عربی زبان کی اہمیت اور طریقۂ تدریس

طلبہ میں زبان سیکھنے کا شوق پیداکرنے کی ضرورت ۔اساتذہ جدید تکنک اختیار کریں

محمدجاوید اقبال،دہلی

ایک مسلمان کے نزدیک عربی زبان کے بارے میں یہ کہنا بالکل کافی ہے کہ یہ قرآن کی زبان ہے ۔ احادیث کا ذخیرہ بھی اسی زبان میں ہے۔ ہمارے پیارے رسولﷺ اسی زبان میں گفتگو فرماتے تھے۔ صحابہ کرامؓ یہی زبان بولتے تھے۔ اسلامی علوم کا ذخیرہ اسی زبان میں موجود ہے۔ اس لیے ایک مسلمان کے لیے اس کا سیکھنا انتہائی ضروری ہے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے:
تعَلَّمُوا للغۃِ العربیۃ فانہا من دینکم
عربی زبان سیکھو کیوں کہ یہ دین کا ایک جز ہے۔
یہ امر کتنا افسوس ناک ہے کہ ہم قرآن پاک کی تلاوت تو کرتے ہیں لیکن اس کے معنی اور مفہوم سے ناآشنا ہیں۔ ہمارے ملک میں حفاظ کی تعداد کئی لاکھ ضرور ہوگی لیکن قرآن پاک میں کیا لکھا ہے اس کا کیا پیغام ہے اس میں کیا ہدایت ہیں، اس سے وہ حضرات قطعاً لا علم ہیں۔ اس کی ایک وجہ خود ہمارا طریقۂ تدریس ہے۔
ابن خلدون جو ایک مشہور مؤرخ اور مفکر تھا، اس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں کو عربی زبان لازماً سیکھنا چاہیے۔ اس لیے کہ قرآن اور احادیث عربی میں ہیں۔ بغیر عربی زبان کے اسلامی معاشرے کی تشکیل ناممکن ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد جو اردو زبان کے مشہور مصنف تھے اپنے بیٹے کو ایک مکتوب میں لکھتے ہیں کہ عربی زبان سیکھو، بغیر اس کے ایک مسلمان دین کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتا۔
مولانا مودودیؒ اپنی مشہور کتاب ’’اسلامی نظامِ تعلیم‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’کوئی شخص اسلام کی اسپرٹ پوری طرح نہیں سمجھ سکتا اور نہ اس میں اسلامی ذہنیت اچھی طرح پیوست ہوسکتی ہے، جب تک کہ وہ قرآن کو براہ راست اس کو اپنی زبان میں نہ پڑھے۔ محض ترجموں سے کام نہیں چل سکتا۔ اگرچہ ہم چاہتے ہیں کہ ترجمے بھی پھیلیں تاکہ عوام الناس کم سے کم یہ جان لیں کہ ہمارا خدا ہم کو کیا حکم دیتا ہے‘‘، عربی زبان کی گہرائی اور گیرائی بہت زیادہ ہے۔ اس کی گرامر نہایت پختہ اور مستحکم ہے۔ اس کے الفاظ بے حد شیریں اور مترنم ہیں۔اس زبان کے الفاظ کے معنوں میں بے پناہ وسعت اور گہرائی ہے۔ ایک ایک لفظ کے لاتعداد معنی ہیں، مثلاً اونٹ کے لیے سو سے زائد الفاظ موجود ہیں اسی طرح تلوار کے لیے لاتعداد الفاظ پائے جاتے ہیں۔ عین لفظ کے پچیس(۲۵) معنی ہیں۔ بعض الفاظ کے ساٹھ معنی ہیں۔مثلاً عجوز لفظ کے پچاس سے زائد معنی ہیں۔اس زبان کے زیادہ تر قاعدے اٹل ہیں اس میں استثناء بہت کم ہیں۔اس زبان کی شیرینی اس لیے بھی مسلّم ہے کیوں کہ اس میں چ، چھ، ڈ ژ، ڑ، بھ، پھ،ڈھ، کھ، گھ، جیسے حروف نہیں ہیں یہ حروف زبان کو کافی حد تک ثقیل بنا دیتے ہیں۔
