیتوں، اور مختلف نقطہ نظر تک رسائی کے شہریوں کے حق کو متاثر کر سکتا ہے کیونکہ پبلشرز کو صرف وہی مواد تیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا جو مرکزی حکومت کے لیے قابل قبول ہے۔
حالیہ دنوں میں جس طریقہ سے نیوز کلک کے صحافیوں کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں بلکہ صحافیوں کی تنظیم ’’ایڈیٹرگلڈ ‘‘ کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا ہے اس نے اندیشے و امکانات کوبڑھادیا ہے۔ایڈیٹر گلڈ نے صحافیوں کے ایک گروپ کو منی پور کی صورت حال کاجائزہ لینے منی پور بھیجا تھا مگر اسی کو جرم بنادیا گیا اور ایف آئی آر درج کی گئی ۔ایڈیٹرس گلڈکو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔ماضی میں انفرادی طور پر رپورٹرز کو ہراساں کیا جاتا رہا ہے لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ منی پور میں میڈیا برادری کی جانب سے پیشہ ورانہ مہارت کے فقدان پر رائے کا اظہار کرنے پر کسی پیشہ ور تنظیم کے خلاف مقدمہ چلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ان واقعات نے کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں کہ کیا ان قوانین کے بعد بھارت جیسے معاشرتی طور پر تقسیم ملک میں ڈیجیٹل میڈیا کی آزادی برقرار رہ سکے گی؟ ایک ایسے وقت میں جب مخالفین کی آواز کو دبانے کے لیے حکومتیں بے شرمی سے ایجنسیوں اور پولیس کا استعمال کررہی ہیں تو پھر کیا حکومت اس بات کی ضمانت لے گی کہ ان قوانین کا سیاسی استعمال نہیں ہوگا؟ ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہے۔ایسے میں یہ سوال بہت ہی اہم ہے کہ بھارت میں صحافت کا مستقبل کیا ہے؟ عالمی برداری کی تشویش اور عالمی اداروں کی رپورٹس کو مودی حکومت خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے جب صحافت بندشوں میں جکڑدی جاتی ہے تو پھر فیک نیوز اور پروپیگنڈہ اس کی جگہ لےلیتا ہے اور حقائق اور صحیح معلومات سے عاری قومیں کبھی مستقل بنیادوں پر ترقی نہیں کر سکتیں۔ مفروضوں اور پروپیگنڈوںاور مذہبی جذبات کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے مگر ملک پائیدار ترقی کے اہداف پورے نہیں کرسکتا۔اس لیے سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے نوآبادیاتی دور کی یاد دلانے والے قوانین کے خلاف جدو جہد جاری رکھیں اور میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کی کسی بھی قسم کی کوششوں کو ناکام بنائیں۔
***
بادی النظر میں اس بل کا مقصد خبروں سمیت آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرنا ہے۔مگر اس کا دائرہ کار کافی وسیع اور مبہم ہے۔ فی الحال اس بل میں نہیں بتایا گیا ہے کہ سزا، روک تھام یا پھر سنسر شپ کن اصولوں کی خلاف ورزیوں پر لگائی جائیں اور اس کے کیااسباب ہوسکتے ہیں۔ ڈرافٹ براڈکاسٹنگ بل میں مواد کی چھان بین کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کی بات کہی گئی ہے۔ براڈکاسٹرس صرف ان پروگراموں کو نشر کرسکتے ہیں جوکمیٹی کے ذریعے تصدیق شدہ ہوں۔ نیوز میڈیا کے لیے اس ضابطے پر عمل کرنا مشکل ہوگا کیوں کہ کسی بھی میڈیا ہاوس میں خبروں کی جانچ کی ذمہ داری ایڈیٹر کی ہوتی ہے ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جنوری تا 13 جنوری 2024