اور قمر غروب ہوگیا۔۔

(قمرالہدی مرحوم،سابق امیر حلقہ بہار۔یادوں کے نقوش)

رضوان احمد اصلاحی

مدھوبنی (بہار)کے قریہ ململ میں 87سال قبل جو قمرنمودارہوا اور تاحیات جس کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوئی تھی، وہ اچانک پٹنہ کے میدانتا ہاسپٹل میں غروب ہوگیا۔ تحریک اسلامی بہار کے قائد،سابق امیرحلقہ جماعت اسلامی ہندبہار، ہمارے مربی ومحسن قمر الہدیٰ صاحب سال 2022کی آخری تاریخ 31دسمبر2022کواس دارفانی کو خیر باد کہہ کر مالک حقیقی سے جاملے، انا الیہ وانا الیہ راجعون۔حسب معمول 21دسمبر2022کو فجر کی نماز جماعت سے ادا کی، یقیناً روزانہ کی طرح آج بھی وقت سحر تہجد کا اہتمام ہوا ہوگا، قرآن وحدیث کا معمول کے مطابق مطالعہ کیا، قبل ازوقت صبح آفس آئے ،حاضری بنائی اور اپنے ذمے کے کام نمٹاتے ہوئے نماز ظہر اورظہرانہ سے فراغت کے بعد قیلولہ کرنے لگے،نیند آگئی خواب میں دیکھا کہ ٹانگ ٹوٹ گئی، اتنے میں اچانک گھڑی پر نظر پڑی ، عصر کاوقت ہوچکا ہے، بستر سے اٹھے اورواش روم کی طرف چندقدم بڑھے ہی تھے کہ گرگئے ،خواب حقیقت میں تبدیل ہوگیا،بائیں ران کی ہڈی ٹوٹ گئی ،ایکسرے رپورٹ کے مطابق چار ٹکڑے ہوگئے۔بس موت کو ایک بہانہ مل گیا، فرشتے وقت موعود کا انتظار کرنے لگے، علاج کی ہرممکن کوشش کی گئی،ڈاکٹراور ہسپتال بدلے گئے ،ڈاکٹروں کی ہر تدبیر موت کے سامنے الٹی پڑگئی۔مرنے والے نے بھی موت کی پوری تیار کرلی تھی، قدرت کا فیصلہ بھی اٹل تھا،بس سال پورا کرنا تھا، مہینے کی آخری تاریخ کی آمد کا انتظار تھا، تاکہ روٹین ورک میں کوئی کمی واقع نہ ہو جائے،نظم میں کوئی خلل نہ پڑجائے،جیسے ہی سال کا آخری مہینہ اختتام کو پہنچا، وقت سحر شروع ہوتے ہی وہ مالک حقیقی سے جاملے، در اصل برسہابرس سے اسی وقت قمرصاحب اپنے مالک حقیقی سے سرگوشیاں کرتے،دیر تک سجدہ میں سررگڑتے، تہجدکے لیے نیند سے بیدار ہوتے ،بلامبالغہ مرحوم نے اپنے آپ کو مستغفرین بالاسحار کی صف میں لاکر کھڑا کررکھا تھا، اللہ کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اسی وقت سحر3:15بجے ، فرشتے کو بھیج کر اپنے پاس بلالیا۔بیماری کی نوعیت ایسی نہیں تھی جسے مرض الموت کہاجاسکے،ٹانگ ہی تو ٹوٹی تھی،روبہ صحت ہونے کے سارے آثار نظر آرہے تھے،ماشاء اللہ میڈیکل رپورٹ ہردن حوصلہ افزا موصول ہورہی تھی،دریں اثنا 24دسمبر2022کو جب عشاء کے بعد میداز ہاسپٹل کے ICUوارڈ میں ملنے گیا،جیسے ہی خیریت دریافت کی توبچے کی طرح کچھ بتائے بغیر آنکھوں سے زارو قطار آنسوجاری ہوگئے، میں تاب نہ لاسکا، اپنی آنکھوں کو روک نہ سکا،بغیر کسی خیریت کے واپس آگیا،میری تشویش غیر معمولی بڑھ گئی ، اٹھارہ سال میں دوسری مرتبہ قمر صاحب کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے ،ایک مرتبہ جب 2011میں محترمہ رضیہ چچی کا انتقال ہوا تھا تب،وہ بھی بہت ہی مختصر ،دوسری اور آخری مرتبہ آج،جب کہ اس سے قبل اور اس کے بعد میدانتا ہاسپٹل میں بھی مسلسل عیادت کے لیے جانے کا اتفاق ہوا ،بستر علالت پر بھی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ ہی ملے۔ قمر الہدیٰ صاحب مضبوط قوت ارادی کے آدمی تھے، داخلی اور خارجی طور پر نہایت ہی سخت اورمشکل حالات آتے رہے وہ ان حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے،سخت اور برے حالات میں اندر سے اور مضبوط ہوجاتے تھے، لیکن آج انہوں نے آنسوؤں کا الوداعیہ دے کرمجھے زندگی بھرکے لیے ان آنسوؤں کامقروض بنادیا۔
