آرٹیکل 370کی تاریخی اور سیاسی حیثیت
نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن ہم پھر بھی لڑیں گے کشمیری رہنماؤں کا عزم!
ندیم خاں، بارہمولہ کشمیر
کشمیر کے حُسن، اس کی خوبصورتی اور وہاں کے حسین قدرتی مناظر کے بارے میں شاعروں نے اپنی شاعری، نغمہ نگاروں نے اپنے نغموں اور گلوکاروں نے اپنے گانوں میں بہت کچھ کہا ہے۔ خاص طور پر شاعروں نے تو کشمیر کو ’’جنت بے نظیر‘‘ کہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کشمیر کے بارے میں جو شاعرانہ خواب ہے، وہ چکنا چور ہوچکا ہے۔
آزادی بھارت سے قبل جموں و کشمیر مسلم اکثریتی ریاست تھی اور یہاں کے حکم راں مہاراجہ ہری سنگھ تھے۔ تقسیم بھارت سے قبل مہاراجہ نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ جموں و کشمیر کو بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کا حصہ نہیں بنائیں گے بلکہ وہ خودمختار رہنا چاہتے ہیں۔اس دوران پاکستان کے قبائلیوں نے کشمیر پر حملہ کر کے آپریشن گلمرگ شروع کیا۔ کشمیر میں پاکستان کی طرف سے حملہ آور قبائلیوں کی آمد کے بعد ہی ہری سنگھ سرینگر سے فرار ہوکر جموں پہنچ گئے۔ جموں میں ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ دستاویز الحاق پر دستخط کیے۔ اس طرح سے جموں و کشمیر چند اہم شرائط کے ساتھ بھارت کا اٹوٹ حصہ بن گیا۔ دستاویز الحاق میں شامل شیڈول نے پارلیمنٹ کو جموں و کشمیر کے حوالے سے صرف دفاع، امور خارجہ اور مواصلات پر قانون سازی کرنے کا اختیار دیا ہے۔ الحاق کے بعد مارچ 1948 میں ہری سنگھ نے جموں و کشمیر میں ایک عبوری حکومت مقرر کی، جس میں شیخ عبداللہ کو وزیر اعظم منتخب کیا گیا۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کو شامل کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دفعہ کی وجہ سے ہی جموں و کشمیر یونین آف انڈیا کا حصہ قرار پایا تاہم، اس کی خصوصیت یہ رہی کہ بھارت کی دیگر ریاستوں کے برعکس جموں و کشمیر ریاست کو خصوصی درجہ دیا گیا۔ شیخ محمد عبداللہ کی جانب سے ریاست کے لیے الگ آئین کی مانگ کی گئی جس کے بعد سنہ 1951 میں جموں و کشمیر ریاستی آئین ساز اسمبلی کے قیام کی منظوری دی گئی۔ دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور بھارت پارلیمنٹ کا پاس کیا گیا کوئی بھی قانون جو دیگر ریاستوں میں لاگو ہوتا ہے آرٹیکل 370 کے اطلاق کے بعد جموں و کشمیر میں تب تک لاگو نہیں ہوتا جب تک ریاستی اسمبلی اسے منظور نہ کر لیتی۔
آرٹیکل 370 کو آئین میں عارضی طور پر رکھا گیا لیکن جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو اس میں ترمیم یا اسے حذف کرنے یا برقرار رکھنے کا حق دیا گیا تھا۔ سنہ 1956 کو جموں و کشمیر کو اپنا آئین مل گیا جس کے بعد جموں و کشمیر ریاستی آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا۔ تحلیل ہونے کے بعد آرٹیکل 370 کی پوزیشن جوں کی توں رہی۔ سپریم کورٹ نے 1969 اور 2018 میں اپنے فیصلوں میں کہا تھا کہ آرٹیکل 370 عارضی نہیں ہے۔ سنہ 1975 میں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے شیخ محمد عبداللہ سے’ اندرا -عبدللہ معاہدے ‘پر دستخط کیے جس میں آرٹیکل 370 کی اہمیت کو دہرایا گیا۔ وہیں 1995 میں وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وہ 1991 سے 1996 تک ملک کے وزیر اعظم رہے اور اس دوران جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کا عروج تھا۔
پانچ اگست سنہ 2019 میں وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں دفعہ 370 کی جزوی اور 35 اے کی کلی منسوخی کے بِل کو پیش کیا تھا، جسے پہلے راجیہ سبھا میں پاس کیا گیا بعد میں اس بل کو لوک سبھا میں بی جے پی ممبران نے بھاری اکثریت سے منظوری دی۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ہی جموں و کشمیر ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں یا یونین ٹریٹریز، جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا گیا۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کا علیحدہ آئین منسوخ ہوگیا اور جموں و کشمیر میں تنظیم نو قانون کا اطلاق عمل میں لایا گیا۔ پانچ اگست سے ایک روز قبل وادی کی لگ بھگ تمام سرکردہ سیاسی جماعتوں کے لیڈران چاہے وہ نظریاتی طور پر پاکستان نواز تھے یا علیحدگی پسند، ان تمام کو جیل بھیج دیا گیا یا گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں کئی ماہ تک کرفیو نافذ رہا اور وادی میں سیکیورٹی فورسز کی بھاری تعداد تعینات رہی۔ اس دوران انٹرنیٹ سمیت فون سروس کو بھی کئی ماہ تک معطل کر دیا گیا تھا۔
