اقلیتوں کی حفاظت ، ملک کی اقتصادی ترقی کا لازمی جزو
سپریم کورٹ اگرچاہے توفرقہ پرست حکومت کے غرور کا غبارہ پنکچر کرسکتی
مذہبی و لسانی اقلیتوں کو نظر انداز کرکے، ملک میں امن و امان قائم نہیں کیا جاسکتا۔ڈاکٹرجان دیال کاانٹرویو
ڈاکٹر جان دیال معروف انسانی حقوق جہدکار ہیں انہوں نے بھارت میں اقلیتوں اور دلتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہمیشہ اپنی آواز بلند کی ہے ۔ وہ نیشنل انٹیگریشن کونسل (NIC) کے رکن، آل انڈیا کرسچن کونسل کے سیکرٹری جنرل اور آل انڈیا کیتھولک یونین کے سابق صدر ہیں۔ ڈاکٹر جان دیال فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کی سیاست، تعصب اور مذہبی برادریوں کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوششوں کی روک تھام اور عوامی بیداری کے لیے سرگرداں رہے ہیں ۔ ذیل میں قارئین ہفت روزہ دعوت کی خدمت میں نیوز پورٹل ’انڈیا ٹومارو‘ کی جانب سے ان سے لیے گئے ایک حالیہ انٹرویو کا خلاصہ پیش ہے۔
سوال: کیا آپ کے خیال میں ملک کے موجودہ ماحول میں بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کی کوئی اہمیت ہے؟
جواب:عام طور پر مذہبی اور نسلی اقلیتوں میں آدی واسی اور دلت بھی شامل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ وہ طبقہ ہے جو حالات سے پریشان ہو کر کبھی خودکشی نہیں کرے گا اور نہ انہیں کوئی فنا کرسکتا ہے۔ دائیں بازو کی تمام فرقہ پرست طاقتیں اور دیگرفاشست گروہ آپس میں مل کرانہیں ہٹلر کی طرز پر ختم کرنا چاہتے ہیں ، جس کی تائید، ان فاشست طاقتوں کے بانی بھی کرتے آ رہے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت ، سیکولردستور کی بنیاد پر قائم ہے جہاں قانون کی حکمرانی کو ترجیح دینے والی سیکولر حکومت، اقلیتوں کے دستوری حقوق کو ہر صورت میں اور ہر قیمت پر مقدم رکھے گی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے لیکن ممکن ہے اقلیتیں اس کا اپنی زبان سے اظہار کرنے میں اس لیے گھبراہٹ محسوس کرتی ہوں کہ اگر ان کی جسمانی، سیاسی، معاشی اور تعلیمی حیثیت اگر خطرے میں پڑجائے گی تو بلا شبہ راست طور پر بھارت کی سلامتی اور سالمیت کو بھی خطرہ لاحق ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقلیتوں کی حفاظت ، ملک کی اقتصادی ترقی کا ایک لازمی جزہے۔اگر حکومت عوام کے لیے واجبی اور ضروری ترجیحات یا اہداف پر عمل کرنے سے نفرت کرنے لگے تو عوامی تشدد برپا ہونا فطری بات ہے۔ بالفاظ دیگرملک میں امن کے قیام کے لیے عیسائی ، سکھ اور مسلمانوں کی فلاح و بہبودکے بارے میں حکومت کو فکر مند ہونا نہایت ضروری ہے۔
سوال:موجودہ سماجی وسیاسی حالات کے تناظر میں آج اقلیت کا کیا مطلب ہے؟
جواب:1990ء کی دہائی کے اوائل سے ہی کچھ فرقہ پرست سیاسی قوتیں مسلسل ایک جیسے نفرت انگیز اور اشتعال انگیزنعرے تیار کرکے اسے عوام میں گشت کروانے میں لگی ہوئی ہیں ، وہ یہ کہ ’’ملک میں ہندو اکثریت کو مسلمانوں اور عیسائیوں سے خطرہ ہے‘‘۔ اس کے علاوہ یہ بھی بار بار دہرایا جاتا ہے کہ بھارت میں صدیوں تک حکومت کرنے والے مسلم حکمران جارح، ظالم، فرقہ پرست اور ہندو دشمن تھے۔ اس کے علاوہ انہیں ہندئووں کی اقدار اور ان کی مذہبی عمارتوں کو تباہ کرنے والوں کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ بھارت میں رہنے بسنے والے امن پسند مسلمان شہریوں پر پاکستان سے عجیب و غریب قسم کی وفاداری کا الزام عائد کیا جاتا ہے جبکہ عیسائی شہریوں کو مغربی تہذیب کے ایجنٹ کے طور پر بھارت میں رہنے والے ہر ہندو کو عیسائی مذہب سے جوڑنے کی سازش میں ملوث باور کروایا جاتا ہے۔ روایتی اور جدید مواصلاتی نظام کے ذریعے، پھیلایا جانے والا یہ پروپگنڈا، سراسر جھوٹ ،بہتان اوربے بنیاد الزام ہے۔ یہ پروپگنڈا، ہر عام انتخابات کے موقعوں پر ، سرگوشیوں سے لے کر سیاسی لیڈروں کی گالیوں تک اور گلی کوچوں کے غیر سماجی عناصر کی جانب سے نفرت اور فساد کا ماحول برپا کرنے کے علاوہ سوشل میڈیا کا ہر جگہ بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ حکمراں سیاسی جماعت اور دیگر کئی ریاستوں میں برسر اقتدار اسی جماعت کے لیڈروں اور ترجمانوں کی جانب سے بلا جھجک ، نفرت کا پرچار اس بات کی کھلی گواہی ہے۔ واضح طور پر جھوٹے، بدنیتی اور نفرت پر مبنی ان بیانات کوہمیں جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ اقوام متحدہ اور کئی بین الاقوامی ایجنسیوں نے بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف اس مسلسل نفرت انگیز مہم میں بھارتی حکومت، زہریلے بیانات دینے والا حکمران طبقہ، ان کی ساری انجمنیں اور ان سے وابستہ تمام ذیلی تنظیموں پر براہ راست فرد جرم عاید کیا ہے۔ ہر سیاسی مہم کے دوران زہریلے بیانات دینے والے تمام افراد کا تعلق حکمران پارٹی سے ہوتا ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت اور مذہبی تشدد کے ماضی کے ان واقعات کو دنیا اتنی آسانی کے ساتھ بھول نہیں سکتی جب بابری مسجد کو منہدم کیاگیا تھا ، گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی اور خواتین کی آبرو ریزی کی گئی تھی، کندھمال میں ایک عیسائی مبلغ گراہم اسٹینس اور ان کے دو کم عمر بیٹوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ ان ظالموں کی آنکھوں میں اقلیتوں کے تئیں پائی جانے والی نفرت، ظلم و زیادتی اور تشدد کی فہرست بہت طویل ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان تمام حادثات کے دوران ریاستی انتظامیہ ایک خاموش گواہ کی حیثیت سے اور متعصب پولیس انتظامیہ، اندھا عدالتی نظام ، سیاسی قیادت، پوری شدت کے ساتھ اس سانحے میں برابر کے شریک رہے۔
سوال:اقلیتوں کے حقوق کے عالمی دن کے موقع پر آپ کے خیال میں اقلیتوں کے سامنے اب کیا چیلنجز ہیں؟
جواب:اقلیتوں نے جد وجہد آزادی کے دوران اور آزادی کے بعد بھی کئی بار اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ وطن کے بنیادی ڈھانچے اور معیشت کی ترقی میں اپنی ذہنی صلاحیتیں، جسمانی مشقتیں ، محبت اور خلوص کی مثالیں پیش کی ہیں۔ مادرِ وطن کے دفاع کے لیے اپنا خون بہایا ہے۔ آج بھی اقلیتوں کو اپنی ان تمام بے لوث پرخلوص قربانیوں پر فخر ہے۔ اقلیتیںکسی بھی دائیں بازو کی فاشست قوتوں کی نام نہاد قوم پرستی کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گی کہ وہ اپنے خلاف ملک میں غلط فہمی یا شک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اقلیتوں کو بھی چاہیے کہ وہ دستور میں دی گئی ضمانتوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں، کسی بھی دبائو یا جارحیت کے خلاف اپنی پوری طاقت کے ساتھ بغیر کسی تشدد کے، گاندھیائی اصولوں کی روشنی میں، اپنا دفاع کرنے میں ہرگزپیچھے نہ ہٹیں۔ اس کے علاو اپنے بچوں کو،نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کریں، مختلف پیشہ ورانہ کورسس میں شامل ہوں، تجارت سے بھی وابستہ ہوں۔ ہر حال میں تعلیم کی بنیاد پر ترقی کی منزلیں طئے کریں۔
سوال:آپ بی جے پی قیادت والی حکومت کے دوران، اقلیتوں کی حقوق کا موازنہ پچھلی یو پی اے حکومت سے کیسے کرنا چاہیں گے