مرحوم قمرالہدیٰ صاحب بہار کے مردم خیز گاوںململ(مدھوبنی )میں پیدا ہوئے ،آپ کے والدماجد کا اسم گرامی نجم الہدیؒ تھا جنہوں نے مڈل اسکول تک تعلیم حاصل کی تھی ،آپ کے چچا مولانا نور الہدیٰؒ قاسمی صاحب دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے، والدہ ماجدہ کا نام جمیلہ خاتونؒ تھا جو کہ گھریلو خاتون تھیں ،آپ کی دو بہنیں تھیں، اور آپ سے چھوٹے ایک بھائی ہیں جو الحمدللہ بقید حیات ہیں۔دونوں بہنوں کا انتقال ہوچکا ہے۔جب آپ پانچ ،چھ سال کے تھے اسی وقت آپ کی والدہ کا سایہ سرسے اٹھ گیا۔گاوں کا معروف پہلوان تقو خلیفہ جن کا اصل نام تقی الدین رہا ہوگا،فن پہلوانی میں وہ آپ کے استاذ تھے،استاذ تقو نے آپ کو ایک کارنامے پر ’’سکھا پہلوان‘‘ کا خطاب دیا تھا۔
آپ کی جائے پیدائش ’’ململ ‘‘کو تحریک اسلامی کی بستی کہا جاتاہے، جماعت نے اس گاؤں کوماڈل بستی بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس وقت اس گاوں سے تحریک اسلامی کو نہایت قابل ذکر رجال کار ملے، مرکزی مکتبہ کے پہلے منیجر مطیع الرحمن احقرؒصاحب،قیم جماعت کے معاون رہے جناب تبارک اللہ ؒصاحب، ضیاء الرحمن ؒ صاحب ،ضیاء اللہ صاحب اور عطاء اللہ ؒصاحب اور مشیر ؒ صاحب سب اسی گاؤں کے ارکان جماعت تھے۔ خود حسنین سید ؒ صاحب کا اس گاؤں کا باربار دورہ ہوا،مرحوم حسنین سید صاحب نے اپنے دوروں کے دوران طلبہ اور نوجوانوں کو بھی جمع کیا ،جس میں قمرالہدیؒ صاحب مرحوم بھی شامل تھے،ان طلبہ اور بچوں پر مشتمل حسنین سید ؒ صاحب نے ایک’’ بزم حسنات‘‘ قائم کردیا تھا، اس وقت قمر صاحب مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھے، اس بزم حسنات میں شریک ہوتے تھے ۔بقول قمر صاحب کے آپ کے والد نجم الہدی ؒ صاحب جماعت کے متفق بلکہ کارکن تھے۔آپ کی دونوں بہنیںبھی جماعت کی کارکن تھیں، آپ کی اہلیہ رضیہ قمرؒ 1968میں جب پٹنہ آئیں تو جماعت کے کاموں میں سرگرم عمل ہوگئیں، جس زمانے میںجناب محمد جعفر صاحب (نائب امیرجماعت)رکن بنے اسی زمانے میں رضیہ چچی کی بھی رکنیت منظور ہوئی پھر ڈاکٹر سید ضیاء الہدیٰ ؒصاحب نے ان کو آل بہار ناظمہ کی ذمہ داری سپردکی۔جسے محترمہ نے بحسن وخوبی انجام دیا۔تحریک میں رضیہ چچی اپنے شوہر سے پہلے آئیں، آل بہار ذمہ دار بھی پہلے بنیں اور رب سے ملاقات کے لیے بھی رفیق حیات سے 11سال پہلے دنیا سے رخصت ہوگئیں، اللہ ان دونوں کو غریق رحمت کرے ۔آمین۔ المومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر۔۔۔۔۔۔(سورہ توبہ71)مومن مردوعورت آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ یہ دونوں میاں بیوی اس آیت کا درس بھی دیتے تھے، اس پر عامل بھی تھے اور اس کی تفسیر بھے تھے۔
