اوراب مسلم ۔سکھ اتحادکے خلافسازش۔۔!

گرو گوبند سنگھ کے دو بیٹوں کے قتل کی فرضی کہانی ۔تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی منظم کوشش

خلیق احمد،نئی دلّی

مغل حکمرانوں کےتعلق سے کذب بیانی۔ ’ویربال دیوس‘ کے موقع کا استعمال
26 دسمبر 2022ء کو دارالحکومت دلی میں مرکزی حکومت نے ’’ویربال دیوس ‘‘کا اہتمام کیا تھا جس میں چہل پہل، طمطراق اور بہت زیادہ گہما گہی کا مظاہرہ کیا گیا تھا اور درحقیقت اس دن کو گرو گوبند سنگھ کے دو نابالغ بیٹوں کی شہادت کے دن کے طور پر یادگار بنانے کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس محفل کے مہمان خصوصی بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی تھے۔ انہوں نے اس موقع پر ایک نہایت جذباتی تقریر کی جس کے ذریعے انہوں نے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دراصل گرو گوبند سنگھ کے دو بیٹوں کا قتل اس وقت کے مسلم حکمرانوں کی سرپرستی میں ہوا تھا۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ سکھوں کے دسویں گرو، گرو گوبند سنگھ کے نو سالہ بیٹے صاحبزادہ زور آور سنگھ اور سات سالہ بیٹے صاحبزادہ فتح سنگھ، دونوں کو بلا وجہ بلا قصور قتل کر دیا گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کا قتل سکھوں اور مغلوں کے درمیان مذہبی جنگ کی وجہ سے ہوا تھا۔ تاریخ خود گواہ ہے کہ مغلوں کا گرو گوبند سنگھ یا سکھ قوم کے ساتھ کوئی دشمنی ، نفرت یا جھگڑا کبھی نہیں تھا۔ سکھ قوم خود ہندو پہاڑی راجاؤں کی سازش کا شکار تھی اور ان کے ساتھ تمام لڑائیاں صرف اس غلط فہمیوں کی وجہ سے ہوئیں۔ لیکن افسوس وزیراعظم نریندر مودی نے اس موقع پر اپنی تقریر کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان دونوں سکھ شہزادوں کو جنہیں صاحبزادے کہا جاتا تھا، کے قتل کا اصل محرک مذہبی منافرت ہی تھا۔ اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ ان دونوں شہزادوں کو مسلمان حکمرانوں نے، اس لیے قتل کیا تھا کیوں کہ انہوں نے مذہب اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دراصل سکھوں کے ذہنوں میں اسلام کے خلاف نفرت کا زہر گھولنے کے لیے اور مسلمانوں کے خلاف ان کے دلوں میں دشمنی پیدا کرنے کے لیے، ایسے من گھڑت اور فرضی واقعات کو بنیاد بنا کر تنازعات کی شکل دینے کی سازش رچی گئی ہے۔ آپ خود ہی غور کیجئے کہ کیا سات آٹھ سال کے بچے کسی بھی مذہب کے بارے میں کچھ بھی جانتے ہیں۔ مزید یہ کہ قرآن مجید کسی بھی بالغ غیر مسلم شخص کو اسلام قبول کرنے اور مسلمان بننے پر مجبور کرنے سے سخت منع کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے ان صاف صاف احکامات کی خلاف ورزی کر کے کوئی بھی مسلمان اپنے آپ کو صحیح مسلمان کہلوانے کے لائق نہیں رہتا اور یہی حقیقت اس من گھڑت منطق کی تردید کرتی ہے کہ ان دو نابالغ سکھ شہزادوں کو مسلمانوں نے پھانسی دے کر قتل کردیا کیوں کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ شاید اسلام اور مسلمانوں پر اس طرح کے ناپاک الزامات لگانے سے پہلے انہوں نے اپنی عقل کا بالکل استعمال نہیں کیا۔
اسی دن ’’ویر بال دیوس‘‘ منانے کی مذمت
حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ امرتسر میں قائم شرومنی پر بندھک کمیٹی نے بھی، جوسکھ برادری کی سب سے بڑی نمائندہ مذہبی تنظیم ہے، اس یادگار دن کے عنوان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح موقع پرست اور فرقہ پرست عناصر کی جانب سے دراصل سکھوں کی تاریخ اور ان کی شناخت اور سکھ مذہب کو کمزور کرنے کی ایک گہری سازش رچی جارہی ہے۔ دراصل کمیٹی چاہتی تھی کہ اس تقریب کا نام ویر بال دیوس کے بجائے صاحبزادے شہادت دیوس کے طور پر منایا جائے جس سے اس سے وابستہ قتل کیے جانے کی فرضی کہانی کا ذکر ختم ہوجائے اور تقریب کا صحیح مفہوم اجاگر ہو۔ لیکن بی جے پی کی موجودہ مرکزی حکومت نے تجویز کو نظر انداز کرتے ہوئے گویا اس پر عمل کرنے سے صاف انکار کردیا۔ سکھ ذرائع کے مطابق موجودہ حکومت، پر بندھک کمیٹی کی اس تجویز سے بالکل اتفاق نہیں کرتی کیوں کہ اس عنوان میں انہیں اردو اور فارسی زبان سے اخذ کیے گئے الفاظ ہیں ’شہادت‘ اور ’شہزادے‘ جن پر بی جے پی کو سخت اعتراض ہے کیوں کہ ان دونوں الفاظ کا تعلق مسلمانوں کی زبانوں سے ہے۔ سکھ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ 14 نومبر کو بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی سالگرہ بھی منائی جاتی ہے، جس کی اہمیت کو کم کرنا بی جے پی کی ترجیحات میں شامل ہے۔ یہ دن ’بچوں کے دن‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بی جے پی اپنے ایجنڈے کے مطابق چاہتی ہے کہ بھارت کی سیاسی تاریخ سے گاندھی خاندان کے تمام نشانات باضابطہ اور مسلسل مٹائے جائیں۔
1984 میں سکھوں کے قتل عام پر خاموشی؟
حیرت کی بات ہے کہ بی جے پی زیرقیادت مرکزی حکومت، صدیوں پہلے ہوئے سکھ شہزادوں کے قتل عام پر بال ویر دیوس منانے پر مصر ہے لیکن 1984 میں دلی میں ہونے والے سکھوں کے قتل عام کے خلاف ان کی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکلتا۔ سب جانتے ہیں کہ دلی میں تین ہزار سے زیادہ سکھ مرد، خواتین اور بچوں کا جگہ جگہ بے دردی کے ساتھ قتل عام کیا گیا تھا۔ اپنی جان بچانے کے لیے کئی سکھوں نے اپنی ڈاڑھی منڈوا کر، بال کٹوا کر، پگڑیاں نکال کر، اپنی شناخت مٹا کر، اپنی جانیں بچائی تھیں۔ یہ وہ سکھ قوم ہے جن کا دلی کی تجارتی منڈی پر مکمل غلبہ تھا لیکن 1984 کے مخالف سکھ فسادات کے بعد انہوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا، یہاں تک کہ شہر دلی بھی چھوڑ دیا اور پتہ نہیں ملک کے کن کن علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔ مسلمانوں کی طرح آج سکھ برادری بھی اپنی زندگی اور اپنی املاک کو بچانے کی خاطر ، خوف زدہ ہو کر دلی میں اپنی برادری کے ساتھ مخصوص علاقوں میں رہنے پر مجبور ہے۔
17 دسمبر 1941 کو جرمنی میں چھ ہزار 6000 یہودیوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ جرمن حکومت نے یہودیوں کے اس قتل عام کی یاد گار قائم کرنے کے لیے شہر نو گروڈوک میں ایک میوزیم تعمیر کیا۔ اس طرز پر دلی میں 1984 میں ہونے والے 3000سکھوں کے قتل عام اور ان پر ڈھائے گئے مظالم کی یادوں کو ہماری آنے والی نسلوں کو یاد دلانے کےلیے کیوں ایک یادگار میوزیم قائم نہیں کیا گیا ؟
برطانوی حکمرانوں کی جانب سےبہادرشاہ ظفر کےدو شہزادوں کے سر قلم کیے جانے کو حکومت کیوں نظر انداز کرتی ہے؟
بادشاہ بہادر شاہ ظفر ، جنہوں نے 1857 کی بھارت کی آزادی کے لیے منظم کیے گئے ایک عظیم الشان احتجاج برائے آزادی ہند کی قیادت کی تھی، انہیں انگریز حکمرانوں نے قید کر دیا اور ان کے دو بیٹوں کو انہیں کرسچین حکمرانوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا اور پھر ان کی نعشوں سے سر جدا کر کے دونوں سروں کو دلی گیٹ پر لٹکا دیا گیا تھا جسے اب ’’خونی دروازہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اتناہی نہیں، اس کے بعد ، انگریزوں نے ان شہزادوں کے سروں کو ان کے 87سالہ باپ یعنی بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو ان کے قید خانے میں ایک تھال میں رکھ کر پیش کیا تھا جو اس وقت انگریزوں کی قید میں تھے۔ انہیں اس طرح ذلیل ورسوا کیا گیا کیوں کہ انہوں نے جدو جہد آزادی ہند کی قیادت کی تھی ۔ مرکزی حکومت اس پورے تاریخی حادثے کے بارے میں کیوں خاموش رہتی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی جنگ اور اس کی ترقی و خوشحالی میں مسلمانوں کے کسی بھی تعاون اور کوششوں کویاد رکھنا یا ان کا ذکر بھی کرنا ، اسے سیاسی اعتبار سے ہرگز گوارا نہیں۔
