آزادی کے پیچھے

جسمانی، نفسیاتی اور اخلاقی آزادیوں کا تجزیہ

ڈاکٹر عامرہ تحسین
جوائنٹ سکریٹری، شعبہ خواتین، DARE کھمم

بے مہار آزادی بے حیائی، جنسی بیماریوں اور سماجی فساد کا سبب
آزادی کا مطلب یہ ہے کہ آپ بلا روک ٹوک جو چاہیں کہہ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کے اختیار میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور آپ بغیر کسی محدودیت کے اپنی خواہشات پوری کر سکتے ہیں۔ آزادی کو اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت نہیں اور آپ پر کوئی جبر نہیں ہے۔
آزادی کی مختلف اقسام ہیں، مثلاً جسمانی آزادی، نفسیاتی آزادی اور اخلاقی آزادی۔
• جسمانی آزادی: اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کو جسمانی جبر کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آپ کو اپنی مرضی سے حرکت کرنے کی آزادی ہو۔
• نفسیاتی آزادی: اسے انتخاب کی آزادی بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں انسان آزاد ہوتا ہے کہ وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق عمل کرے۔ چاہے عمل کرنا ہو یا نہ کرنا ہو، یہ اس کی مرضی ہے۔
• اخلاقی آزادی: اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنی آزادی کو اس طرح استعمال کریں جو انسانی وقار اور بھلائی کو برقرار رکھے۔ اخلاقی آزادی آپ کو اپنے اخلاقی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیتی ہے، چاہے وہ اصول دینی ہوں یا دنیوی۔
لیکن کیا ہم ہر چیز کرنے کے مکمل حق دار ہیں؟ کیا ہم دوسروں کے حقوق کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں؟ نہیں، ہم ہر چیز کرنے کے لیے آزاد نہیں ہو سکتے۔ کبھی کبھی ہمیں روکنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور سمجھنا پڑتا ہے کہ آزادی کے نام پر جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ دوسروں کی آزادی کو متاثر کر رہا ہے جو کہ غیر اخلاقی ہےب اس سے معاشرہ برباد ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر امتحان میں نقل کرنا یا کسی کی جائیداد پر قبضہ کرنا، یہ سب آزادی کے نام پر درست نہیں ہو سکتا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ رومی سلطنت جیسی مثالیں بدعنوانی اور بے حیائی کی وجہ سے برباد ہو گئیں۔ آج آزادی کی غلط تعریف مشرق وسطیٰ، ہندوستان اور چین تک پھیل رہی ہے۔
انسان جانوروں کے برعکس مہذب طرز عمل قائم کر سکتا ہے۔ آج ہم ایک ایسے دور میں ہیں جہاں اخلاقیات، صحیح اور غلط اور رد و قبول کا معیار ہر سال بدلتا رہتا ہے۔ بیس سال پہلے جو چیز غیر اخلاقی اور ناقابل قبول تھی آج وہ مقبولِ عام ہو گئی ہے۔ آج کل کی فلمیں اور گانے فحاشی کی مختلف شکلیں ہیں اور کوئی بھی ان کو روکنے کی جرأت نہیں کرتا۔ حقیقت میں یہ سب سے زیادہ پیسہ کمانے والے عناصر ہیں۔
اخلاقی آزادی کی تعریف مختلف فلسفیوں اور مذاہب نے مختلف طریقوں سے کی ہے۔ مثلاً مشہور جرمن فلسفی کانٹ نے کہا "مجھے کبھی بھی عمل نہیں کرنا چاہیے سوائے اس کے کہ میں یہ چاہوں کہ میرا عمل ایک عالمی قانون بن جائے۔”
ہندو مذہب بھی آزادی کو اخلاقیات کی روشنی میں بیان کرتا ہے۔ یہ قدیم ہندو اخلاقیات کے پانچ یاموں سے مماثل ہیں: اہنسا (عدم تشدد) ستیہ (سچائی) استیہ (چوری نہ کرنا) برہمچاریہ (پاکدامنی) اور اپارگراہا (غیر ملکیت)۔
عیسائیت کا سنہری اصول یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اس طرح محبت کرو جیسے تم اپنے آپ سے محبت کرتے ہو۔ عیسائیوں کے مطابق رشتہ اور شادی میں ایمان داری اہم ہے۔ ایمان داری اعتماد کی بنیاد ہے اور تعلقات سچائی پر قائم ہوتے ہیں۔
