اپنی جان آپ لینا ایک حرام عمل

تعلیم یافتہ طبقے میں خود کشی کے بڑھتے رجحانات تشویشناک

ڈاکٹر خلیل تماندار، کینیڈا

اجتماعی طرزِ زندگی، مثبت انداز فکر اور مایوسی کے خاتمے سے خود کشی کا گراف کم ہونا ممکن
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اور کسی بھی زبان کے معروف اخبار پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو اکثر و بیشتر اخبار کی سرخیوں میں خود کشی کی وجہ سے دردناک اموات کی خبریں شامل اشاعت ہوتی ہی ہیں، خصوصاً تعلیم یافتہ طبقے میں اس بات کا بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ کہیں کسی میڈیکل اسٹوڈنٹ کی خود کشی کی خبر ہے تو کہیں کسی ریسیڈنٹ میڈیکل آفیسر کی۔ کہیں کسی انجینئرنگ کے طالب علم کا افسوسناک طریقے سے اپنی جان کو تلف کرنے کی واقعہ نظر آتا ہے تو کہیں کسی تاجر کی تجارت میں اچانک خسارے کی بناء پر شدید صدمے سے خود کشی کی روداد سنائی دیتی ہے۔ کہیں قرض میں ڈوبے ہوئے کسانوں کی اموات کی خبریں موجود ہیں تو کہیں سکون میسر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی دولت و ثروت کی کثرت کے باوجود خود کشی کے ذریعے زندگی سے راہ فرار اختیار کرنے کا بدترین طرز عمل دکھائی دیتا ہے۔
قصہ مختصر، خود کشی کے متعلق مذکورہ بالا خبریں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ یہ پست ہمتی، ناامیدی، کمزور قوت فیصلہ، حوصلہ شکنی اور منفی طرز عمل کی آخر کیا وجوہات ہیں کہ انسان اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے؟ خود کشی کا تناسب عموماً ضعیف العمر لوگوں کے مقابلے میں نوجوانوں اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ یقیناً خود کشی معاشرے کا ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ کاش خود کشی کرنے والے افراد اس بنیادی بات کو سمجھ جائیں کہ خود کشی کسی بھی حالت میں مسائل کا حل نہیں بلکہ دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں مزید مشکلات کی ابتدا ہے۔ اس تشویشناک منفی نفسیاتی کیفیت کے سد باب، انسداد و تدارک کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کون سے ذرائع اور مثبت نفیسات (پازیٹیو سائیکالوجی) جیسی تجاویز ہو سکتی ہیں جو ان منفی جذبات و احساسات کا رخ مثبت سمت میں موڑ دیں۔
لفظ خود کشی کا جائزہ لینے پر آسانی سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ دراصل یہ لفظ فارسی مصدر کشتن (Kush tan) سے ماخوذ ہے جس کا اردو ترجمہ جان سے مارنا، قتل کرنا یا مار ڈالنا ہوتا ہے۔ اور خود کشی سے مراد اپنے آپ کو ہلاک کرنے کا عمل، زہر یا کسی اسلحے وغیرہ سے اپنی زندگی کو ختم کر دینا یا خود اپنا مستقل و دائمی نقصان کرنا ہوتا ہے۔ انگریزی میں خود کشی کو سوسائڈ (Suicide) کہا جاتا ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق خودکشی/ سوسائڈ کی تعریف intentionally caused self -destruction کے الفاظ میں کی جاتی ہے، یعنی جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاک کرنا۔
خود کشی کے عموماً اسباب و علل پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خود کشی کو منفی نفسیات کا ایک مجموعہ یا مرکب کہنا زیادہ مناسب ہوگا، کیونکہ مایوسی، ناامیدی، یاسیت و قنوطیت، احساس کمتری اور کسی دباؤ کے تحت پریشاں رہنا وغیرہ جیسے منفی احساسات ایک نارمل شخص کو آہستہ آہستہ منفی ڈگر پر دھکیلتے رہتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ وہ اپنےمعاشرے سے، اہل خاندان سے اور بالآخر خود اپنے آپ سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے دنیا و مافیہا سے آزاد ہونے کا منفی حل تلاش کر لیتا ہے جسے خود کشی کہا جاتا ہے۔ بقول شاعر عادل منصوری:
کوئی خود کشی کی طرف چل دیا
اداسی کی محنت ٹھکانے لگی
اور بظاہر اپنی محدود عقل و دانش میں دنیا کی صعوبتوں سے چین پانے کا غلط طریقہ وہ شخص اپنا لیتا ہے بقول ابراہیم ذوق:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
