اے ایم یو کے اقلیتی کردار پر سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ کا ایک اہم موڑ
ملک میں اقلیتی اداروں کی بقا اور فروغ کو یقینی بنانے کی راہ ہموار
فضل الرحمن، علی گڑھ
کثرت میں وحدت کے نعرہ اور تکثیریت کے تصور کو سپریم کورٹ نے آکسیجن بخشا
سبھی فریق کشادہ قلبی کے ساتھ اس تاریخی فیصلہ کو قبول کریں اور آئینی التزامات کا احترام ہو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار سے متعلق معاملہ پر بروز جمعہ 8 نومبر کو سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ کے فیصلے پر جب اے ایم یو کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون عدالت کے احاطہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوال پر اپنا مختصر ردّعمل ظاہر کررہی تھیں تو ان کے چہرے پر مسرت و اطمینان کے جذبات نمایاں تھے جو اس بات کا غماز تھے کہ اس عظیم تاریخی ادارے نے ایک سنگ میل عبور کرلیا ہے۔ سات رکنی بنچ میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ،جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا کا اکثریتی فیصلہ نہ صرف اے ایم یو بلکہ ملک کے تمام اقلیتی اداروں کے لیے راحت پہنچانے والا ہے اور توقع کی جانی چاہیے کہ یہ آئین ہند میں اقلیتوں کو دیے گئے تعلیمی اور مذہبی تحفظات کی بقا کا ضامن ثابت ہوگا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کو اگر چند جملوں میں سمیٹا جائے تو وہ یہ ہے کہ کسی تعلیمی ادارے کو اقلیتی ادارہ قرار دینے کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کی ابتدا کس نے کی، اغراض و مقاصد کیا تھے، کیا اس کا مقصد اقلیت کو تعلیم فراہم کرنا تھا اور اس سلسلہ میں حکام اور اصحاب رائے سے مراسلت اور خط و کتابت کس نے یا کن لوگوں نے کیا۔ اس کے انتظام و انصرام میں اگر غیراقلیتی طبقہ کے بھی کچھ لوگ شامل ہوں اور ادارے کے نظم و نسق میں اپنی خدمات دیتے ہوں تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
بھارت میں کوئی بھی یونیورسٹی قائم کرنے کے لیے پارلیمنٹ یا اسمبلی سے قانون منظور کرانے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بغیر یونیورسٹی قائم نہیں ہوسکتی، البتہ اگر کسی قدیم ادارے کو یونیورسٹی میں تبدیل کیا جا رہا ہے تو نیا قانون آنے سے اس سے قبل کی تاریخ ختم نہیں ہوجاتی۔ صرف مقننہ سے پاس ہونے والے ایکٹ تک محدود رہنا درست نہیں ہے۔ فیصلہ کا لب لباب یہی ہے کہ ایکٹ کے آنے سے قبل کی تاریخ، بانیان کے اغراض و مقاصد اور انتظام و انصرام کا جو سلسلہ چل رہا ہے اس کی نفی نہیں کی جاسکتی اور ایکٹ سے یونیورسٹی کا وجود میں آنا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیس میں ماضی کا ہی ایک تسلسل ہے۔
سپریم کورٹ نے آئین ہند کے آرٹیکل 30 کی توضیح اور اس کی معنویت بیان کرتے ہوئے جو رہنما خطوط طے کیے ہیں ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 1920ء میں مقننہ سے منظور شدہ ایک ایکٹ سے ضرور قائم ہوئی مگر اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ 24 مئی 1875ء کو سرسید احمد خاں نے علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم مسلمانان ہند قائم کیا جو 7 جنوری 1877ء کو محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج میں تبدیل ہوا اور وائسرائے آف انڈیا لارڈ لِٹّن نے ایک شاندار تقریب میں اس کا سنگ بنیاد رکھا، پھر 1920ء میں یہی ادارہ یونیورسٹی کی شکل اختیار کرگیا اور کالج کے تمام اثاثہ جات وغیرہ یونیورسٹی کو منتقل ہوگئے۔
