اوراق پارینہ: ابن صفی پر ادریس شاہجہانپوری کی تیسری کتاب
اردو میں جاسوسی ادب کے تخلیق کار کے فراموش کردہ ادبی سرمائے کوجمع کیا گیا
مبصر:محمد عارف اقبال
(ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی۔۲)
دُور درشن نیوز، نئی دلّی کے سابق ڈپٹی ڈائرکٹر (ریٹائرڈ) جناب ادریس شاہجہانپوری (پ10 دسمبر 1956) کی دو کتابیں ’ فنگر پرنٹس‘ اور ’جگر لخت لخت‘ اوراقِ پارینہ سے قبل شائع ہوچکی ہیں۔ یہ دونوں کتابیں عظیم و لاثانی ناول نگار ابن صفی کی ادبی خدمات پر مشتمل ہیں۔ ابن صفی کے حوالے سے موصوف نے اپنی یہ تیسری کتاب ’اوراقِ پارینہ‘ میں جاسوسی دنیا کے پیش لفظ، اداریے اور پیش رس کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحقیقی کام اس لحاظ سے بےحد اہم ہے کہ اس میں سلیقہ بھی ہے اور محققانہ و عالمانہ انداز بھی۔ کچھ حضرات محض شہرت کے لیے ابن صفی پر ادھورا کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کچھ حضرات تو ابن صفی کے احسان کو اس طرح فراموش کردیتے ہیں کہ ان پر ایک سطر بھی لکھنا گوارا نہیں کرتے حتیٰ کہ وہ شعبہ اردو سے ریٹائر بھی ہوجاتے ہیں۔ لیکن ادریس شاہجہانپوری کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ انہوں نے دور درشن پر فیچر پروگرام بھی نشر کیا اور قلمی جولانیاں بھی دکھائیں۔ ان کے بارے میں اردو دنیا اب واقف ہوچکی ہے کہ انہوں نے اسکول کے زمانے سے ہی ’آنہ لائبریری‘ کے ذریعے ابن صفی کو خوب پڑھا اور ان کی تحریروں کے دیوانے ہوگئے۔ لیکن ملازمت اور معاش نے ان کو موقع نہیں دیا کہ وہ سنجیدگی سے ابن صفی کی ادبی خدمات کو اجاگر کرسکیں۔ کچھ آسودگی ہوئی تو ملازمت کے دوران میں ہی انہوں نے ابن صفی پر کام شروع کردیا۔ ان کی نظر ابن صفی کی تمام ہی تحریروں پر رہی اور ابن صفی پر کیے جانے والے ہند و پاکستان کے کام پر بھی وہ گہری نظر رکھتے رہے ہیں۔ ’پیش رس‘ کے حوالے سے بھارت میں ایک ادھوری کتاب بھی شائع ہوئی جس سے وہ کبھی مطمئن نہ تھے۔ لہٰذا انہوں نے ایک معرکہ آرا کام اس طور کیا کہ ابن صفی کے لکھے ہوئے ’پیش لفظ، اداریے اور پیش رس‘ وغیرہ کو جمع کرنے کا فریضہ ادا کیا۔ اس میں عباس حسینی کے لکھے ہوئے اداریے اور نقوش بھی شامل ہیں۔
اِس مبصر نے بھی ابن صفی کے ناولوں کا اسکول کے زمانے سے مطالعہ کیا ہے۔ جاسوسی دنیا کے تقریباً تمام ناول میری ذاتی لائبریری میں جمع ہوگئے۔ مطالعہ کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن ذاتی و معاشی الجھنوں کے سبب ابن صفی کی خدمات پر سنجیدہ کام کرنے کی طرف طبیعت مائل نہیں ہوئی۔ راقم کو ان ادیبوں، شاعروں اور پروفیسر حضرات کی تحریروں کا انتظار بھی تھا جنہوں نے ابن صفی کو پڑھ کر اردو کتابوں کے مطالعہ کا سلیقہ سیکھا اور بعض نے تو ابن صفی کی تحریروں سے درست اردو سیکھی اور اردو کے استاذ بھی ہوگئے۔ اس کے باوجود ابن صفی کی ’ادبی خدمات‘ پر کچھ بھی لکھنے کے لیے ان کے قلم میں جنبش تک نہیں ہوئی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اپنی ملازمت اور شہرت کے لیے انہوں نے ایسے موضوعات پر بھی قلم اٹھایا جن پر لکھنے سے اردو زبان و ادب کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مبصر نے 2002 میں اللہ کی مدد سے عزم کرکے ابن صفی پر باضابطہ کام کا آغاز کیا۔ نئی نسل ابن صفی سے واقف ہی نہیں تھی۔ کچھ نوجوان جو جاسوسی فکشن کے دلدادہ تھے وہ ہندی زبان میں کرنل ونود، کرنل رنجیت اور راجیش کو پڑھتے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ ابن صفی نے ’اردو زبان و ادب‘ کو محفوظ کرنے اور شفاف رکھنے کے لیے 1950 سے 1980 تک جو محنت کی وہ بھارت میں رائیگاں نہ ہوجائے۔ ’جاسوسی دنیا‘ الٰہ آباد کا نکہت پبلی کیشنز کلّی طور پر بند ہوچکا تھا۔ عباس حسینی بھی انتقال کرگئے۔ غیر شعوری طور پر ایک پبلشر ’کتاب والا‘ ابن صفی کی تحریروں کو ڈائجسٹ کی شکل میں ضرور چھاپ رہا تھا لیکن میرے نزدیک اس اَلل ٹپ کام سے اردو دنیا کے عظیم مصنف ابن صفی کا وقار مجروح ہو رہا تھا۔ جب میں نے ابن صفی کے حوالے سے بعض تحریریں ’اردو بک ریویو‘ میں شائع کیں تو ہمارے قارئین نے سوال کیا کہ اب یہاں ’جاسوسی دنیا‘ کے ناول کہاں ملتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ میرے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔ وہ ابن صفی کو پڑھنا چاہتے تھے اور اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کلیات اقبال، کلیات پریم چند، کلیات منٹو، کلیات ڈپٹی نذیر احمد، اور کلیات احسان دانش کی طرح ابن صفی کی تحریروں کو بھی جمع کرنے کا کام شروع کردیا۔ لیکن ہمیں کوئی پبلشر نہیں مل سکا جو اسے چھاپ سکے۔ اس کام کے لیے ابن صفی کے ایک مداح، قاری اور ادیب امان الرحمٰن (مرحوم) نے فرید بک ڈپو کے ڈائرکٹر جناب ناصر خاں سے اس کی افادیت اور حکمت پر روشنی ڈالی تو وہ تیار ہوگئے۔ اس طرح کلیات کی پہلی جلد جنوری 2004 میں شائع ہوئی۔ 61 جلدوں پر مشتمل ابن صفی کی مکمل تحریروں پر مشتمل کلیات کی تکمیل الحمدللہ 2014 میں ہوئی۔ اس دوران میری زندگی میں نہ جانے کتنے نشیب و فراز آئے۔ آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ مطالعہ کرتے کرتے میری بینائی متاثر ہوئی اور بحالت مجبوری عینک کا استعمال شروع کردیا۔ یہ بھی ہوا کہ 2007 میں فالج کا اثر ہوا۔ اللہ کا خاص فضل ہے کہ اس نے خصوصی کرم کیا۔
مجھے اس بات سے اس وقت بے حد مسرت ہوئی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے یہ مژدہ سنایا کہ میرے کام کی وجہ سے انہوں نے ہندوستان میں پہلی بار ابن صفی کی ادبی و علمی خدمات پر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک سہ روزہ کُل ہند سمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو اردو اکادمی دہلی کے اشتراک سے ہوگا۔ اس میں انہوں نے مجھے خصوصی طور پر مدعو کیا اور مقالہ بھی پڑھنے کو کہا۔
