سابق چیف جسٹس یو یو للت کا کہنا ہے کہ بغیر وجہ کی جانے والی گرفتاریاں عدالتی نظام پر بوجھ ڈالتی ہیں
نئی دہلی، نومبر 22: سابق چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت نے پیر کے روز کہا کہ بغیر کسی وجہ کے کی جانے والی گرفتاریاں عدالتی نظام پر بوجھ بن رہی ہیں۔
للت نے بمبئی ہائی کورٹ میں جسٹس (ریٹائرڈ) کے ٹی دیسائی میموریل لیکچر میں ’’مجرمانہ انصاف کو موثر بنانے‘‘ پر بات کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔
سابق چیف جسٹس نے کہا کہ حالیہ دنوں میں لگاتار بغیر کسی وجہ کے گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گرفتاریاں یہ دیکھے بغیر کی جاتی ہیں کہ اس کی ضرورت ہے یا نہیں۔ انھوں نے کہا ’’سول تنازعات کو فوجداری معاملات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اس سے عدالتی نظام پر بوجھ پڑتا ہے۔‘‘
للت نے کہا کہ زیادہ تر معاملات میں مجسٹریٹ میکانکی طریقے سے ملزمان کو ریمانڈ دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مجسٹریٹ کے مطمئن ہونے کے بعد ہی ریمانڈ دیا جا سکتا ہے۔ ’’زیادہ تر وقت جو ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ مجسٹریٹس کی طرف سے ایک مشینی مشق ہے۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کہیں کسی مجسٹریٹ نے تفتیش کار سے یہ سوال پوچھا ہو کہ ’’مزید تفتیش کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
للت نے، جو 8 نومبر کو ہندوستان کے چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے، یہ بھی کہا کہ جیل میں قید لوگوں میں سے 80 فیصد کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت ملک میں سزا کی شرح 27 فیصد ہے۔
سابق چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ایک تفتیشی ایجنسی کی ضرورت ہے جو ’’مکمل طور پر آزاد‘‘ اور پیشہ ور ہو۔ اور اس طرح کی ایجنسی کو ’’سائنسی طریقہ کار میں مکمل طور پر ماہر ہونا چاہیے، تحقیقات کے طریقوں میں مکمل طور پر ماہر ہونا چاہیے۔‘‘
دریں اثنا بمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دیپانکر دتا نے زور دیا کہ ضمانت ایک اصول ہے اور فوجداری مقدمات میں جیل مستثنیٰ ہے۔ انھوں نے کارکن گوتم نولکھا کی مثال دی، جنھیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔
نولکھا کو بھیما کوریگاؤں کیس میں ملزم بنایا گیا ہے، جو کہ 2018 میں پونے کے قریب ایک گاؤں میں ذات پات کے تشدد سے متعلق ہے۔ وہ ان 16 لوگوں میں شامل تھے جنھیں مبینہ طور پر تشدد کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
انھیں نوی ممبئی کی تلوجا جیل سے رہا کیا گیا اور 19 نومبر کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 10 نومبر کو ان کی نظر بندی کی درخواست پر اس کی اجازت دی تھی۔