27 مارچ 1898ء کو ایم اے او کالج بورڈ آف ٹرسٹیز کے سکریٹری اور ادارے کے بانی سرسید احمد خاں کا انتقال ہوا، جنہیں نہ صرف اے ایم یو کا بانی سمجھا جاتا ہے بلکہ ایک عظیم سماجی مصلح اور ملک و ملت کی ترقی کی خاطر جدید سائنسی تعلیم کی شمع جلانے والا مفکر قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا خواب روز اول سے کیمبرج اور آکسفورڈ کی طرز پر ایک اعلیٰ اور معیاری تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا تھا، جن میں ان کے رفقاء اور جانشینوں نے بھر پور کردار ادا کیا اور ان کے انتقال کے بعد ایم اے او کالج کو یونیورسٹی بنانے کی مہم چلائی اور انگریز حکام سے گفت و شنید اور مراسلت کی۔
ساری تگ و دو کا نتیجہ یہ نکلا کہ سر محمد شفیع نے 20 اگست 1920 کو امپیریل لیجسلیٹیو کونسل میں مسلم یونیورسٹی بل پیش کیا، اس پر بحث ہوئی اور پھر اس بل کو منظوری مل گئی۔ قانون ساز کونسل میں مسلم یونیورسٹی کے بل پر اپنی بات رکھتے ہوئے سر محمد شفیع نے کہا تھا کہ گورنمنٹ آف انڈیا مجوزہ یونیورسٹی کو خاطر خواہ مالی تعاون دے گی جو ایک تعلیمی ادارے کے طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سود مند ثابت ہوگی ۔
آرٹیکل 30 کی جامع اور لبرل تشریح
سات رکنی بنچ کا فیصلہ پانچ سو صفحات پر محیط ہے جس میں چار ججوں کا اکثریتی فیصلہ 114 صفحات پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا پہلا جملہ ہی آئین ہند کے ‘آرٹیکل 30 ’سے شروع ہوتا ہے جو اقلیتوں کو ملک میں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کے انتظام و انصرام کا خصوصی حق فراہم کرتا ہے۔ عدالت نے آرٹیکل30(1) میں‘ اِسٹیبلش’ (قیام) اور ‘ایڈمنسٹر’ (انتظام و انصرام) کے اصطلاحات کی جامع اور نہایت لبرل تشریح کی ہے ۔
بنچ نے آئین ہند کے آرٹیکل 30 (1) کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسی قانون سازی یا حکومتی کارروائی جو تعلیمی اداروں کے قیام یا انتظام میں مذہبی یا لسانی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہے وہ آرٹیکل 30 (1) کے خلاف ہے۔ یہی آرٹیکل یہ ضمانت بھی دیتا ہے کہ اپنا تعلیمی ادارہ قائم کرنے والی لسانی یا مذہبی اقلیت کو ادارے کے نظم و نسق میں زیادہ خود مختاری حاصل ہوگی، یہ اس کا خصوصی حق ہے اور آرٹیکل 30 (1) کے تحت جس حق کی ضمانت دی گئی ہے وہ دستور ہند کے نفاذ سے قبل قائم شدہ یونیورسٹیوں پر بھی لاگو ہوگا۔ آرٹیکل 30 اور اس کے ذیلی شقوں کی ایسی جامع تشریح اس سے پہلے کسی عدالت نے نہیں کی۔
اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کا کیس اس معنی میں منفرد ہے کہ یہ ایک نظیر بنے گا جو جامعہ ملیہ اسلامیہ یا دہلی یونیورسٹی کے سینٹ اسٹیفن کالج کے موقف کو بھی مضبوط کرے گا۔ اے ایم یو سمیت یہ تینوں تعلیمی ادارے ملک کی آزادی سے قبل کے ہیں جب دستور ہند کا وجود نہیں تھا اور اقلیت جیسی اصطلاح موجود نہیں تھی جس کا ذکر 26 جنوری 1950 کو بھارت میں نافذ ہونے والے آئین میں کیا گیا اور اس کی مزید توضیح قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات (این سی ایم ای آئی) ایکٹ میں کی گئی ہے۔
عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا کیس میں پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ کالعدم ہونے کے اثرات
اس پورے معاملہ میں قانونی نکات کی وضاحت کرتے ہوئے آئینی قوانین کے ماہر اور اے ایم یو کی طرف سے سپریم کورٹ میں بطور ایکس آفیشیو اپیل داخل کرنے والے پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے کہاکہ سات رکنی آئینی بنچ نے عزیز باشا کیس میں 1967 میں دیے گئے اپنی پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کو کالعدم کر دیا ہے، جو اے ایم یو کی جیت ہے کیوں کہ اسی فیصلے کو بنیاد بنا کر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اے ایم یو کا اقلیتی کردار ختم کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 30 کے سلسلہ میں جو باتیں بنچ نے کہی ہیں اور اس کی جامع تشریح کی ہے وہ تاریخی ہے، کیوں کہ اس سے قبل اتنی گہرائی سے اس کی توضیح نہیں کی گئی تھی۔
پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے کہاکہ عزیز باشا کیس میں بنچ کا سارا زور 1920کے ایکٹ پر تھا، جب کہ جسٹس چندر چوڑ کی قیادت والی بنچ نے ایک جامع نقطہ نظر اپناتے ہوئے کہا کہ اقلیتی حیثیت طے کرنے کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ ایکٹ سے پہلے کیا تھا، ادارہ کا خیال کس نے پیش کیا، کس نے کوششیں کیں، ادارہ کیوں بنایا اور اس کا مقصد کیا تھا۔
حتمی فیصلہ ریگولر بنچ کرے گی
اے ایم یو کے اقلیتی کردار سے متعلق معاملہ کو یونیورسٹی کی جانب سے دیکھنے والے پروفیسر آفتاب عالم، چیئرمین، شعبہ اسٹریٹجک و سیکورٹی اسٹڈیز نے کہاکہ سپریم کورٹ کی جانب سے واضح کیے گئے رہنما اصولوں کی روشنی میں اب تین رکنی ریگولر بنچ اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کا فیصلہ کرے گی۔ سپریم کورٹ نے ابھی اقلیتی ادارے کے لیے آئین کے التزامات کی توضیحات کی ہیں اور ایک اعتبار سے قانونی و آئینی رہنما خطوط اور پیمانے طے کردیے ہیں۔ انہیں کی روشنی میں ریگولر بنچ اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کا حتمی فیصلہ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ تقریبا 57 سال پرانے عزیز باشا فیصلہ کو سپریم کورٹ نے اوور رول کر دیا یعنی پلٹ دیا ہے چنانچہ اب اے ایم یو کا کیس مضبوط ہوگیا ہے۔
کیا سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ اے ایم یو کے اقلیتی کردار کے بارے میں اسی وقت حتمی فیصلہ دے سکتی تھی، اس سوال پر پروفیسر آفتاب عالم نے کہا کہ بنچ نے جو بہتر سمجھا وہ کیا، اس پر کوئی رائے زنی ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر نئے عزت مآب چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے کیس کے فوری تصفیہ کا فیصلہ کیا تو وہ جلد ہی اس معاملہ کو ریگولر بنچ کے سپرد کر دیں گے اور چند مہینوں میں حتمی فیصلہ کی توقع کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے ایم یو نے مضبوطی کے ساتھ اپنا کیس رکھا ہے اور اس سلسلہ میں کئی ضخیم جلدوں میں دستاویزات عدالت میں پیش کیے ہیں جن میں بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگوں کی تفصیلات، مراسلت، مسلمانوں کی جدید تعلیم کے لیے سرسید کی قیادت میں اور پھر اس کے بعد مختلف کمیٹیوں کی میٹنگوں کی روداد، عندیہ کااظہار کرنے والے اجلاس اور ان کے فیصلے اور چندہ جمع کرنے کی مہمات وغیرہ کی تفصیل شامل ہے۔ عدالت میں جن شواہد کی ضرورت ہوگی انہیں آئندہ بھی پیش کیا جائے گا۔