قمرالہدیٰ صاحب نے سکریٹریٹ میں ملازمت کے دوران ایمرجنسی سے پہلے 1974میں رکنیت کی درخواست دی تھی، اسی دوران ایمرجنسی لگی اور جماعت ban کردی گئی۔ ذمہ داران اور ارکان جماعت پابند سلاسل کردیے گئے، ایمرجنسی کے بعد دوبارہ آپ نے اس وقت رکنیت کی درخواست دی جب عام مسلمان خوف اورعتاب کے ڈرسے جماعت سے قربت یا نسبت ظاہر کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے، اس طرح19نومبر 1977کو آپ کی درخواست رکنیت منظور ہوئی۔رکن بننے کے پانچ ماہ کے بعد 1978میں پٹنہ شہر کی امارت مقامی کی ذمہ داری تفویض کردی گئی، امارت مقامی کے دوران ہی ایک دن امیرحلقہ ڈاکٹرسید ضیاء الہدیؒ صاحب نے کہاکہ افراد کی قلت ہے، لوگ آتے نہیں ہیں، تحریک کا کا م کیسے آگے بڑھے گا،قمر صاحب نے اسی وقت کہا ہم تیار ہیں ،بتائیے کب سے آجائیں ،امیرحلقہ نے کہا کل سے آجائیے۔ بس امیرکااشارہ پاتے ہی دوسرے ہی دن سکریٹریٹ جاکر استعفی اپنے آفسر کو سپردکیا،افسر اور دوسرے ساتھی نے سمجھایا، بتایا کہ آپ کا پرموشن ہونے والا ہے ،کم ازکم ایک مہینہ انتظار کرلیجئے ،پینشن میں اضافہ ہوجائے گا۔ بس ایک ہی بات کہ ہم نے اپنے امیرسے وعدہ کرلیا ہے۔یہ 1981کی بات ہے۔
قمر صاحب سے میری پہلی ملاقات سال2002کے کسی مہینے میں ارریہ کورٹ کے ٹاون ہال میں ایک اجتماع میں ہوئی، دو بزرگ بہ حیثیت مربی شریک اجتماع تھے،دونوںجسمانی اعتبار سے ہلکے پھلکے،کرتا پاجامہ زیب تن کیے ہوئے،دونوں کی آنکھوں پرچشمہ ، ایک کے اندرجلال تھا تو دوسرے کے اندرجمال ،ایک کا بدن گوشت پوست سے بھرہواتھا تودوسرے دبلے پتلے، پھرتیلے،ایک کے چہرے پر مہذب گھنی ڈاڑھی تھی اور دوسرے کے چہرے پر عربی کٹ ڈاڑھی،ایک اپنے بل بوتے پر قدم جماجماکر چلتے تھے ،دوسرے چھڑی کے سہارے تیزتیز قدموں سے چلتے تھے، ایک کے اندررعب تو دوسرے اندر بذلہ سنجی،ایک کی تقریر میں قائدانہ ہدایات اور نظم وضبط کی بات دوسرے کی تقریر میں زیروبم اور گھن گرج کے ساتھ تربیت وتزکیہ کی تلقین۔ایک لیڈر تھے تو دوسرے مربی،تعارف کرانے والوں نے اول الذکر کانام قمر الہدی،امیرحلقہ بہار بتایا دوسرے کا نام احمد علی اختر سکریٹری جماعت اسلامی ہندبہارسنایا گیا۔تقاریرسے زیادہ دونوں شخصیتوں کے ایمانی اور اخلاقی بلندی کا سکہ ذہن ودماغ پر قائم ہوا، اس اجتماع نے ہمیں تحریک کا عملی کارکن بنادیا۔لیکن یہ تعارف ایک طرفہ رہا،نہ ہم نے علیحدہ سے کوئی ملاقات کی اور نہ اپنا تعارف کرایا،اس وقت میں غیر متعارف لوگوں سے ملنے میں ایک حجاب محسوس کرتا تھا،کسی نے ملادیا تو ٹھیک ہے ورنہ آگے بڑھ کر ملنے سے گریز کا رویہ رہتا تھا، اجتماع کے شرکاء میں شاید سب سے کم عمر میں ہی تھا ۔اجتماع سے لوٹنے کے بعد دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے مقام پر تحریکی کاموں میں سرگرعمل ہوگیا۔ تقریباً ایک ،دوسال کے بعد ناظم علاقہ محترم نیر الزماں صاحب نے مجھے بتایا کہ تمہارا نام شوریٰ میں زیر غور آیا ہے، دفترحلقہ میں ضرورت ہے، امیرحلقہ نے بلایا ہے ،بات آئی گئی رہ گئی،تقریباچھ ماہ بعد پھر یاددہانی کے لیے ناظم علاقہ تشریف لائے۔اس مرتبہ بہ اصرار کہنے لگے جاکر مل لو رہنا نہ رہنا ،بعد کی بات ہے ،ہم نے وعدہ کیا اورچند ماہ بعد بغرض ملاقات پٹنہ آیا،ایک بارعب شخصیت سے امیرحلقہ کے چیمبر میںملاقات ہوئی،علیک سلیک کے بعد کچھ باتیں دوٹوک انداز میں کہیں،آپ کا غائبانہ تعارف حاصل ہوا ہے، یہاں یہ کام ہے، ایسے ایسے رہنا ہے، یہ سہولت ملے گی، اس راہ کی یہ دقتیں ہیں۔ اگر آپ راضی ہیں تو آپ تیار ہوکر آجائیے اگر کوئی عذر ہوتو صاف صاف بتادیجئے ، ہم نے غور کرنے کے لیے کچھ وقت مانگا، ایک دودن دفترحلقہ میں قیام رہا ،گاندھی میدان میں کتاب میلہ گھومتے پھرتے واپس لوٹ گیا، جاکر اطمینان سے اپنے کاموں میں پھر مصروف ہوگیا،ایک عرصے کے بعد پھر ناظم علاقہ نے یاددہانی کرائی کہ تم نے کوئی جواب نہیں دیا۔امیرحلقہ نے فون کرنے کے لیے کہا ہے ،فون کرکے کچھ ہاں نہیںبتادو۔ہم نے فون کیا اور بتایا کہ انشاء اللہ آئیں گے،اس طرح 22فروری 2006کو میں باقاعدہ دفترحلقہ آگیا، اس تاریخ سے 31دسمبر2022تک قمر الہدی صاحب کے ساتھ کبھی کارکن تو کبھی رکن، کبھی مامور تو کبھی امیر،کبھی سفر میں تو کبھی حضر میں،کبھی پیدل تو کبھی سواری پر، کبھی کار میں تو کبھی جہاز میں،کبھی مسجد میں تو کبھی حجرے میں،کبھی میرے گھر تو کبھی میںان کے گھر، کبھی اجتماعات میں تو کبھی تقریبات میں ،کبھی اجلاس مجلس نمائندگا ن میں تو کبھی اجلاس شوریٰ میں،کبھی بے تکلفی کے ماحول میں تو کبھی سنجیدہ ماحول میں ،کبھی وہ ناراض ہوئے تو کبھی ہم،کبھی انہوں نے منوانے کی کوشش کی تو کبھی ہم نے۔ بالاخراس طویل رفاقت کے بیچ حضرت موت نے مداخلت کرکے فراق بینی وبینک کی دیوارآ ہنی ڈال دی۔ملنے کو نہیں نایاب ہیں ہم۔ ابھی 9دسمبر 2022کو ان کے لائق بھتیجے نجم الہدی ثانی صاحب جو مرحوم کے علمی،فکری اور تحریکی وارث بھی ہیں، ملنے آئے تھے، انہوں نے قمر صاحب کو کہا کہ ابا جی!
فیملی میں مشورہ ہواہے کہ اب آپ مل چلیں ، اباجی نے جواب دیا کہ ہم تو امیرحلقہ کے حوالے ہیں، ان سے معاہد ہ ہے ساتھ دینا ہے، امیرحلقہ جیسا کہیں ویسا ہی کریں گے ،عین تنظیمی جواب دے کر خاموش ہوگئے ،اتنے میں ان دونوں باپ بیٹے کے درمیان ہم بھی آگئے ،نجم صاحب نے اپنی بات دہرائی۔ ہم نے کہا آپ 31مارچ 2023کو گاڑی لے کر آئیے ،میقات ختم ہوجائے گی ،ہم بھی فارغ ہوکرادھر چلے اور آپ بھی ابا جی کولے کر ادھر جائیے ۔اب کیا تھا قمر صاحب ہر ملنے جلنے والے سے یہ بات کہنے لگے کہ 31مارچ کے بعد ہمیں چھٹی مل جائے گی ،امیرحلقہ نے ایسے ایسے کہا ہے، افسوس کہ قمرصاحب اس طویل تحریکی تعلق ،برسہا برس کی وابستگی کی پرواہ کیے بغیر،امیرسے معاہدہ کے برعکس ملک الموت کے حکم پر لبیک کہا اور اچھے خاصے متعلقین کو سوگوار چھوڑ کرچلے گئے۔یقینا قمر صاحب نے ظاہری معنی میں بھی اپنا وعدہ پورا کیا ،زندگی میں کبھی سمع وطاعت کی خلاف ورزی نہیں کی تو اس دائمی سفر کے موقع پر کیسے کرسکتے تھے ،در اصل وہ تنظیم کے آدمی تھے باربار اور ابھی بھی 11دسمبر2022کوناظم علاقہ کی نشست میں اس کو دہرایا کہ میقات ختم ہوتی ہے مارچ میںلیکن کارکردگی اور سرگرمیوں کے لحاظ سے میقات 31دسمبر کو ہی ختم ہوجاتی ہے، جنوری سے لیکر مارچ تک کی کارکردگی کا شمار اور رپورٹ آئندہ میقات میں ہوگی ، وہ تو یہاں کام کے لیے رکے تھے ،دیکھا کہ کارگردگی اور سرگرمی دسمبر کی آخری تاریخ تک ختم ہوجارہی ہے تو آگے رک کر کیا فائدہ ،وعدہ بھی پورا ہوجارہا ہے ،اطاعت امیر بھی ہوجارہی ، وصیت نامہ لکھا ہوا تھا،اعمال صالحہ کا ذخیرہ جمع ہوچکا ہے، کمی ،کوتاہی کا کفارہ اس دس دن کی علالت میں ادا ہی ہوچکا ہوگا، بس سلام دعاء کرتے ہوئے سب دن کے لیے ملک عدم کے سفر پر روانہ ہوگئے۔