جواب:بھارتی آئین کے خود اختیار ہونے اور 1950 میں ہندوستان کو سیکولر جمہوریہ قرار دینے کے فوراً بعد بیشمار طریقوں سے مذہبی اقلیتوں کی دستوری ضمانتیں خطرے میں پڑ گئیں۔ آج ہمارا فرض ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور ضمانتوں کے حصول کے ساتھ ساتھ دلتوں اور آدی واسیوں کے حقوق اور ضمانتوں پر بھی اصرار کریں۔ افسوس کہ کانگریس پارٹی کے بائیں بازو کو یہ کام ہرگزقبول نہیں تھا۔ انہوں نے دستور میں ایسی ترامیم کیں کہ جس سے اسلام یا عیسائیت قبول کرنے والے دلتوں کو حاصل، تمام تحفظات کو ختم کردیا گیا۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے کیڈر میں پاگل پن کی حد تک انتہا پسند، فرقہ پرست عناصر کو پناہ دی اور ان کی سرپرستی بھی کی گئی۔ اس کا ثبوت 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے دوران ملک میں جگہ جگہ سکھوں کو قتل عام اور ان کی تجارت کا شدید نقصان ہے ۔ چنانچہ اس کے اثرات مخالف تبدیلی مذہب کے لیے مدون قوانین میں واضح نظر آتے ہیں۔ البتہ کانگریس کے دور حکومت میں عدلیہ اور اس کے دیگر شعبوں نے، آئین میں دیے گئے ایک فعال سیکولرازم کے بنیادی کردار کو برقرار رکھا۔ تمام مذاہب کے ساتھ مساوات پر مبنی تعلقات استوار رکھے گئے اور مذہب کو ہر شہری کی اپنی پسند کا ذاتی و شخصی معاملہ سمجھاگیا۔ بی جے پی کے دور اقتدار میں ریاستوں نے ملک میں’ ہندو راشٹرا‘ کے قیام کے سنگھ کے ایجنڈے کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور سر تسلیم خم کردیا ۔ آج ملک میں عیسائی اور مسلمان عوام، عملاًدوسرے درجے کے شہری شمار کیے جانے لگے ہیں۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان دونوں برادریوں کو سیاسی طور پر بری طرح درکنار کردیا گیا ہے۔مرکزی اور ریاستی سرکاری انتظامیہ کے تمام دفاتر میںان دونوں طبقات کی عدم موجودگی اس بات کا کھلا ثبوت ہے۔ریاستی انتظامیہ بشمول پولیس انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور عدلیہ، سب کے سب اکثریتی فرقوں کے جائز و ناجائز کاموں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ بے شک، آج ہمارے سماج کی یہی سب سے نمایاں اور بہت بڑی منفی تبدیلی ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ میرا خیال ہے کہ اگر آئندہ انتخابات میں موجودہ صاحب اقتدارٹولے کو شکست بھی ہوجائے تو ان کے بگاڑے ہوئے نظام حکومت کو دوبارہ صحیح سمت میں لانے کے لیے ایک طویل وقت درکار ہوگا۔
سوال:کیا آپ کے خیال میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے موجودہ قوانین کافی ہیں؟
جواب: اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے موجودہ قوانین کافی نہیں ہیں۔ ان قوانین میں ترمیمات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے ان تمام مضر قوانین کو ہٹا کر نئے قوانین بنانے ہوں گے۔مضر قوانین میں وہ قوانین بھی شامل ہیں جن میں عیسائی اور مسلم دلتوں کے ساتھ ان کے علاقے کی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے یعنی انہیں مذہب تبدیل کرنے سے پہلے جو دستوری فوائد ، تحفظات اور مراعات حاصل تھیں ، وہ مذہب تبدیل کرنے کے بعد خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔ سب سے پہلے بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے جو قوانین بطور ہتھیار نافذکیے گئے ہیں، وہ پہلے ان ریاستوں میں نافذ نہیں تھے، انہیں فوری ہٹا کر موزوں قوانین نافذ کرنے ہوں گے۔ ہم نے مذہبی منافرت پھیلانے پر روک لگانے اور نفرت انگیز بیانات پر قابو پانے کے لیے ایک جامع قانون لانے اورمذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے یو پی اے دور حکومت میں بھی بہت کوشش کی تھی جس میں اقلیتوں کے معاملا ت کی یکسوئی، قیادت میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے ہیلپ لائن کا قیام، قبل از وقت عوام کو کسی سانحے سے متنبہ کرنے کے علاوہ عدلیہ کی مناسب تربیت کے لیے قانون سازی اور اس کانفاذ شامل ہیں۔ آج جب کہ حکومت مسلمانوںاور عیسائیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کسی بھی قسم کی سلامتی کی ضمانت اور بہتر معاشی فوائد بہم پہنچانے کی طرف مائل نہیں ہیں تو ایسے ماحول میں تبدیلی مذہب کے قوانین، یکساں سیول کوڈ اور سیاسی فوائد کے حصول کے لیے لگائے جانے والے زہریلے خطرناک مذہبی نعروں کے خلاف ہمیں متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ بی جے پی،محض اقتدار سے چمٹے رہنے کی خاطر، مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے طرح طرح کی سازشیں رچنے میں ماہر ہے۔
