سید تنویر احمد
ڈائریکٹر ہولسٹیک ایجوکیشن بورڈ، دلی
پیرنٹس کارنر
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ پری اسکول کے طلبہ جو ان کلاسوں میں نیا داخلہ لیتے ہیں، یا وہ بچے جو کبھی اسکول نہیں گئے ہیں اور ابھی اسکول جانے کا آغاز کیا ہے، چاہے وہ نرسری کے طلبہ ہوں،’ ایل کے جی‘ کے یا’ یو کے جی‘ کے، ان میں سے اکثر بچے ابتدائی چند دنوں تک روتے ہیں۔ ایسے رونے والے طلبہ کی زیادہ تعداد نرسری کی پھر’ ایل کے جی‘ اور اس کے بعد ’یو کے جی ‘ کے بچوں کی ہوتی ہے۔یہاں پر ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان کلاسوں کے بچے روتے کیوں ہیں دراصل ان کی اپنی نفسیات ہوتی ہیں۔
بچوں کے اسکول جاتے ہوئے رونے کے کچھ خاص نفسیاتی محرکات ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچے کو جب پری اسکول بھیجا جاتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ ماں مجھے یہاں چھوڑ کر جارہی ہے ۔ پتہ نہیں پھر لینے آئے گی یا نہیں ۔ تو ماں سے بچھڑنے کے خوف سے وہ روتا ہے۔ اس نفسیات کو دور کرنے کے لیے بچے کے اندر یہ اعتماد پیدا کرنا ہوگا کہ ماں اسے اسکول میں تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ رہی ہیں ۔ پھر اسے واپس لے جائے گی۔ بچے میں یہ اعتماد ماں اور ٹیچر دونوں مل کر پیدا کریں۔ اس اعتماد کے آجانے کے بعد بچہ اسکول جاتے ہوئے رونا بند کردے گا۔ بچے کے رونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب وہ ماں کی گود سے نئے ماحول میں منتقل ہوتا ہے تو وہاں وہ اپنی ماں کا لمس محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی نئے ماحول میں اسے ماں جیسا سکون اور اطمینان ملتا ہے۔ اس عدم اطمینان اور اجنبی لمس کی وجہ سے بچہ رونا شروع کردیتا ہے۔ ایسی صورت میں پری اسکول کی ٹیچر کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ وہ اس معصوم بچے کو ایسا پیار دیں کہ بچہ ان کے پاس سکون محسوس کرے، ان میں اسے ماں کی ممتا کا عکس نظر آئے اور اسے یہ محسوس کہ یہ خاتون بھی ماں جیسی ہی ہے۔ ٹیچر میں یہ وصف پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جب بچے کو ماں سے وصول کریں تو انتہائی شفقت کا اظہار کریں، بچے سے مسکرا کر پیارے لب و لہجے میں باتیں کریں، بچے کی ماں کے ساتھ بھی خوب باتیں کریں ۔ اس سے بچہ نفسیاتی طور پر یہ محسوس کرے گا کہ یہ جو نئی خاتون ہیں ، وہ میری امی کی دوست ہیں ۔ یہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ اس احساس کے بعد وہ ان کے پاس رہنے میں گھبراہٹ محسوس نہیں کرے گا یا بتدریج اپنی گھبراہٹ پر قابو پالے گا۔ اگر بچہ اس کے باوجود بھی روتا ہے تو اس کے لیے بعض ترقی یافتہ ملکوں میں ایک آسان حل تلاش کرلیا گیا ہے اور اس پر خوب عمل ہورہا ہے۔ وہاں کے پری اسکولوں میں چند دنوں کے لیے بچے کے ساتھ ماں بھی بیٹھتی ہے۔ بچہ جب اپنی ٹیچر اور اسکول کے ماحول سے پوری طرح مانوس ہوجاتا ہے تب ماں اسکول میں بیٹھنا ترک کردیتی ہے ، لیکن باقی ممالک جن میں ہمارا ملک بھی شامل ہے ، عموماً پر ی اسکولوں میں بچے کے ساتھ ماں کے بیٹھنے کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ اس کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور اسے ٹیچر کی کم زوری پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں یہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے کہ ماں کچھ دیر کے لیے اسکول کے مخصوص مقام یعنی پیرنٹس کارنر میں رکے۔ تاکہ بچہ گھبرائے تو وہ اس سے مل کر احساس دلا سکے کہ ماں یہیں پر موجود ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ پیرنٹس کارنر میں بیٹھنے کے وقفے کو کم کرتی جائے ۔ بچہ دھیرے دھیرے اسکول کے ماحول سے مانوس ہوگا اور پھر اس ماحول میں رہنے کا پوری طرح عادی بن جائے گا۔ جب وہ عادی بن جائے تو ابتدا میں اسے پورے وقت کے لیے اسکول میں نہ چھوڑیں ۔ بلکہ کچھ دیر کے لیے چھوڑیں۔ پھر رفتہ رفتہ اس میں اضافہ کرتی جائیں۔عمومًا مائیں یہ سوچتی ہیں کہ ان کا بچہ اسکول میں پورا وقت رکے۔ یہ قطعی ضروری نہیں ہے۔ اتنا ہی اسکول میں روکیں جتنا بچہ خوشی خوشی رہنا پسند کرے۔ یہ وقت اس کی مزاج سازی کا ہے۔ طبیعت اور چاہت سے زیادہ روکنے کا عمل اس کی نفسیات پر منفی اثر ڈالے گا ۔
بڑی جماعتوں کے کلاس روم مینجمنٹ کے چند اصول
ابھی تک ہم نے پری پرائمری اسکول کے کلاس روم مینجمنٹ کے چند اصول بیان کیے ہیں۔ اب ہم بڑی کلاسوں کے مینجمنٹ کے اصول بیان کریں گے، لیکن واضح رہے کہ پری اسکول اور پرائمری اسکول کے چند اصول مشترکہ ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ٹیچروں کو چاہیے کہ وہ اپنے کلاس روم کے ماحول، طلبہ اور ان کے نفسیاتی و سماجی پس منظر کے اعتبار سے اصول و ضوابط کو اختیار کریں۔ اس کتابچہ میں بیان کردہ اصولوں سے رہ نمائی حاصل کرکے ٹیچر اپنے ماحول کے لیے کارگر اصول بھی ترتیب دے سکتے ہیں۔
بڑی کلاسوں میں طلبہ کے بیٹھنے کی ترتیب
ہائیر پرائمری، سکنڈری اور بڑے درجات کے کلاس روم میں طلبہ کو بٹھانے کا نظم وہ نہیں ہوتا جسے ہم نے پری پرائمری سیکشن میں تحریر کیا ہے۔ ان کلاسوں میں طلبہ کو عام طور پر(Dual Desk) یا پھر ہر طالب علم کو کرسیوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ ۔توبڑی کلاسوں میں بیٹھنے کی ترتیب کیا ہو؟ اس ترتیب کو مختلف انداز سے مختلف اسکول اختیار کرتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں اور ہم جو سسٹم تجویز کرتے ہیں وہ ہاؤس والا سسٹم ہے۔ اس ہاؤس والے سسٹم کی بھی تفصیلات درج ذیل ہیں:
اکثر اسکولوں میں طلبہ کے ہاؤس ( Houses) تشکیل دیے جاتے ہیں۔ عام طور پر ہاؤس گیم اور اسپورٹس یا دیگر مقابلوں کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان ہاؤسوں کو تشکیل دینے کا طریقہ بھی ہر اسکول میں جدا ہے۔ یعنی اسکولوں میں یہ گروپ رول نمبر کے اعتبار سے بنائے جاتے ہیں تو بعض اسکولوں میں ہاؤسوں کی تشکیل ابتدائی حرف تہجی یا انگریزی کے الفابی (Aphabetical Word) کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہم یہاں ہاؤسوں کا استعمال دو مقاصد کے حصول کے لیے کرنے کا منصوبہ پیش کررہے ہیں۔