قرون وسطی میں مسلمانوں نے علم کے مختلف میدانوں ، مثلاًجغرافیہ، معدنیات، نباتات، علم کیمیا، فلکیات وغیرہ میں بے مثال ترقی کی۔ ان تمام موضوعات پر جو اور جتنی کتابیں لکھی گئیں وہ سب عربی زبان میں تھیں۔ یورپ کے علماء ،مسلمانوں کی اس ترقی سے حیرت زدہ تھا۔ چنانچہ یورپ کے ہزاروں لوگوں نے عربی زبان سیکھی اور ان کتابوں سے فائدہ اٹھایا۔ بارہویں اور تیرہویں صدی میں یورپ میں سب سے زیادہ جن کتابوں کی مانگ تھی وہ عربی زبان سکھانے والی کتابیں تھیں۔ اٹلی اور فرانس کی یونیورسیٹیوں میں عربی زبان سکھانے کا خصوصی نظم تھا۔ آکسفورڈ یورنیورسٹی میں سترہویں صدی میں جیومیٹری ، فلکیات اور فلسفہ پڑھانے کے لیے جو اساتذہ مقرر کیے جاتے ان کے لیے عربی زبان کا جاننا علم لازمی تھا۔ عربی کتابوں کے ترجموں کا ذوق یورپ میں سیکڑوں برسوں تک رہا۔ جب مسلمانوں کی حکومتوں کا انحطاط ہوا تو وہاں کی لائبریریوں سے ہزاروں عربی مخطوطات یورپ کی بڑی لائبریریوں میں منتقل کردیے گئے۔ کتنی عربی کتابوں کے ترجمے یورپ کے اہلم علم نے اپنے نام سے شائع کردیے۔ اس کو چوری کے علاوہ اور کیا کہا جائے گا۔
زبان سیکھنے کے مراحل
زبان سیکھنے کے پانچ مراحل بیان کیے جاتے ہیں:
۱۔ سننا ۲۔سمجھنا ۳۔ بولنا ۴۔ پڑھنا ۵۔ لکھنا
بچہ جب بولنا سیکھتا ہے تو اپنے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں سے سیکڑوں نہیں ہزاروں بار الفاظ اور چھوٹے چھوٹے جملے سنتا ہے پھر اس میں اپنی مادری زبان کی سمجھ پیدا ہوجاتی ہے۔ تب کہیں وہ توڑ توڑ کر بولنا شروع کرتا ہے۔ اس کے بعد پڑھنے اور لکھنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ تین سال کا بچہ جب اسکول میں داخل ہوتا ہے۔ تب وہ کم و بیش 350 الفاظ سے کام چلاتا ہے۔ جب وہ پانچ سال کا ہوتا ہے تب 550 الفاظ بول پاتا ہے۔اس طرح اس کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
جہاں تک عربی زبان سیکھنے کا تعلق ہے طلبہ کو مدارس میں داخل کیا جاتا ہے، وہاں ان کو عربی زبان سکھائی جاتی ہے۔ عربی مدارس کا المیہ یہ ہے کہ یہاں اساتذہ زبان سکھانے کی فن سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف اسکول کالجوں میں اساتذہ کو باقاعدہ ایک سال یا دو سال کی تدریس کی ٹریننگ دی جاتی ہے تب کہیں وہ استاد مقرر کیے جاتے ہیں۔ عربی مدارس میں استاد کے لیے کوئی ٹریننگ نہیں ہے۔ استاد نے جس طرح اپنے استاد سے پڑھا ہے اور جو کتابیں اس نے پڑھی ہیں، اُسی طرح وہ پڑھائے گا۔ استاد عربی زبان سکھانے کے لیے گردان یاد کرائے گا، جس سے طلبہ میں وحشت ہوتی ہے۔ اگر کبھی غلطی ہوجائے تو چھڑی اپنا کام کرتی ہے۔ اس لیے طلبہ میں زبان کے تئیں کوئی ذوق پیدا نہیں ہوپاتا بلکہ نفرت کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ چنانچہ کتنے ہی طلبہ مدرسہ چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مدارس میں طلبہ بادل نخواستہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بہرحال طلبہ متعین کردہ ایک نصاب کی تکمیل کرلیتے ہیں اور ان کو عالمیت یا فضیلت کی ڈگری مل جاتی ہے۔ جہاں تک زبان بولنے اور لکھنے کا تعلق ہے طلبہ میں عربی زبان سمجھنے اور لکھنے کی مشق تو قدرے پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن زبان بولنے کی چونکہ مشق نہیں کرائی جاتی اس لیے وہ زبان بولنے میں ناکام رہتے ہیں۔ البتہ ملک کے چند مدارس ایسے بھی ہیں جہاں عربی زبان بولنے کی مشق بھی کرائی جاتی ہے۔ یہی حال ہمارے پڑوسی ممالک کا بھی ہے۔
