عتیق احمد قتل: انسانی حقوق کے پینل نے یوپی پولیس سے چار ہفتوں کے اندر رپورٹ طلب کی
نئی دہلی، اپریل 19: نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے منگل کو اتر پردیش پولیس کو عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کی پریاگ راج میں قتل کی رپورٹ چار ہفتوں میں پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔
احمد برادران کو 15 اپریل کو تین افراد نے خود کو صحافی ظاہر کرتے ہوئے قریب سے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جب پولیس اہلکار انھیں طبی معائنے کے لیے لے جا رہے تھے۔
اس وقت دونوں بھائی 2005 میں بہوجن سماج پارٹی کے ایم ایل اے راجو پال کے قتل کے ایک گواہ وکیل امیش پال کے قتل کے سلسلے میں پولیس کی حراست میں تھے۔
امیش پال کو 24 فروری کو پریاگ راج میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اتر پردیش پولیس نے احمد، اس کی بیوی شائستہ پروین، اس کے دو بیٹوں اور اشرف سمیت دیگر کے خلاف امیش پال کے قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔
2017 میں اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ’’انکاؤنٹرز‘‘ یا ماورائے عدالت قتل میں اضافہ ہوا ہے۔
امیش پال قتل کیس کے سلسلے میں پولیس نے 13 اپریل کو جھانسی میں احمد کے نوعمر بیٹے اسد اور ایک ساتھی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کیس کے مزید دو ملزمان کو بھی 27 فروری اور 6 مارچ کو پولیس نے ’’انکاؤنٹر‘‘ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
منگل کو اپنے نوٹس میں قومی انسانی حقوق کمیشن نے کہا کہ اس نے متوفی کے خلاف درج کی گئی شکایت اور فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کی ایک کاپی، گرفتاری کے میمو اور انسپکشن میمو کی ایک کاپی، مقتول کے طبی قانونی سرٹیفکیٹ کی ایک کاپی، پوسٹ مارٹم رپورٹ اور مجسٹریل انکوائری کی رپورٹ دیگر چیزوں کے ساتھ مانگی ہے۔
دریں اثنا اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے دعویٰ کیا کہ کوئی بھی مافیا ریاست میں دہشت نہیں پھیلا سکتا۔
عتیق احمد کا نام لیے بغیر آدتیہ ناتھ نے کہا کہ جو لوگ پہلے یوپی کے لیے پریشانی کا باعث تھے وہ آج خود ہی مصیبت میں ہیں۔
یوگی نے کہا ’’یوپی میں 2012 اور 2017 کے درمیان [سماجوادی پارٹی کے دور میں] 700 سے زیادہ فسادات ہوئے۔ یوپی میں 2007 سے 2012 کے درمیان [بہوجن سماج پارٹی کے دوران] 364 سے زیادہ فسادات ہوئے۔ تاہم 2017 سے 2023 تک ریاست میں ایک بھی فساد نہیں ہوا۔ کرفیو ایک بار بھی نہیں لگایا گیا اور نہ ہی اس کی ضرورت پڑی۔‘‘