محمد مجید الدین فاروقی، حیدرآباد
انسان پر واجب حقوق کی ادائیگی اور مناسب تربیت کی فکر لازمی
مولانا مودودی ایک جگہ لکھتے ہیں "موجودہ معاشی نظام اتنا نالائق ہے کہ یہ کسی کو دو وقت کی روٹی نہیں دیتا جب تک کہ اس کا سارا وقت اور اس کی تمام قوتیں چھین نہ لے”۔ یہ اس دور کی خاصیت ہے۔ یہ نظام انسانوں کو معاشی فکر میں گھلا دیتا ہے۔ شاعر اسلام علامہ اقبال نے کہا تھا :
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش
یہ ایک المیہ ہے کہ معاشی طور پر ذمہ دار ہر فرد کو ہر روز اس المیہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ ترقی اور اعلیٰ طرز زندگی کے حصول کے نام پر افراد کی زندگیوں پر زیادہ سے زیادہ تسلط حاصل کرنا، فکری، ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا استحصال کرنا یہ موجودہ معاشی نظام کی خاصیت ہے۔ایک مرتبہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے تاجر انفوسس کمپنی کے مالک نارائن مورتی نے یہ بات کہی کہ "ہندوستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کی کامگار قوت ستر گھنٹے ہر ہفتے کام کرنے کی عادت ڈالیں”۔ انہوں نے خود اپنی مثال پیش کی کہ وہ ہفتے میں اسی سے نوے گھنٹے کام کیا کرتے تھے۔دسویں جماعت کے بعد یہ نظام معصوم نوجوانوں کو مسابقت کے کنویں میں دھکیل دیتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے ذریعے دولت، عزت اور قوت کے حصول کا مقصد ان کے ذہنوں میں نصب کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے طلباء حصول تعلیم کے ایام میں ساری دنیا سے کٹ کر خود کو کھپا دیتے ہیں۔ جب یہ طلباء روزگار کی اس منڈی میں قدم رکھتے ہیں تو وہی مسابقت کا اندھا کنواں ان کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ یہ وہ منڈی ہے جہاں ہر شخص معاش کے پیچھے باولا ہو چکا ہے۔ روزگار کی یہ منڈی فرد سے اس کا پورا وقت اور اس کی تمام صلاحیتوں کا مطالبہ کرتی ہے۔
انسان کا معاشی طور پر اس قدر منہمک ہو جانا کہ وہ اپنی حقیقت سے غافل ہو جائے، اسلام کو مطلوب نہیں ہے۔ جب معاش کی فکر اس کے سر پر سوار ہو کر پورے اعصاب پر طاری ہوتی ہے تو وہ انسان کو نرا معاشی حیوان بنا دیتی ہے اور اسے اس کے اصل مقام سے گرا دیتی ہے، وہ اصل مقام جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس طرح کیا کہ "ہم نے انسان کو بزرگی عطا کی ہے”۔معاشی فکر کے تحت مغلوب انسان اپنے وجود سے غافل، اپنے اہل و عیال سے بیگانہ، اپنے سماج سے لا تعلق ہو جاتا ہے۔ خود غرضی اور بے حسی کی جھلک اس کے پورے وجود میں ظاہر ہوتی ہے۔ ہر وہ چیز جو اسے معاشی طور پر کوئی فائدہ نہ دے اسے وہ حقارت اور کراہیت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر وہ چیز جو اسے مال بٹورنے میں مدد کرے وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی پرستش کرنے میں بھی وہ کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔
ہمارا تعلیمی نظام ایسے ہی مفاد پرست، نفس و زر کے گرویدہ، بے حس اور غیر شعوری افرد کو تیار کر رہا ہے۔ اگر ہم طلباء کا جائز لیں تو ہم پاتے ہیں کہ ان کے دن کا پورا وقت اپنے مخصوص سبجیکٹ کی تعلیم ہی میں گزر جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انہیں وقت نہیں مل پاتا کہ وہ اپنے تزکیہ اور تربیت کی طرف مائل ہو سکیں، اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر اس کی نشو و نما کر سکیں، سماج سے رشتہ جوڑ سکیں، والدین اور رشتہ داروں کے درمیان معیاری وقت (کوالٹی ٹائم) گزار سکیں۔