کے مصداق اس سمت میں غور و فکر لازمی اور ضروری ہے
ڈبلیو ایچ او کا سروے :
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے تحت ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق تقریباً سات لاکھ افراد ہر سال دنیا میں خود کشی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یقیناً معاشرے کے ہر شخص کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اطراف و اکناف کا جائزہ لے اور ایسے نفسیاتی یا ڈپریشن کا شکار لوگوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون و اخلاقی سپورٹ دے تاکہ وہ خودکشی کے ذریعہ اپنے آپ کو موت کو گلے لگانے سے اجتناب کرسکیں۔ WHO کی جانب سے ہر سال 10 ستمبر کو ورلڈ سوسائڈ پری وینشن ڈے (عالمی یوم برائے خود کشی روک تھام) منایا جاتا ہے لیکن سچ پوچھیے تو یہ نفسیاتی مرض محض ون ڈے پروگرام سے قابو میں نہیں آسکتا بلکہ ایسے دیرینہ پریشان کن موضوعات پر مستقل محنت و متابعہ (فالو اپ Follow-up) لازمی ہے، اسی نسبت پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے Creating hope through action یعنی ’عمل کے ذریعے امید کی فضا قائم کرنا‘ کے طرز عمل کو اپنانا اور شب و روز کے معمول میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ ظلمت سے نور کی کرنیں نمودار ہوسکیں اور ایسی صورت میں منفی نفسیات رکھنے والا شخص ایک عزم و حوصلہ اور نئی امنگ کے ساتھ صحیح رخ پر قدم بڑھانے پر آمادہ ہو سکے۔
اجتماعی خود کشی؟
خود کشی یقیناً ایک جنون، ہیجان و دل مضطرب کے آمیزہ سے تیار شدہ کیفیت کا نام ہے جس کی زد میں محض ایک فرد واحد نہیں بلکہ بسا اوقات سیکڑوں افراد اس کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے ثبوت میں 1978 میں جنوبی امریکہ کے ایک علاقے گیانا کے دل سوز واقعے کو پیش کیا جا سکتا ہے جہاں تقریبا” 913 افراد نے اجتماعی طور پر سائنائیڈ جیسے مہلک ترین زہر میں بنے ہوئے شربت کو پی کر ایک جنونی مذہبی و روحانی پیشوا جم جونز کے اشارے پر خود کشی کرتے ہوئے موت کو گلے لگایا تھا۔ اس مذہبی پیشوا نے جبراً بندوق کی نوک پر یا چند لوگوں کو سائنائیڈ زدہ شربت پینے پر راضی یا مجبور کرتے ہوئے ہلاک کیا تھا۔ اس دردناک واقعے کی روشنی میں گیانا کے مذہبی پیشوا جم جونز کو اپنی بات منوانا یا اپنی انا کو تسکین دینا مقصود تھا جس کے پس منظر میں شیطانی صفت جنون حب ذات کا بھی پتہ چلتا ہے۔
شاید ایسے ہی موقع کے لیے جوش ملیح آبادی نے کہا ہوگا:
قابل برداشت جب رہتا نہیں درد حیات
ڈھونڈتی ہے تلملاہٹ زہر میں راہ نجات
اس عمل سے عقل انسانی میں آتی ہے یہ بات
ارتکاب خود کشی تک ہے جنون حُب ذات!
شریعت میں خود کشی حرام عمل
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اپنی اطاعت و فرماں برداری میں گزارنے کی تلقین کی ہے۔ ہمیں جینا بھی اللہ کے لیے ہے اور مرنا بھی اللہ کے حکم ہی پر ہے۔ لہٰذا قرآن و حدیث کی روشنی میں خود کشی جیسے مہلک نفسیاتی مرض کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کے درمیان خود کشی کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔ چونکہ قرآن مجید میں واضح اعلان کر دیا گیا ہے :
ولا تقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما (النساء:29) ترجمہ: اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا: ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکتہ و احسنوا ان اللہ یحب المحسنین (البقرہ:195) ترجمہ: اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو۔ بے شک اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
ان آیات کریمہ سے یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اسلام میں کسی بھی صورت میں خود کشی کی اجازت نہیں ہے، خودکشی حرام ہے بلکہ اس کا مرتکب آخرت میں بھی قابل گرفت ہوگا۔ اس ضمن میں حضرت محمد ﷺ کے ارشادات بھی بالکل واضح ہیں کہ جو شخص جس چیز کے ساتھ خود کشی کرے گا اسے دوزخ کی آگ میں اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا۔ جس نے لوہے کے ہتھیار سے خود کشی کی تو اسے دوزخ کی آگ میں اسی ہتھیار سے عذاب دیا جائے گا۔ جس نے اپنا گلا گھونٹا تو وہ دوزخ کی آگ میں اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جس نے خود کو نیزہ مارا وہ دوزخ کی آگ میں خود کو نیزہ مارتا رہے گا (بخاری)