بیک وقت قومی اہمیت کا ادارہ اور اقلیتی ادارہ ہونے میں کوئی تضاد نہیں
اے ایم یو کے شعبہ رابطہ عامہ کے ممبر انچارج اور شعبہ انگریزی کے استاد پروفیسر عاصم صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اے ایم یو کو قومی اہمیت کا حامل ادارہ قرار دیا ہے۔ ادارے کی خدمات روز اول سے مثالی رہی ہیں اور ملک و قوم کی تعمیر میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔قومی اہمیت کا حامل ادارہ ہونے اور بیک وقت ایک اقلیتی ادارہ ہونے میں کوئی تضاد نہیں جیسا کہ چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں واضح طور سے کہا ہے۔ اس سے یونیورسٹی کو حوصلہ ملا ہے اور اس کا کیس مضبوط ہوا ہے۔ ہم سب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یونیورسٹی اپنے اقلیتی کردار کا تحفظ کرتے ہوئے اپنی رینکنگ کو مزید بہتر کرے گی۔
پروفیسر صدیقی نے کہا کہ عزیز باشا کیس میں سپریم کورٹ نے یہ تشریح کی تھی کہ برطانوی عہد کی مقننہ سے 1920 کا قانون پاس ہوا اور اے ایم یو انکارپوریٹ کیا گیا یا وجود میں آیا اور اس نے اپنا اقلیتی کردار ترک کر دیا۔ اس محدود اور تکنیکی تشریح کو سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ نے اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے خارج کر دیا اور کہا کہ اداروں کا اقلیتی کردار محض اس بنا پر ختم نہیں ہو جاتا ہے کہ انہیں سرکاری قوانین پاس کرکے قانونی حیثیت دی گئی ہے۔اس سے یہ قانونی بنیاد صاف ہوجاتی ہے کہ اے ایم یو 1877ء میں سرسید احمد خاں کے قائم کردہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا تسلسل ہے اور اقلیتی کردار کو سمجھنے کے لیے آئین ہند کے التزامات کی معقول اور جامع تشریح کی جانی چاہیے۔
فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین اور سرسید اکیڈمی کے ڈائرکٹر پروفیسر شافع قدوائی نے کہاکہ برسوں سے معرض التوا میں پڑے ہوئے معاملہ میں سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ نے اپنے اکثریتی فیصلہ سے ملک میں ایسے تمام اداروں کے اقلیتی کردار کے حق میں خطوط متعین کر دیے ہیں جن کا قیام اقلیتی طبقہ کے لوگوں نے خود کیا ہے، خواہ انہیں حکومت سے مالی امداد بھی مل رہی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایم اے او کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے لیے انگریزی حکومت کی مقرر کردہ شرط کے مطابق 1920ء میں تیس لاکھ روپے کی خطیر رقم جمع کرکے حکومت کو دی گئی جس کے بعد ہی ایکٹ پاس ہوسکا۔ پروفیسر قدوائی نے کہا کہ عزیز باشا ججمنٹ کو کالعدم قرار دے کر عدالت نے حکومت کے موقف کو بھی مسترد کر دیا ہے اور اس طرح اے ایم یو کو ایک اقلیتی ادارہ قرار دیے جانے کی راہ ہموار کردی ہے۔
اے ایم یو کے قیام کی تاریخ اور اقلیتی کردار کی لڑائی