دوسری جانب اگر ہم ملازم پیشہ افراد کی زندگیوں پر غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ دنیا میں صرف نو تا چھ بجے کی نوکری کے لیے ہی بھیجے گئے ہیں۔ ان کے وقت کا اکثر حصہ حصول معاش کی سرگرمیوں کے لیے ہی وقف رہتا ہے۔ تاجروں کے حالات بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ معاش کی فکر انہیں ذرہ برابر بھی اپنی تجارت سے غافل ہونے نہیں دیتی۔ بے شک معاش کا حصول ایک اہم دینی فریضہ ہے جو بقائے حیات کے لیے انتہائی ناگزیر ہے، یکن اپنے پورے وقت کو اسی کی سعی میں گزار دینا یہ بھی کسی طرح کی عقلمندی نہیں ہے۔ انسان اس دنیا میں جانور کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ وہ ایک مستقل سماجی وجود رکھتا ہے۔ ارادہ و اختیار، عقل و علم اور رشتے نابے جیسی صفات اسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ وہ حقوق و فرائض کی بندشوں میں جکڑا ہوا ہے۔
سب سے پہلا حق اس پر اپنے نفس کا ہے۔ اس بات کی کوشش کی جانی چاہیے کہ ہم اپنے وقت کا ایک حصہ نفس کی تطہیر و تزکیہ کے لیے وقف کریں۔ نفس کا تزکیہ نمازوں کے قیام، تلاوت اور تدبر قرآن اور دین اسلام کے گہرے مطالعہ کے ذریعے سے ہونا چاہیے۔ اللہ تعالی سورہ نور میں ارشاد فرماتا ہے: "رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿۳۷﴾” (جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و ادائے زکوة سے غافل نہیں کر دیتی۔ وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی) نفس کا یہ بھی حق ہے کہ اسے اس ہنگامی اور بے انتہا مصروف اوقات میں سکون اور تنہائی کہ چند لمحات مہیا کرائے جائیں۔ یہی وہ اوقات ہوتے ہیں جن میں انسان ذہنی طور پر یکسو ہو کر زندگی کے حقائق پر بہتر طور پر غور و فکر کر سکتا ہے۔ اپنے وجود، اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اپنے انجام کے متعلق سوچتا ہے۔ اب ساری دنیا سو رہی ہو، ماحول پر سکون طاری ہو اور وقت رک گیا ہو، اس وقت اپنے رب سے مناجات اپنے گناہوں کا اعتراف اور معافی طلب دعائیہ کلمات اپنے اندر غیر معمولی تاثیر رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت انسان اپنی اصل حالت میں ہوتا ہے۔ اس وقت کوئی بھی دوسری فکر اس کے اور اس کے رب کے درمیان حائل نہیں رہتی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ان صلاحیتوں کو پہچاننا، ان کی نشو و نما کرنا اور انہیں اسلام کی راہ میں خرچ کرنا یہ تمام امور انسان کی زندگی سے وقت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر ان صلاحیتوں کی وقت کے پانی کے ذریعے آبیاری نہیں کی گئی تو وہ مرجھا جاتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ان صلاحیتوں کے ارتقاء اور ان کے صحیح مصرف کے لیے وقت فارغ کیا جائے۔ معاشی مصروفیات ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کو نقصان نہ پہنچانے پائیں۔ جس طرح وقت ایک عظیم نعمت ہے، اسی طرح صحت بھی ایک انمول نعمت ہے۔ انسان کے پاس اگر دولت اور وقت ہو لیکن وہ صحت سے محروم ہو تو ایسی دولت اور وقت اس کے لیے کسی فائدے کا سبب نہیں بن سکتے۔ جسم کو آرام دینا بھی ضروری ہے۔
انسان کا دوسرا حق اپنے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کا ہے۔ بڑے شہروں کا تو یہ المیہ ہے کہ یہاں لوگوں کو کئی کئی دن تک والد کی رفاقت نصیب نہیں ہوتی۔ مہنگے اور عالی شان گھر خریدے جاتے ہیں لیکن وہ سارا دن ویران پڑے رہتے ہیں۔ اولاد والدین سے اور والدین اولاد سے لا تعلق رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ زوجین بھی آپس میں کم ہی وقت گزار پاتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خاندان کمزور بنیادوں پر آگے بڑھتا ہے۔ محبت اور ہمدردی افراد خانہ کے درمیان مفقود رہتی ہے۔ نفسانیت کے جذبے سے لیس یہ رشتے خوشگواری اور امن و سکون سے محروم رہتے ہیں۔ضروری ہے کہ ہم اپنے وقت کا ایک حصہ اپنے خاندان پر صرف کریں۔اپنے بچوں کے ساتھ کھیلیں، انہیں تعلیم دیں، ان کے پاس بیٹھیں اور ان کی باتیں سنیں۔ اپنے والدین کے پاس بیٹھیں، ان سے باتیں کریں اور ان کی خدمت کریں۔
