عوام کے مسیحا یا تقسیم کے معمار؟
نریندرمودی اور ڈونالڈ ٹرمپ :ایک ہی سکّے کے دو حیرت انگیز پہلو
ڈاکٹر محمد عظیم الدین، مہاراشٹر
اقلیتوں پر مظالم ،قوم پرستی ،ناموں کی تبدیلی اور وشو گروبننے کی دوڑ میں دونوں برابر!
دنیا کے سیاسی افق پر نریندر مودی اور ڈونالڈ ٹرمپ وہ نام ہیں جنہوں نے اپنی منفرد طرزِ حکم رانی، غیر روایتی شخصیت اور پالیسیوں کے ذریعے نہ صرف اپنے ممالک کی سیاست کو نئی سمت دی بلکہ عالمی منظر نامے پر بھی اپنے نقوش چھوڑے۔ ایک کا تعلق مشرق کی تہذیبوں میں رچی بسی ہند کی سر زمین سے ہے، تو دوسرا مغرب کے اس ملک کا نمائندہ ہے جسے طاقت اور اقتدار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بظاہر یہ دونوں مختلف جغرافیائی دائروں، تاریخی پس منظر اور سیاسی روایات کے امین نظر آتے ہیں مگر ان کے بیانات، عوامی حکمتِ عملی اور طرزِ عمل میں حیرت انگیز یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان کا موازنہ ہمیں اس بات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ یہ دو شخصیات جو اپنی ظاہری اور اندرونی خصوصیات میں مختلف دکھائی دیتی ہیں دراصل کس طرح ایک سکے کے دو پہلو ہیں۔ مودی اور ٹرمپ، جو بظاہر دو مختلف دنیا کے باسی معلوم ہوتے ہیں، درحقیقت ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں، جہاں ایک طرف قوم پرستی، مذہبی جذباتیت اور طاقت ور قیادت کے وعدے ہیں تو دوسری طرف اختلافات، تنازعات اور سیاسی تقسیم کے سائے۔
نریندر مودی، گجرات کے ایک معمولی خاندان، اور بقول ان کے ایک معمولی چائے والے سے ابھر کر بھارت کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ ان کی جارحانہ جدوجہد، اَن تھک محنت اور عوامی رجحانات کو سمجھنے کی غیر معمولی صلاحیت نے انہیں مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔ دوسری جانب، ڈونالڈ ٹرمپ ایک امیر ترین امریکی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک کامیاب بزنس مین کے طور پر دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے کے بعد امریکہ کے دو بار صدر بنے ہیں۔ ان کی شاہانہ زندگی، متنازعہ بیانات اور میڈیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی مہارت نے انہیں عالمی سطح پر ایک ایسا کردار بنا دیا جو ہمیشہ توجہ کا مرکز رہتا ہے۔دونوں رہنما اگرچہ مختلف پس منظر رکھتے ہیں لیکن اپنی عوامی مہمات کے دوران قوم پرستی، طاقت کی نمائش اور عوام کے جذبات کو مہارت سے استعمال کرتے ہوئے مقبول ہوئے ہیں۔ یہ مماثلت اس بات کی غماز ہے کہ جدید دور میں عوامی رائے کو متاثر کرنے کے لیے جذباتیت اور قومی شناخت کے عناصر کس طرح کلیدی ہو چکے ہیں۔
مودی نے بھارت میں ہندتوا کی سیاست کو فروغ دیا جہاں قوم پرستی کو ہندو ثقافت سے جوڑ کر پیش کیا گیا۔ وہ مذہبی جذبات کو چابک دستی سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور بھارت کو ایک مضبوط ہندو ریاست کے طور پر پیش کرنے کا خواب دکھاتے ہیں۔ ان کے ’میک ان انڈیا‘ اور ’آتم نربھر بھارت‘ جیسے منصوبے قومی خود مختاری اور خود انحصاری کے نظریات پر مرکوز ہیں لیکن عملی سطح پر یہ کوششیں نمایاں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ دوسری طرف ٹرمپ نے "امریکہ فرسٹ” اور "میک امریکا گریٹ اگین” جیسے نعروں اور پا لیسیوں کے ذریعے امریکی عوام کے اندر قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دی ہے اور تجارتی تحفظ، امیگریشن کے خلاف سخت مؤقف، اور امریکی برتری کو اپنا نصب العین بنایا ہوا ہے۔
نریندر مودی کی شخصیت ظاہری طور پر تدبر اور صبر کی نمائش کرتی نظر آتی ہے۔ اندھ بھکت عوام کو لگتا ہے کہ ان کے ہر قول و فعل سے ایک گہری سوچ اور طویل مدتی حکمتِ عملی جھلکتی ہے۔ وہ سادگی کے پردے میں سب سے ہم کلام ہوتے ہیں اور ان کے جذبات کو چھونے والے الفاظ اپنی مقبولیت کو ایک ناقابلِ شکست قوت میں ڈھال لیتے ہیں۔دوسری جانب ڈونالڈ ٹرمپ کی شخصیت نرگسیت اور بے ساختگی کا امتزاج ہے۔ ان کے انداز میں جارحیت اور فوری ردِ عمل کی جھلک نمایاں ہیں۔ وہ جلسوں میں اشتعال انگیز خطابات کرتے ہیں جو سوشل میڈیا پر متنازع بیانات کی گونج پیدا کرتا ہے، اس طرح وہ اپنی برتری کو مسلسل دہراتے ہوئے خود کو مرکزِ توجہ بنا لیتے ہیں۔ان کے طرزِ سیاست میں ایک غیر یقینی کیفیت اور خود پرستی نمایاں ہے، جو انہیں ایک تماشائی سیاست داں کے طور پر پیش کرتی ہے۔