یہ سمینار بہت کامیاب رہا جس کا افتتاح اس وقت کے وائس چانسلر (جامعہ ملیہ اسلامیہ) جناب نجیب جنگ نے کیا تھا۔ پروفیسر مظفر حنفی نے بھی افتتاحی تقریب کو خطاب کیا تھا۔ نجیب جنگ صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں لاثانی ادیب و ناول نگار ابن صفی کو اردو ادب میں اپنے عہد کا جینئس (Genius) قرار دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے بھی ابن صفی کو خوب پڑھا ہوگا اور آج وہ پروفیسر خالد محمود جن کو وہ اپنا ’استاد‘ بھی مانتے ہیں، ان کے ذریعے باضابطہ ’دیوانِ غالب‘ کو سمجھنے کی کوشش کی اور اب وہ یقینی طور پر غالب کے اشعار کے مفہوم پر عبور رکھتے ہیں۔ اس سمینار میں ڈسپلے کے لیے پروفیسر خالد محمود نے مجھے ’ابن صفی کلیات‘ کی تمام جلدوں کو رکھنے کے لیے کہا تھا۔ اس وقت تک یعنی دسمبر 2012 میں تقریباً 55 جلدیں منظرعام پر آگئی تھیں۔ اس سمینار میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر پروفیسر شاہد مہدی بھی ابن صفی کے شیدائی ہیں اور کلیات کی تمام جلدیں ان کے پاس ہیں۔ اس طرح پروفیسر وہاج الدین علوی (سابق صدر شعبہ اردو) اور پروفیسر اخترالواسع بھی، جنہوں نے کلیات کی تمام جلدوں کو ذاتی طور پر خریدا۔ اپنے انتقال سے ایک سال قبل پروفیسر حنیف کیفی نے بھی شاید پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ابن صفی کی چند جلدوں کو منگواکر مطالعہ کیا تھا۔ سمینار میں پڑھے گئے مقالات کا انتخاب اردو اکادمی دہلی نے بعد میں شائع کیا جس میں راقم کا مضمون بھی شامل ہے۔
61 جلدوں پر مشتمل ابن صفی کلیات میں دو جلدیں 50 اور 60 ابن صفی کے غیر جاسوسی تحریروں پر مشتمل ہیں۔ جلد 50 میں ابن صفی کے دو اہم ناول ’پرنس چلی‘ اور ’تزک دو پیازی‘ بھی موجود ہیں۔ ’تزک دو پیازی‘ پر راقم نے حاشیہ بھی لکھا ہے۔ اس کلیات کی اہم بات یہ ہے کہ ہر جلد میں راقم نے ابن صفی کی علمی و ادبی خدمات کے کسی نہ کسی پہلو کو اجاگر کیا ہے اور اس جلد میں جو ناول شامل ہیں ان کا اجمالی تعارف پیش کیا ہے تاکہ نئی نسل نہ صرف ابن صفی سے واقف ہوجائے بلکہ اردو دنیا جاسوسی فکشن میں ان کے کارنامے سے بھی آگاہ ہوکر مطالعہ کرے۔
ادریس شاہجہانپوری نے بڑا کام کیا ہے کہ انہوں نے ابن صفیؒ کے لکھے ’اداریوں، پیش لفظ اور پیش رس‘ کو یکجا کرکے بعض قارئین کی رائے بھی کتاب میں شامل کردی ہے۔ یہ کارنامہ محققین اور اسکالرز کے لیے یقینی طور پر گراں قدر تحفہ ہے۔ انہوں نے کتاب کے انتساب میں ابن صفی کے دو اشعار بجا طور سے لکھے ہیں کہ یہی حقیقت ہے۔ اشعار دیکھیے
مدّتوں ذہن میں گونجوں گا سوالوں کی طرح
تجھ کو یاد آوں گا گزرے ہوئے سالوں کی طرح
ڈوب جائے گا کسی روز یہ خورشید اَنا
مجھ کو دہراوگے محفل میں مثالوں کی طرح
’اوراقِ پارینہ‘ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ فاضل مولف نے ’پیش لفظ‘ یا ’پیش رس‘ جہاں سے بھی حاصل کیے، ان کے حوالے دیے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ فاضل مولف نے عباس حسینی کے اداریہ اورابن صفی کے ’پیش رس‘ کو متصلاً پیش کردیا ہے تاکہ قاری دونوں کا تقابلی مطالعہ کرسکے اور اندازہ کرسکے کہ عباس حسینی اور ابن صفی کے فکر و خیالات میں کتنی ’ہم آہنگی‘ ہے۔