وطن عزیز بھارت کا یہ جمہوری نظام ہے کہ کوئی فیصلہ اگر کسی کے لیے باعث اطمینان نہ ہو تو وہ عدالتوں کا رخ کرسکتا ہے، ملک کی سب سے بڑی عدالت کے پاس جاسکتا ہے، چنانچہ اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے فیصلے کو جو لوگ غلط مانتے تھے، انہوں نے اس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں عرضی داخل کی تھی۔ اس معاملے میں کل 23 عرضیاں داخل کی گئی تھیں۔ عرضی گزاروں میں وکیل بھی تھے، سیاست داں اور صحافی بھی، کارکنان بھی تھے اور سماجی تنظیمیں بھی تھیں۔ اس معاملے پر عدالت عظمیٰ کی سماعت اور فیصلے کا انتظار بڑی شدت سے تھا۔ بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی
چندرچوڑ کی سربراہی والی 5 رکنی آئینی بینچ نے، جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس بی آر گوئی، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس سنجیو کھنہ شامل تھے، 2 اگست، 2023 سے عرضیوں پر سماعت شروع ہوچکی تھی۔ 16 دن تک آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے خلاف اور حمایت میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد آئینی بینچ نے 5 ستمبر، 2023 کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے اس بات کا انتظار کیا جا رہا تھا کہ عدالت عظمیٰ کیا فیصلہ سناتی ہے اور آخر کار بروز پیر؍ 11؍ دسمبر 2023 کو اس نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنا دیا۔
جموں و کشمیر کے گزشتہ اسمبلی انتخابات کے بعد پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بی جے پی کی حکومت بنی تھی مگر جون 2018 میں بی جے پی نے اتحادی حکومت سے حمایت واپس لے لی تھی۔ اس کے بعد وہاں گورنر راج نافذ کیا گیا۔ پھر صدر راج نافذکر دیا گیا تھا۔ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے وقت جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ تھا، چنانچہ اس تنسیخ کے خلاف عرضی گزاروں کی ایک دلیل یہ تھی کہ مرکزی حکومت نے آرٹیکل 370 کو اس وقت ہٹایا جب جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ تھا مگر فیصلہ سناتے ہوئے بھارت کے چیف جسٹس، ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ ’صدر راج کے دوران ریاست کی طرف سے لیے گئے مرکز کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 370 جنگ جیسی حالت میں انٹرم پرووژن تھا۔ اس کے ٹیکسٹ کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ عارضی پرووژن تھا۔‘ چیف جسٹس نے یہ بات بھی واضح کر دی تھی کہ لداخ کو جموں وکشمیر سے الگ کرکے مرکز کے زیر انتظام بنانے کا فیصلہ درست ہے۔ جموں و کشمیر کے ریاست کا درجہ ختم ہونے کے بعد سے کئی لوگوں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ اس کا مکمل ریاست کا درجہ بحال کیا جائے۔ ایک مطالبہ یہ بھی رہاہے کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرائے جائیں۔ ان دونوں مطالبات کی نوعیت آرٹیکل 370 کو بحال کرنے کے مطالبے سے الگ تھی۔ عدالت عظمیٰ نے ان مطالبات پر بھی اپنا مؤقف واضح کیا ہے۔ جموں و کشمیر کے مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ ’جموں و کشمیر کے مکمل ریاست کا درجہ جتنی جلدی بحال کیا جا سکتا ہے، کر دینا چاہیے۔ ‘ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ جموں وکشمیر میں 30 ستمبر، 2024 سے پہلے اسمبلی انتخابات کرانے کے لیے اقدامات کرے۔