سکھ صاحبزادوں کو پھانسی کے پس پردہ محرکات کیا تھے؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا آنند پور کے ایک قصبے میں مقیم گرو گوبند سنگھ 3کے خلاف لڑائیاں کرنے والی ہندو پہاڑی راجہ کی فوج اور ان ہند و راجہ کی مدد کرنے والی فوج کے درمیان مذہب کو لےکر جنگیں ہوئی تھیں؟ کیاگرو گوبند سنگھ کے دونوں صاحبزادوں کو اورنگ زیب کے حکم پرموت کے گھاٹ اتارا گیاتھا؟ علاقہ سرہند میں گرو گوبند سنگھ کے ایک برہمن خزانچی سے وہاں کے مغل حکمران کے نمائندے صوبیدار وزیر خان کی ملی بھگت تھی؟ ایک اور سوال جو عموماً کیا جاتا ہےوہ یہ کہ کیا ان ’صاحبزادوں‘ کو اس لیے پھانسی دی گئی تھی کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھایا ہندو پہاڑی راجاؤں کی سازشوں کی وجہ سے انہیں قتل کیا گیا جنہیں گرو گوبند سنگھ کی مسلسل دھمکیوں کا اکثر سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ ’صاحبزادوں‘ اور ان کی دادی ماتا گر جری کی جان کس نے بچائی جب وہ اپنی جان بچانے کی خاطر بھاگتے ہوئے دریائے سرسا میں غرق ہو رہے تھے؟ مغل سپاہیوں کے ہاتھوں گرفتاری کے خوف سے گرو گوبند سنگھ نے اپنے دو بڑے بیٹوں کے ساتھ دریائے سرسا عبور کرنے کے بعد، انہیں کس نے پناہ دی؟ جن لوگوں نے انہیں پناہ دی تھی کیا وہ ہندو تھے، سکھ تھے یا مسلمان؟
ہندو پہاڑی راجہ نے سرہند میں مغل صوبیدار کے ساتھ مل کرگروگوبند سنگھ کو کچلنے کی سازش رچی تھی
سکھ پیشواؤں کی لکھی ہوئی تاریخ کی مستند کتابوں اور دیگر حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ماضی میں مسلمانوں اور گرو گوبند سنگھ کے درمیان کوئی اختلافات نہیں تھے اور ان کے درمیان کبھی کوئی مذہبی جنگ نہیں ہوئی۔ انہیں حوالوں سے اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ گرو گوبند سنگھ ستمبر 1685 ء ہی سے ہندو پہاڑی راجاؤں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ ایک مستند روایت کے مطابق ایک مسلمان پیر بدرالدین شاہ عرف بدھو شاہ نے اپنے 2000 حامیوں کے ساتھ ہندو پہاڑی راجا کے خلاف ایک جنگ میں گرو گوبند سنگھ کی حمایت میں شریک ہوئے تھے جس میں گرو گوبند سنگھ فتحیاب ہوئے تھے اور خود بدھو شاہ کے خاندان کے آٹھ افراد اس جنگ میں مارے گئے تھے۔ دراصل ہندو پہاڑی راجا اور گرو گوبند سنگھ کے درمیان ہونے والی جنگوں کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ گرو جی ایک واحد خدا کی پرستش پر یقین رکھتے تھے جب کہ ہندو پہاڑی راجا، بت پرست تھے۔ گرو گوبند سنگھ کے فارسی زبان میں لکھے ہوئے ظفر نامہ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے۔
مغلوں کو گرو گوبند سنگھ کے خلاف ہندو پہاڑی را جانے ایک منظم سازش کے ذریعے جنگ میں گھسیٹا گرو گوبند سنگھ کے ہاتھوں بار بار شکست کے بعد ہندو پہاڑی راجہ مغل صو بیدار وزیر خان کے پاس پہنچے اور گروجی کے خلاف ہونے والی کسی بھی جنگ میں ان کی فوجی مدد کی درخواست کی اس کے لیے انہوں نے صوبیدار وزیر خان کو بطور رشوت بیس ہزار روپے اور بے شمار نہایت قیمتی مہنگے تھے تحائف بھی دیے جسے وزیر خان نے قبول کرلیا اور ہندو پہاڑی راجہ، اپنی سازش میں کامیاب ہوئے۔ وزیر خان نے ان کی مدد کرنے کا تیقن دیا۔ بصورت دیگر مغلوں کا نہ سکھوں سے کوئی جھگڑا تھانہ گرو گوبند جی سے کوئی اختلاف۔ مغل صوبیدار وزیر خان کو رشوت دینے کے بعد، ہندو پہاڑی را جاؤں نے دیگر سازشوں پر کام کرنا شروع کیا۔ چنانچہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب سے مل کر اسے بتایا گیا کہ گرو گوبند سنگھ ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ انہیں تخت سے بے دخل کرنے کے لیے دلی پرحملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے اورنگ زیب سے اپیل کی کہ گرو گوبند سنگھ اور سکھوں کے خلاف مغل فوج ان کی مدد کرے۔ اس ملاقات کے بعد گرو گوبند سنگھ پر مغلوں کا فوجی دباؤ بڑھنے لگا۔ چنانچہ پہاڑی راجا اور صوبیدار وزیرخان کی ملی بھگت سے انہیں آنند پور قلعہ خالی کرنے اور اپنے اہل خانہ اور حامیوں کے ساتھ کسی اور جگہ منتقل ہونے کا حکم دیا گیا۔ ایک معاہدہ طئے ہوا جس کے تحت گرو گوبند سنگھ جی، ان کے افراد خاندان اور حامیوں کو مغل فوج کی جانب سے نقل مکانی کے دوران محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔ تاہم جب گرو جی اپنے افراد خاندان اور دیگر حامیوں کے ساتھ قلعہ چھوڑ رہے تھے تب ہندو راجا کے ساتھ ساتھ صوبیدار وزیرخان نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور دھوکہ دیتے ہوئے گرو جی کے قافلے پر حملہ کر دیا۔ باضابطہ معاہدے کے باوجود اس غیر متوقع حملے پر گروجی کے حامی اور خود ان کے خاندان کے افراد خاندان میں اختلاف پیدا ہو گیا اور وہ دو گروپوں میں بٹ گئے ۔ گروجی کے ساتھ ان کے دو بڑے بیٹے صاحبزادہ اجیت سنگھ اور صاحبزادہ جوجہر سنگھ اور ان کے حامی دریائے سرسا کو پار کر کے زندہ بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ البتہ اس کی ماں گرجر کوراور دو چھوٹے بیٹوں صاحبزادہ زور آور سنگھ اور صاحبزادہ فتح سنگھ، جس گھوڑے پر دریائے سرسا پار کر رہے تھے، وہ گھوڑا بیچ دریا میں اپنا توازن کھو بیٹھا، دونوں شہزادے اور ماں دریا میں گر گئے اور غرق ہونے سے پہلے مدد کے لیے چلانے لگے۔ ان کی چیخنے چلانے کی آوازیں سن کر دریا کے کنارے پر موجود ایک مسلمان ملاح قیوم بخش عرف قماشکی متوجہ ہوا اور فور مدد کے لیے آگے بڑھا، اس نے ان تینوں کو دریا میں ڈوبنے سے بچالیا اورانہیں قریب میں اپنی جھونپڑی میں لے آیا۔ تینوں کی داستان سن کر قیوم بخش نے انہیں گرو گوبند سنگھ کے پاس پہنچانے کا وعدہ کیا۔ اسی دوران اچانک گرو گوبند سنگھ کا خاص باور چی گنگو برہمن وہاں پہنچا۔ فوراً دونوں صاحبزادوں اور ان کی ماں کو اپنی تحویل میں لے لیا اور انہیں ایک مقام مریندا کے قریب کے علاقے کھیری پنڈا اپنے گھر لے گیا۔ اسے معلوم تھا کہ گرجر کور کے ساتھ بہت ساری نقدی، طلائی زیورات اور کچھ قیمتی سامان ہے۔ گنگو برہمن کے گھر پہنچنے کے بعد گرجر کور، گنگو برہمن کی چوری کرنے کی نیت اور اس کی سازش سمجھ گئیں۔ اس سے پہلے کہ وہ انہیں لوٹ لیتا ، انہوں نے زور زور سے چور چور کہہ کر شور مجا نا شروع کر دیا پھر خودہی کہا کہ اگراسے کسی چیز کی ضرورت تھی تو اسے ان سے مانگ لینا چاہیے تھا۔ گنگو برہمن کو اپنا جرم بے نقاب ہونے پراپنی توہین اور تحقیر کا احساس ہوا۔ اس بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے اس نے اگلی صبح، مرندا کے مغل پولیس کو توال کو ان کے یہاں روپوش ہونے کی اطلاع دی جو انہیں تلاش کررہی تھی۔ پولیس انہیں یہاں سے گرفتار کر کے ساتھ لے گئی اور سرہند کے مغل صو بیدا ر وز یر خان کے حوالے کر دیا۔ اس بارے میں بھارتی دفاعی جائزے کے ایک معروف تجزیہ نگار کرنل جئے ہنس سنگھ لکھتے ہیں کہ دونوں صاحبزادوں اور ما تاجی کو سر ہند کی مغل انتظامیہ کے حوالگی کا حادثہ، تاریخ میں مغلوں کے اعتماد اور ایمانداری کی بدترین خلاف ورزی کی حیثیت سے پڑھا جائے گا۔ تاہم کرنل سنگھ سے سوال کیا گیا کہ ایک مسلمان ملاح کو دونوں سکھ صاحب زادوں اور ماتاجی کو دریا میں ڈوبنے سے بچانے اور اپنی جھونپڑی میں پناہ دینے کا ذکر کرنے میں انہیں کیوں تامل ہوا ؟ حقیقت یہ ہے کہ جو تجزیہ نگار عوام کے سامنے تاریخی حقائق کی مکمل حقیقت اور سچائی کو پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں وہی ان کی علمی ، تحقیقی اور فکری کمزور یوں اور کوتا ہیوں کا جیتا جاگتا ثبوت ہوتا ہے۔ خصوصاً جو کچھ انہوں نے اس بارے میں لکھا وہ مکمل سچائی نہیں ہے۔ اگر کسی فوجی جریدے میں ایسی ہی آدھی آدھی سچائیوں کے ساتھ مستند مواد، جواز کے طور پر پیش کیا جائے توسوچیے کہ عام قارئین اور فوجی عہدہ داروں کے ذہنوں پر اس کے کیا اثرات مراتب ہوں گے۔
