زعیم الدین احمد حیدرآباد
ریاستی حکومتوں کو بے بس کردینے سے عوامی نمائندگی پرضرب پڑے گی
گزشتہ دنوں وزیر اعظم جناب نریندر مودی کو ہمیشہ کی طرح یکساں یونیفارم کا دورہ پڑا۔ روز اول سے ان کی دلی خواہش رہی ہے کہ ملک میں ہر چیز یک رنگی ہو جائے۔ ایک ملک ایک ٹیکس کے نام پر جی ایس ٹی قانون لاگو کیا گیا۔ ‘ایک ملک ایک بازار’ کے نام پر زرعی قوانین لائے گئے لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ ‘ایک ملک ایک الیکشن’ یعنی ایک ہی وقت میں سارے ملک میں انتخابات کروانے کی بڑی کوششیں چل رہی ہیں۔ اور اب ان پر ‘ایک ملک ایک زبان’ کا بھوت سوار ہے تاکہ ملک میں ایک ہی زبان چلے۔ کہا جا رہا ہے کہ سارے شہری یہ زبان لازمی سیکھ لیں، اب تو ایم بی بی ایس کی تعلیم بھی ہندی میں ہونے والی ہے۔ اسی طرح ‘ایک ملک ایک راشن کارڈ’ کا قانون لاگو ہونے جا رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ریاستی وزرائے اعلیٰ اور وزرائے داخلہ کے اجلاس میں اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں پولیس کا ایک ہی یونیفارم ہونا چاہیے تاکہ پولیس کو آسانی کے ساتھ پہچانا جا سکے۔ ایک ہی یونیفارم ہو نہ ہو پولیس کو پہچاننے میں شاید ہی کسی کو مشکلات پیش آتی ہوں کیوں کہ پولیس کو اس کے کردار سے کو پہچانا جاتا ہے۔ مودی جی کا پیش کردہ یہ جواز مضحکہ خیز ہی نہیں بلکہ حقیقت کے بھی بالکل الٹ ہے۔ محض اسی ایک وجہ سے پولیس کا یونیفارم یکساں کرنا بے عقلی کی بات نظر آتی ہے۔ کیا اس کے پس پردہ کوئی اور بات ہے جس کو وہ ظاہر نہیں کر رہے ہیں؟ کیوں کہ اکثر ان کے فیصلوں میں پس پردہ کوئی راز ضرور پوشیدہ ہوتا ہے، جیسے جی ایس ٹی کو لاگو کرنے میں یہ راز تھا کہ سارے مالیہ کا نظام مرکز کے ہاتھوں میں آجائے۔ ریاستی حکومتیں بھکاریوں کی طرح مرکزی حکومت کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی رہیں۔ پھر اسی طرح زرعی قوانین کے ترامیم کے پیچھے بھی راز یہ تھا کہ اپنے سرمایہ دار دوستوں کو پورے بازار پر قبضہ کرنے کی راہیں ہموار کی جائیں، اب اس کے پس پردہ بھی یہی نظر آتا ہے کہ پولیس کا کنٹرول ریاستی حکومتوں سے مرکزی حکومت کے تحت آجائے۔
وزیر اعظم مودی نے اجلاس میں کہا کہ یہ صرف ایک خیال ہے حکم نہیں ہے۔ اس بابت ریاستوں کو سوچنا چاہیے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کبھی نہ کبھی یہ لاگو ہو گا۔ انہوں نے اس کے جواز میں ڈاک خانے کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ساری دنیا میں ہر جگہ ڈاک خانے کا رنگ سرخ ہی ہوتا ہے۔ لیکن ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ پولیس اور ڈاک خانہ ایک ہی چیز نہیں ہیں۔ ڈاک خانہ کوئی جان دار شئے نہیں ہے جس کے مختلف رنگ ہوں۔ اس کا یک رنگ ہونا اس لیے ضروری ہے کہ لوگ آسانی سے جان لیں کے یہ ڈاک خانہ ہے۔ بازاروں میں یا بھیڑ بھاڑ کے علاقوں میں اس کو آسانی کے ساتھ پہچانا جاسکے، لیکن پولیس کا معاملے بالکل مختلف ہے۔ اس کو کسی بھی لباس میں پہچانا جاسکتا ہے۔ چاہے وہ مفلر ہی میں کیوں نہ ہو۔ ڈاک خانہ ایک ہی جگہ ہوتا ہے وہ اپنے آپ کوئی حرکت نہیں کر سکتا جب کہ پولیس والا ایک آدمی ہوتا ہے جو حرکت کرتا ہے وہ ہمیشہ ایکشن میں رہتا ہے۔ لہٰذا اس کو پہچانا مشکل کام نہیں ہے۔ یہ بات یہاں کہی جا سکتی ہے کہ سارے ملک میں پولیس کا ایک ہی یونیفارم رہنے میں کیا غلطی ہے؟ حقیقت میں اس بات میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ہی یونیفارم ہو اور ایک ہی یونیفارم ہونے میں کسی کوئی اعتراض بھی نہیں ہوسکتا لیکن اس کے پیچھے کے اصل راز کو جاننا بھی ضروری ہے۔