عربی زبان بولنے کے سلسلے میں ایک سچا واقعہ چشم کشا ہے۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے ایک اردو ماہنامہ نکلتا ہے، جس میں کئی سال قبل ایک مضمون اسلام سے متعلق شائع ہوا ، جس میں غلط معلومات درج تھیں۔ شہر کے کئی مدارس کے علماء نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اس سلسلے میں امریکی سفیر مقیم اسلام آباد سے مل کر شکایت درج کرائی جائے۔ چنانچہ انہوں نے ٹیلیفون پر سفیر سے ملاقات کا وقت لیا اور سفارت خانہ پہنچ گئے۔ سفیر نے ان علماء کا استقبال کیا اور ملاقات کے کمرے میں بٹھایا۔ سفیر صاحب ان علمائے مدارس سے عربی زبان مںی گفتگو کررہے تھے۔ اور یہ حضرات عربی زبان میں گفتگو نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ ایک مترجم کے ذریعہ علماء نے اپنا مؤقف بیان کیا۔ سفیر صاحب نے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آئندہ اس کا خیال رکھا جائے گا۔ بہرحال خود ان علماء کرام کو اس امر کا احساس ہوا کہ ہم لوگ برسہا برس سے عربی پڑھارہے ہیں،لیکن زبان بولنے میں ناکام اور یہ سفیر بلا تکلف عربی بول رہا ہے۔ہمیں اپنے طریقۂ تعلیم میں تبدیلی کرنا چاہیے۔
عربی زبان سیکھنے کے لیے بازار میں کافی تعداد میں کتب موجود ہیں۔ بعض کتابیں بہت اچھی ہیں ان میں جدید تکنیک کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے۔ اگر استاد سبق تیار کرے اور طلبہ کو پڑھائے تو غیرمعمولی کامیابی ملے گی۔ یہاں پر صرف تین چار کتب کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ ایک کتاب منہاج العربیہ ہے جو پانچ حصوں میں دستیاب ہے۔ یہ حیدرآباد کے مصنف سید عبدالنبی حیدرآبادی کی تیار کردہ ہے اس میں Direct Method اختیار کیا گیا ہے— درجہ پنجم سے اگر عربی مضمون کورس میں شامل کیا جائے تو اس کتاب کا حصہ اوّل بہت آسانی سے مکمل کیا جاسکتا ہے۔ اس حال میں جب ہفتہ میں صرف تین گھنٹے عربی زبان پڑھائی جائے ۔اس کتاب کے ابتدائی حصہ میں گرامر بھی شامل نہیں ہے۔اس کے بعد کے حصے بڑے درجات میں پڑھائے جائیں۔
اسی طرح جو طلبہ شروع سے حفظ قرآن میں داخل ہوتے ہیں ظاہر ہے پہلے وہ ناظرہ ختم کرتے ہیں ، پھر تقریباً چار سال میں پورا قرآن حفظ کرلیتے ہیں۔ اس درمیان میں ان کوحفظ کے علاوہ کچھ پڑھایا نہیں جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے کامل یکسوئی درکار ہے۔ حالانکہ اسی درمیان میں طلبہ کو اردو زبان بآسانی سکھائی جاسکتی ہے۔لکھنے کی مشق بھی کرائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ان کو صرف آدھے گھنٹے میں عربی زبان کی کتاب ،منہاج العربیہ بآسانی پڑھائی جاسکتی ہے۔ دوسری کتاب ’عربی کا معلم‘ ہے۔ اس کے پانچ حصے میں یہ کتاب تقریباً ساٹھ سال سے مروج ہے اس کی کنجی بھی دستیاب ہے۔ ہزاروں لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ شرط یہ ہے کہ استاد سلیقے سے اس کو پڑھائے۔ اس کتاب کے مصنف مولانا عبدالستار صاحب ہیں۔ اس کتاب کی تعریف و توثیق ملک کے جید علماء نے کی ہے۔ ایک اور کتاب ’آئو عربی پڑھیں‘ہے، یہ کتاب مولانا ایوب اصلاحی مرحوم کی تصنیف کردہ ہے، جو مکتبہ الحسنات دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ بغیر استاد کے پڑھی جاسکتی ہے۔ ہر سبق کی اس طرح تشریح کی گئی ہے کہ استاد کی ضرورت نہ پڑے۔ ہر سبق کے اخیر میں مشقوں کا حل بھی درج کردیا گیا ہے۔مولانا سراج الدین ندوی کی ایک کتاب ’عربی سیکھیے‘ ایک لاجواب کتاب ہے۔ موصوف کی ’تحفۃ الصرف‘ اور ’تحفۃ النحو‘تین تین جلدوں میں دستیاب ہے۔ یہ کتابیں بہت آسان زبان اور مثالوں کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔اسی طرح ایک کتاب ’’اللغہ العربیہ لغیرناطقین بہا‘ ہے ۔ یہ کتاب مولانا عبدالرحیم صاحب کی تصنیف کردہ ہے۔ یہ چار جلدوں میں ہے۔اس میں جدید تکنیک کا سہارا لیا گیا ہے۔ ہندوستان اور بیرون ہند سیکڑوں مدارس اور یونیورسیٹیوں میں یہ کتاب رائج ہے۔ اس کتاب کی ایک ٹیچر گائڈ بھی موجود ہے کہ اسے کس طرح پڑھایا جائے۔ اس کی کلید بھی تیار کی گئی ہے۔ اسی طرح اس کتاب کے چاروں حصوں کے مشکل الفاظ کی ایک فرہنگ بھی الگ سے تیار کی گئی ہے۔ اس طرح ندوۃ العلماء اور دارالعلوم دیوبند کی تصنیف کردہ بہت عمدہ کتابیں بازار میں دستیاب ہیں۔ ان سب کتابوں سے ابتدائی عربی بآسانی سیکھی جاسکتی ہے۔
کسی بھی زبان کی تدریس میں عام اصول یہ ہے کہ نثر پڑھاتے وقت استاد کو سبق کے تعارف کے بعد ایک پیراگراف خود بلند آواز سے خود پڑھے، جس کو Model Readingکا نام دیا گیا ہے۔اس کے بعد پیراگراف کے مشکل الفاظ کو بورڈ پر لکھے۔ ان الفاظ کے معنی طلبہ سے لکھوائے جائیں۔ اگر وہ نہ بتاسکیں تو استاد خود مثالیں دے کر معنی بتائے جائیں۔ مثلاً اردو میں لفظ تاریک کے معنی اگر طلبہ نہ بتاسکیں تو استاد مثال دے کر طلبہ سے معلوم کرے۔ مثال رات کی تاریکی میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔اس جملہ کو بول کر استاد طلبہ سے لفظ تاریک کے معنی پوچھے۔ ظاہر ہے کہ طلبہ تاریکی کے معنی اندھیرا بتائیں گے۔ اسی طرح عربی میں الفاظ کے بارے میں معلوم کیا جائے کہ یہ اسم ہے یا صفت یا فعل وغیرہ۔ فعل کی گردان ، فعل امر ہے تو اس کی گردان وغیرہ۔اس طرح الفاظ کے معنی ان کا استعمال اور گردان وغیرہ ذہن نشیں ہوجائیں گے۔
اس کے بعد ایک ذہین طالب علم سے پیراگراف پڑھوایا جائے، اس کے بعد کمزور طالب علم سے بلند خوانی کرائی جائے ، اس کے بعد پیراگراف سے متعلق سوالات پوچھے جائیں۔ اس کے بعد طلبہ سے اس سبق کے پیراگراف کے متعلق آپس میں گفتگو کرائی جائے۔ اس طریقے سے طلبہ میں دلچسپی بھی بڑھے گی اور اخذ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔ آج کل زبان سیکھنے کی لیبوریٹری کا تصور بھی عام ہوگیا ہے۔ اس کے ذریعے مختلف طریقوں اور دلچسپ انداز سے زبان کے قواعد سکھائے جاسکتے ہیں۔
اس طریقے سے عربی پڑھنا، لکھنا اور بولنا سیکھ سکتے ہیں۔ موبائل پر بھی عربی کے اساتذہ اس زبان کو پڑھارہے ہیں۔ جس سے نہ صرف مسلم طلبہ بلکہ غیرمسلم بھی عربی سیکھ رہے ہیں۔¡¡
موبائل: 8860429904
***

 

***

 عربی زبان سیکھنے کے لیے بازار میں کافی تعداد میں کتب موجود ہیں۔ بعض کتابیں بہت اچھی ہیں ان میں جدید تکنیک کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے۔ اگر استاد سبق تیار کرے اور طلبہ کو پڑھائے تو غیرمعمولی کامیابی ملے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مارچ تا 11 مارچ 2023