ڈاکٹر راحت ابرار نے اے ایم یو کی تاسیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ 1920ء کے اے ایم یو ایکٹ میں یونیورسٹی فاؤنڈیشن کمیٹی کے اراکین کو کورٹ کا ممبر بنایا گیا جو سبھی مسلم تھے۔ایکٹ میں یہ بھی طے کیا گیا کہ وائس چانسلر مسلمان ہوگا اور دینیات کی تعلیم لازمی کی گئی۔ آزادی کے بعد ملک میں جمہوریت اور آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت محسوس کی گئی چنانچہ اے ایم یو اور بنارس ہندو یونیورسٹی دونوں کے ایکٹ میں تبدیلیاں کی گئیں۔ 1951ء میں اے ایم یو ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کے تحت طلبہ کے لیے دینیات کی تعلیم کی لازمیت کو ختم کیا گیا، اسی طرح کورٹ کی رکنیت کا ضابطہ بدلا گیا، صدر جمہوریہ ہند کو یونیورسٹی کا وزیٹر بنایا گیا اور آئین کے ساتویں شیڈول میں اے ایم یو کو قومی اہمیت کے حامل ادارے کے طور پر درج کیا گیا ۔
انہوں نے بتایا کہ 1965ء میں اے ایم یو ایکٹ میں کچھ ایسی ترامیم کی گئیں، جس سے اے ایم یو کی ایگزیکیٹیو کونسل کی طاقت بڑھ گئی اور اے ایم یو کورٹ کی حیثیت مشاورتی رہ گئی جس کے خلاف حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے عزیز باشا نے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی۔ انہوں نے اے ایم یو کورٹ کے کردار تبدیل کرنے کو غلط بتایا تھا۔ انہیں کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے 1967 میں یہ فیصلہ سنادیا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مرکزی مقننہ کے ایکٹ سے بنی ہے، چنانچہ یہ آرٹیکل 30 کے تحت مسلمانوں کا قائم کردہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ اس کے خلاف ملک گیر سطح پر طویل تحریک چلی۔
1981 کا اے ایم یو ترمیمی ایکٹ
احتجاج کی شدت کو دیکھتے ہوئے 1981ء میں اندرا گاندھی کے زمانہ میں ایکٹ میں ایک اور ترمیم کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا گیا کہ یہ ادارہ مسلمانوں نے اپنے لیے بنایا تھا جو ملک میں ان کی ثقافتی اور تعلیمی بہبود کے لیے کام کرے گا۔ اس طرح سے بظاہر اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو حکومت نے تسلیم کر لیا، مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ 2005ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے میڈیکل پی جی کورسیز میں پچاس فیصد سیٹیں مسلم طلبہ کے لیے محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا جسے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں نریش اگروال سمیت یہیں کے کچھ طلبہ نے چیلنج کر دیا، چنانچہ ان کے حق میں ہائی کورٹ کی سنگل اور پھر ڈبل بنچ نے یکے بعد دیگرے یہ فیصلہ سنایا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور ریزرویشن لاگو کرنا درست نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے 1967 کے عزیز باشا ججمینٹ کو ہی اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا اور 1981 کے ترمیمی ایکٹ کی بعض شقوں کو غیر آئینی قرار دیا۔
سپریم کورٹ میں اپیل اور سات رکنی بنچ کے سامنے طویل سماعت
اس معاملے پر اے ایم یو نے2006ء میں سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ 24 اپریل 2006 کو ڈویژن بنچ نے معاملہ بڑی بنچ کو بھیجا۔ تین رکنی بنچ کے سامنے سماعت شروع ہوئی۔ معاملہ چونکہ آئین کی دفعات کی توضیح سے جڑا ہوا تھا اور 1967 کے عزیز باشا فیصلے کی صحت پر بعض دیگر عدالتی فیصلوں میں سوال بھی کھڑے کیے گئے تھے اور ان کی درستگی پر شک کا اظہار کیا گیا تھا، اس لیے 12 فروری 2019 کو تین رکنی بنچ نے آرٹیکل 30 کی توضیح اور کسی ادارہ کو اقلیتی ادارہ قرار دینے کا پیرامیٹر کیا ہو، اس کی وضاحت کے لیے معاملہ کو سات رکنی بنچ کے پاس بھیجا۔ مذکورہ ریفرنس پر سات رکنی بنچ کے سامنے بڑی تفصیل سے بحثیں ہوئیں اور بنچ نے طویل سماعت کے بعد یکم فروری 2024 کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اے ایم یو سمیت تمام فریقوں نے اپنے دلائل پیش کیے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اپنی مدت کار کے آخری دن 8 نومبر کو اپنا تاریخی فیصلہ سنایا، جس پر تمام حلقوں میں بحث و تمحیص جاری ہے۔
