یوگی حکومت اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہی ہے
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف وسیع پیمانے پر مظاہرین پر تشدد کے بعد اتر پردیش میں اب تک مجموعی طور پر 19 افراد کی ہلاکت کی خبر ہے۔ حالانکہ اتر پردیش کے مقامی لوگوں کے بقول ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان اموات کے بعد جماعت اسلامی ہند کی ایک ٹیم نے جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری جناب ملک معتصم خان کی قیادت میں اتر پردیش کا دورہ کیا۔ ہفت روزہ دعوت کے صحافی افروز عالم ساحل نے جناب ملک معتصم خان سے اس سلسلے میں تفصیلی گفتگو کی۔ یہاں اس انٹرویو کے چند اقتباسات پیش ہیں۔
آپ نے ابھی ابھی اتر پردیش کے کئی شہروں کا دورہ کیا ہے۔ آپ نے وہاں کیا دیکھا اور کیا محسوس کیا؟
سب سے پہلے ہم اترپردیش کے میرٹھ شہر گئے تھے، یہاں 6 لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کے خاندان کے افراد سے ہم نے ملاقات کی۔ نہٹور کے مقامی لوگوں سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ پھر ہم مرادآباد، سنبھل، رامپور اور مظفرنگر گئے۔ ان تمام جگہوں پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ان علاقوں میں خاصی کشیدگی ہے۔
میرا پہلا تاثر ہے کہ اتر پردیش کے مختلف شہروں میں جو احتجاج ہوا تھا، اگر ان میں حکومت کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرتی اور مظاہروں کو مکمل ہونے کا موقع دیا جاتا، تو یہ سارے مظاہرے پرامن طریقے سے مکمل ہو جاتے۔ لیکن حکومت کی شروع سے ہی یہ خواہش تھی اور انتطامیہ پر یہ دباو تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں ہونے والے تمام احتجاج کو کچل دیا جائے۔ یہ جو حکومت کی پالیسی تھی، اسی پالیسی کے نتیجے میں حکومت اور پولیس کی جانب سے کافی دشواریاں آئیں۔
دوسرا تاثر یہ ہے کہ پولیس نے یہاں کے لوگوں پر نہ صرف ظلم کیا ہے بلکہ آگ کو بھڑکانے میں بھی سب سے آگے رہے ہیں۔ بعض لوگوں کی مانیں تو جہاں لوگ آسانی سے منتشر ہو سکتے تھے، پولیس نے وہاں بھی اپنی ابتدا ہی فائرنگ سے کی۔ اور اگر فائرنگ کی نوبت بھی آگئی تھی تو گولیاں پیروں میں ماری جاتی ہیں، لیکن یہاں جو گولیاں چلی ہیں وہ جسم کے اوپری حصے میں لگی ہیں، لوگوں کے سینے میں لگی ہیں۔ اتر پردیش کے مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ پولیس کے ساتھ کچھ ایسے افراد بھی شریک تھے جو پولیس کے لباس میں نہیں تھے۔ لیکن ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے بھی تھے اور اسلحہ بھی۔ یہ لوگ لاٹھی چلانے اور فائرنگ کرنے دونوں میں شامل تھے۔ یہ پرائیویٹ لوگ کون تھے، یہ معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔ بعض مقامات پر لگ رہا ہے کہ پولیس ہی احتجاج کر رہی تھی اور پھر خود ہی پرتشدد بھی ہو گئی۔ پولیس سے پوچھا جانا چاہیے کہ عام لوگوں کےگھروں میں توڑ پھوڑ یا گاڑیوں کو پولیس نے نشانہ کیوں بنایا؟ بعض مقامات پر دیکھا گیا کہ پولیس خود سڑکوں پر اینٹیں بچھا رہی تھی۔ لوگوں کی گاڑیاں بھی پولیس نے جلائیں۔ ممکن ہے کہ عوام کی جانب سے بھی کچھ تشدد ہوا ہو، لیکن عوام اور پولیس برابر نہیں ہو سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ ہجوم نے کہیں کوئی غلطی کی ہو، لیکن ہجوم نے غلطی کی تو پولیس بھی غلطی کرے، یہ جائز نہیں ہے۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں کی موت پولیس کی گولی لگنے سے واقع ہوئی ہے، پولیس ان پر بھی مقدمے قائم کررہی ہے۔ ایک تو ان کے اہل خانہ اسی بات سے رنجیدہ و پریشان ہیں کہ گھر کا ایک فرد چلا گیا، دوسری طرف یہ لوگ الٹا مقدموںمیں بھی ماخوذ ہو جائیں ۔ یہی نہیں، دکانوں کو سیل کیا جا رہا ہے۔ صرف مظفر نگر ہی میں 67 دکانوں کو سیل کردیا گیا ہے۔ گھروں کی قرقی ضبطی کی جارہی ہے۔ یہاں کے لوگوں کو نوٹس دیا جا رہا ہے۔ ایسا کس قانون میں ہے؟ جب یہ ثابت ہی نہیں ہوا ہے کہ وہ شخص مجرم ہے ، وہ کسی طرح کے تشدد میں شریک تھا یا نہیں؟ اور اگر مجرم بھی ہے تو اس کی سزا کیا ہوگی یہ طے کرنے کا حق عدالت کا ہے۔ یوگی حکومت اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہی ہے۔
اس پورے معاملے میں جماعت اسلامی ہند کیا کر رہی ہے؟ یا کیا کرنے والی ہے؟
ہماری پہلی کوشش تو یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما ان تمام مقامات کا دورہ کریں جہاں کے لوگ پولیس کے ظلم کے شکار ہوئے ہیں۔ ان کا جانااس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے لوگوں کے دل و دماغ میں بس چکے خوف کو ختم کیا جا سکے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما پولیس کے افسران سے بھی ملے اور ان کو بتائیں کہ جو کچھ ہوا ہے وہ درست نہیں ہے۔
لیکن راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے میرٹھ جانے کی کوشش کی تھی۔ پرینکا گاندھی کو تو لکھنو میں بھی روکا گیا۔ خود پرینکا گاندھی کا الزام ہے کہ اتر پردیش پولیس نے انہیں نہ صرف روکا بلکہ ان کا گلا دبادیا اور دھکا دیا گیا۔
اب آپ حالات کا اندازہ خود ہی لگا لیجیے۔ جہاں راہل گاندھی اورپرینکا گاندھی کو روک دیا جاتا ہے، انہیں پولیس کے ظلم کے شکار ہوئے متاثرین سے ملنے نہیں دیا جاتا ۔ تو پھر عام عادمی کس شمار و قطار میں ہے؟اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ کس کس طرح سے زیادتیاں ہوئی ہوں گی۔ لیکن ہم پھر بھی یہ چاہیں گے کہ سیاسی رہنما دورہ کریں ، اور حکمرانوں کو متوجہ کریں۔
سیاست سے الگ جماعت اسلامی ہند اور کیا کرنا چاہ رہی ہے؟
ہم چاہتے ہیں کہ پولیس کے ظلم کی تلافی ہو۔ اور پولیس کے ظلم کی تلافی تبھی ممکن ہے جب پولیس جن لوگوں کو بلاوجہ گرفتار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، انہیں گرفتار نہ کرے۔ جو گرفتار ہو چکے ہیں ان پر جھوٹے مقدمات قائم نہ کیے جائیں۔ اور جن لوگوں کی اموات ہوئی ہیں ان کو معاوضہ دیا جائے۔ جن کے گھروں میں پولیس کے ذریعے لوٹ مار کی گئی ہے، ان کو معاوضہ دیا جائے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی ہند کی یہ بھی کوشش ہے کہ نامور وکلا کی ٹیم اتر پردیش کی ان تمام مقامات پر جائے، جہاں کے لوگ پولیس کے ظلم کے شکار ہوئے ہیں۔ جو مقتول ہیں، جن کے مال و اسباب لوٹ لیے گئے ہیں، وہ خود مقدمہ نہیں لڑ سکتے۔ ان کی ہر طرح سے قانونی مدد کی جائے۔ ملک کے بڑے اور نامور وکلا ان معاملوں میں رہنمائی کریں اور وہاں کے مقامی وکیل ان تمام معاملوں کو عدالت لے کر جائیں۔ کیونکہ اگر ہم ان معاملوں کو عدالت میں لے کر نہ گئے تو پولیس کے ظلم کے شکار لوگ انصاف سے محروم رہ جائیں گے۔ ساتھ ہی ہم ان کی اخلاقی مدد بھی کر سکتے ہیں۔ یعنی سیاسی، قانونی اور اخلاقی تینوں سطح پر کام کرنے والے لوگوں کی جماعت مدد کرنے کو تیار ہے۔