مودی اور ٹرمپ دونوں ہی عوامی جذبات کو اپنی سیاست کا محور بناتے ہیں۔ مودی کی تقریریں مذہب اور روایت کے رنگ میں ڈوبی ہوتی ہیں جن میں اقلیتوں کے خلاف تعصب اور بھید بھاؤ صاف جھلکتا ہے۔ وہ ہندو تہذیب کی عظمت کے تذکرے کے ساتھ بھارت کی عالمی برتری کا خواب دکھاتے ہیں اور ماضی کی شان و شوکت کو واپس لانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ ایک ایسی فکری لہر پیدا کرتے ہیں جو سننے والوں کے دلوں میں امید اور فخر کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ کی تقریر میں تندی اور شدت غالب ہوتی ہے۔ وہ مخالفین پر براہِ راست حملے کرتے ہیں، قوم کے جذبات کو مشتعل کرتے ہیں اور امریکی برتری کے احساس کو ہوا دیتے ہیں۔ مودی کے جملے خود میں ایک اپیل رکھتے ہیں جب کہ ٹرمپ کے الفاظ ایک طوفانی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ مگر دونوں کا مقصد ایک ہی ہے:اپنی قیادت کو ناگزیر اور اپنی پالیسیوں کو ناقابلِ انکار ثابت کرنا۔
مودی اور ٹرمپ دونوں کی طرزِ حکم رانی میں کئی پہلو مشترک نظر آتے ہیں۔ مودی نے بھارت میں ہندو اکثریت کے جذبات کو مہمیز دیتے ہوئے اقلیتوں کو حاشیے پر ڈالنے کی راہ اختیار کی۔ ان کی حکومت میں شہریت ترمیمی قانون (CAA) رام مندر کی تعمیر، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، وقف بورڈ میں ترامیم، نام نہاد لو جہاد کے خلاف قوانین اور گئو رکشا جیسے فیصلے منظرِ عام پر آئے ہیں۔ یہ اقدامات اس نظریے کے عکاس ہیں جو بھارت کو ایک ہندو ریاست کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پالیسیاں ملک کے اجتماعی وجود کو تقسیم کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اسی نوعیت کا رویہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ میں نظر آتا ہے جہاں سفید فام اکثریت کے تحفظ کو یقینی بنانے اور عیسائی شناخت کے اثر و رسوخ کو مضبوط کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ انہوں نے امیگریشن پر سخت قدغن لگائیں، میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے کا منصوبہ بنایا اور بعض مسلم ممالک کے شہریوں کے داخلے پر پابندی عائد کی، جسے عالمی سطح پر تعصب کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔ ان کے اقدامات نے قومی تفریق کو بڑھایا اور غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو تقویت دی۔
میڈیا کے ساتھ ان کا تعلق بھی حیران کن حد تک یکساں رہا۔ دونوں نے ذرائع ابلاغ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی اور جہاں اس میں ناکامی ہوئی وہاں میڈیا ہی کو موردِ الزام ٹھیرایا۔ مودی نے سرکاری سرپرستی میں چلنے والے میڈیا کے ذریعے اپنی شبیہ کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا اور جو آوازیں ان کے خلاف بلند ہوئیں ان پر پابندی کی چھاپ نظر آئی۔ ٹرمپ نے امریکی میڈیا کو "فیک نیوز” کا لقب دے کر اس کی ساکھ پر ضرب لگانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی سوشل میڈیا کے ذریعے براہِ راست عوام تک پہنچنے کی راہ نکالی تاکہ روایتی ذرائع سے خود کو بے نیاز ثابت کر سکیں۔
ٹک ٹاک پر پابندی کا معاملہ بھی مودی اور ٹرمپ کے یکساں طرزِ فکر کا ایک اور مظہر ہے۔ ٹرمپ نے چینی ملکیت والے اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر قدغن لگانے کا عندیہ دیا، جبکہ مودی اس سے کہیں پہلے 2020 میں ہی اس پر پابندی عائد کر چکے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ فیصلے قومی سلامتی کے نام پر کیے گئے، مگر ان کے پس پردہ سیاسی عزائم کی جھلک نمایاں ہے۔