نبیادی طور پر قمرصاحب تنظیم کے آدمی تھے وہ بہترین منتظم اور ایڈمنسٹریڑتھے ،ذاتی اور جماعتی دونوں زندگی میں اس کو برتتے تھے ۔نظم اورڈسپلن ان کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکا تھا، نہ صرف تحریکی وتنظیمی زندگی میں بلکہ وہ اعزا واقربا اور بے تکلف دوستوں سے بھی یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی نظم اور ڈسپلین کا مظاہرہ کریں ۔ اس میں کمی کوتاہی بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ دفترکے لیے جو اوقات متعین تھے وہ خود کم ازکم دس ،پندرہ منٹ پہلے پہنچتے تھے۔سارے اسٹاف سے وہ توقع رکھتے تھے کہ سب اس کی پابندی کریں، تاخیر سے آنے پر ان کی ناپسندید گی چہرے سے عیاں ہوجاتی تھی ،اسٹاف میٹنگ میں اس کا برملا اظہار کرتے، ان کے دور امارت میںبعض اسٹاف جب جمعرات کو گھر جاتے تو سینیچر یا اتوار کو دفترلوٹنے میںتاخیر ہوجاتی، بسااوقات ظہر تک پہنچتے ،مرحوم کو یہ بات سخت ناپسند تھی ،جب تذکیر سے بات نہیں بنی تو انہوں نے ضابطہ لایا کہ جو کوئی 12بجے دن کے بعد آئے گا، ان کی اس دن غیر حاضری تسلیم کی جائے گی۔ اسی طرح نظماء علاقہ جات کو مقامات سے رپورٹ ترسیل کرنے کی ہدایت دیتے کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے،لیکن نظماء علاقہ بھی اس معاملے میں اکثرناکام ثابت ہوتے ،اس پر انہوں نے ایک ضابطہ وضع کیاکہ جن مقامات کا ناظم علاقہ نے دورہ کیا ہو اوروہ وہاں کی رپورٹ نہ لاسکیںاس دورے کا واوچر پاس نہیں ہوگا۔ اس ضابطے سے ترسیل رپورٹ کے نظام میں کچھ بہتری آئی لیکن یہ ضابطہ بہت دن نہیں چل سکا، اس زمانے میں رپورٹ تیار کرنے کی ذمہ داری میری تھی۔مرکزکے مختلف شعبہ جات سے جب راست سرکلر آتے تو وہ ناراض ہوتے ،کہتے یہ سارے سرکلرس یا تو قیم جماعت کی طرف یا شعبہ تنظیم کی طرف سے آنے چاہئیں ،ایک مرتبہ یہ بات انہوں نے نمائندگان کے اجلاس میں اٹھائی اور کہا کہ یہ بات مناسب نہیںہے۔خود بھی نظم کے سارے تقاضے کما حقہ پورے کرتے ،میں نے اپنی امارت کے اس عرصے میں دیکھا ،جب کوئی کام ان کو سپردکیا جاتا کام مکمل ہوتے ہی رپورٹ کرتے، مزید کام ملے اس کے لیے بالعموم یہ جملہ استعمال کرتے’’ میرے ٹیبل پر کوئی کام نہیں ہے‘‘۔ ہم ان کے لیے کاموں کو نوٹ کرکے رکھتے تھے جیسے ہی قمرصاحب کہتے ’’میرے ٹیبل پرکوئی کام نہیں ہے‘‘، ہم کاموں کی ایک چھوٹی سی پرچی ان کے حوالے کردیتے اور وہ خوش ہوجاتے، کیوں کہ گذشتہ میقات میں ان کو کام کم ملا، امیرحلقہ نے احترام میں اور کچھ تکلف میں بھی کہ سب سے سینئر،بزرگ شخصیت ہیں،ہمارے امیررہ چکے ہیں،کیا کام دیا جائے اورکیا لیا جائے،کام کم دیتے یا کم لیتے،قمرصاحب نے اسے اپنے تقوی کے معیار پر ڈھالنے کے لیے اپنے کفاف میں تخفیف کروالیا۔ ہم نے مرحوم سے پوچھا بھی کہ آپ نے رقم کیوںکم کروالی، کیا پیسے کی ضرورت نہیں ہے۔ بولے مولانا! پیسے کی ضرورت کس کو نہیں ہے، پرکام ہی نہیں کررہے ہیںتو پیسے کیا لیں گے۔شایدہی سرکاری نیم سرکاری کارپوریٹ ،یا دینی ملی جماعت کا کوئی اسٹاف ،سکریٹری اپنے ذمہ دار سے کام مانگتا ہو اور کام ملنے پر خوش ہوتا ہو۔یہ صرف قمر الہدی صاحب کا ہی وصف تھا۔