4:3 کے اکثریتی فیصلے میں اختلاف رائے ظاہر کرنے والے تین ججوں جسٹس سوریہ کانت، جسٹس دیپانکر دتا اور جسٹس ایس سی شرما میں سے صرف جسٹس دیپانکر دتا نے ہی اپنے الگ فیصلہ میں واضح طور سے یہ کہا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ باقی دونوں ججوں نے دیگر قانونی نکات اور چھوٹی بنچ سے بڑی بنچ میں معاملہ بھیجنے کے قانونی عمل پر اپنی رائے ظاہر کی ہے۔
فیصلے میں تکثیریت کے احترام کا پیغام پوشیدہ ہے
بہر حال اس اکثریتی فیصلے نے آرٹیکل 30 کی جامع تشریح کرکے اور اسے وسیع پس منظر میں دیکھ کر ملک کو ایک پیغام دیا ہے کہ ہمیں سماج اور اداروں میں یکسانیت لانے کے بجائے بھارت میں پائی جانے والی کثرت میں وحدت اور تکثیریت کے مظہر کا احترام کرنا چاہیے اور اگر کوئی ادارہ خالص مذہبی یا لسانی اقلیتوں کی جدوجہد سے مخصوص مقاصد سے قائم کیا گیا ہے تو اسے جوں کا توں باقی رکھنے اور اس کی مخصوص ثقافتی شناخت کو محفوظ رکھنے سے کچھ بگڑ نہیں جائے گا بلکہ وہ ادارہ نہ صرف یہ کہ زیادہ توانائی کے ساتھ ملک کی تعلیمی و تہذیبی خدمت کا فریضہ انجام دے سکے گا بلکہ اس تنوع کے لیے ملک، اس کے آئین، منتظمہ اور مقننہ کو پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
***
***
اے ایم یو کے قیام کا پس منظر اور اقلیتی کردار کی جدوجہد: کب اور کیا ہوا
26 دسمبر 1870: سرسید احمد خاں نے انگلینڈ کے سفر سے وطن واپسی پر بنارس میں ‘‘کمیٹی فار دی بیٹر ڈیفیوزن اینڈ ایڈوانسمنٹ آف لرننگ امنگ مسلمس آف انڈیا’’ قائم کی۔
جولائی 1872: سرسید نے سرکردہ مسلمانوں کو خط لکھ کر جدید تعلیم کے لیے کالج کے قیام کے سلسلہ میں ان کی آراء طلب کیں۔
8 فروری 1873 : بنارس میں محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج فنڈ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی اور سرسید احمد خاں کے صاحبزادے جسٹس سید محمود نے مجوزہ یونیورسٹی کا خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے یہ تجویز بھی رکھی کہ یونیورسٹی کے جائے قیام اور دیگر جگہوں پر اسکول قائم کیے جائیں۔
24 مئی 1875 : علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم مسلمانان ہند کا افتتاح۔
یکم جون 1875 : سترہ طلبہ کے ساتھ بورڈنگ ہاؤس کی ابتدا۔
12 نومبر 1875: صوبہ جات اودھ کے لیفٹیننٹ گورنر سر ولیم میور نے ادارے کا دورہ کیا۔
6 دسمبر 1875: مہاراجہ پٹیالہ مہندر سنگھ نے اپنے وزیر اعظم خلیفہ محمد حسن کے ہمراہ ادارہ کا دورہ کیا۔
25 اگست 1876 : سرسید احمد خاں 37 برس کی سرکاری ملازمت کے بعد علی گڑھ میں مستقل طور سے سکونت پذیر ہوئے۔
8 جنوری 1877 : ہندستان کے وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ لِٹّن نے محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کا سنگ بنیاد رکھا۔
یکم جنوری 1878: انٹرمیڈیٹ کلاسیز کی ابتدا اور کالج کا کلکتہ یونیورسٹی سے الحاق۔