’پاگلوں کی انجمن‘ ابن صفی کا شاہکار خاص نمبر ہے۔ عمران سیریز کا یہ ناول الٰہ آباد میں اگست 1970 میں شائع ہوا۔ عباس حسینی نے اپنے ’اداریہ‘ میں کاغذ کی قلت کو زیر بحث بنایا اور کسی حد تک ناول کے مشمولات پر۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اس شاہکار کا اداریہ طبیعت سے نہیں لکھا۔ اس کے برعکس جون 1970 میں شائع ہونے والے اس ناول پر ابن صفی کا ’پیش رس‘ اپنے قارئین سے مخاطب ہوکر ان کے سوال کے جواب کو اہمیت دیتا ہے۔ واضح ہو کہ ایسا جواب اردو ادب کی دنیا میں ابن صفی ہی لکھ سکتے تھے۔ ملاحظہ کیجیے’’… بےشمار خطوط میں مجھ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ میں جو کچھ بھی لکھوں کھل کر لکھوں۔ بات مختلف قسم کے ازموں سے متعلق تھی۔ اس سلسلے میں پہلے بھی کھل کر لکھ چکا ہوں۔ ببانگ دہل کہہ چکا ہوں کہ معاشرے میں اللہ کی ڈکٹیٹرشپ چاہتا ہوں، لیکن سوال تو یہ ہے کہ ڈکٹیٹرشپ کیونکر قائم ہو۔ میں نے اکثر یہ سوال زبانی بھی دہرایا ہے اور جس قسم کے جوابات سے دوچار ہوا ہوں، ان کا تجزیہ کرنے پر حسب ذیل نتائج حاصل کیے
بعض لوگ داڑھیاں رکھنے پر تیار نہیں۔
بعض خواتین دوبارہ پردہ کرنے پر تیار نہیں۔ جو عیش جس کو نصیب ہوگیا ہے، وہ اسے ترک کرنے پر تیار نہیں، خواہ وہ ناجائز ذرائع سے کیوں نہ نصیب ہوا ہو۔
بعض نوجوان افراد اپنی پوشش تبدیل کرنے پر رضامند نہیں۔ بعض لوگ ’محرم‘ اور ’نامحرم‘ کے چکر سے نکل جانے کے بعد اس میں دوبارہ پڑنے کے لیے تیار نہیں۔
یارو! کیا رکھا ہے ان باتوں میں۔ تمہارا ظاہر کچھ بھی ہو لیکن دل مسلمان ہونا چاہیے۔ کچھ نیکیاں سچے دل سے اپنا کر دیکھو۔ آہستہ آہستہ تم خود ہی کسی جبر و اِکراہ کے بغیر اپنا ظاہر بھی اللہ کے احکامات کے مطابق بنالو گے۔ بس پھر جیسے ہی تم انفرادی طور پر اللہ کے احکامات کے آگے جھکے، یہ سمجھ لو کہ ایک ایسا یونٹ بن گیا، جس پر اللہ کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہے۔ انفرادی طور پر اپنی حالت سدھارتے جاو پھر دیکھو کتنی جلدی ایک ایسا معاشرہ بن جاتا ہے جس پر اللہ کی حاکمیت ہو۔ قرآن کو پڑھو، اس پر عمل کرو۔ اسے علم الکلام کا اکھاڑا نہ بناو۔ جس طبقے کے تم شاکی ہو، اس کی اصلاح کی سوچو۔ ظلم و تشدد کا تصور ذہن میں نہ لاو۔ ہمیشہ یاد رکھو، تم اس کے غلام ہو جس کی مظلومیت انقلاب لائی تھی۔ یاد کرو طائف کا وہ واقعہ جب میرے آقا و مولا کی جوتیاں لہولہان ہوگئی تھیں۔ اس سے زیادہ اس سلسلے میں اور کچھ نہیں کہنا چاہتا۔‘‘ (صفحہ 317-318)
’ہلاکو اینڈ کو‘ (اکتوبر 1970) ناول کے ’پیش رس‘ کا ایک اقتباس دیکھیے جس میں ابن صفی نے اپنے قارئین کو ذہنی اور فکری اعتبار سے بیدار رہنے کی تلقین کی ہے۔ یہ اقتباس آفاقی ہے
