أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ

سب سے اعلی اور مقدس محبت ،اللہ سے محبت ہے

حسن زماں

محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان ہو یا حیوان سب میں یکساں طور پر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ماں کا اپنے بچوں سے پیار کرنا یا استاد کا اپنے شاگردوں سے شفقت سے پیش آنا یا کسی تخلیق کار کی اپنی تخلیق کو چاہنا بھی محبت ہی ہے۔ انسان جسے اللہ نے پیدا کیا ہے لہٰذا اللہ کو بھی اس سے محبت ہے اور بے پناہ محبت ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے جن میں ایک عورت بھی تھی جس کے پستان دودھ سے بھرے ہوئے تھے اور وہ دوڑ رہی تھی، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے فوراً اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور لگی دودھ پلانے۔ رسول اللہ ﷺنے صحابہ سے سوال کیا کہ کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں جب تک اس کے بدن میں طاقت رہے گی یہ اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہے۔ اس لیے انسان پر واجب ہے کہ وہ بھی اپنے مالک سے محبت کرے۔
اشد حبا للہ یہ دراصل ایک فلسفہ ہی نہیں ہے بلکہ فطرت انسانی کا تقاضا بھی ہے کہ ہر باشعور انسان کسی نہ کسی کو اپنا آئیڈیل، نصب العین یا نمونہ ٹھہراتا ہے اور پھر اس سے بھر پور محبت کرتا ہے اسی کے لیے جیتا ہے اسی کے لیے مرتا ہے، قربانیاں دیتا ہے، ایثار کرتا ہے۔ چنانچہ کوئی قوم کے لیے تو کوئی وطن کے لیے اور کوئی خود اپنی ذات کے لیے قربانی دیتا ہے۔ انہی لوگوں کی نشان دہی کرتے ہوئے سورہ البقرۃ آیت 165 میں اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللٰهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللٰهِ-وَ الَّذِیْنَ اٰمَنوا اَشَدُّ حُبًّا لِّلٰهِ-
ترجمہ: کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مد مقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسی اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر اور دوسری بے جان چیزوں کو بھی اس کا ہمسر اور مد مقابل بنا دیتے ہیں وہ ان سے ایسی محبت کرنے لگتے ہیں جیسی اللہ سے کرنی چاہیے۔ ہم آئے دن ان لوگوں کو اپنی نظروں سے دیکھتے بھی ہیں اور ان کے واقعات بھی سنتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس بند مومن سارے کام اللہ کے لیے کرتا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
وہ اپنا مطلوب و مقصود اور محبوب صرف اللہ کو بناتا ہے۔ وہ اسی کے لیے جیتا ہے اسی کے لیے مرتا ہے۔ سورۃ الانعام آیت 162 میں اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ
(ائے نبی) کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی (میرے تمام مراسم عبودیت) میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
علامہ اقبال نے اس آیت کی بڑے ہی اچھے انداز میں ترجمانی کی ہے۔
مری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
اس کے برعکس عام انسانوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن سے معبود تراشتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کے لیے قربانیاں دیتے ہیں حالانکہ اسلام ان تمام باطل اعمال کی نکیر کرتا ہے اور جو لوگ صاحب ایمان ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے :وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّحُبًّا لِّلٰهِ اور جو لوگ واقعی صاحب ایمان ہوتے ہیں ان کی شدید ترین محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے۔