یکم جنوری 1881: چار طلبہ بی اے کے امتحان میں شامل ہوئے۔ مسٹر ایشوری پرساد کالج کے پہلے گریجویٹ ہوئے۔
27 مئی 1881 : پنڈت شیوشنکر ترپاٹھی سنسکرت کے پہلے پروفیسر مقرر ہوئے۔
1883 : رائیڈنگ اسکول کا قیام جو اب رائیڈنگ کلب کے نام سے معروف ہے ۔
26 اگست 1884: کالج کے پرنسپل تھیوڈور بیک کی رہنمائی میں سِڈنس یونین کلب کے نام سے طلبہ یونین کا افتتاح ۔
22 دسمبر 1886 : آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا قیام۔
1887 : سرسید احمد خاں کو الٰہ آباد یونیورسٹی کا فیلو بنایا گیا ۔
29دسمبر 1891 : الٰہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈگلس اسٹریٹ نے ایم اے او کالج کا دورہ کیا اور لا کی کلاسیز کا افتتاح کیا۔
1893 : لجنۃ الادب کے نام سے عربی سوسائٹی کا قیام۔
27 مارچ 1898: سرسید احمد خاں کا انتقال ہوا اور یونیورسٹی کی مسجد کے احاطہ میں ان کی تدفین ہوئی۔
31 مارچ 1898: ایم اے او کالج کو مسلم یونیورسٹی بنانے کے مقصد سے صاحبزادہ آفتاب احمد خاں اور دیگر کی کاوشوں سے سرسید میموریل فنڈ کا قیام۔
29 دسمبر 1903: آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس نے مسلم یونیورسٹی کے قیام کے لیے بمبئی میں منعقدہ اجلاس میں ایک قرارداد پاس کی۔ میٹنگ کی صدارت انجمن اسلام کے صدر جسٹس بدرالدین طیب جی نے کی۔
7 مارچ 1906: پرنس آف ویلس نے ایم اے او کالج کا دورہ کیا۔
یکم اکتوبر 1906: آغا خاں کی قیادت میں ایک وفد نے شملہ میں گورنر جنرل آف انڈیا اور وائسرائے لارڈ منٹو سے ملاقات کی اور علی گڑھ میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کے لیے ان کا تعاون مانگا۔
10 جنوری 1911: مسلم یونیورسٹی کے قیام کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سر آغا خاں اس کے صدر اور نواب وقار الملک اعزازی سکریٹری مقرر ہوئے۔
16 فروری 1911: کمیٹی کی پہلی میٹنگ لکھنؤ میں ہوئی۔
27 اگست 1920: مسلم یونیورسٹی بل کو مرکزی قانون ساز کونسل میں پیش کیا گیا۔
9 ستمبر 1920: مسلم یونیورسٹی بل پاس ہوا۔
14 ستمبر 1920: گورنر جنرل نے مسلم یونیورسٹی بل پر مہر لگائی جو 1920کا اے ایم یو ایکٹ بنا۔
25 اکتوبر 1920: مہاتما گاندھی نے اے ایم یو کا دورہ کیا ۔ انہیں طلبہ یونین کا اعزازی لائف ممبر بنایا گیا۔
یکم دسمبر 1920: 1920 کے ایکٹ سے پندرہ شعبہ جات کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وجود میں آئی ۔
4 دسمبر 1920: گورنر جنرل نے راجہ محمودآباد سر محمد علی محمد خاں کو اے ایم یو کا پہلا وائس چانسلر مقرر کیا۔
17 دسمبر 1920: یونیورسٹی کا افتتاح ہوا۔ سلطان جہاں بیگم چانسلر مقرر ہوئیں اور سر محمد علی محمد خاں راجہ محمودآباد نے بطور وائس چانسلر عہدہ سنبھالا۔
27 نومبر 1927 : اترپردیش کے گورنر ولیم میرس نے یونیورسٹی میں احمدی اسکول برائے نابینا طلبہ کا افتتاح کیا۔
11اکتوبر 1951 : پارلیمنٹ نے اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کو منظوری دی، جس کی رو سے یونیورسٹی کورٹ میں صرف مسلم کے ہونے کی لازمیت ختم کی گئی۔ دینیات کی تعلیم سبھی کے لیے لازمی نہیں رہی اور لارڈ ریکٹر کی جگہ صدر جمہوریہ ہند کو یونیورسٹی کا وزیٹر قرار دیا گیا ۔
