اولاد کی تربیت: حضرت لقمان ؑ کی وصیت کی روشنی میں
اخروی کامیابی و ناکامی میں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بھی اہم کردار ہوتا ہے
محفوظ الرحمٰن ندوی،علی گڑھ
اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ جو لوگ اس کے قدرداں ہیں وہ لائق تحسین ہیں۔ اولاد سے والدین کی محبت فطری ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ دنیا میں والدین ہی اولادکے لیے سب سے زیادہ مشفق و محسن ہوتے ہیں۔ شفقت و محبت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر اولاد کو ایک کانٹا بھی چبھ جائے تو انہیں گوارا نہیں، اتنی معمولی سی چوٹ اور تکلیف کو جب وہ برداشت نہیں کرسکتے تو اولاد کو روزِ قیامت جہنم کی آگ میں کوئلہ ہوتے ہوئے جھلستے ہوئے کیسے گوارا کرسکتے ہیں۔ آج کے دور میں صورتِ حال ایسی ہوگئی ہے کہ اولاد تعلیم یافتہ تو ہے مگر وہ دین سے دور ہے۔ زمانہ میں بڑا مقام و مرتبہ تو پالیا ہے مگر والدین کے مقام و مرتبہ کو ابھی تک نہیں پہچان سکی ہے۔ دینی قدروں کو اپنا نے کے بجائے مغربی تہذیب اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بے راہ روی کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ اولاد کی یہ بے راہ روی بہت ہی خطرناک ہے جس کی طرف سنجیدہ توجہ کی سخت ضرورت ہے۔قرآن مجید میں ایمان والوں کو مخاطب کرکے فرمایا گیا: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً وَقُودُ ہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم: ۶) ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو بچاؤ اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے“۔
اولاد کی تربیت پر توجہ
اسکولس اور کالجز محض تعلیمی مراکز ہیں، عمدہ تربیت گاہ کے تصور سے خالی ہیں۔ گھر اور اس کے گرد و پیش کے ماحول میں بے توقیری اور بے ادبی ہے۔ موبائل فون کے بے جا استعمال نے بچوں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس صورت حال سے باہر آنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ والدین اولاد سے محبت کے حقیقی تقاضے کو پورا کریں۔ ان کی تربیت پر مکمل توجہ دیں۔ تعلیم بھی ہو اور تربیت بھی۔ مالکِ حقیقی سے ان کے تعلق کو استوار کیا جائے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمانؑ کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا ہے۔ ایک مکمل سورت حضرت لقمان کے نام سے نازل کی گئی ہے اور اس پوری سورت میں ایک رکوع کے اندر حضرت لقمان کی ان وصیتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو انہوں نے اپنی اولاد کو کی ہیں۔ حضرت لقمان مشہور حکیم و دانا فرد تھے، ان کی حکمت و دانائی کے چرچے زمانے بھر میں معروف و مشہورتھے، ان کی باتیں سننے کے لیے لوگ دور دراز سے ان کے پاس آیا کرتے تھے۔ اللہ چاہتا تو ان کی زندگی کے اور بھی پہلوؤں کا ذکر کرسکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے صرف ایک خاص پہلو کا تذکرہ کیا ہے جو اولاد کی تربیت سے متعلق تھااس طریقہ سے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کو بتادیا کہ اولاد کی تربیت کے لیے بہترین رہنمائی حضرت لقمان کی وصیتوں میں ملے گی۔
-۱ شرک کی مذمت
حضرت لقمان نے اپنے عزیز بیٹے کو جو سب سے پہلی وصیت کی ہے وہ یہ ہے کہ”بیٹا شرک نہ کرنا کیوں کہ شرک بڑا گناہ ہے“۔ شرک وہ بھی ہے جو اللہ کی ذات و صفات اور اس کے اختیار میں کسی کو شریک کرکے کیا جائے۔ اسی طریقہ سے کسی کام کو نیکی یا عبادت سمجھ کر کیا جائے اور اس میں ریاکاری آجائے تو یہ بھی شرک ہی ہے۔ حدیث کی زبان میں ریاکاری کو شرک اصغر کہا گیاہے۔ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ”اللہ صرف شرک کو معاف نہیں کرتا، اِس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے“۔ (النساء:۴۸) حضرت لقمان کی تربیت کا انداز بہت ہی نرم اور ناصحانہ ہے۔ کیوں کہ باتوں کو قبول کرنے کی آمادگی اس پہلو میں سختی کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ لہجہ قلب و دماغ پر اثر ڈالتا ہے۔ہمیشہ سخت لہجہ اپنانے کے بجائے پیار و محبت کے انداز سے اولاد کو سمجھانا تربیت میں مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔والدین کو تربیت کا یہی انداز اپنانا چاہیے جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے۔