’’کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دشمن کے ایجنٹ ہماری آنکھوں میں دھول جھونک جاتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ وہ ہمیں کمزور کرنے کے لیے ہماری قومی یکجہتی پر ہمارے ہی ذریعے ایسی من گھڑت کہانیوں کو شہرت دینے کی کوشش کرتے ہیں جن سے صوبائی تعصب یا فرقہ واریت کا زہر پھیل سکے۔ ہم اس کا پتہ تو نہیں لگاسکتے کہ کوئی افواہ کہاں سے پھیلی ہے لیکن اس پر ضرور قادر ہیں کہ اس افواہ کو دوسرے کانوں تک نہ پہنچنے دیں۔ ہر وقت چوکنے رہیے کہ کہیں آپ خود ہی غیر شعوری طور پر دشمن کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ہیں۔ کسی افواہ کو دوسروں تک پہنچانے والا نادانستگی میں دشمن کی مدد کرتا ہے۔‘‘
(صفحہ 321)
اس اقتباس سے آج سوشل میڈیا بالخصوص ’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ سے جڑے ہوئے لوگ یقینی طور پر محتاط رویہ اختیار کریں گے۔
ادریس شاہجہانپوری نے ابن صفی کے نام سے شائع دو جعلی ناول ’سائے کا قتل‘ اور ’روشنی کی آواز‘ کا اداریہ بھی شائع کردیا ہے۔ نیچے نوٹ بھی لگا دیا ہے تاکہ قارئین واقف ہوجائیں۔ ’پیش رس‘ کے چند مزید اقتباسات نقل کرکے اس تبصرے کو مکمل کرنا چاہتا تھا لیکن طوالت کے خوف سے یہیں پر بس… کرتا ہوں۔ حالانکہ خواہش یہی ہے کہ ’پیش رس‘ کے درجنوں اقتباسات نقل کیے جائیں تاکہ آج کے قارئین اور ادبا و شعرا حضرات کو معلوم ہوجائے کہ ابن صفی خلا میں تیر نہیں چلا رہے تھے بلکہ ان کے تمام ناولوں کا بنیادی مقصد اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو اسے مستقبلیات (Futurology) سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اردو ادب کو ایسا سرمایہ عطا کیا ہے جو بیسویں صدی سے آئندہ تمام صدیوں تک کفالت کرتا ہے۔ واضح ہو کہ کلاسیکی ادب کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن ہم جس دنیا میں آج جی رہے ہیں وہ مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔ اسی دنیا کے لیے ابن صفی نے 1952 میں منصوبہ بندی کی تھی اور اللہ رب العزت نے ان سے وہ کام لیا جو شاید کوئی اور نہیں کرسکتا تھا۔ ان کا نکتہ نظر خالصتاً اصلاحی تھا اور تنقید بھی وہ اسی نیت سے کرتے تھے۔ کاش اردو سے وابستہ ادبا، شعرا اور نقاد اس نکتے کو سمجھ لیتے اور ابن صفی کے کارناموں کا ان کو ادراک ہوتا تو ابن صفی کو اپنے سر پر بٹھاتے۔ ابن صفی کو موجودہ عہد کا استاذ الاساتذہ تسلیم کیا جاتا۔ حالانکہ اقبال نے ایک عرصہ قبل جس ’مرد بزرگ‘ کی شناخت کی تھی اس کی خصوصیات پر ’اردو ادب‘ میں کوئی دوسرا اب تک پیدا نہیں ہوا ہے سوائے ابن صفی کے۔
یہ کتاب اردو زبان و ادب کے ہر قاری کے لیے بےحد قیمتی ہے۔ اسے خرید کر نہ صرف خود مطالعہ کرنا چاہیے بلکہ دوسروں کو ترغیب دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خدا کرے ادریس شاہجہانپوری کا قلم ابن صفی کے حوالے سے یوں ہی رواں رہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جنوری تا 27 جنوری 2024