سوال:کیا اقلیتوں کے انسانی حقوق کی سرکاری طور پر ہورہی خلاف ورزی سے نپٹنے کے لیے کوئی دوہرا معیار یا امتیازی نظام درپردہ موجود ہے؟
جواب:حالیہ برسوں میں دنیا نے جن حالات کا مشاہدہ کیا ہے اس کی روشنی میں یہ کہنا ایک کڑوا سچ ہوگا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے معاملات پر مسٹر مودی کی این ڈی اے حکومت کی دوغلی باتوں پر کوئی یقین نہیں کرتا۔ آج اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ، تبدیلی مذہب قوانین کا خطرناک اور تکلیف دہ ہتھیار، مرکزی اور کئی ریاستی حکومتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ پہلے ہی سے غریب اور مفلوک الحال اقلیتوں کے گھروں اور دوکانوں کو خاک میں ملانے کے لیے سرکاری بلڈوزروں کے علاوہ مرکزی اور ریاستی وزراء کے اقلیتوں کو دئیے جانے والے دھمکی آمیز بیانات، اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ اقلیتوں کی ذہنی، جسمانی، معاشی اور تجارتی تباہی پر تلی ہوئی ہیں۔ یہ وہ سماجی مسائل ہیں جن پر درجنوں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر سپریم کورٹ چاہے تو بی جے پی کے زیر اقتدار مرکزی اور ریاستی حکومتوں اور ان کی تمام ہم خیال تنظیموں اور اداروں کے غرور کے اس غبارے کو بڑی آسانی سے پنکچر کرسکتی ہے۔
سوال:آپ کے خیال میں ان فرقہ وارانہ نفرت انگیز بیانات کے خلاف اقلیتوں کارد عمل کیا ہونا چاہئے؟
جواب:میرے خیال میں مذہبی اقلیتوں کے پاس عدم تشدد ہی وہ واحد کارگر ہتھیار ہے جس پر عمل کرتے ہوئے، کامیابی کے حصول کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اکثریتی فرقے کا امن پسند اور معقول طبقہ، ان حالات میں بھی اقلتیوں کے جائز مفادات کی درپردہ تائید کرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے سیاسی آقائوں کی غندہ گردی سے خوف زدہ ہو کر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں اس بارے میں کسی غلط فہمی کے اندھیرے میں رکھا گیا ہو۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ اقلیتوں کو سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ یہی وہ ادارے ہیںجو آئین کے مکمل اختیارات کے حامل ہیں جو اقلیتوں کے جائز مفادات کے دفاع اور سیاسی انتشار کے خلاف مناسب احکام جاری کرسکتے ہیں۔ اقلیتوں کے لیے یہی وہ آخری ہتھیار ہے جس کے استعمال سے میں سمجھتا ہوں کہ کسی مناسب جوابی کارروائی کا جواز پیدا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
سوال:کیا تبدیلی مذہب کا قانون تمام بھارتیوں کی مذہبی آزادی کے خلاف ہے؟ اگر ہے تو پھر اس کے مسلمانوں اور عیسائیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جواب:یہ قوانین اور دستور کی دفعہ 341 دراصل ہندو مذہب کو قانون کے ذریعے، فوائد اور تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں اور دستور کی بے حرمتی کے مترادف ہیں۔ یہ قوانین، سیکولر طرز حکومت کی بنیادوں کو کمزور کررہے ہیں اور سیکولر نظریاتی طرز حکومت کے مزاج سے یکسر مختلف ہیں۔
(بشکریہ : انڈیاٹوماروڈاٹ نیٹ ۔ ترجمہ: سلیم الہندی )
***
***
’’آج ملک میں عیسائی اور مسلمان عوام، عملاًدوسرے درجے کے شہری شمار کیے جانے لگے ہیں۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان دونوں برادریوں کو سیاسی طور پر بری طرح درکنار کردیا گیا ہے۔مرکزی اور ریاستی سرکاری انتظامیہ کے تمام دفاتر میںان دونوں طبقات کی عدم موجودگی اس بات کا کھلا ثبوت ہے‘‘۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 14 جنوری 2023