آسام: انسانی حقوق کی تنظیم نے 2021 میں دو پولیس اہلکاروں کو فرضی انکاؤنٹر میں ایک شخص کو قتل کرنے کا مجرم پایا
نئی دہلی، فروری 7: آسام کے انسانی حقوق کے کمیشن نے دو اہلکاروں کو 2021 میں ایک فرضی انکاؤنٹر میں چوری کے ملزم کو ہلاک کرنے کا قصوروار پایا ہے۔
کمیشن نے 24 جنوری کو ایک حکم نامے میں ریاستی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ دو ماہ کے اندر مقتول کی بیوی کو 7 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرے اور دونوں اہلکاروں کو سزا بھی دے۔
انسانی حقوق کے ادارے نے یہ معاملہ اس وقت اٹھایا جب اسے ضلع درنگ کے کھروپیٹیا پولیس اسٹیشن کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ محمد آشا بابو کی موت 11 اگست 2021 کو پولیس کے ذریعے حراست میں لیے جانے کے ایک دن بعد ہوئی تھی۔
انسانی حقوق کے پینل نے اپنے حکم میں کہا کہ انچارج افسر ابھیجیت کاکوٹی اور کھروپیٹیا پولیس اسٹیشن کے سرکل انسپکٹر اچیوت دتہ کے مطابق بابو کو اسلحہ برآمد کرنے کے لیے ضلع میں دھنسیری ندی کے کنارے لے جایا گیا۔
تلاشی کے دوران بابو نے مبینہ طور پر بھاگنے کی کوشش کی اور پولیس اہلکاروں پر گولی چلا دی۔ کاکوٹی اور دت نے دعویٰ کیا تھا کہ بابو اس وقت مارا گیا جب پولیس نے اپنے دفاع میں اس پر جوابی فائرنگ کی۔
بابو کی موت کے بعد پینل نے درنگ مجسٹریٹ کو واقعہ کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔ بابو کی بیوی مونوارہ بیگم نے بھی ریاستی انسانی حقوق کے ادارے میں شکایت درج کرائی تھی۔ بیگم کے مطابق گرفتاری کے وقت بابو بستر پر تھا اور اسے دونوں پولیس اہلکار زبردستی تھانے لے گئے تھے۔
پینل نے کہا کہ جب بابو پر چوری کا مقدمہ درج کیا گیا تھا تو اس نے اس بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ بابو کو بغیر کسی گواہ کے دھنسیری ندی کے کنارے جنگلاتی علاقے میں کیوں لے جایا گیا۔ جس وقت بابو کے اہل خانہ کو اس کی لاش لینے کے لیے اسپتال بلایا گیا تب انھیں صرف اس کا چہرہ دیکھنے کی اجازت تھی۔
پینل کے مطابق پوسٹ مارٹم معائنے کے بعد جب لاش کو اہل خانہ کے حوالے کیا گیا، تو بیگم کو بابو کے جسم کے مختلف حصوں پر زخم ملے جو کہ پیٹ پر گولیوں کے زخموں سمیت سیاہ دھبوں کے طور پر ظاہر ہوئے۔
پینل کے مطابق ’’اس نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی انگلیاں اور انگوٹھا ٹوٹ گیا تھا، اس کا عضو تناسل بھی کاٹا گیا تھا۔ اس نے آگے کہا کہ اس کی گردن میں راڈ جیسی کوئی چیز ڈالی گئی تھی اور اس کے جسم پر پائے جانے والے گولیوں کے زخموں سے لگتا تھا کہ بندوق کی گولیاں ایک سوئے ہوئے شخص پر چلائی گئی تھیں اور اسے یقین تھا کہ پولیس نے اس کے شوہر کو ایک فرضی مقابلے میں مار ڈالا ہے۔‘‘
اپنی انکوائری میں انسانی حقوق کے ادارے نے پایا کہ اس پستول پر بابو کی انگلی کا نشان نہیں ملا جس کے بارے میں مبینہ طور پر پولیس نے انکاؤنٹر کے مقام پر اس کی لاش کے قریب سے قبضہ کیا تھا۔
پینل نے کہا ’’ہماری رائے میں مذکورہ بالا حالات نے ثابت کیا کہ متوفی کو پولیس کی حراست میں ہوتے ہوئے ایک فرضی انکاؤنٹر میں دو ملزم افسران نے قتل کیا۔‘‘
معلوم ہو کہ مئی 2021 میں ہمنتا بسوا سرما کے ریاست کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے آسام نے متعدد پولیس فائرنگ دیکھی ہیں۔ آسام حکومت کی طرف سے گوہاٹی ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں مئی 2021 سے اگست 2022 کے درمیان اس طرح کے 171 واقعات پیش آئے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ پولیس کارروائی میں 56 افراد ہلاک اور 145 زخمی ہوئے۔
زخمی اور ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر کا تعلق ریاست کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں سے تھا۔