عدالت عظمیٰ کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کو برقرار رکھنے کے فیصلے کو وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ’تاریخی‘ فیصلہ بتایا۔ وزیر اعظم کے مطابق، ’آرٹیکل 370 کی تنسیخ سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے اور 5 اگست 2019 کو بھارت کی پارلیمنٹ کے ذریعے لیے گئے فیصلے کو آئینی طور پر برقرار رکھتا ہے۔ یہ جموں، کشمیر اور لداخ میں ہماری بہنوں اور بھائیوں کے لیے امید، ترقی اور اتحاد کا ایک شاندار اعلان ہے۔ عدالت نے اپنی گہری دانشمندی سے اتحاد کے اس جوہر کو مضبوط کیا ہے جسے ہم، بھارتی ہونے کے ناطے، باقی سب سے اوپر مانتے ہیں۔ تو وہی بھارتیہ جنتاپارٹی کے جموں وکشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینا نے بھی دفعہ 370 پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو ایک تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب ہم سب کو جموں وکشمیر کی تعمیر و ترقی کے لیے مل کر آگے بڑھنا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر جموں و کشمیر کے لیڈروں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا مگر ظاہر ہے، عدالت قانونی دلائل کی بنیاد پر فیصلے سناتی ہے، اس لیے اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ اس نے کس بنیاد پر فیصلہ سنایا ہے، اس بات کی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی کہ فیصلے سے کون خوش ہوا اور کون ناخوش۔
جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی ) کانگریس، ڈیموکریٹک پروگریسیو آزاد پارٹی اور پیپلز کانفرنس نے عدالت عظمیٰ کے دفعہ 370 کی منسوخی کو برقرار رکھنے کے فیصلے پر ‘مایوسی’ کا اظہار کیا۔ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سماجی رابطہ گاہ ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا: میں مایوس ہوں لیکن دل شکن نہیں ہوا ہوں، ہماری جدو جہد جاری رہے گی‘۔انہوں نے مزید کہا: ’بی جے پی کو اس مقام تک پہنچنے کے لیے کئی دہائیاں لگ گئیں اور ہم اس طویل جد وجہد کے لیے تیار ہیں‘۔ وہیں جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر میڈیا کو بتایا: ‘بنیادی طور پر 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کی تنسیخ کا جو فیصلہ تھا وہ غلط تھا وہ جلدی میں لیا گیا فیصلہ تھا اور اس کے متعلق سیاسی جماعتوں کو پوچھا جانا چاہیے تھا‘۔انہوں نے کہا: ‘عدالت عظمیٰ نے جموں وکشمیر میں 30 ستمبر 2024 تک الیکشن کرانے اور ریاستی درجے کی فوری بحالی کی ہدایت دی ہے تو کوئی گنجائش باقی نہیں رکھی ہے، پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے بھی‘ایکس’ پر ایک پوسٹ میں کہا: ‘دفعہ 370 پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ مایوس کن ہے’۔انہوں نے کہا: ‘دفعہ 370 کو قانونی طور پر ختم کیا گیا ہوگا یہ ہماری سیاسی خواہشات کا ہمیشہ ایک حصہ رہے گا، کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے کہا کہ ’’مرکزی سرکار نے یک طرفہ آئین ہند کی دفعہ 370 کو ختم کر کے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ اس حکومت نے اْسی فیصلے کو یک طرفہ منسوخ کیا جو جموں وکشمیر کے ہند یونین میں شامل ہونے کی اولین شرط تھی۔
آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے بعد سیاسی طور پر بہت شور مچا تھا، مگر افراتفری پیدا کرنے کی کوشش ناکام رہی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بہت جلد عوام کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ فیصلہ متنازعہ نہیں بلکہ تاریخی ہے کیونکہ حکومت کی دور اندیشی کے نتیجے میں آج کشمیر بھی ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے، کشمیر کو آرٹیکل 370 سے نجات ملے آج چار سال پورے ہوگئے۔ ایک بڑا فیصلہ ایک بڑا قدم، جس کے بارے میں کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا مگر جب کشمیر میں یہ تبدیلی آئی تو اس کو ہر کسی نے محسوس کیا، نیا کشمیر سامنے آیا۔ ترقی راہوں کے ساتھ، سیاحت کی صنعت کے ساتھ۔ نئی نسل کی نئی اڑان کے ساتھ۔ ہڑتال کا شہر سرینگر اب اسمارٹ سٹی ہے۔ دنیا کے نقشہ پر ترقی سے سفارت تک کے لیے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حالات بدلے اور ماحول بدلا جس نے ملک کو احساس دلایا کہ کشمیر کی راہ سے آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے ساتھ کیا انقلاب برپا ہوا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023