-۲ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ
حضرت لقمان کی وصیت کے دوران اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر اولاد کو والدین کا مقام و مرتبہ یاد دلایا ہے کہ ماں نے کس طرح دکھ پر دکھ جھیل کر اسے نو مہینے پیٹ میں رکھا اور دودھ چھوٹنے تک صبر پر صبر کرتی رہی اور ڈھائی تین سال کی اس مدت میں حرفِ شکایت نہ آنے دیا۔ والد نے بچے کی پرورش وپرداخت میں بھر پور ساتھ دیا۔یقیناًوالدین کا یہ کردار اولاد کے لیے مقامِ شکر ہے۔شکر گزاری کا تقاضا ہے کہ والدین جب بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہا جائے۔ بڑھاپے کی وجہ سے خرابی مزاج پراولاد تبصرہ نہ کریں۔ بات بات پر ان کا مذاق نہ بنائیں۔انہیں جھڑکا نہ جائے بلکہ ان کی ناز برداری کی جائے۔ ان کے ساتھ گفتگو میں نرمی برتی جائے۔ پیار و محبت سے ان کے ساتھ رہیں۔کوئی کمی یا زیادتی ہوجائے تو اس پر اللہ سے معافی کے طلب گار رہیں اور ہمیشہ اللہ سے ان پر رحم وکرم کی یہ دعا کرتے رہنا چاہیے۔ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً (الاسراء:۲۴ )”اے پروردگار، ان پر رحم فرما بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا“۔
-۳ بدی سے بچنے کی تعلیم
حضرت لقمان نے اپنی وصیت میں اپنے بیٹے کو اس طرف بھی توجہ دلائی کہ”بیٹا! رائی کے دانے کے برابر بھی گناہ چاہے آسمانوں میں ہو یا زمین میں یا چٹان میں ہو اللہ اُسے نکال لائے گا۔کیوں کہ اللہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے سب اللہ کے رجسٹر میں درج ہورہے ہیں؛ روزِ قیامت اللہ انسان کے سامنے ایک ایک گناہ کو ظاہر کردے گا اور کسی کی ایک چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اللہ سے مخفی نہ ہوگی۔فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہُo وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّا یَرَہُ o (الزلزال: ۷-۸)”پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا“۔ کم سنی ہی میں اولاد کو برائی سے نفرت دلا نا چاہیے تاکہ اس کے اندر بری عادتیں نہ پروان چڑھیں اور برا بننے سے پہلے ہی وہ آگاہ ہوجائیں۔
۴- بند گی رب کی تلقین
نماز اللہ کی بندگی کا بہترین مظہر ہے۔اس میں مکمل اطاعت کا اظہار ہوتا ہے۔زندگی اللہ کے رنگ میں کیسے رنگ جائے اس کو سیکھنے کے لیے نماز ہے۔ اللہ کا مطیع و فرماں بردار بنانے کی غرض سے حضرت لقمان نے بیٹے سے کہا ”بیٹا نماز قائم کر“۔تاکہ رب سے اولاد کا تعلق قائم ہوجائے۔ جس طرح نماز میں بندہ اللہ کی مکمل اطاعت کرتا ہے اسی طرح زندگی کے تمام کاموں کو انجام دینے میں بھی وہ اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا کے لیے کرے۔
-۵ لوگوں کو نیکی کا حکم دینا
اپنے آپ کو نیک بنانے کے ساتھ دوسروں کو نیکی کا حکم دینا دین اسلام کا اہم فریضہ ہے۔ خیر امت کا تمغہ بھی اسی فریضہ کی ادائیگی پر منحصر ہے۔ انبیاء نے اس کو اپنا مشن بنایا اور سماج میں امن و امان کی فضا قائم ہوگئی۔ اولاد کو اس کی تعلیم مستقبل میں اچھے نتائج کا اشارہ ہے اور والدین کے لیے نیک نامی کا باعث بھی ہے۔
-۶ دوسروں کو برائی سے روکنا
اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر خیر کے ساتھ شر کا بھی پہلورکھا ہے۔برائی دیکھ کر نفس کے بہکاوے میں نہ آنا، بلکہ اپنے کو روک لیناہی اصل بہادری ہے۔اپنے دامن کو برائی کے داغ سے بچالینا آسان ہے؛ مگر ہرطرف پھیلی برائیوں کو روک پانا مشکل کام ہے۔ یہ کانٹوں بھرا تاج ہے۔ اس کے لیے دولت، اقتدار، اولاد سب کی قربانیاں مطلوب ہوسکتی ہیں۔اس راہ کے سپاہی کو جان کے خطرے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس پر مخالفتوں کا طوفان آسکتا ہے۔ اس کے باوجود وہی لوگ سینہ سپر ہوکر باطل کا مقابلہ کرتے ہیں جن کے اندر حق کے غلبہ کی فکر لاحق ہوتی ہے، اللہ کا کلمہ بلند کرنے کا عزم ہوتا ہے اور جان کی قربانی پیش کرنے کے بعد بھی یہ حسرت رہ جاتی ہے کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کوکی گئی بیش قیمت وصیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اہم موضوع بنایا اور بیٹے کو وصیت کی کہ لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم کرتے رہنا اور برائیوں سے روکنے کو اپنی زندگی کا شیوہ بنانا اور اس راہ میں درپیش تمام مشکلات کو قبول کرنا۔(لقمان: ۷ ۱)
فرد اور معاشرہ اسی وقت صحیح رخ پر قائم رہ سکتا ہے جب معاشرہ کا ہر فرد نیکی کی راہ پر ہو۔ نیکی وشرافت از خود زندگی میں داخل نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے لیے جدوجہد درکار ہوتی ہے، کڑے مجاہدے سے حاصل ہوتی ہے، جس قدر کوشش ہوگی اسی کے بقدرنیک اور پاکیزہ زندگی بنتی چلی جائے گی۔
-۷ سماجی تعلیم
اچھاسماج بنانے کے لیے اچھا شہری بننا ضروری ہے۔ اس کے لیے اخلاقی قدروں کی بڑی اہمیت ہے۔ حضرت لقمان نے تربیت کے نظریے سے اولاد کو اس کی بھی تعلیم دی کہ ”بیٹا لوگوں سے منھ پھیر کر باتیں نہ کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو کیوں کہ اللہ تکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ کبر، غرور، نخوت کسی کے لیے اچھی چیز نہیں ہے۔ سماج میں ایسے شخص کی کوئی عزت نہیں ہوتی ہے اور وہ برے انجام سے ہی دوچار ہوتا ہے۔اولاد شجر سایہ دار اسی وقت ہو سکے گی جب اس کے اخلاق اچھے ہوں۔ لوگوں سے اس کے اچھے روابط ہوں۔ حضرت لقمان نے اولاد کو درمیانی چال رکھنے کی نصیحت کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اپنی آواز پست رکھو کیوں کہ
جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہوکر بھرا کرتی ہے پیمانہ
اپنی اولاد کے لیے سہولیاتِ زندگی سے زیادہ ان کی تربیت کی فکر کرنی چاہیے۔ پرندے اپنے بچوں کو پرواز سکھاتے ہیں گھونسلے بنابنا کر نہیں دیتے۔تربیت نہ کرنے کے نتیجے میں اولاد عذاب کا ذریعہ بنے گی۔ روزِقیامت اولاد اللہ کی عدالت میں مقدمہ دائر کرے گی کہ ’’اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہِ راست سے بے راہ کردیا۔ اے رب، ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر لعنت کی بارش کردے۔ (الاحزاب:۶۷-۶۸) اور تربیت کرنے کا انعام یہ ہو گا کہ اولاد ثواب کا ذریعہ بنے گی جس کا فائدہ دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی سرخروئی نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بڑی خوشخبری سنائی ہے کہ ”جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملادیں گے اور ان پر عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ ہرشخص اپنے ہی کمائے ہوئے اعمال کا گروی ہے۔ (الطور: ۲۱)
***
اپنی اولاد کے لیے سہولیاتِ زندگی سے زیادہ ان کی تربیت کی فکر کرنی چاہیے۔ پرندے اپنے بچوں کو پرواز سکھاتے ہیں گھونسلے بنابنا کر نہیں دیتے۔تربیت نہ کرنے کے نتیجے میں اولاد عذاب کا ذریعہ بنے گی۔ روزِقیامت اولاد اللہ کی عدالت میں مقدمہ دائر کرے گی کہ ’’اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہِ راست سے بے راہ کردیا۔ اے رب، ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر لعنت کی بارش کردے۔ (الاحزاب:۶۷-۶۸) اور تربیت کرنے کا انعام یہ ہو گا کہ اولاد ثواب کا ذریعہ بنے گی جس کا فائدہ دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی سرخروئی نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بڑی خوشخبری سنائی ہے کہ ”جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملادیں گے اور ان پر عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ ہرشخص اپنے ہی کمائے ہوئے اعمال کا گروی ہے۔ (الطور: ۲۱)
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024