خود کشی سے کیسے بچا جا سکتا ہے:
خود کشی سے تحفظات کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے انسان اپنی قوت ارادی کو مضبوط کرے، اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے ساری کائنات کے خالق و مالک سے رجوع کرے۔ بنیادی بات سمجھ لے کہ محنت اور عمل کرنے کا تعلق ہماری اپنی ذات سے ہے لیکن کامیابی سے ہمکنار کرنا اللہ رب العزت کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ہم اپنی بساط بھر محنت و کاوش کرتے رہیں اور نتائج اللہ پر چھوڑ دیں، خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ خدا اعتمادی اور توکل علی اللہ کو اپنا شعار بنائیں۔ فقل حسبی اللہ لا اله الاھو علیه توکلت وھو رب العرش العظیم (توبہ:129) ترجمہ: ’’کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے، اسی پر میں بھروسا کرتا ہوں اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے‘‘ خود کشی کرنے والا ہر طرف سے مایوس ہوکر خلاف فطرت طرز عمل اپناتا ہے۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ کوئی بھی شخص مایوسی کو اپنے قریب آنے ہی نہ دے اور بنیادی بات اچھی طرح سے ذہن نشین کرلے کہ چاہے کتنی ہی پریشانیاں و بدحواسی کی فضا کیوں نہ چھا جائے اللہ کی رحمت سے ہر گز مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہ (الزمر53)
ترجمہ: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو کے مصداق :
میری نگاہ تو آیت لا تقنطوا پہ ہے
محرومیوں کا مجھ کو کسی سے گلہ نہیں
لہذا جب ایک کمزور و ناتواں انسان اللہ کی ذات پرایمان کامل رکھتے ہوئے اور مکمل اعتماد و توکل کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے تو وہ زندگی میں آگے بڑھتا ہی چلاجاتا ہے اور کسی بھی کار خیر کی تکمیل میں پیچھے نہیں رہتا اور اللہ پر بھروسا، مستقل عزم و حوصلہ اور عمل پیہم سے فاتح عالم کہلاتا ہے۔
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہے یہ مردوں کی شمشیریں
مایوسی و قنوطیت اکثر اکیلے و تنہا شخص کو جلد ہی اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے لہٰذا بہتر ہوگا کہ ہر فرد اجتماعیت کو ہمہ وقت اہمیت دے، تنہا نماز پڑھنے کی بجائے مسجد میں نماز باجماعت ادا کرے اور انفرادیت کے مقابلے میں ہمیشہ اجتماعیت کو ترجیح و فوقیت دے کہ اتحاد زندگی ہے اور انتشار موت:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکیلے انسان کو شیطان آسانی سے اچک لیتا ہے لہٰذا شیطانی وسوسوں سے بچنے کے لیے آسان سا نسخہ ہمہ وقت اللہ کا ذکر اور تلاوت قرآن کریم ہے کہ الا بذکراللہ تطمئن القلوب (الرعد:28) ترجمہ: خبردار، اللہ کی یاد ہی سے دل تسکین پاتے ہیں۔
ضروری ہے کہ انسان مایوسی سے کوسوں دور رہے، اللہ کی یاد سے اپنے دل کو زندہ رکھے اپنی روح کو فرحت و تازگی بخشے اور بشاشت و زندہ دلی سے زندگی گزارے کہ
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
اور
زندہ رہنا ہے تو میر کارواں بن کر رہو
اس زمیں کی پستیوں پر آسمان بن کر رہو
اور اگر مرنا ہی ہے تو خود کشی سے بزدلوں کی موت نہ مرے بلکہ اللہ کی راہ میں شہادت کی موت کو ترجیح دے
بقول ماہر القادری:
شہیدوں کے لہو سے جو زمیں سیراب ہوتی ہے
بڑی زرخیز ہوتی ہے بہت شاداب ہوتی ہے
جہاں سے غازیان ملت بيضا گزرتے ہیں
وہاں کی کنکری بھی گوہر شب تاب ہوتی ہے
پوسٹ مارٹم کی لاشیں:
راقم السطور کو اپنی طبی خدمات کے دوران برسہا برس سیکڑوں میڈیکو لیگل کیسیز (Medico-legal Cases) دیکھنے اور پوسٹ مارٹم (Autopsy) آٹوپسی کرنے کا بھی تجربہ ہے اور میں نے درجنوں خود کشی کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا ہے کہ کبھی کوئی زہر کھا کر مرا تو کبھی کسی نے اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا لگایا، کبھی کسی نے تیز دھار ہتھیار سے اپنا خاتمہ کیا تو کبھی کسی نے اپنے ذاتی پستول سے خود کو نشانہ بنایا، تو کوئی خواب آور گولیاں کھا کر موت کی آغوش میں پہنچنے کی کوشش کی۔ غرض کہ ہر پوسٹ مارٹم کی رپورٹ و تفصیلات رقم کرتے ہوئے ناچیز کو ان لاشوں پر ترس اور رحم بھی آتا تھا کہ کاش زندگی میں یہ لوگ راہ راست پر آجا تے اور اپنے آپ کو اللہ کی اطاعت میں دے دیتے تو آج ایسی دردناک موت سے ہمکنار نہ ہوتے۔
ایمئیل درخیم نامی ایک فرانسیسی اسکالر (1858تا1917) نے خود کشی پر کافی ریسرچ کی اور 1897 میں ایک معروف کتاب بعنوانSuicide A Study in Sociology کے نام سے لکھی ہے جسے فرانس اور دنیا کے دیگر ممالک میں شعبہ عمرانیات و سماجیات میں انتہائی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتی ہے۔ ایمئیل درخیم کی یہ تحقیق رہی ہے کہ فرانس میں سردی کی شدت کی بنا پر اکثر و بیشتر افراد باہر نہیں نکل پاتے تھے اور اپنے گھروں میں مستقل مقید ہونے پر وہ مایوسی و تنہائی کا شکار ہو جایا کرتے تھے اور تنہائی سے اکتا کر خود کشی بھی کر لیا کرتے تھے۔
بقول افتخار عارف:
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
افتخار عارف نے تنہائی کی وجہ سے مرجانے کی کیفیت کا ذکر کیا ہے لیکن ایمئیل درخیم نے اپنی مذکورہ کتاب Suicide سوسائڈ میں ایسے سیکڑوں افراد کے متعلق لکھا ہے جنہوں نے تنہائی کی وجہ سے خود کشی کی۔
اختتامِ حیات بہ جذبہ رحم:
ایسے مریض جو ناقابل برداشت یا ناقابل علاج بیماریوں میں مبتلا ہیں اور شب و روز انتہائی تکالیف سے گزر رہے ہیں ایسے مریضوں کے لیے بعض ممالک میں قانونی طور پر ان کی زندگی کے خاتمے کے متعلق قانون پر بھی عمل کیا جارہا ہے کہ ان کے آخری وقت (ٹرمینل اسٹیج) میں لائف سیونگ ادویات اور لائف سپورٹ ریسپیریٹر وغیرہ کو ہٹا کر انہیں موت کی نیند سلا دیا جائے اور اس طرح کے سارے پروسیجر کو قطع حیات بہ جذبہ رحم (Mercy killing) یا Euthanasia)کہا جاتا ہے۔ یقیناً یہ اقدام بھی خود کشی کی ایک قسم ہی ہے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس طرح سے کسی کو بھی موت سے ہمکنار کرنا اللہ تعالی کے احکامات میں دخل اندازی کے مصداق ہے جو قطعی طور پر ممنوع و حرام ہے اور اس طرح کا کسی کو مشورہ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔
آخر میں ہم بارگاہ رب العزت میں دعا کریں کہ اے باری تعالی ہم سب کی خود کشی جیسی عبرتناک موت سے حفاظت فرما، اسلام پہ زندہ رکھ اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرما۔ آمین یا رب العالمین
(مضمون نگار بی بی ایس، ایم سی پی ایس ہیں۔ وہ سابق فزیشن حرم مکی رہ چکے ہیں اور فی الوقت انٹاریو، کینیڈا میں مقیم ہیں)

 

***

 11 دسمبر 2023ء روزنامہ انقلاب ممبئی کی ایک سرخی نگاہوں کے سامنے ہے کہ "بھیونڈی کے مقیم ہرشل مہالے کرجت میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس سال اول کے طالب علم کی خود کشی، سوسائڈ نوٹ میں ہراساں کرنے کا الزام، اہل خانہ کا خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ۔ تین طلباء کے خلاف معاملہ درج” اس سے دو دن قبل 09 دسمبر 2023ء کے انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی سرخی میں درج ذیل الفاظ درج تھے:
” Kerala doctor dies by suicide after colleague’s ’exorbitant dowry demand’ scuttles marriage plans ".
’’کیرالا کے ڈاکٹر کی خودکشی سے موت۔ لڑکے والوں کے حد سے زیادہ جہیز کی مطالبہ نے شادی کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا‘‘
گزشتہ ماہ ایک ہی ہفتے کے دوران میڈیسن سے تعلق رکھنے والے خود کشی کے یہ دونوں واقعات دراصل راقم السطور کے لیے محرک ثابت ہوئے اور قلب و ذہن پر اس قدر کرب و الم کے نقش قائم کیے کہ خود کشی کے عنوان پر اپنے جذب دروں کو سپرد قلم کرنا پڑا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024