الف : کم زور طلبہ یا دیر سے سمجھنے والے (Slow Learner) کی صلاحیتوں کو اونچا اٹھانے کے لیے، دوم کلاس میں تعلیمی اور سماجی اعتبار سے ناہمواری کو دور کرنے کے لیے۔ پہلے مقصد کا حصول حصول تعلیم کے مندرجہ ذیل دو اہم ذرائع سے کیا جائے گا۔
(1) ہم عمر گروپ کی تعلیم (Peer Group Learning )۔ تعلیمی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طلبہ اپنے ہم عمر دوستوں سے بآسانی کئی باتیں اور اصول سیکھ سکتے ہیں۔ دونوں کے باہم ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل موثر ہوا کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ طلبہ بالخصوص زبان اپنے دوستوں کے ذریعے سیکھتے ہیں۔ زبان کے علاوہ اخلاق و عادات، پسند و ناپسند، رد عمل، احساسات و جذبات کا اظہار ، ان تمام کو اکثر دوستوں سے سیکھا جاتا ہے اور اسی عمل کو (Peer Group Learning) کہا جاتاہے۔ ماہرین نفسیات کی یہ رائے ہے کہ اسکول کی تعلیم (نصابی تعلیم ) کے لیے ٹیچر کو ، طلبہ کی اس خصوصیت کا استعمال کرنا چاہیے ۔ اب تدریسی عمل میں انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ تدریسی عمل میں ’ چاک اینڈ ٹاک ‘ کا زمانہ ختم ہوچکا ہے۔ یعنی ٹیچر یہ سمجھا کرتے تھے کہ پڑھانے کا مطلب لیکچر دینا اور بلیک بورڈ پر محض سوالات و جوابات لکھا دینا کافی ہوتا ہے لیکن اب تدریسی عمل میں (Peer GroupLearning) کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
(2) (Peer Group Learning)کی طرح ایک اور عمل ہے جسے ’باہمی تعاون کے ذریعہ تعلیم‘ (Collaborative Learning)کہا جاتا ہے۔ اس لرننگ میں طلبہ ایک دوسرے کے تعاون سے نئے علم کو سیکھتے ہیں یا نئے علم کی دریافت کرتے ہیں۔(Peer Group Learning) میں ذہین طالب علم ، کم زور طالب علم کو سکھاتا ہے جب کہ (Colabrative Learning) میں کم و بیش برابر کی ذہانت رکھنے والے طلبہ ایک دوسرے کے تعاون سے علم سیکھتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ طلبہ بعض نکات کو ٹیچر سے بآسانی سیکھ نہیں پاتے ہیں۔ اس لیے کہ ٹیچر کی ذہنی استعداد طلبہ سے اونچی ہوتی ہے۔ لیکن ایک ہم عمر دوست ذہنی صلاحیتوں میں بھی کم و بیش برابر ہوتا ہے اور وہ دوست کو سکھانے کے اسلوب سے واقف ہوتا ہے۔ اس کی یہ واقفیت کسی ٹریننگ کے نتیجے میں نہیں بلکہ فطری ہوتی ہے۔
سیکھنے کے عمل کے دوران اگر ٹیچر طلبہ کو ڈانٹتے ہیں یا غلط الفاظ کا استعمال جانے یا انجانے میں کردیتے ہیں تو بہت سے طلبہ میں ذہنی تناؤ پیدا ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں سیکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ ٹیچر کے بجائے اگر دوست کچھ سخت الفاظ بول دے تو طالب علم کی نفسیات پر اتنا گہرا اثر نہیں ہوتا جتنا کہ ٹیچر کے کہنے پر ہوتا ہے۔ اس لیے (Collaborative Learning)کو اور (Peer Group Learning) کو آج کل ٹیچر بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم اس کا عملی طریقہ پیش کررہے ہیں:
ب :گروپوں کا استعمال کلاس روم مینجمنٹ کے لیے بھی کیا جاتا ہے، یعنی کلاس روم میں طلبہ کو بٹھانے کا نظم کیسا ہو؟ اس کے متعدد طریقے رائج ہیں۔ پہلا یہ کہ کلاس میں ذہین طلبہ آگے کی نشستوں پر بیٹھتے ہیں اور کم زور طلبہ پیچھے بیٹھا کرتے ہیں۔جب کہ منطق یہ کہتی ہے کہ کم زور طلبہ کو آگے بٹھایا جائے اور ذہین طلبہ کو پیچھے۔ ویسے کئی اسکولوں میں اس طرح کا سسٹم بھی رائج ہے ۔اسے ہم دوسرا طریقہ کہہ سکتے ہیں اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر دن طلبہ کی صفوں کی ترتیب کو بدلا جائے۔ یعنی جو طلبہ آج پہلی صف میں بیٹھے ہیں ، وہ کل دوسری صف میں اور پرسوں تیسری صف میں بیٹھیں گے۔اس طرح یہ تین نظام قائم ہیں۔ ’ گروپ سسٹم ‘ ایک چوتھا نظام بھی پیش کرتا ہے جسے ہم آگے بیان کررہے ہیں:
گروپ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے مختلف مقابلہ جات اور مسابقات منعقد کیے جاتے ہیں۔اسکول یا کلاس روم کے مختلف انتظامی و انصرامی امور بھی ان گروپس کو سونپے جاتے ہیں۔اسکول میں منعقد ہونے والے مختلف پروگراموں کے انتظا م میں بھی ان گروپس کی مددلی جاتی ہے۔ مختلف کاموں کو تفویض کرنے کے لیے یہ گروپ مددگار ثابت ہوتے ہیں۔نیز مندرجہ بالا مقاصد کے علاوہ بھی ان ہاؤس گروپوں (Houses Groups) کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اب آئیے اس پہلو پر غور کریں کہ ہاؤس کس طرح بنایا جانا چاہیے ؟ درج بالا مقاصد کے حصول کے لیے مندرجہ ذیل طریقے کو اختیار کیا جاسکتا ہے:
اس مرحلے کو واضح کرنے سے قبل ہم ایک مطالعہ (Study) پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس مطالعے نے یہ واضح کیا ہے کہ ہر جماعت میں عموماً 10 تا 15 فی صد طلبہ ذہین ہوتے ہیں ۔ 60 تا 70 فی صد طلبہ اوسط درجے کے اور 15 سے 20 فی صد کم زور ہوتے ہیں۔ گروپوں کو ترتیب دینے سے پہلے استاد اپنی کلاس کے طلبہ کو مندرجہ ذیل تین زمروں (Catagries) میں بانٹ دیں۔ (1) ہیگ (HAG) یعنی (High Academic Group) یا
(High Acceptance Group)یعنی ایسے طلبہ جو تعلیمی اعتبار سے بہتر اور ذہین ہوتے ہیں۔(2) میگ (MAG) یعنی
(Medium Academic Group) یا(Medium Acceptance Group) ۔ اس گروپ میں اوسط درجے کے طلبہ ہوتے ہیں۔ (3) لیگ ( LAG) یعنی(Low Academic Group)۔ یعنی ایسے طلبہ جو تعلیمی اور ذہانت کے اعتبار سے کم زور ہوتے ہیں۔اساتذہ مختلف انداز سے بچوں کی جانچ کرکے طلبہ کو ان تین حصوں میں تقسیم کریں۔ درجہ بندی کے لیے طلبہ کی کلاس میں کارکردگی، ان کے گذشتہ امتحانات کے ریکارڈ یا پھر طلبہ کی دل چسپیاں، وغیرہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے درجہ بندی کا عمل اختیار کیا جائے۔ اور ہاں! اس درجہ بندی کا علم صرف اساتذہ کے پاس ہو۔ کون سا طالب علم کس زمرے میں ہے؟ یہ بات طلبہ کو نہیں بتانی چاہیے ۔ اس سے ان کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس عمل کو کلاس ٹیچر خود انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ دو تین اساتذہ باہمی مشاورت سے طلبہ کی درجہ بندی کریں۔ یاد رہے کہ اس درجہ بندی کا پورا ریکارڈ خفیہ ہو۔ درجہ بندی کے بعد اب آپ ہاؤس بنانے کا عمل شروع کریں۔ فرض کیجیے کہ آپ درجہ پنجم کے لیے ہاؤس کی تشکیل کررہے ہیں جس میں کل طلبہ کی تعداد 40 ہے۔ مناسب ہوگا کہ آپ پوری کلاس میں پانچ گروپ بنائیں ، یعنی ہر گروپ میں 8 طلبہ ہوں گے۔ ان 8 طلبہ کا انتخاب اس طرح ہو کہ کم سے کم ایک ذہین طالب علم ، ایک یا دو کم زور طلبہ اور پانچ اوسط درجے کے طلبہ ہوں تو اس طرح ہر گروپ میں با صلاحیت طلبہ موجود ہوں گے۔ ذہین طالب علم، اوسط کی اور وہ کم زور طلبہ کی مدد کرے گا۔
کم زور طلبہ اوسط طلبہ سے سیکھیں گے اور اپنی صلاحیتیں بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح اگر ہر ہاؤس میں تینوں زمروں کے طلبہ ہوتے ہیں توپھر ’ Peer Group Learning‘ اور ’ Collaborative Learning’کے ذریعے طلبہ کا معیار بلند ہوگا۔ اس طرح کی گروپ سازی کے بعد کلاس روم مینجمنٹ میں بھی مدد ملے گی۔ اب ہدایت یہ دی جائے کہ ہر گروپ ایک ہی صف میں یا ایک ہی ساتھ بیٹھے گا۔ ہاؤس کا تعین آپ کلاس روم کی تعداد اور ہر صف میں بٹھائے جانے والے طلبہ کی تعداد کے اعتبار سے طے کرسکتے ہیں۔ بعض انٹرنیشنل اسکولوں میں ہر مضمون کے اعتبار سے طلبہ کے علیحدہ علیحدہ گروپ ہوتے ہیں، اس لیے کہ ایک طالب علم ریاضی میں کم زور طلبہ کے زمرے میں آسکتا ہے تو وہی طالب علم زبان (Langugage)کے مضمون میں ذہین طلبہ کے زمرے میں شامل ہوسکتا ہے۔ بہر حال کلاس ٹیچر اپنی سہولت اور صواب دید کے اعتبار سے ہاؤس کی تشکیل کرسکتے ہیں۔
’اے آئی سی‘ یو میں جب ہم گروپس بناتے ہیں تو اس وقت بھی اوپر بیان کیےگئے طریقہ کار کو ملحوظ رکھا جائے تو’ اے آئی سی یو‘ کی اثر پذیری زیادہ بہتر ہوگی۔ ہاؤس کے اس عمل کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے اس کتابچے کے مصنف کے متعلقہ موضوع پر دیے گئے لیکچر کو اس یو ٹیوب لنک پر دیکھا جاسکتا ہے۔
(جاری)
(مکمل مواد کتابچے کی شکل میں دستیاب ہے۔ اور 9844158731 پر وہاٹس ایپ مسیج بھیج کراس کتابچہ کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔)
***
***
کلاس روم میں طلبہ کو بٹھانے کا نظم کیسا ہو؟ اس کے متعدد طریقے رائج ہیں۔ پہلا یہ کہ کلاس میں ذہین طلبہ آگے کی نشستوں پر بیٹھتے ہیں اور کم زور طلبہ پیچھے بیٹھا کرتے ہیں۔جب کہ منطق یہ کہتی ہے کہ کم زور طلبہ کو آگے بٹھایا جائے اور ذہین طلبہ کو پیچھے۔ ویسے کئی اسکولوں میں اس طرح کا سسٹم بھی رائج ہے ۔اسے ہم دوسرا طریقہ کہہ سکتے ہیں اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر دن طلبہ کی صفوں کی ترتیب کو بدلا جائے۔ یعنی جو طلبہ آج پہلی صف میں بیٹھے ہیں ، وہ کل دوسری صف میں اور پرسوں تیسری صف میں بیٹھیں گے۔اس طرح یہ تین نظام قائم ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 14 جنوری 2023