انسان کا تیسرا حق اس کے سماج کا ہے جس میں وہ زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ سماج سے خیر خواہی کا برتاؤ کیا جائے، اپنے اطراف کے مسائل سے واقفیت رکھی جائے اور اپنی مقدرت کے مطابق انہیں حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ظلم جہاں کہیں بھی ہو اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوا جائے۔ سماج کی ہدایت کے لیے مستقل کوشاں رہا جائے۔ گزشتہ عرصے میں ہندوستانی سماج کی غفلت اور بے حسی دنیا کے سامنے عیاں ہوگئی جب اسرائیل غزہ کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہا تھا، اس وقت ساری دنیا میں بالخصوص مغربی ممالک کی تعلیم گاہوں میں اس ظلم و بربریت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیے گئے، کثیر تعداد میں لوگوں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی لیکن افسوس کہ اس عظیم الشان ملک کی فضا ظلم کے خلاف خاموش رہی۔ عوام کی غفلت اور بے حسی اس بات کی ترجمان کر رہی تھی کہ ابھی بھی یہاں کے عوام حصول معاش سے آگے نہیں سوچتے اور عصبیت میں مبتلا ہو کر انسانیت کے مسائل سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ دوسرا وقت وہ رہا جب اس ملک میں مسلمانوں کو شہریت کے قانون سے الگ رکھا گیا جس کے خلاف مسلم امت سراپا احتجاج بنی رہی، دوسری طرف ملک کی عظیم غیر مسلم آبادی نے مسلمانوں کے اس درد سے اپنے آپ کو لا تعلق رکھا۔ یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ اس عظیم آبادی کو بےحسی، غفلت اور عصبیت کے دلدل سے نکالے اور انہیں حق و انصاف کی روش پر گامزن کرے۔
اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہے کہ” فرصت کو مصروفیت سے پہلے غنیمت جانو”۔ لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے فرصت کے لمحات کی قدر کریں، انہیں لغویات میں برباد نہ کریں۔ اللہ تعالی سورہ مومنون میں ارشادفرماتا ہے: وَالَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾” وہ لوگ(جو ایمان لا کر فلاح پانے والے ہیں) لغویات سے دور رہتے ہیں”۔ سورہ الفرقان میں اللہ کے بندوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے: وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا ﴿سورہ الفرقان آیت٧٢﴾ (اور رحمان کے بندے وہ ہیں) کہ اگر کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے۔ لغویات ان چیزوں کو کہتے ہیں جو لا حاصل ہوں اور جو ہمیں اللہ کی یاد اور آخرت کی تیاری سے غافل کر دیں۔ ان لغویات میں منہمک ہو کر ہم خود کے ہاتھوں کل کے خسارے کا سبب نہ بنیں۔ انسان خود پسندی کا کتنا ہی دعویٰ کرے لیکن حقیقت میں وہ خود اپنا ہی دشمن رہتا ہے جب تک کہ اسے اپنے وقت کے تصرف کا احساس نہیں رہتا۔
لغویات وقت کی اس بیش بہا نعمت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں اور بے حسی اور غفلت کے نشے میں انسان کو منہمک رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو آزمائش کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے اور دو چیزیں عطا کی ہیں ایک، ارادہ و عقل۔ دوسری، مہلت یعنی وقت۔ اب انسانوں کا فرض ہے کہ ان دو چیزوں کا صحیح طریقے سے استعمال کریں اور اس آزمائش میں کھرا اترنے کی کوشش کریں۔ اس وقت کا اگر مناسب طریقے سے استعمال نہیں کیا گیا تو پھر یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ دنیا میں وقت کا بھی ایک دن اختتام ہے، لیکن آخرت میں یہی وقت کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اسی طرح کامیابی کو بھی زوال نہیں اور عذاب بھی دائمی ہو گا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024