مودی کے عہدِ اقتدار میں مقامات، شہروں اور سڑکوں کے نام تبدیل کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے۔ وہ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ملک کے نام کی تبدیلی بھی ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ دوسری جانب، ٹرمپ نے بھی اپنی دوسری مدتِ اقتدار میں داخل ہوتے ہی خلیجِ میکسیکو کا نام بدل کر خلیجِ امریکہ رکھنے کا اعلان کیا۔ ان فیصلوں میں مماثلت محض اتفاق نہیں بلکہ حکم رانی کے ایک خاص نظریے کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مودی کے اقدامات ہندتوا کے اسی بیانیے کو مضبوط کرتے ہیں جس کا مقصد ماضی کی روایات کو ایک نئی شکل میں پیش کرنا اور اقلیتوں کی شناخت کو دھندلا دینا ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ کا یہ طرزِ عمل امریکی قوم پرستی کو جِلا دینے اور سفید فام بالادستی کے جذبات کو پروان چڑھانے کا ایک اور ذریعہ تھا۔یہ تاریخ کا وہی پرانا سبق ہے جہاں الفاظ اور ناموں کی تبدیلی کو ایک نئی حقیقت میں ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ قوموں کی شناخت محض الفاظ سے نہیں بلکہ ان کے اجتماعی شعور اور کردار سے تشکیل پاتی ہے۔
نفسیاتی طور پر دونوں رہنما عوام کے دل و دماغ کو قابو کرنے کے ماہر ہیں۔ مودی کی شخصیت میں خود انحصاری اور خود پسندی کے عناصر غالب ہیں جو انہیں ہندو اکثریتی بھارت میں ایک مضبوط مذہبی اور سیاسی رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے۔ وہ اپنی جدوجہد کو عوام سے جوڑ کر ایک قربانی دینے والے قائد کی شبیہ پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف، ٹرمپ کی حد سے زیادہ خود اعتمادی اور جارحیت انہیں ایک منفرد لیکن متنازعہ لیڈر کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ان کی شخصیت عوام میں جذباتیت کو ابھارتی ہے لیکن ان کا رویہ اکثر غیر ذمہ دارانہ سمجھا جاتا ہے۔
مودی اور ٹرمپ کی قیادت کے اثرات نہ صرف ان کے اپنے ممالک بلکہ عالمی سیاست پر بھی گہرے محسوس کیے گئے ہیں۔ مودی نے بھارت کو عالمی سطح پر ایک اہم کردار دلانے کی کوشش کی، جہاں وہ ایک نئے بھارت کا تصور پیش کرتے ہیں جو اپنی ثقافتی عظمت اور اقتصادی ترقی کے خواب سے عبارت ہے۔ اس کے برعکس ٹرمپ نے امریکہ کو بین الاقوامی معاہدوں سے باہر نکال کر ایک تنہا مگر طاقت ور قوم کے طور پر پیش کیا۔ دونوں نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے قوم پرستی کو فروغ دیا لیکن ان کے اقدامات نے دنیا کو مزید تقسیم کی راہ پر بھی ڈال دیا۔
مودی اور ٹرمپ بلاشبہ مختلف پس منظر اور تہذیبوں کے نمائندے ہیں لیکن ان کے طرزِ حکم رانی، عوامی بیانیے اور سیاست میں گہری مماثلتیں ہیں۔ دونوں ایک سکے کے دو پہلو ہیں، جہاں ایک طرف قوم پرستی، مذہبی اثر و رسوخ، اور اقتصادی وعدے ہیں تو دوسری طرف تعصب، اختلاف اور تنازعات کے سائے نفسیاتی طور پر دونوں رہنما اپنی قوموں کے جذبات اور خیالات پر قابو پانے کی بے مثال صلاحیت رکھتے ہیں۔ مودی کی شخصیت میں خود انحصاری اور خود پسندی کے عناصر نمایاں ہیں جو انہیں ہندو اکثریتی بھارت میں ایک مضبوط مذہبی اور سیاسی رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کو عوام کی امیدوں اور قربانیوں سے جوڑ کر اپنے آپ کو ایک ایثار پیشہ قائد کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کی بے پناہ خود اعتمادی اور جارحیت انہیں ایک منفرد مگر متنازعہ رہنما کے طور پر نمایاں کرتی ہے۔ ان کی شخصیت عوام کے جذبات کو جھنجھوڑنے میں کامیاب رہتی ہے لیکن ان کا رویہ اکثر غیر ذمہ دارانہ اور عجلت پسند سمجھا جاتا ہے۔
ان دونوں کی کہانی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ قیادت محض وعدوں اور نعروں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے جانچی جاتی ہے۔ وقت فیصلہ کرے گا کہ یہ دو رہنما تاریخ میں کس مقام پر کھڑے ہوں گے: عوام کے مسیحا یا تقسیم کے معمار؟
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025