زعیم الدین احمد حیدرآباد
ویسے تو سیر و تفریح اور سیاحت انسانوں کا بہت پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ انسانوں کے اندر جبلی طور یہ عنصر رکھ دیا گیا ہے کہ وہ دنیا جہاں کو دیکھیں، مختلف جگہوں کی تہذیب و ثقافت کو جانیں، لوگوں کے رہن سہن، ان کے کھان پان سے لطف اندوز ہوں۔ یہ انسانوں کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے کہ وہ ایسی جگہوں کی سیر کریں جو قدرتی مناظر سے مالامال ہوں، کیوں کہ ہر انسان فطرت کے قریب ہوتا ہے۔ وہ جب بھی خوبصورت وادیوں کو دیکھتا ہے تو اس کا دل مسرور ہوجاتا ہے۔ ندی، جھرنوں، آبشاروں کو دیکھتا ہے تو اس کی آنکھیں ان قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ آنکھوں کو راحت ملتی ہے۔ پھر سے وہ اپنے آپ کو تازہ دم محسوس کرنے لگتا ہے۔ دولت کمانے کی چکر میں، دنیا کی کشاکش نے انسان کے اس پہلو کو دبا دیا ہے۔ مصنوعی آلات نے اس کے اندر چھپے ہوئے جمالیاتی ذوق کو دفن کرکے رکھ دیا ہے۔ ’صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے‘ کے مصداق لوگ اس پہلو کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے قریب ہونے سے، قدرتی مناظر کو دیکھنے سے اللہ ہی کے ہر چیز کے خالق ہونے، اس کے جمیل ہونے اور اس کی بے پناہ قدرت کے مالک ہونے پر ایمان مزید بڑھ جاتا ہے۔ لیکن یہاں شرط یہ ہے کہ یہ سیر و سیاحت غور وفکر اور تدبر کائنات کی غرض سے ہو، نہ کہ محض عیاشی یا لغویات کی غرض سے؟ اگر کسی کی سیر و سیاحت محض عیاشی کے لیے ہوگی تو اس کی نفسانی و جسمانی تسکین تو ہوسکتی ہے لیکن روحانی تسکین نہیں ملے گی۔
لوگ سیر و سیاحت کے لیے لوگ مختلف مقامات کو جاتے ہیں، کوئی اندرون ملک ہی سیر کرتا ہے تو کوئی بیرون ملک کی سیاحت کرنے کے لیے جاتا ہے۔ سیاحت بھی اس دور میں کوئی سستا عمل نہیں رہا۔ سیر وتفریح کافی مہنگا شوق ہے۔ متمول گھرانے ہی سیر و سیاحت کے لیے جاتے ہیں۔ عام طور پر ترقی یافتہ ممالک یا جو معاشی طور پر مستحکم ہیں ان ہی ممالک کے افراد سیر و سیاحت کرتے ہوئے نظر آئیں گے، لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ملک کے افراد بھی خوب سیر و سیاحت کرنے لگے ہیں۔ خاص طور پر غیر ملکی سیر و سیاحت کا شوق عوام میں بہت زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہم یہ کیسے معلوم کرسکتے ہیں کہ لوگ دیگر ممالک کو سیر و سیاحت کے لیے زیادہ جانے لگے ہیں؟ یہ معلومات آر بی آئی کے اعداد و شمار سے ہمیں حاصل ہوئی ہیں کہ جب لوگ کسی بھی ملک کو جانا چاہتے ہیں تو انہیں غیر ملکی زر مبادلہ کی ضرورت پڑتی ہے جس کا پورا ریکارڈ آر بی آئی کے پاس ہوتا ہے۔ اسی کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ملک کے شہریوں نے ماہ اپریل سے دسمبر کے دوران تقریباً ایک ہزار کروڑ ڈالر دوسرے ممالک میں بطور سیاحت خرچ کیے ہیں۔ صرف ماہ دسمبر میں ہی تقریباً ایک سو چودہ کروڑ ڈالر خرچ کیے گئے ہیں جو اب تک کا سب سے بڑا خرچ کا اندراج ہے۔ کوویڈ سے پہلے ایک سال میں سات سو کروڑ ڈالر بیرون ملک سیاحت پر ہمارے ملک کے شہریوں نے خرچ کیے ہیں۔ اب تو صرف نو ماہ میں ہی یہ رقم ایک ہزار کروڑ ڈالر تک جا پہنچی ہے جبکہ مزید تین ماہ ابھی باقی ہیں۔ امکان یہی ہے کہ بیرونِ ملک سیاحت پر خرچ ہونے والی رقم کوویڈ سے پہلے والے سال کی بہ نسبت دگنی ہو جائے گی۔
ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو معیشت کے لیے یہ خوش آئند بات ہے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ لوگ جتنا زیادہ خرچ کریں گے معیشت اتنی ہی زیادہ مضبوط ہوگی۔ چوں کہ شوق میں لوگ اسی وقت خرچ کرتے ہیں جب کہ ان کے پاس کچھ بچت ہورہی ہو، بصورت دیگر جن کے پاس اپنے روزمرہ کی ضروریات کی حد تک ہی آمدنی ہوگی تو بھلا وہ سیر وتفریح کے لیے کہاں سے خرچ کریں گے؟ معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک اچھی خبر ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے پاس قوت خرچ بڑھ رہا ہے، یعنی خرچ کرنے کی استعداد بڑھ رہی ہے۔ معیشت میں اس کو مثبت پہلو سے دیکھا جاتا ہے، لیکن یہ اچھی خبر ہمارے ملک کی معیشت کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ ان ممالک کے لیے ہے جہاں ہمارے ملک کے افراد سیر و سیاحت کی غرض سے جاتے ہیں اور جاکر وہاں خرچ کرتے ہیں اور ان ممالک کی معیشت کو طاقت پہنچاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ خرچ ان ممالک کے لیے تو خوش آئند بات ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک کے شہری امریکہ یا یورپ کے کسی ملک کی سیر کرتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ وہ وہاں کسی ہوٹل میں ٹھہریں گے اور وہاں کسی ریستوران میں کھانا کھائیں گے، شاپنگ کریں گے، کسی دوسری جگہ سفر کریں گے تو کار یا کوئی اور ذریعہ کا استعمال کریں گے تو وہیں کے لوگ کو اس کا فائدہ ہو گا اور وہاں کی معیشت مضبوط ہو گی۔ ان اخراجات کا ہمارے ملک کی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور نہ ہی اس سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے بلکہ الٹا اس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیوں کہ بیرونی زرِ مبادلہ سے کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسیٹ بڑھتا ہے۔ زر مبادلہ کا اصول یہ ہے کہ آپ جتنا بیرونی زرِ مبادلہ خرچ کریں گے اسی مناسبت سے کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسیٹ بڑھتا جائے گا۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی سے بیرونی زرِ مبادلہ میں کمی واقع ہو رہی ہے جو اس وقت چھ سو بلین ڈالر سے بھی کم رہ گئی ہے۔ فی الحال تو پریشانی کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا لیکن صورت حال ایسی ہی رہی تو معیشت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے معاشی اعتبار سے لوگوں کا بیرونی ممالک کا سفر بغرض سیاحت اچھی علامت ہونے کے باوجود یہ ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہمارے ملک کے لوگ بیرونی ممالک کا سفر کر رہے ہیں؟ کوویڈ کے بعد والے سال میں لوگوں کے بیرونی ممالک سیاحت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ لوگ کوویڈ کی وجہ ذہنی طور پر تناؤ کا شکار ہوئے، انہیں اپنے ہی گھروں میں بند رہنا پڑا تھا جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی دباؤ میں مبتلا ہو گئے تھے، اس تناؤ اور نفسیاتی دباؤ کو دور کرنے کے لیے لوگ سیاحت کے لیے نکل پڑے اور دوسری طرف جن لوگوں نے اپنے دورے پہلے سے طے کئے ہوئے تھے وہ کوویڈ کے دوران تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔ جیسے ہی پابندیاں ختم ہوئیں،وہ اپنے ملتوی شدہ بیرونی سیاحتی دوروں پر نکل گئے۔ معاشی اصطلاح میں اسے ’پینٹ اپ ڈیمانڈ‘ کہا جاتا ہے یعنی ایسی سرگرمیاں جو کچھ عرصے سے التوا کا شکار تھیں ان کا پھر سے تیز رفتاری کے ساتھ سرگرم عمل ہونا، یہی وجہ ہے کہ کوویڈ سے تھمی ہوئی سیاحتی سرگرمیوں میں اچانک اضافہ دیکھا گیا۔ سیاحت میں اضافہ کی وجہ کیا کوویڈ کی پابندیاں ختم ہونے سے ہوئی ہیں یا پھر واقعی لوگ سیاحت زیادہ کرنے لگے ہیں رواں سال کے اعداد و شمار سے معلوم ہو جائے گا۔ لیکن یہ بات تو یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ بھارتی تارکینِ وطن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت امریکہ میں تقریباً چالیس لاکھ بھارتی قانونی تارکینِ وطن پائے جاتے ہیں، طلباء کے حصولِ علم کے لیے بیرونی ممالک جانے میں بھی اضافہ ہوا ہے، اس کے لیے بھی پیسے خرچ کیے جارہے ہیں۔ جو نوجوان بیرون ملک تعلیم کے لیے گئے ہیں وہ وہیں مستقل سکونت اختیار کر رہے ہیں، ان کے والدین بھی ملاقات کے بہانے بیرون ملک جانے لگے ہیں۔ پھر کچھ والدین اور کام والی بائیاں اس لیے بھی جاتے ہیں تاکہ ان کی اولاد کی وہاں کچھ خدمت بھی ہو جائے، کیوں کہ بیرونِ ممالک میں چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی اچھی خاصی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ گھر کے کام کے لیے اور زچگی کے وقت بھی ساتھ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اپنا رہے تاکہ آسانی ہو۔ بچوں کی پرورش کسی آیا کے بجائے اپنوں کے ذریعہ ہو تو بہت اچھی بات ہوگی۔ وہ اپنی اولاد کی فکر چھوڑ کر توجہ کے ساتھ اپنی ملازمت کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی اچھی ہے کہ اپنے والدین اگر ساتھ ہوں تو بچوں کی نگرانی اور تربیت بہتر انداز میں ہوسکتی ہے۔ پھر والدین کے لیے بھی یہ اچھی بات ہے کہ وہ یہاں اکیلے رہنے کے بجائے اپنی اولاد کے ساتھ رہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے لوگوں کے بیرونی ممالک سفر کرنے کی اور یہ سارے سیاحتی ویزا کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کی غرض سے، حصول انبساط کے لیے، بچوں کی نگرانی کے لیے والدین کو بیرون ممالک بلانا یہ ساری وجوہات ہیں جو بیرونی ممالک کی سیاحت میں اضافے کا سبب بنی ہیں۔
***
***
بھارتی تارکینِ وطن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت امریکہ میں تقریباً چالیس لاکھ بھارتی قانونی تارکینِ وطن پائے جاتے ہیں، طلباء کے حصولِ علم کے لیے بیرونی ممالک جانے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جو نوجوان بیرون ملک تعلیم کے لیے گئے ہیں وہ وہیں مستقل سکونت اختیار کر رہے ہیں، ان کے والدین بھی ملاقات کے بہانے بیرون ملک جانے لگے ہیں۔ پھر کچھ والدین اور کام والی بائیاں اس لیے بھی جاتے ہیں تاکہ ان کی اولاد کی وہاں کچھ خدمت بھی ہو جائے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023