یہ بات غور کرنے کی ہے کہ اللہ تعالی کی محبت انسانی محبتوں کی نفی نہیں کرتی بلکہ ان کے لیے ایک مقصد متعین کر کے انہیں زیادہ پائیدار بناتی ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر سب کہانیاں ہیں۔ فی الواقع یہ گویا ایک امتحان بھی ہے کہ کوئی شے اگر اللہ سے بڑھ کر محبوب ہوگئی تو گویا وہ ہمارے لیے معبود بن گئی۔ ہم نے اللہ کو چھوڑ کر اس کو اپنا معبود بنالیا چاہے وہ دولت ہو شہرت ہو یا کچھ اور ہو۔
نوفل بن مسعودؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت انس بن مالک ؓکی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے نبی ﷺ سے خود سنی ہو۔ انہوں نے کہا میں نے نبی ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس آدمی میں ہوں جہنم کی آگ اس پر حرام ہے: اللہ پر ایمان، اللہ سے محبت اور آگ میں گر کر جل جانا کفر کی طرف لوٹ جانے سے زیادہ محبوب ہو۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ہلاک ہوا دینار کا بندہ، درہم کا بندہ اور شال کا بندہ۔ وہ ہلاک ہو اور جہنم میں اوندھے منہ گرے۔ اگر اس کو کوئی کانٹا چبھ جائے تو کبھی نہ نکلے۔
ایمان اور مال و دولت کی محبت یہ دونوں کسی مومن کے دل میں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے، اسی طرح جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ اور یہ کیسی سخت وعید ہے جو اللہ کے رسول نے ان مسلمانوں کو سنائی ہے جو اللہ سے محبت کرنے کے بجائے دنیوی مال ومتاع سے محبت کر بیٹھتے ہیں جو کہ فانی ہیں۔ انسانوں کی آپسی محبت کے معاملہ میں ارشادات نبوی ملاحظہ فرمائیں: ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اللہ کے لیے دشمنی کی، اللہ کے لیے دیا اور اللہ ہی کے لیے منع کیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا‘‘۔
یعنی اعمال کو ایمان کی تکمیل کا سبب قرار دیا گیا اور وہ بھی جب تمام اعمال رضائے الہی کی خاطر ہوں۔ اسی طرح اللہ کی خاطر محبت کرنے والوں کے لیے خوشخبری سناتے ہوئے فرمایا: اللہ قیامت کے دن فرمائے گا کہاں ہیں میری خاطر آپس میں محبت کرنے والے؟ میرے جلال کی قسم! آج کے دن میں ان کو اپنے سایہ میں رکھوں گا کہ میرے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں ’’مبارک ہے وہ شخص جس کے دل میں خدا کی محبت کے سوا کسی اور کی محبت نہ ہو اور وہ اس کی رضا کے سوا کسی اور چیز کا طالب نہ ہو۔ پس ایسا شخص اللہ تعالی کے ساتھ ہے اگرچہ ظاہر میں خلق خدا کے ساتھ مشغول ہے‘‘
خواجہ حسن بصری ؒ سے کسی نے عرض کیا ’’مجھے نصیحت کیجیے‘‘ انہوں نے فرمایا’’جہاں کہیں ہو اللہ تعالی کے حکم کی تعظیم کرو۔ اللہ تعالی دنیا والوں سے تمہاری تعظیم کرائے گا‘‘
سید علی ہجویری ؒکا ارشاد ہے: ’’محبت جتنی قوی ہوتی ہے اسی قدر اطاعت کا حق ادا کرنے میں آسانی ہوتی‘‘
دنیا میں انسان کو زندگی گزارنا ہے اور سماجی زندگی میں کئی لوگوں سے مختلف قسم کے معاملات رکھنے پڑتے ہیں کئی رشتے خود بنتے ہیں تو کئی بنانے پڑتے ہیں اور ان سے پیار و محبت کے تعلقات قائم ہو جاتے ہیں ان تمام احوال میں اگر حقیقی معنوں میں ڈوب کر محبت کرنے کی مستحق کوئی ذات ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی ذات ہے جس سے کی جانے والی محبت تمام محبتوں میں افضل اور اعلی ہے اور دونوں جہانوں میں کامیابی کی ضامن بھی ہے اسی لیے ہر بندہ مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے دل میں محبت کا سب سے اعلی مقام صرف اللہ رب العزت کو دے اور اس کے بعد ہی تمام محبتیں ہوں۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023