20 مئی 1965: حکومت نے ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ یونیورسٹی کی ‘خودمختاری’ تقریباً ختم کردی۔ اے ایم یو کورٹ کی حیثیت محض مشاورتی رہ گئی، چنانچہ اس کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ اسی کڑی کے تحت بعد میں عزیز باشا نے اے ایم یو کے حق کو بحال کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی۔
20 اکتوبر 1967: ایس عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں چیف جسٹس کے این وانچو کی قیادت میں پانچ رکنی بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 30 کے تحت اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے کیوں کہ اسے پارلیمنٹ کے ایکٹ سے قائم کیا گیا ہے اور یہ ایک سنٹرل یونیورسٹی ہے جسے صرف مسلمان نہیں چلاتے۔
1981: مرکز نے 1981 کا ترمیمی ایکٹ پارلیمنٹ سے پاس کرایا جس میں یہ کہا گیا کہ اے ایم یو کو مسلمانوں کی تعلیمی اور ثقافتی ترقی کے لیے مسلمانان ہند نے قائم کیا ہے ۔
2 مئی 2005: اے ایم یو کی ایکزیکیٹیو کونسل نے پی جی میڈیکل کورسیز میں مسلم طلبہ کو ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا۔اس کے خلاف الٰہ آباد ہائی کورٹ میں اپیل داخل ہوئی ۔
2006: الٰہ آباد ہائی کورٹ نے عزیز باشا معاملہ میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے روشنی میں کہاکہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور اے ایم یو ترمیمی ایکٹ 1981 کی ترامیم غیرآئینی ہیں۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اے ایم یو اور مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی۔
24 اپریل 2006: سپریم کورٹ کی ڈویژن بنچ نے معاملہ بڑی بنچ کے پاس بھیجا۔
2016: این ڈی اے حکومت نے خود کو اس اپیل سے الگ کرلیا اور اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ ماننے کا سابق حلف نامہ جو یو پی اے حکومت نے سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا اسے تبدیل کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ وہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست مانتی ہے اور اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ نہیں مانتی۔ مرکز نے یہ بھی کہاکہ 1920ء میں اپنے قیام کے وقت اے ایم یو نے اقلیتی کردار ترک کردیا تھا۔
12 فروری 2019: سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے اے ایم یو کے اقلیتی کردار سے متعلق آئینی امور کی وضاحت کے لیے معاملہ سات رکنی بنچ کے پاس بھیج دیا۔
12 فروری 2023: چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے معاملہ کی سماعت کے لیے سات رکنی بنچ تشکیل دی۔
یکم فروری 2024: سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ نے سماعت مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا۔
8 نومبر 2024: چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اپنے ریٹائرمنٹ سے عین قبل عدالتی کام کاج کے آخری دن 4:3 کا اکثریتی فیصلہ سناتے ہوئے عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کو رد کر دیا اور واضح طور سے یہ بتا دیا کہ کسی تعلیمی ادارے کی اقلیتی حیثیت آئین اور قانون کی روشنی میں کیسے طے کی جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ اسی روشنی میں ایک تین رکنی ریگولر بنچ اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کا حتمی فیصلہ کرے گی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024