2016 میں نیتی آیوگ نے مرکزی حکومت کو "اسمارٹ پولیس” کے نام سے ایک تجویز پیش کی تھی جس میں یہ بات کہی گئی تھی کہ پولیس کا نظام اب تک ریاستی حکومتوں کے تحت ہی ہے یعنی دستوری اعتبار سے پولیس ریاستی موضوع ہے (اسٹیٹ سبجیکٹ) اس نظام کو کنکرنٹ لسٹ یعنی ایسی فہرست جس میں مرکزو ریاست دونوں مل کر طے کیے جانے والے معاملات مثال کے طور پر تعلیم، ٹریڈ یونین، جنگلات، شادی بیاہ وغیرہ کنکرنٹ لسٹ میں آتے ہیں۔ ان مسائل پر ریاستی حکومت و مرکزی حکومتیں دونوں قانون سازی کرسکتی ہیں لیکن جب قانون پر نزاع پیش آتا ہے تو ایسے وقت میں مرکز کا بنایا ہوا قانون ہی لاگو ہوتا ہے۔ یہ صرف نام کے لیے بین فہرست ہے، سارے فیصلے مرکز ہی لیتا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں مرکز ہمیشہ سے یکطرفہ طور پر ہی فیصلے کرتا رہا ہے۔ نیتی آیوگ کی تجویز یہ ہے کہ پولیس کو اس لسٹ میں داخل کر دیا جائے۔ نیتی آیوگ کی حیثیت یہ ہے کہ جو بات وزیر اعظم کو راست طور پر نہیں کہنی ہوتی ہے وہ نیتی آیوگ کے ذریعہ کہلواتے ہیں کیونکہ نیتی آیوگ مودی کے دماغ کی اپج ہے۔ اسی طرح مئی 2022 میں بیبیک دیبرائے جو وزیر اعظم کے کمیٹی برائے معاشی امور کے چیرمن ہیں، انہوں نے "گوڈ کاپ” کے عنوان سے ایک مضمون اخبار انڈین ایکسپریس میں لکھا، اس میں بھی یہی بات کہی گئی اور نیتی آیوگ کی سفارش پر مہر تصدیق ثبت کی۔ ان دونوں یعنی نیتی آیوگ اور بیبیک دیبرائے کی باتوں کو اور مودی جی کی تجویز کو جوڑ کر دیکھا جائے توبات آئینہ کی طرح صاف ہو جاتی ہے کہ اصل بات پولیس کے لیے یکساں یونیفارم کی نہیں ہے بلکہ پورے پولیس نظام کو ریاستی حکومت کے دائرے اختیار سے نکال کر مرکزی حکومت کے تحت کرنے کی ہے۔ اب تک پولیس نظم و نسق (لااینڈ آرڈر) ریاست کے تحت ہے، یکساں یونیفارم مطلب صاف طور پر یہی ہے کہ اس شعبے کو بھی مرکزی حکومت کے تحت ہونا چاہیے۔ اب تک مرکزی حکومت نے بہت سارے معاملات جیسے تعلیم جو اس فہرست میں تھی، اس پر بھی مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کے نام پر ریاستوں کی عمل داری کو ختم کر دیا ہے۔ اسی طرح برقی شعبہ ہے جو اسی فہرست کے تحت ہے، اس پر بھی قانون سازی کردی گئی۔ سنٹرل پاور ایکٹ کے نام سے ریاستوں کو اعتماد میں لیے بغیر یہ سارے قوانین مدون کیے گیے ہیں اور اس فہرست کے بہت سارے معاملات مرکزی حکومت نے اپنے تحت کر کے ریاستی حکومتوں کو مفلوج کر رکھا ہے۔ اب پولیس نظام کو بھی اپنے تحت کرکے وفاقی ڈھانچے پر کاری ضرب لگانے کی پوری تیاری کی جارہی ہے، جبکہ پولیس ریاستی موضوع ہونے کے باوجود مرکز اندرونی سیکوریٹی کے نام پر ریاستوں میں مرکزی ایجنسیوں کے ادارے قائم کر رہا ہے جو پولیس نظام میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ ہم آئے دن دیکھ رہے ہیں کہ پولیس کسی معاملے میں تحقیقات کر رہی ہوتی ہے تو اسے سی بی آئی کے حوالے کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر این آئی اے کے ادارے قائم کیے جا رہے ہیں اور پولیس تحقیقات میں راست طور پر مداخلت کی جا رہی ہے۔ اب اگر ریاستی پولیس بھی مرکزی حکومت کے ماتحت ہو جائے گی تو پھر ریاستی حکومتوں کا اور ریاستی عوامی نمائندگی کا کیا ہو گا اور ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ یہ ساری باتیں ہیں جو غور طلب ہیں۔
***
***
اب اگر ریاستی پولیس بھی مرکزی حکومت کے ماتحت ہوجائے گی تو پھر ریاستی حکومتوں کا کیا ہوگا ؟ وہ تو پھر مٹی کے ماو بن کر رہ جائیں گے ، جن کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہوگا ، اس صورت حال میں پھر ریاستی عوامی نمائندگی کا کیا ہوگا؟ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ یہ ساری باتیں ہیں جو غور طلب ہیں ۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ مرکزی حکومت اپنی اجارہ داری ریاستی حکومتوں پر تھوپتی چلی جارہی ہے ، اس طرح کی اجارہ داری ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 نومبر تا 19 نومبر 2022