نظم اور ڈسپلن کے معاملے میں اس قدر محتاط تھے کہ دوروں اور سفر میںطعام، قیام سب کچھ پہلے سے طے ہوتا ،کب کیا کھانا ہے ،کیا نہیں کھانا ہے،جو چیزیں نہیں کھانی ہیں وہ کسی کے اصرار پر بھی نہیں کھاتے ،جتنا کھانا ہے اس سے ایک لقمہ زیادہ نہیں کھاتے۔ کس موسم میں کیا پہنناہے، سردی کے کپڑوں میں نومبرکی کن تاریخوں تک دھوپ لگوادینا ہے ،یہ سب طے شدہ وقت پر کرتے تھے،ڈسپلن کی خلاف ورزی قطعانہیں کرتے ،ادھر سال بھر سے یہ کہہ رہے تھے کہ اب مجھے دفتر میں لگاتار بیٹھنے میں زحمت ہوتی ہے، میرے لیے کوئی ضابطہ بنادیجیے، ہم نے کہا آپ دیر سے آئیے اور پہلے چلے جائیے ،آپ ہم سب میں سینئیر ہیں،عمر کا تقاضا ہے ۔یہ عین شرعی عذر ہے، لیکن وہ اس کے لیے آمادہ نہیں ہوئے ،حسب معمول آتے رہے، ہم نے توجہ دلائی توبولے ، ضابطے کے بغیر کیسے دیر سے آئیں اور پہلے جائیں ، پھر ہم نے باقاعدہ آنے جانے کے لیے اوقات کا تعین کردیا اس کے بعد وہ اسی کے مطابق آنے جانے لگے ۔ان کے بیشتر رشتہ دار اور ملاقاتی جانتے ہیں کہ پہلے وہ لال چائے(بغیر دودھ کی چائے) کسی مجبوری اور شوق میں بھی نہیں پیتے تھے لیکن جب ڈاکٹر نے منع کردیا تو دودھ والی چائے کبھی غلطی اور مجبوری میں بھی لب تک نہیں جانے دی،اصول اور نظم ان کے ذہن ودماغ پر اس طرح حاوی تھا کہ وہ ہاسپٹل میں بھی بد نظمی اور بے ضابطگی کی شکایت کرتے تھے کہ یہاں توکھانے پینے اور نمازوں کا کوئی ٹائم ٹیبل ہی نہیں ہے۔سب کام بے ٹائم ہوتا ہے۔
قمر صاحب وقت کے بہت پابند تھے،جو وقت دیا جاتا اس سے قبل ہر طرح سے تیار رہتے، کہیں جانا ہوتا تو گراؤنڈفلور پردس منٹ پہلے پہنچ کر انتظار کرتے،برسہابرس کے عمل سے ڈرائیور بھی قبل ازوقت آنے کا عادی ہوچکا تھا،دفتر میں دس پندرہ منٹ پہلے آتے، اجلاس، اجتماعات میں سب سے پہلے پہنچتے،کبھی کسی وجہ سے پانچ دس منٹ تاخیرہوتی تو پیشگی اطلاع کرتے،سب کام وقت پر کرتے، طے شدہ پروگرام میں بروقت تقدیم تاخیر ہوتی تو ناپسندیدگی کا اظہار کرتے۔
مرحوم معاملات کے بڑے صاف ستھر ے تھے، کسی سے کوئی لین دین کرتے تو پائی پائی کا حساب رکھتے، اکثر کاموں کے لیے دوسروں کا سہارا ان کو لینا پڑتا تھا، سارے لوگ گواہ ہیں یا تو پیشگی رقم ادا کرتے ،یا پھر آتے ہی بلاتاخیرسب سے پہلے حساب معلوم کرتے اور پائی پائی ادا کردیتے۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔17
بیت المال کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی محتاط رہتے۔دفترکی گاڑی جب بھی ذاتی ضرورت کے تحت استعمال کرتے فوراًرقم ادا کرتے۔
ان کی زندگی کا ایک ابھراہوا پہلو صلہ رحمی ہے، وہ رشتہ داروں، اعزہ واقرباء کا خاص خیال رکھتے،رشتے ناتے کے تقاضے حتی المقدور ادا کرتے،ہرایک کے کام آتے، بسااوقات اس معاملے میں وہ استطاعت سے زیادہ کرتے۔کسی کے یہاں شادی بیاہ ہو،کسی کو گاڑی اور سواری کی ضرورت ہو، کسی کو اپنے جانور کی قربانی کروانی ہو،کسی کو علاج معالجہ کی ضرورت ہو، الغرض ہر طرح کی ضرورت کی تکمیل کے لیے کوشاں ہوجاتے۔
