2025 اسمبلی انتخابات: دلی کی سیاسی تقدیر۔ ایک انار تین دعویدار
ٹریفک، آلودگی، غیر قانونی آبادیاں اور جرائم کی بڑھتی شرح۔ عوامی مسائل کا انبار۔ حل کون کرے؟
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
بی جے پی، عام آدمی پارٹی اور کانگریس کی سہ رخی انتخابی جنگ میں عوام کو دانش مندی کا ثبوت دینا ہو گا
دارالحکومت دلی ملک میں سب سے زیادہ ہلچل پیدا کرنے والا شہر ہے۔ دو کروڑ سے زیادہ لوگ یہاں رہتے بستے ہیں۔ یہ شہر دنیا کے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں سے ایک ہے۔ 2050 تک اس کی آبادی ساڑھے چار کروڑ تک پہنچنے کا امکان ہے۔ دوسری جانب یہ تیز رفتار ترقی شہری منصوبہ سازوں کے لیے متعدد چیلنجز پیش کرتی ہے جن میں آبادی کی کثافت کا انتظام، مناسب انفراسٹرکچر فراہم کرنا اور شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا شامل ہے۔ چونکہ دلی پہلے ہی دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد شہروں میں سے ایک ہے۔ لہٰذا آبادی کی کثافت 11,000 سے زیادہ افراد فی مربع کلومیٹر کے ساتھ، شہر کو بھیڑ بھاڑ سے متعلق کئی چیلنجز کا سامنا پیش کرتی ہے۔شہر کا بنیادی ڈھانچہ آبادی میں اضافے کی تیز رفتاری کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے جس کی وجہ سے سڑکوں پر حد سے زیادہ ٹریفک اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں رہائش کے مسائل، پانی کی قلت اور پانی کی نکاسی کے مسائل، مٹی دھول اور حد سے زیادہ بڑھتی آلودگی، کچرے کے انبار، سلم بستیوں کے مسائل، منشیات کا پھیلتا ہوا دائرہ، صحت عامہ کے مسائل اور بڑھتے ہوئے جرائم کے گراف نے دلی والوں کو بے حال کر دیا ہے۔ دلی کا شہری ڈیزائن بھی ایک چیلنج ہے۔ یہ شہر پرانے اور نئے ڈھانچے کے امتزاج سے نمایاں ہے جس میں سبزہ زاروں اور عوامی پارکوں کی کمی ہے۔ شہر کا بنیادی ڈھانچہ اکثر ناکافی ہوتا ہے، تنگ سڑکیں، گنجان آبادیاں اور عوامی حمل و نقل کے اختیارات کی کمی۔ سبز زاروں کی کمی اور ناقص شہری ڈیزائن، شہر کی فضائی آلودگی کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
کچرے کو ٹھکانے لگانا دلی کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کچرے کے ڈھیر سے ایک کلو میٹر دور سے بھی شہریوں کو بدبو، آلودگی اور صحت کے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ دلی کے لیے 2020 تک 28 مربع کلومیٹر زمین کی ضرورت تھی تاکہ وہ روزانہ پندرہ ہزار ٹن ٹھوس فضلے کو تلف کیا جا سکے لیکن جگہ دستیاب ہونا تو دور کی بات الٹا کچرے کے ڈھیر بلند سے بلند تر ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی آبادیاں تو کچرے کے بڑے بڑے ڈھیروں سے متصل واقع ہیں۔ ان مقامات پر جب بارش ہوتی ہے تو کچرے کے ڈھیر سے پانی نکل کر ان سے متصل آبادیوں میں داخل ہوتا ہے جس سے ایک سیاہ موٹی تہہ پیدا ہوتی ہے جسے لیچیٹ کہتے ہیں، یہ مٹی کو انتہائی زہریلا بنا دیتی ہے۔ پھر یہ زہریلا پانی علاقے کی نالیوں میں جاتا ہے، ساتھ ہی میتھین گیس ہوا کو مزید زہریلا کر دیتی ہے۔ ہر گزرتے ہوئے سال کے ساتھ یہ زمینی اور فضائی آلودگی اپنی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہی کرتی جا رہی ہے۔ کیجریوال حکومت نے کئی دفعہ وعدہ کرنے کے باوجود اس گندگی سے شہریوں کو نجات دلانے میں اپنی ناکامی کا اقرار کیا ہے۔
