ایودھیا کی ہار ہضم ہونا دشوار

اکبر نگر کے باشندوں کو بے گھری اور بے سروسامانی کا سامنا

محمد ارشد ادیب

پانی کے لیے عوام پریشان، سیاست داں الزام-الزام کھیلنے میں مشغول
شمال کا حال
شمالی ہند میں مانسون کی آمد آمد ہے سیاسی موسم ابر آلود ہے عوام و خواص دلی کی سرکار کے بارے میں اندیشوں میں گرفتار ہیں اپوزیشن حملہ آور ہے لکھنو سے دلی تک جائزہ میٹنگوں کا دور چل رہا ہے۔ سدھارتھ نگر کی ایک جائزہ میٹنگ میں بی جی پی لیڈروں اور کارکنوں میں جوتم پئیزار کی بھی خبر ہے۔ کوئی جیت کے گھمنڈ میں ووٹ نہ دینے والوں کو دھمکا رہا ہے کوئی ہار کا ٹھیکرا دوسرے کے سر پر پھوڑ رہا ہے۔ غرض کہ ملک میں سیاسی حالات کے غیر مستحکم ہونے کے اشارے ملنے لگے ہیں۔پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس دھماکہ خیز ہونے کا امکان ہے۔ اس خصوصی اجلاس میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کیا جائے گا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ میڈیا کا ایک طبقہ بھلے ہی اس حکومت کو مودی 0.3 سے تعبیر کر رہا ہو لیکن غیر جانب دار صحافی اسے این ڈی اے کی مخلوط حکومت ہی قرار دے رہے ہیں۔
اپوزیشن کی کمان کانگریس لیڈر راہل گاندھی سنبھالنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کیرلا کی وائیناڈ سیٹ کے بجائے اپنے پشتینی پارلیمانی حلقے رائے بریلی سے نمائندگی برقرار رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ کیونکہ گاندھی خاندان وائیناڈ کا محفوظ قلعہ بھی چھوڑنا نہیں چاہتا اسی لیے وائیناڈ سے اگلے الیکشن میں گاندھی خاندان کی تیز طرار لیڈر پرینکا گاندھی انتخابی سیاست میں اترنے والی ہیں۔ حالات سے پتہ چلتا ہے کہ گاندھی خاندان نے بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ طویل مدتی منصوبے کے تحت اس حلقے کا انتخاب کیا ہے۔ اس پارلیمانی حلقے میں 45 فیصد مسلمانوں کے ساتھ 20 فیصد آبادی عیسائیوں کی ہے۔ قدرت نے اس علاقے کو آب و ہوا سے لے کر فطری حسن تک مالا مال کیا ہے۔ چپے چپے پر ہریالی اور مصالحہ جات کی باغبانی نے اس علاقے کی ترقی اور خوشحالی میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ عوام اس طرح شیر و شکر ہو کر رہتے ہیں کہ ان میں ہندو مسلمان یا عیسائی کا فرق کرنا مشکل ہے۔ حالانکہ آبادی کی اکثریت کو دیکھا جائے تو اس علاقے سے نمائندگی کا پہلا حق مسلمانوں کا بنتا ہے لیکن انہوں نے راضی خوشی سے اس علاقے کی نمائندگی کے لیے گاندھی خاندان کو چنا ہے۔ سیاسی پنڈتوں نے پہلے ہی دن پرینکا گاندھی کو جیتا ہوا امیدوار ڈیکلیر کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ راہل گاندھی سے پہلے اس پارلیمانی حلقے سے مسلمان نمائندے منتخب ہوتے رہے ہیں۔
یو پی کی سیاست ہر روز نئے رنگ بدل رہی ہے۔ ایودھیا کی ہار بی جے پی کے لیے قومی سطح پر باعث عار بن گئی ہے۔ ایودھیا میں ایک میٹنگ میں ضلع انتظامیہ اور ہنومان گڑھی کے مہنت راجو داس ٹکرا گئے۔ راجو داس نے ضلع انتظامیہ پر بی جے پی کو ہرانے کا الزام لگایا تو ڈی ایم اتنے خفا ہوئے کہ انہوں نے راجو داس کی سیکیورٹی ہی واپس لے لی۔ آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار کے بیان نے بی جے پی کے تکبر اور گھمنڈ کو چکنا چور کر دیا ہے۔ حالانکہ اندریش کمار نے بعد میں اپنے بیان پر صفائی بھی پیش کی لیکن زبان سے تیر نکل چکا ہے۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت گورکھپور میں کئی دنوں تک ڈیرہ ڈالے رہے لیکن یو پی کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے مٹھ میں ہونے کے باوجود ان سے ملاقات نہیں کی۔ وزیر اعظم کے وارانسی دورے پر بھی یوگی، مودی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بھی الگ الگ دکھائی دے رہے تھے۔ ایسے میں سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ سیاسی تبصرہ نگار کہ رہے ہیں بی جے پی اور آر ایس ایس میں کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ دونوں کے اختلافات کھل کر سامنے آنے میں وقت تو لگ سکتا ہے لیکن پہلے جیسی بات نظر نہیں آرہی ہے۔ یو پی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں کوئی بڑا الٹ پھیر ہو سکتا ہے۔ تاہم، ضمنی انتخابات سے پہلے یوگی سرکار ایکشن موڈ میں نظر آ رہی ہے۔ اعلیٰ حکام کے ساتھ پولیس افسروں کے بڑے پیمانے پر تبادلے ہو رہے ہیں۔حکومت کے کیل کانٹے درست کیے جا رہے ہیں۔ بابا کا بلڈوزر ایک بار پھر پارکنگ سے باہر آگیا ہے۔ لکھنو کے اکبر نگر کی پوری بستی صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی ہے۔ اس میں ایک مسجد اور مدرسے کی چار منزلہ عمارت بھی شامل ہے۔ ہفت روزہ دعوت میں پہلے بھی ایک رپورٹ میں اکبر نگر کو اجاڑے جانے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا جو الیکشن ختم ہوتے ہی درست ثابت ہوا۔ الٹا چشمہ کی مشہور یوٹیوبر پرگیہ مشرا نے انہدامی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ "وہ اکبر نگر اب نہیں رہا جہاں سے سرکار سارے ٹیکس وصول کرتی تھی… ایل ڈی اے کرپشن کے پہاڑ پر بیٹھا ہے غیر مجاز پلاٹنگ کا مہینہ بندھا ہوا ہے۔ اکبر نگر ایسے ہی بنتے ہیں سرکاری افسر مال کھا کر تعمیر کراتے ہیں اور دوسرے افسر آکر اسے ڈھا دیتے ہیں” پرگیا مشرا نے ریاستی حکومت کو جانچ کرانے کا چیلنج بھی دیا ہے جبکہ آر ایس ایس کے ترجمان پانچ جنیہ نے دعوی کیا ہے کہ اجاڑے گئے باشندوں کی باز آبادکاری کے لیے گھر دیے جا رہے ہیں۔
کچھ مقامی باشندوں نے سرکار کے ذریعے رعایتی شرحوں پر تعمیر شدہ مکان دیے جانے کا اعتراف تو کیا ہے تاہم اکبر نگر سے اجڑنے والوں کی اکثریت ابھی بھی باز آبادکاری کے لیے در در بھٹک رہی ہے۔
اسی دوران ضلع بریلی کا ایک ویڈیو بھی وائرل ہوا ہے جس میں غنڈہ مافیا سر عام زمین کے ایک پلاٹ پر قبضہ کرنے کے لیے گولیاں برسا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نظم و نسق کے سارے دعوے کھوکھلے ہیں۔ سوشل میڈیا کے صارفین بلڈوزر بابا کی حکومت پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ علی گڑھ میں اورنگ زیب نام کے ایک نوجوان کو بھیڑ نے ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس پر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے چھ افراد کو گرفتار کیا تو بی جے پی کی مقامی رکن اسمبلی ان کے بچاؤ میں دھرنے پر بیٹھ گئیں۔
قومی دارالحکومت دہلی میں بھی طوفان برپا ہے۔ ایک طرف مقابلہ جاتی امتحانات کے پرچے لیک ہونے سے طلباء ناراض ہیں، نیٹ یو جی میں کھلبلی مچ جانے کے بعد نیٹ پی جی کی امتحانات کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔ یو جی سی نیٹ کا پرچہ بھی رد کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ طلباء تنظیمیں ملک گیر سطح پر احتجاج کر رہی ہیں، جبکہ وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان طلباء کو مطمئن کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔انہوں نے نیٹ کے امتحان میں گڑبڑی کی جانچ کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے جس کی رپورٹ پر حکومت آگے کی کارروائی کرے گی۔ دہلی کے کئی علاقوں میں پانی کی قلت سے عوام پریشان ہیں۔ عآپ اور بی جی پی لیڈروں میں الزامات اور جوابی الزامات کی جنگ چل رہی ہے۔ دہلی کی وزیر برائے آبی وسائل آتشی مرکزی حکومت کے رویے کے خلاف احتجاجی دھرنا دے رہی ہیں۔ عوام پوچھ رہے ہیں سرکار ہی دھرنا دے گی تو مسئلہ حل کون کرے گا۔ شاید دونوں کو آسمان سے بارش کا انتظار ہے۔ بارش ہوتے ہی سیاست دانوں کی ساری خامیاں گٹر میں دھل جائیں گی اور جمنا کنارے کے عوام سیلاب سے بچاؤ کی فکر میں لگ جائیں گے۔ تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ اگلے ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024