بعض رفقاء اس کو نوٹس میں بھی لاتے۔اسی طرح تحریکی رفقاء کا بھی خیال رکھتے،بالخصوص معاشی اعتبار سے کمزور رفقاء کی مالی معاونت کرتے بھی اورکروانے کی کوشش بھی کرتے،کمزور رفقاء ان کی نظر میںہوتے،رفقاء اور رشتہ داروں کی خوشی و غم میں شریک ہونے کی کوشش کرتے۔گذشتہ تین سالوں سے وہ ہمارے سب سے قریبی پڑوسی تھے ،ہمیشہ انہوں نے پڑوسی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔
امارت مقامی کے دوران ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا نادر واقعہ پیش آیا جس سے پٹنہ کی جماعت میں ایک ہنگامی کیفیت پیدا ہوگئی تھی،قمر صاحب نے بہ حیثیت امیرمقامی جماعت کو بحسن وخوبی اس موقع پر سنبھالا۔امارت مقامی کے ہی دوران بلاسودی سوسائٹی قائم کی،1994میں جناب احمد علی اخترصاحب امیرحلقہ تھے، ان کی علالت کی وجہ سے وسط میقات میں امارت کی منتقلی کا مسئلہ درپیش تھا۔ کسی موزوں شخصیت کی تلاش تھی، مرکز سے جناب شفیع مونس ؒ صاحب تشریف لائے، اور افہام وتفہیم کے بعد عارضی مدت کے لیے جناب قمر الہدیؒ صاحب کو امارت حلقہ کا چارج دے کر چلے گئے۔جب نئی میقات اپریل 1995میں شروع ہوئی تو باقاعدہ امیرحلقہ کی حیثیت سے قمر صاحب کی تقرری عمل میں آئی۔اس طرح تقریبا ساڑھے چار میقات امارت حلقہ کی گراں بار ذمہ داری کا حق ادا کیا، ،امارت حلقہ کی خوبیاں اور خامیاں کیا رہی ہیں یہ تو ڈاکٹر حسن رضا صاحب، احمد علی اختر صاحب یا محترم محمدجعفر صاحب ہی بہتر بتاسکتے ہیں، تاہم 14مارچ 2022کو معروف صحافی آصف عمر صاحب کوایک انٹرویو میں بتایا کہ’’ ہم نے کوئی بڑا کام تو نہیں کیا تاہم امارت ملتے ہی بہار کے تمام علاقوں میں علاقائی نظم قائم کیا اور ہمہ وقتی ناظم بحال کیا جس سے نئے مقامات تک کام کی توسیع ہوئی ،بیت المال جو خسارے میں ہوا کرتا ہے اسکو مستحکم کیا ،دفترحلقہ کی نئی عمارت کی تعمیر کاکام شروع ہوا جس کی تکمیل 2010میں ہوئی اسی اثنا میں بہار سے جھارکھنڈ الگ ہوا تو ریاست کی تقسیم کے ساتھ ہی جماعت کا نظم بھی الگ کیا گیا،بہار میں افراد کم ہوگئے ،ایریا چھوٹا ہوگیا ،ازسرنو کام کو منظم کیا گیا ‘‘۔میں ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ قمر صاحب کے دور امارت میں تنظیم میں’’داخلی استحکام‘‘ پر خصوصی توجہ رہی اور مرحوم اس میں کامیاب رہے۔ جماعت کی اندرونی صورتحال کو بنیان مرصوص کے معیار تک لانے کی خاطرخواہ کوشش رہی، رفقاء کے درمیان میں رحماء بینھم کی کیفیت پیدا کرنے کی جانب خاصی توجہ دی گئی،نظم جماعت کو چست و درست رکھنے کو آپ نے ترجیح دی،مسائل پر مسائل جنم نہیں لینے دئیے ،کوئی مسئلہ پیداہوا نہیںکہ تدارک کی کوشش میں لگ گئے ۔دفتری نظام کو معیاری سے معیاری بنانے کی طرف متوجہ رہے ،کیوں کہ آپ کو اس میں خاص ملکہ حاصل تھا ،جب آپ دفتر حلقہ میں تشریف لائے تو ڈاکٹر سید ضیاء الہدیؒ صاحب مرحوم نے آپ کو دفتری نظام کو درست کرنے اور سلیقہ اور قرینہ سے ترتیب دینے کی ہدایت کی،اسی زمانے میں دفترحلقہ میں ٹیبل کرسی کا نظم قائم کیا گیا۔آج بھی پورے ملک میں جن چندحلقوںمیں دفتری نظام چستو درست ہوگا ان میں بہار کا نام سرفہرست ہوگا،یہ خالص مرحوم کا حصہ ہے۔ اس کودیکھتے ہوئے مرکز نے بھی خواہش کی تو ایک ماہ مرکز میں رہ کر وہاں بھی فائلنگ وغیرہ کے نظم کو درست کروایا۔ آپ کے دور امارت میں بڑی بڑی مہمات چلیں جیسے ہفتہ امن ومحبت،حقوق انسانی مہم ،ہفتہ اتحاد امت، جھارکھنڈ تعمیر نو،عوامی بیداری مہم، تحفظ حقوق انسانی مہم، تعارف قرآن مہم، اسلامی خاندان مہم، استعمار مخالف مہم،کاروان امن وانصاف، خاتم الانبیاء کا لایا ہوا نظام زندگی، قرآن پڑھو،قرآن سمجھو مہم، وغیرہ وغیرہ۔1990کے آس پاس مرحوم کی تحریک پرآبائی گاوں’’ ململ ‘‘میںاصلاح معاشرہ کی تحریک شروع ہوئی،اس کا بنیادی مقصد شادی بیاہ کے موقع پر مروجہ رسومات کا خاتمہ اور اسراف وفُضول خرچی سے تقریبات شادی کو پاک کرنا تھا ۔ اس کے لیے لڑکیوں میں تعلیمی بیداری کی تجویز خود مرحوم کی جانب سے آئی چنانچہ ململ میں’’ صفاگرلس اسکول ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔الحمدللہ یہ ادارہ گذشتہ تین دہائی سے بچیوں کی تعلیم وتربیت میں اہم رول ادا کررہا ہے۔
جماعت اسلامی ہندکی تاریخ میں قمرالہدیٰ صاحب کی حیثیت ایک عہد ساز شخصیت کی ہے، آزاد ہندوستان میں جماعت اسلامی ہندکے بیشتر قائدین سے ان کی ملاقات تھی ،اکثر کی صحبت نصیب ہوئی،خواہ مولانا ابواللیث اصلاحی ؒ ہوں یا مولانا محمد یوسفؒ، مولانا سراج الحسن ؒ صاحب ہوںیا ڈاکٹر عبد الحق انصاریؒ صاحب ، مولانا سید جلال الدین عمریؒ صاحب یا موجودہ امیرجماعت جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب —سب سے ملاقات ،استفادہ اورکام کرنے کا موقع انہیںملا ۔لیکن وہ کہتے تھے سب سے زیادہ بے تکلفی مولانا سراج الحسن ؒ صاحب سے رہی۔ اسی طرح بہار کے جملہ قائدین تحریک سے شرف ملاقات اور استفادہ کا موقع ملا، حسنین سیدؒ صاحب کے قائم کردہ ’’بزم حسنات‘‘ کے تو مرحوم باقاعدہ ممبررہے ،اس کے بعدانیس الدین صاحب مرحوم ،مولانا سلمان ندوی ؒ اور مرحوم عبدالباریؒ صاحب سے بھی کچھ نہ کچھ استفادے کا موقع ملا،لیکن باقاعدہ ڈاکٹرسید ضیاء الہدیؒ صاحب کی امارت میں رکن بنے اور ذمہ داری نبھانے کاموقع ملا،اس کے بعد محمدجعفر صاحب اور احمد علی اختر صاحب کے دور امارت میں باقاعدہ ساتھ کام کرنے اور معاونت کا فریضہ انجام دینے کا موقع ملا،آخر میں محترم نیرالزماں صاحب کی امارت میں شعبہ تربیت کے سکریٹری رہے اور ناچیز کی امارت میں آخری سانس تک دفتری نظام اور شعبہ تنظیم کی سرگرمیاں کماحقہ ادا کرتے رہے۔بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے آخری سانس تک کسی تحریک ،تنظیم کی خدمت انجام دی ہواور اس تنظیم نے بھی اسے آخری وقت تک قبول کیا ہو۔ یہ شرف حالیہ دنوں میں مولانا سید جلال الدین عمریؒ صاحب، مرحوم نصرت علیؒ صاحب اور قمرالہدیٰؒ صاحب کو حاصل ہوا۔ اللہ تعالی تمام مرحومین کے ساتھ مرحوم قمر الہدیٰ کی بھی خدمات کو قبول فرمائے ، سئیات اورگناہوں کو معاف فرمائے اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائے آمین۔
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہندبہارکے امیر حلقہ ہیں)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 فروری تا 11 فروری 2023