اسی طرح دلی میں ایک بڑا مسئلہ غیر قانونی کچی آبادیوں کا بھی ہے جو دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، نتیجے میں لگ بھگ 50 فیصد آبادی کچی آبادیوں میں رہتی ہے۔ یہاں گھروں کی ترتیب، بے ترتیب ہجوم کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے اور راستے تنگ ٹیڑھے میڑھے قطاروں کی شکل میں ہیں۔ اور چونکہ یہاں غیر مجاز مکانات بنائے گئے ہیں اس لیے یہاں پینے کے صاف پانی کے علاوہ سیوریج، بجلی اور دیگر کئی سماجی ضرورتوں و وسہولتوں کا فقدان ہے۔ کچی آبادیوں میں صفائی ستھرائی کا فقدان ہمیشہ سے ہی ایک بڑا مسئلہ ہے جو بہت سی اموات کا سبب بھی بنتا ہے۔ ان کچی بستیوں میں رہنے والے بچوں کی زندگی کا معیار دنیا میں سب سے خراب ہے۔ دلی کی کچی بستیوں کے نصف سے زیادہ بچوں کی بیت الخلاء تک رسائی نہیں ہے، انہیں کھلے میں رفع حاجت کرنا پڑتا ہے۔ ان بچوں کو پینے کا آلودہ پانی پینا پڑتا ہے نتیجے میں بیماریاں اور پھر بچوں کی اموات جیسے مسائل رونما ہوتے ہیں۔ دوسری طرف جدید اور پرتعیش اپارٹمنٹس کا راستہ صاف کرنے کے لیے رئیل اسٹیٹس والے اکثر ان کچی بستیوں اور جھگی جھونپڑی میں رہنے والے لوگوں کے گھروں کو اجاڑتے ہیں۔ اور جب متمول شہریوں کے لیے زیادہ تعداد میں اور بلند اپارمنٹس کا اضافہ ہونے لگتا ہے تو زمین میں پانی کی سطح بھی کم سے کم تر ہونے لگتی ہے نتیجے میں پانی کی قلت بڑھتی جاتی ہے۔
دلی میں جرائم کا بڑھتا ہوا گراف بھی توجہ طلب ہے۔ قتلِ ناحق، عصمت دری، ڈکیتی، خواتین کے خلاف جرائم، فسادات اور آئی پی سی کے مقدمات واضح کرتے ہیں کہ دلی ایک بہت بڑا جرائم کا شہر بھی بن چکا ہے۔ حالیہ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق دلی میں 2024 میں قتل کے 504، ریپ کے 2076، فسادات 33، ڈکیتی کے 1510، خواتین کے خلاف جرائم 2037، چھیننے جھپٹنے کے 6493 واقعات اور آئی پی سی کیسز 2,76,894 درج کیے گئے۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ دلی کے مختلف محلوں میں رہنے والے افراد ہر روز بڑے پیمانہ پر کئی طرح کے جرائم کا شکار ہوتے ہیں۔ مذکورہ بالا مسائل سے واضح ہوتا ہے کہ دلی بھارت کا دارالحکومت ہونے کے باوجود اس کی فضاء اور اس کی معاشرتی صورت حال حد درجہ خراب ہو چکی ہے۔ لیکن دو کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے اس شہر میں لوگ محض معاشی مجبوری کی وجہ سے مختلف ناگوار و جان لیوا کیفیتوں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔
دیگر ریاستوں کی طرح دلی میں بھی ہر پانچ سال بعد اسمبلی الیکشن ہوتے ہیں۔یہی وہ امید ہے جس کی شمع دلی کے لوگ اپنے سینوں میں جلائے ہوئے ہیں۔انہیں امید ہوتی ہے کہ آنے والے پانچ سالوں میں ان کے مسائل حل ہوں گے۔اور انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی اس امید کا چراغ ایک بار پھر تیز جلنا شروع ہو گیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے دلی اسمبلی انتخابات 2025 کے لیے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔ 70 اسمبلی حلقوں میں 5 فروری 2025 بروز بدھ ووٹنگ عمل میں آئے گی اور نتائج 8 فروری 2025 کو آئیں گے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے دوران شفافیت اور منصفانہ عمل کو یقینی بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہو چکا ہے، جس کے تحت سرکاری اسکیموں کے اعلانات اور دیگر ترقیاتی کاموں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے حق رائے دہی کا لازماً استعمال کریں۔ قبل ازیں، الیکشن کمیشن نے دلی کی حتمی ووٹر لسٹ جاری کی، جس کے مطابق اس مرتبہ دلی میں کل ایک کروڑ 55 لاکھ 24 ہزار 858 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں مرد ووٹروں کی تعداد 83,49,645، خواتین کی 71,73,952 جبکہ تھرڈ جینڈر ووٹروں کی تعداد 1,261 ہے۔ ووٹر لسٹ اس وقت جاری کی گئی ہے جبکہ ایک جانب ووٹروں کے نام ہٹانے کے الزامات کا تنازعہ سامنے آیا ہے تو وہیں نئے نام شامل کیے جانے پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ دلی اروند کیجریوال نے کچھ دن پہلے بی جے پی پر ووٹر لسٹ سے نام خارج کرنے کے لیے درخواستیں جمع کرانے کا الزام لگایا تھا۔
دلی کے پچھلے دو اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 2015 میں 67 نشستیں جیت کر حکومت بنائی تھی، یہ دلی کی تاریخ میں سب سے بڑی کامیابی تھی۔ 2020 میں پارٹی نے 62 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی اور بی جے پی کو صرف 8 نشستیں ملی تھیں، جبکہ کانگریس پچھلے دو انتخابات میں ایک بھی نشست نہیں جیت سکی ہے۔ لیکن اس مرتبہ 2025 میں اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے لیے بی جے پی، عام آدمی پارٹی اور کانگریس تینوں ہی سیاسی جماعتوں نے پوری طاقت لگانے اور کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ بی جے پی دلی کے تخت سے 27 سالہ خشک سالی کے دور کو پُر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ دوسری جانب عام آدمی پارٹی اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی تگ دو میں مصروف ہے۔ جبکہ عوام کا ایک بڑا حصہ کانگریس کا حمایتی دکھائی دے رہا ہے۔ اس صورت حال میں مقابلہ دل چسپ ہو گیا ہے۔
دلی میں سب سے پہلے بحیثیت وزیر اعلیٰ 17 مارچ 1952 سے 12 فروری 1955 تک برہم پرکاش نے انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کی نمائندگی کی تھی۔ اس کے بعد کچھ مدت کے لیے گرمکھ نہال سنگھ نے بھی بحیثیت وزیر اعلیٰ انڈین نیشنل کانگریس کی نمائندگی کی۔ 2 دسمبر 1993 سے 3 دسمبر 1998 تک بی جے پی کے مدن لال کھرانہ، صاحب سنگھ ورما اور سشما سوراج نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ اور اس کے بعد ایک بار پھر 3 دسمبر 1988 سے 14 فروری 2013 تک شیلا دکشت نے بحیثیت وزیر اعلیٰ کانگریس کی نمائندگی کی۔ اس کے بعد سے اب تک یعنی 28 دسمبر 2013 سے آج تک عام آدمی پارٹی برسر اقتدار ہے۔ اس دورانیہ کو دیکھا جائے تو دلی میں 1952 سے آج تک صرف 5 سال اور 2 دن بی جے پی کو حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔اور اس مختصر دورانیہ میں بھی اس کے ایک نہیں بلکہ تین وزیر اعلیٰ تبدیل ہوئے۔ اس پس منظر میں بی جے پی نے ملک میں ایک طویل عرصہ حکومت کرنے کی مثال قائم کی چنانچہ وہ 2014 سے آج تک مرکز میں حکومت میں ہے۔ اسے اس بات کا حد سے زیادہ افسوس ہے کہ وہ دلی میں جڑیں مضبوط کرنے میں کیوں ناکام ہے؟ دیکھا جائے تو گزشتہ 27 سالوں سے ہی وہ دلی میں حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہی ہے۔ اگرچہ 2013 میں کانگریس کی شیلا دکشت حکومت کے خلاف جن سوراج آندولن اور ایک بڑے احتجاج کے بعد نئی سیاسی جماعت، عام آدمی پارٹی کا جنم ہوا تھا اور بعد میں وہ اسمبلی میں ایک طرفہ کامیابی سے ہم کنار ہوئے، اس وقت غالباً بی جے پی کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ آئندہ ایک بار پھر طویل عرصہ تک دلی کے تخت سے دور رہے گی اور اب جبکہ 27 سال کا عرصہ گزر گیا تو کہا جا رہا ہے کہ یہ بی جے پی کی ساکھ کا مسئلہ بن چکا ہے اور یہ بھی کہا جار ہا ہے کہ اسی تشویش اور ساکھ کے پیش نظر دلی میں شراب گھوٹالے کو بڑے پیمانہ پر اٹھایا گیا ہے جس کے بعد نہ صرف وزیر اعلیٰ اروند کیجروال بلکہ نائب وزیر اعلیٰ و دیگر لیڈر بھی طویل عرصہ تک تہاڑ جیل میں بند رہے۔ وہیں بی جے پی پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے مختلف ریاستوں کی حکومتوں کو کہیں ووٹ، کہیں لالچ تو کہیں ای ڈی اور سی بی آئی جیسے اداروں کے ذریعہ کمزور کرنے یا گرانے کی کوششیں کیں۔ دلی میں بھی عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کو توڑنے، ان کے ایم ایللوں کو خریدنے اور پارٹی کو منتشر کرنے جیسی کوششیں کیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس درمیان تمام مراحل میں عام آدمی پارٹی نہ ٹوٹی نہ اس کی حکومت گری۔ وزیر اعلیٰ و دیگر لیڈر طویل عرصے کے بعد تہاڑ جیل سے رہا ہو گئے اور آج ایک بار پھر وہ پورے دم خم کے ساتھ اسمبلی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ وہیں بی جے پی جس کی حکومت ملک کی اکثر ریاستوں میں راست یا بلاواسطہ،خود ساختہ یا اتحاد کی بنا پر قائم ہے ان کے لیے اب بھی ہنوز دلی دور است
ریاست دلی کی موجودہ صورت حال ملکی سطح پر بڑھتا ہوا سماجی انتشار اور اقلیتوں کے مسائل، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل، شاید آئندہ ان انتخابات میں خاص توجہ حاصل نہیں کر پائیں گے، اس کے باوجود دلی کے شہریوں کو حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے خصوصاً شہر دلی کے مسائل اور ان کے حل کی جانب پیش قدمی کرنے والی سیاسی پارٹی کو ہی ووٹ دینا چاہیے اور سماجی تانے بانے کو بکھیرنے والوں کو دلی کے تخت سے دور ہی رکھنا چاہیے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جیسے جیسے 5 فروری 2025 قریب آئے گی ماحول کیا بنے گا اور حکومت تشکیل دینے کے لیے کون سی پارٹی آگے آئے گی؟ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہ ملے۔ اس صورت میں کانگریس کے امکانات روشن ہیں۔
( مضمون نگار سے رابطہ : [email protected] )
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024