اسلام ہر فرد کو آزادی فراہم کرتا ہے مگر اخلاقیات پر بھی زور دیتا ہے۔ اسلام میں اچھے اخلاق وہ طرز عمل ہیں جو احترام، مہربانی اور عاجزی کو ظاہر کرتے ہیں۔ قرآن بہت سے آداب سکھاتا ہے مثلاً جھوٹ نہ بولنا، جاسوسی نہ کرنا، طعنہ نہ دینا، فضول خرچی نہ کرنا، مسکینوں کو کھانا کھلانا، غیبت نہ کرنا اور قسموں کی پابندی کرنا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "جس نے دھوکہ دیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ دھوکہ دہی امتحانات، کاروباری معاملات یا کہیں بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام زنا کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا (قرآن 17:32)
زنا ناقابل معافی جرم ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں فرد، خاندان اور معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ خیانت کی طرف لے جاتا ہے اور ایمان کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ جوش و خروش کو ختم کر دیتا ہے، توازن کو بگاڑ دیتا ہے، کردار کی پاکیزگی کو ناپاک کرتا ہے اور عقیدت اور وفاداری کے جذبات کو ختم کر دیتا ہے۔ نتیجتاً فرد کو اللہ کے غضب اور مختلف عذابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ جعلی آزادی بے۔ حیائی کو پھیلانے کےساتھ ساتھ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں (STIs) کی شرح میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ STIs کی شرح ہر سال بڑھ رہی ہے۔ مغرب میں STIs کی وبائیں پھیل رہی ہیں، جبکہ ہندوستان کی چھ فیصد بالغ آبادی یعنی تقریباً ساڑھے تین کروڑ افراد STIs کا شکار ہیں۔ کلیمائڈیا اور سوزاک سب سے زیادہ عام ہیں، جبکہ ایچ آئی وی، ہرپیس اور ہیومن پیپیلوما سب سے مہلک ہیں۔
آج کے دور میں آزادی کے نام پر بہت سے جرائم اور خیانتیں ہو رہی ہیں۔ "میرا جسم میری مرضی” جیسے نعرے آزادی کے نام پر بے حیائی کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ حکومتیں اور عدالتیں ایسے قوانین بنا رہی ہیں جو غیر اخلاقی کاموں کو جائز قرار دیتے ہیں، جبکہ بااختیار افراد اپنے رشتہ داروں کو ایسے کاموں میں شریک نہیں ہونے دیتے۔
آج کی بے حیائی مغرب کی فریب کاری کا جال ہے جو آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے پردے میں چھپا ہوا ہے۔ ہمیں یقین دلایا جاتا ہے کہ یہی اصل اصول ہیں جو معاشرے کے لیے اہم ہیں اور یہی اصل آزادی ہے۔
عالمی سطح پر قبول شدہ چند اخلاقیات یہ ہیں: کسی کی جان، بغیر جواز کے نہ لیں، نا حق جائیداد نہ چھینیں، کسی کے شوہر یا بیوی کی لالچ نہ کریں، غیبت نہ کریں اور کسی کو کمزور نہ بنائیں۔
آئیے، آزادی کے پردے کے پیچھے چھپی بے حیائیوں کو مٹانے کی کوشش کریں۔ خاندان اور معاشرے میں اپنے تعلقات کو مضبوط، صحت مند اور اخلاقی طور پر قابل قبول بنانے کی کوشش کریں۔ خود کو اور اپنی نسلوں کو جھوٹی آزادی کے نام پر تباہ ہونے سے بچائیں۔

 

***

 آزادی ایک قیمتی حق ہے، مگر اس کی غلط تفہیم معاشرتی بحران پیدا کر سکتی ہے۔ جسمانی، نفسیاتی اور اخلاقی آزادی کے تصور کے درمیان توازن برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ ہماری آزادی سے دوسروں کے حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔ مغربی فریب کاری جیسے "میرا جسم، میری مرضی” کے نعرے ہمیں جھوٹی آزادی کے پردے کے پیچھے چھپی بے حیائیوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ ان معاشرتی مسائل کا حل اخلاقی اصولوں کی روشنی میں تلاش کرنا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ ہم ایک محفوظ اور متوازن معاشرہ قائم کر سکیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024