سزا سنائے جانے کے بعد کسی قانون ساز کا اپنے آپ بطور رکن پارلیمنٹ نااہل ہو جانا ’’انتہائی سخت‘‘ اقدام ہے: سپریم کورٹ
نئی دہلی، مارچ 30: سپریم کورٹ نے بدھ کو زبانی طور پر کہا کہ کسی کیس میں سزا سنائے جانے کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کے رکن کا اپنے آپ نااہل ہو جانا ایک ’’بہت سخت‘‘ اقدام ہے۔
جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگارتھنا کی بنچ نے یہ بات 25 جنوری کو کیرالہ ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف لکشدیپ انتظامیہ کی اپیل کی سماعت کرتے ہوئے کہی، جس حکم میں ہائی کورٹ نے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے رہنما محمد فیضل کی قتل کے ایک مقدمے میں سزا کو کالعدم قرار دیا تھا۔
فاضل کو جنوری میں لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ کے طور پر نااہل قرار دیا گیا تھا، جب ایک ٹرائل کورٹ نے انجیں اس کیس میں 10 سال کی سخت قید کی سزا سنائی تھی۔
عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کے تحت دو سال یا اس سے زیادہ جیل کی سزا پانے والے قانون ساز کو سزا کی تاریخ سے جیل کی سزا ختم ہونے کے چھ سال بعد تک نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
کیرالہ ہائی کورٹ کے حکم کی بنیاد پر ان کی رکنیت کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ میں دائر ان کی درخواست کی سماعت سے قبل، بدھ کو فیضل کی نااہلی کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔
بنچ نے فیضل کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو قانون سازوں کو سزا سناتے وقت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
یہ مشاہدہ اس وقت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہ ایسے وقت میں آیا ہے جب کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو 23 مارچ کو گجرات کی ایک عدالت نے مجرمانہ ہتک عزت کے ایک مقدمے میں دو سال قید کی سزا سنائی، اور اسے کے فوراً بعد انھیں پارلیمنٹ سے نااہل قرار دیا گیا۔
اگرچہ عدالت نے انھیں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت دینے کے لیے 30 دنوں کے لیے ضمانت دی تھی، لیکن لوک سبھا سکریٹریٹ نے 24 مارچ کو گاندھی کو پارلیمنٹ سے نااہل قرار دے دیا۔