دونوں سکھ صاحبزاوں کا مقدمہ اور پھانسی کی سزاء کے خلاف
مالیر کوٹلہ کے نواب شیر محمد خان کا شاہی عدالت میں شدید احتجاج صو بیدار وز یر خان نے دونوں صاحبزادوں کے مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت بلائی ۔ دیگر ذمہ داران کے علاوہ عدالت کی بنچ میں تین سرکاری قاضی ، خود وزیر خان ، اس کے درباری اور مالیر کوٹلہ کے نواب شیر محمد خان موجود تھے ۔ صو بیدا ر وزیر خان نے مقدمہ پیش کرتے ہوئے قاضی سے سوال کیا کہ وہ ان دونوں شہزادوں 9سالہ شہزادے صاحبزادہ زورآور سنگھ اور 7سالہ صاحبزادہ فتح سنگھ کو اسلامی قانون کے تحت کیا سزا تجویز کی جاتی ہے ؟ سکھ مورخین کی لکھی ہوئی تاریخ کی مستند کتابوں میں دستیاب شواہد کی روشنی میں قاضی نے پر فیصلہ سنایا تھا کہ دونوں لڑکے نابالغ ہیں، بے قصور ہیں ، انہوں نے کسی بھی قابل سزاء جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے، چنانچہ اسلامی شرعی قوانین کے رو سے انہیں کوئی سزا نہیں دی جا سکتی ۔ قاضی کا فیصلہ صوبیدار روز پر خان کو سخت نا گوار گزرا اور وہ کوئی ایسی چال چلنے کی فراق میں تھا کہ کسی طرح ان دونوں بے قصور شہزادوں کو پھانسی پر چڑھادیا جائے ۔ چنانچہ اس نے نواب شیر محمد خان سے کہا کہ چند ہفتے پہلے، ایک جنگ میں گرو گوبند سنگھ نے آپ کے بھائی کو مار ڈالا تھا۔ اس نے شیر محمد خان کو اکسایا کہ اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لینےکا اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا لیکن نواب شیر محمد خان نے مغل صوبیدار گورنر اور قاضی کو بتایا اس کا جھگڑا گرو گوبند سنگھ سے ہے نہ کہ ان کے بیٹوں سے۔ اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لیں گے بھی تو ہرگز ان کے بیٹوں سے نہیں لیں گے بلکہ میدان جنگ ہی میں صرف گرو گوبند سنگھ سے لیں گے ۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ یہ دونوں شہزادے بے قصور ہیں، چنانچہ اس مقدمے میں ان پر لگائے گئے جھوٹے الزامات سے بری کرتے ہوئے دونوں کوفوراً رہا کردینا چاہیے۔ بہت ممکن تھا کہ نواب شیر محمد خان کے عدالت کو دیے گئے اس جواب کے بعد عدالت انہیں آزاد کر دیتی لیکن اس عدالت میں موجود صوبیدار کے ایک برہمن مشیر سچانند نے وزیر خان کو یہ کہہ کر اکسایا کہ سانپوں کے بچے بڑے ہو کر سانپ ہی رہتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ یہ دونوں بڑے ہو کر مغلیہ حکومت سے بغاوت کر بیٹھیں۔ اس نے عدالت کو مشورہ دیا کہ دونوں شہزادوں کو فوراً موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ سچا نند کے بار بار اشتعال دلانے کے بعد صو بیدار وزیر خان نے دونوں بے گناہ شہزادوں کو قتل کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس فیصلے کے بعد بھی مالیر کوٹلہ کے نواب، شیر محمد خان بار بار یہی کہتے رہے کہ ان کی لڑائی گرو گوبند سنگھ کے خلاف ہے، ان معصوم لڑکوں کے ہرگز خلاف نہیں۔ انہوں نے صوبیدار سے پھر سوال کیا کہ ان دونوں لڑکوں نے اسے یا کسی بھی شخص کو ایسا کونسا نقصان پہنچایا ہے کہ جس کے بدلے میں انہیں موت کی سزادی جارہی ہے؟ انہوں نے صوبیدار کو متنبہ کیا کہ اگر بے گناہوں کے ساتھ اس طرح ناانصافی کی گئی تو پھر یقینا اللہ کے غضب کے نازل ہونے کا انتظار کیجئے۔ انہوں نے عدالت اور صو بیدار کو مشورہ دیا کہ ان بے قصور شہزادوں کو ہرگز کوئی سزا نہیں دی جانی چاہیے ۔ جب انہوں نے اپنے آپ کو عدالت میں بالکل بے بس پایا تو اس فیصلے کے خلاف اپنا اختلاف درج کروا کے، عدالت سے چلے گئے۔ اسی واقعے کے ضمن میں سکھ مسلم فینیٹی فاؤنڈیشن کے سربراہ، مالیر کوٹلہ میں مقیم ایک محقق ڈاکٹر نصیر اختر، مشہور مورخ نریندرسنگھ بھکر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اگر گنگو، دھو کے اور فریب کے ذریعے ، صاحبزادوں اور ماتا جی کو گرفتار نہ کرواتا تو عین ممکن تھا کہ پھانسی دیے جانے کا یہ افسوس ناک واقعہ رونما ہی نہ ہوتا۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ اگر سچا نند شہزادوں کو پھانسی کی سزا کے لیے صو بیدار کو نہ اکسایا ہوتا، تب بھی دونوں شہزادوں کو قتل ہونے سے بچایا جاسکتا تھا۔ ڈاکٹر نصیر اختر کے مطابق تاریخ میں سکھ مورخین کی جانب سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے کہ شہزادوں کو اس لیے پھانسی کی سزادی گئی کیوں کہ انہوں نے مذہب اسلام قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ ان تمام تاریخی حقائق کی بنیاد پر حیرت ہوتی ہے اور یہ سوال نا مناسب لگتا ہے کہ کیا گرو گوبند سنگھ اور مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی جنگ ہوئی تھی ؟ یقیناً نہیں ہوئی لیکن واقعتاً ایسا ہوتا تو بتائیے کہ ایک مسلمان ملاح نے گرو گوبند سنگھ کے دونوں بیٹوں اور اس کی ماں کو دریا میں ڈوبنے سے کیوں بچایا ؟ در حقیقت، ایسے من گھڑت قصے، جگہ جگہ موجود شرپسند عناصر، بھارت میں نہایت امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنے والی دو اقلیتوں یعنی مسلمان اور سکھوں کے درمیان دشمنی اور نفرت پیدا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان عناصر سے ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
گرو گوبند سنگھ نے کوٹلہ نہنگ خان پہنچ کر مسلمان کے گھر میں پناہ لی
گرو گوبند سنگھ ، دریائے سارس عبور کر کے کوٹلہ نہنگ خان پہنچے اور گاؤں کے ایک مسلمان مکھیا نہنگ خان کے گھر میں پناہ لی۔ نہنگ خان کے گھر پر وہ دودن ر کے ۔ اس دوران ان کا سکھ جرنل بچھتر سنگھ، گرو گوبند سنگھ کے دو بڑے بیٹوں کے ساتھ نہنگ خان کے گھر پہنچا۔ بچھتر سکھ بری طرح زخمی حالت میں تھا اور مزید سفر کرنے کے موقف میں نہیں تھا۔ گرو گوبند سنگھ نے اسے بھی نہنگ خان کی تحویل میں دے دیا۔ چوں کہ مغل فوج گرو گوبند سنگھ کی تلاش میں مسلسل پھر رہی تھی ، اس لیے گروگو بند سنگھ جی اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ 21 دسمبر 1704ء کو آدھی رات کے بعد نہنگ خان کے گھر سے چمکور کے گڑھ کے لیے روانہ ہوئے۔ نہنگ خان کے بیٹے عالم خان نے انہیں مغل سپاہیوں کی نظروں سے بچتے بچاتے، اصل راستے سے ہٹ کر اندرونی مختصر ترین راستوں سے لے گیا اور انہیں بہت دور تک بحفاظت چھوڑ آیا۔ اس دوران کسی مخبر نے مغل سپاہیوں کو بتایا کہ گرو گوبند سنگھ اپنے کچھ افراد خاندان کے ساتھ نہنگ خان کے گھر میں چھپے ہوئے ہیں۔ روپار پولیس عہدہ دار فور نہنگ خان کے گھر تلاشی لینے پہنچے۔ گھر کی تلاشی لی گئی ۔ جس کمرے میں بچھتر سنگھ چھپا ہوا تھا وہ بند ہی تھا جسے پولیس نے کھولنے کا حکم دیا۔ نہنگ خان نے پولیس کو بتایا کہ اس کمرے میں اس کی بیٹی اور داماد آرام کر رہے ہیں، انہیں جگانا خاندان کے آداب کے خلاف ہوگا۔ نہنگ خان کی اس بات پر اعتبار کرتے ہوئے پولیس اس کمرے کی تلاشی لیے بغیر لوٹ گئی۔ اس طرح نہنگ خان نے اپنے خاندان کی اور اپنی جان کی بہت بڑی قیمت پر بچھتر سنگھ کی جان بچائی۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد جب گرو گوبند سنگھ جی، چمکور پہنچے تو ان کے اور ہندو پہاڑی راجا کے درمیان، جنہیں مغل فوجوں کی حمایت حاصل تھی ، جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں گرو جی کے دونوں بڑے بیٹے صاحبزادہ اجیت سنگھ اور صاحبزادہ جوہر سنگھ مارے گئے۔ اس کے بعد گرو جی بچتے بچاتے لدھیانہ ضلع کے بہلول پور گاؤں پہنچے ۔ یہاں پر وہ مولوی پیر محمد کے گھر پر ٹھہرے۔ مولوی پیر محمد کے گھر میں قیام کے دوران انہوں نے ساری سکھ برادری کو مسلمانوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کا حکم صادر کیا۔ یہاں سے انہوں نے مچھی واڑہ کے جنگلوں کا رخ کیا۔ مچھی واڑہ پہنچ کر وہ ایک سکھ بھائی پنجابا کے گھر گئے۔ پولیس کو گرو گوبند سنگھ کے، ان جنگلوں میں پہنچنے کی اطلاع ملی اور آناً فاناً پولیس مچھی واڑہ پہنچ گئی۔ گرو گوبند سنگھ کو اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا اور مقامی لوگوں کو بھی دھمکایا گیا کہ ان احکامات کی تعمیل نہ کرنے کی صورت میں گرو جی کے ساتھ ساتھ وہاں رہنے والے تمام افراد کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔ بھائی پنجابا پولیس کی اس دھمکی سے گھبرا گیا اور گروجی سے درخواست کی کہ وہ اس کے گھر سے فوراً نکل جائیں اور کسی اور جگہ پناہ لیں۔ جب یہ اطلاع دو پٹھان بھائیوں نبی خان اور غنی خان کو ملی تو انہوں نے اپنی اور اپنے افراد خاندان کی جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے گرو گوبند سنگھ کو اپنےگھر میں پناہ دینے کا پیش کش کیا اور انہیں اپنے ساتھ گھر لے آئے۔ پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے انہوں نے گرو جی کو اپنے ایک پیر کے بھیس میں بدل دیا جو ’اچھ کے پیر‘ کے نام سے مشہور تھے۔ دراصل اچھ کے پیر ایک مسلمان صوفی بزرگ تھے جو ان پٹھان بھائیوں کے گھر آیا کرتے تھے۔ پولیس یہاں سے بھی خالی ہاتھ لوٹ گئی۔ پولیس کے جانے کے بعد گرو گوبند سنگھ کی درخواست پر ایک پالکی میں بٹھا کر ان خان برادران نے انہیں عالمگیر گاؤں پہنچا دیا۔ یہاں پہنچنے کے بعد گرو گوبند سکھ جی نے ساری سکھ قوم کے نام ایک اعلان جاری کرتے ہوئے کہا کہ نبی خان اور غنی خان انہیں ان کے سگے بیٹوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ چنانچہ گرو جی کا یہ فرمان عالمگیر علاقے کے مقامی گردوارے میں آج بھی محفوظ ہے۔ ایک مقام سے دوسرے مقام مسلسل نقل مکانی کرتے ہوئے گرو گوبند سنگھ نے دوبارہ لدھیانہ ضلع پہنچ کر ریاست رائے کوٹ کے ایک مسلمان بادشاہ رائے کلہا کے گھر میں پناہ لی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسی نے ، یہاں تک کہ خود سکھوں نے بھی سکھ گرو کی مدد کرنے یا انہیں پناہ دینے کی کوئی پیشکش نہیں کی لیکن ایک مسلمان بادشاہ رائے کلہا نے اپنی اور اپنے افراد خاندان کی جان کو خطرے میں ڈال کر کئی دنوں تک گرو جی کی میزبانی کی۔ اس مسلم بادشاہ کی میزبانی اور خدمات کے اعتراف میں گرو جی نے اپنی خاص ذاتی ملکیت والی صراحی ’گنگا ساگر‘ اس مسلم راجہ رائے کلہا کو تحفے میں دے دی۔ اسی صراحی سے گرو جی دودھ اور پانی پیا کرتے تھے۔ چنانچہ یہ صراحی آج بھی اس مسلم راجہ رائے کلہا کی اولاد کے قبضے میں ہے۔ یہ خاندان 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہو گیا۔ یہیں پر گرو جی نے فارسی زبان میں ’’ظفر نامہ‘‘ لکھ کر شہنشاہ اورنگ زیب کو بھیجا تھا جسے ایک سکھ بھائی نے اورنگ زیب تک پہنچایا، جو اس وقت دکن میں مرہٹوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ اور نگ زیب نے ’’ظفر نامہ‘‘ وصول کیا، اسے پڑھا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے گرو گوبند سنگھ کو جواباً ایک خط لکھا کہ وہ شہنشاہ سے ملاقات کرنے دکن تشریف لائیں۔ اسی خط میں اورنگ زیب نے گرو گوبند سنگھ سے پوچھا کہ جنہوں نے ان کے ساتھ اب تک جو زیادتیاں کی ہیں، ان کے لیے وہ خود شخصی طور پر کیا سزا تجویز کرنا پسند کریں گے؟ اورنگ زیب نے گرو جی کو ان تمام خاطیوں کو مناسب سزائیں دینے کا تیقن بھی دیا۔ صوبیدار وزیر خان کو ان تمام تفصیلات کا علم ہوا تو اس نے گرو گوبند سنگھ کو دکن پہنچنے اور اورنگ زیب سے ملاقات کرنے سے روکنے کی تمام تر کوششیں کیں۔ آخر کارایک دن گر وگو بندسنگھ جی شہنشاہ اورنگ زیب سے ملاقات کرنے ناندیڑ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن افسوس! ملاقات سے پہلے ہی اور نگ زیب کا انتقال ہو گیا۔
گرو گوبند سنگھ کا انتقال ناندیڑ میں ہوا
شہنشاہ اورنگ زیب کے دو بیٹے تھے منتظم اور اعظم ۔ دونوں کے درمیان جانشینی کے مسئلے پر رسہ کشی جاری تھی۔ گرو گوبند سنگھ ، اورنگ زیب کے بڑے بیٹے شہزادہ معظم کی حمایت کر رہے تھے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ شہر وہ معظم کو بہادر شاہ کا لقب خود گرو گوبند سنگھ نے دیا تھا۔ اس دوران کچھ نا معلوم افراد نے گرو جی پر چاقووں سے قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں گرو جی شدید زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر 7 اکتوبر 1708 ءکو ناندیڑ میں انتقال کر گئے ۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ گرو گوبند سنگھ کا قتل صو بیدار وزیر خان کے کہنے پر دو افغان شہریوں نے کیا تھا لیکن آج تک نہ ان قاتلوں کی شناخت ہو سکی نہ کسی نے اس کی تصدیق کی۔ جب تاریخ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مسلمانوں نے سکھوں کے گرو گوبند سنگھ کی ہمیشہ ہر موقع پر مدد کی ہے تو گرو جی اور مغل فوجوں کے درمیان ہونے والی سیاسی جھڑپوں کو یکطرفہ متعصبانہ مذہبی رنگ دینا، کہاں تک صحیح ہو سکتا ہے؟ اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کے بجائے بی جے پی حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ تمام غلط فہمیوں کو دور کر کے دونوں برادریوں کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارہ کا ماحول برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے خود کہا ہے کہ ہماری تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے چنانچہ اسی نقطہ نظر کے مطابق مورخین کو چاہیے کہ وہ ان دو سکھ صاحبزادوں کے قتل کے بارے میں حقیقت تلاش کریں اور قومی سالمیت اور بین مذہبی اتحاد کے قیام کے لیے ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے عملی منصوبہ ترتیب دیں۔
(ترجمہ: سلیم الہندی حیدرآباد ۔بشکریہ: انڈیا ٹو مارو)
***

 

***

 سکھوں کے مذہبی و روحانی رہنماء شری گرو گوبند سنگھ کے دو چھوٹے بیٹوں کی شہادت کے بارے میں ایک جھوٹی داستان کو بنیاد بنا کر فرقہ پرست طاقتیں، اب مسلم ۔سکھ اتحاد کو منتشر کرنے کی جستجو کررہی ہیں کیوں کہ اب ان کی آنکھوں میں مسلم سکھ اتحاد بھی بری طرح کھٹکنے لگا ہے۔ ماضی میں مقامی مسلمانوں نے ہندو پہاڑی راجاؤں کے خلاف جنگوں میں ہمیشہ سکھوں کے دسویں گرو کی حمایت کی ہے، مغل حکمرانوں کی طرف سے اس اتحاد کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کی جانے والی تمام تر کوششوں میں بھی شامل رہے تا کہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ سکھ گروؤں نے ایک بھی جنگ اسلام یا مسلمانوں کے خلاف نہیں لڑی۔ اس مضمون میں سکھ مورخین اور نامور مصنفین کی کتابوں تحقیقی مقالوں اور دیگر مستند حوالوں سے تاریخ حقائق کو صحیح نظریے کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 فروری تا 11 فروری 2023