امریکی بلاک اور روس-چین بلاک کی رسہ کشی میں بھارت کے سامنے توازن قائم رکھنے کا چیلنج

بھارت کے مالدیپ سے رشتوں کی استواری فالِ نیک، بنگلہ دیش کے ساتھ روابط میں تلخی برقرار

شہاب فضل، لکھنؤ

صہیونی اسرائیل کی تائیدو حمایت کا رویہ بھارت کی قدیم روایات سے متصادم
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کی چوٹی کانفرنس 15 تا 16 اکتوبر کو اسلام آباد، پاکستان میں منعقد ہے، جس میں بھارتی وفد کی قیادت وزیر خارجہ ایس جے شنکر کریں گے۔ بھارت کے پاس ایک بار پھر یہ موقع ہے کہ وہ خطہ میں اپنے اثر و رسوخ کو مثبت انداز میں استعمال کرے، پڑوسیوں کے ساتھ اپنے اختلافات کو دور کرے، الگ الگ شعبوں میں اشتراک و تعاون کو وسعت دے اور اپنے اثر و رسوخ کو جنگ اور جارحیت کو رکوانے میں بروئے کار لائے۔
شنگھائی تعاون تنظیم، اقتصادی و سیاسی امور اور بین الاقوامی سلامتی و دفاع میں اشتراک و تعاون کی ایک تنظیم ہے جس میں بھارت، چین، روس، ایران، پاکستان، قزاقستان، ازبکستان، تاجکستان، کرغیزستان اور بیلاروس مکمل رکن ممالک کے طور پر، جب کہ آبزرور کے طور پر افغانستان اور منگولیا شامل ہیں۔آذربائیجان، آرمینیا، کمبوڈیا، نیپال، ترکی اور سری لنکا ڈائیلاگ پارٹنر کے طور پر اس کا حصہ ہیں۔ بین الاقوامی سیاسی و سفارتی محاذ آرائی میں اس تنظیم کی اہمیت و معنویت یہ ہے کہ روس اور چین اسے ’مغربی بین الاقوامی نظام‘ کے ایک متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں اور امریکی اثر و رسوخ اور غلبہ کو ختم کرنے کے لیے ایشیائی بلاک کو جوڑنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
فلسطین اور لبنان میں صہیونی اسرائیل کی جارحیت اور روس-یوکرین کی جنگ نے موجودہ دنیا میں بین الاقوامی قوانین کو بے معنیٰ سا کردیا ہے۔ ہزارہا لوگ مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں مگر جارحیت رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اسرائیل نے لبنان میں اقوام متحدہ کی امن فوجوں کو بھی نشانہ بنایا ہے جس میں سری لنکا کے دو جوان زخمی ہوگئے ہیں۔ لبنان میں اقوام متحدہ کی عبوری فورس میں 34 ملکوں کے فوجی جوان شامل ہیں جس میں بھارت کے تقریباً 900 جوان بھی ہیں۔ 34 ملکوں نے اسرائیلی حملوں کے خلاف مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس کی تائید بھارت نے مشترکہ بیان جاری ہونے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد کی ہے۔ بہرحال بین الاقوامی رسہ کشی میں امریکی بلاک اور روس-چین بلاک ایک دوسرے سے مد مقابل ہیں اور نسبتاً کمزور ممالک یا ابھرتی ہوئی معیشتوں کو انہیں دونوں بلاکوں میں شامل کرنے یا کھینچنے کی تگ و دو دکھائی دیتی ہے۔
ناوابستہ ممالک کی تحریک دم توڑ چکی ہے اور دو خیموں میں تقسیم بین الاقوامی نظام میں جو تنظیمیں عہد جدید کے غالب موضوعات بشمول اقتصادی تعاون، تجارت و کاروبار، دہشت گردی کی بیخ کنی، بین الاقوامی سلامتی، آب و ہوا کی تبدیلی، سمندری گزرگاہوں کو بین الاقوامی کاروبار اور سلامتی کے لیے محفوظ بنانے، توانائی وسائل، اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی مثلاً اے آئی وغیرہ میں کثیر طرفہ اشتراک و تعاون کے امور پر گفت و شنید کا پلیٹ فارم ہیں، ان میں ایس سی او کی اپنی اہمیت و معنویت ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پہلے ہی یہ واضح کردیا کہ ان کا دورہ بنیادی طور سے ایس سی او چوٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے ہے نہ کہ بھارت پاکستان کے تعلقات پر گفتگو کے لیے؟ چنانچہ چوٹی کانفرنس سے یہ امید رکھنا ٹھیک نہیں کہ پاکستان کے ساتھ روابط میں کوئی بڑی پیش رفت ہوگی، البتہ یہ دیکھنا اہم ہے کہ ایس سی او کے اجلاس کے بعد روس و چین سمیت پڑوسیوں کے ساتھ بھارت کے رشتے کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے ساتھ روابط میں تلخی برقرار، مالدیپ کے ساتھ رشتوں میں سدھار
بنگلہ دیش میں حالیہ اتھل پتھل، وزیر اعظم شیخ حسینہ کی فراری اور بھارت میں ان کی ’محفوظ‘ آمد نے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں تلخی پیدا کر دی ہے جس میں ابھی کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ بھارت نے شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی ’عوامی لیگ‘ پر حد درجہ انحصار کیا اور اسی کو بھارت کے مفادات کا نگراں گردانا، جس کے منفی نتائج برآمد ہوئے۔ حالانکہ شیخ حسینہ پر 15 سالہ دور حکومت میں مخالفین کو سختی سے کچلنے، حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں اور مالی بے ضابطگیوں کے سنگین الزامات ہیں۔ بھارت نے بنگلہ دیش کے ساتھ بہتر تعلقات کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ یہی بات بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت والی عبوری حکومت نے کہی ہے البتہ اقدامات کی سطح پر ابھی انتظار کی صورت حال ہے۔ اپنے اقتصادی مفادات اور دو طرفہ اشتراک و تعاون کی خاطر بھارت کو اس سمت دھیان دینا ہوگا جیسا کہ مالدیپ کے ساتھ ہوا۔
مالدیپ کے ساتھ بھارت کے تعلقات 2023 کے اواخر سے ہی نہیں بگڑے بلکہ مالدیپ کے موجودہ صدر ڈاکٹر محمد معزّو کے صدارت کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل کی حکومت نے بھی چین رخی رجحان اپنایا تھا۔ مالدیپ کے چین کے ساتھ رابطے بڑھ رہے تھے، اسی درمیان بھارت مخالف رجحانات کو تقویت ملی اور صدارتی انتخابات میں ڈاکٹر معزّو نے بھارت کو ’باہر‘ کرنے کا نعرہ دیا۔ اپنی کامیابی کے بعد نومبر 2023 میں عہدہ سنبھالنے والے معزّو نے ترکی اور چین کا دورہ کیا۔ مالدیپ میں حالانکہ یہ روایت تھی کہ وہاں کے صدر عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے بھارت کا دورہ کرتے ہیں۔ چین کی جانب مالدیپ کے نئے صدر کے واضح جھکاؤ سے بھارت کے تعلقات تلخ ہوگئے۔
فروری 2024 میں ایک چینی ریسرچ جہاز مالدیپ میں لنگر انداز ہوا۔ مالدیپ کے صدر ڈاکٹر معزّو نے بھارت سے اپنے 80 فوجی جوانوں کو مالدیپ سے ہٹانے کے لیے کہا۔اسی درمیان وہاں کے تین جونیئر وزراء نے بھارتی وزیر اعظم کے خلاف تلخ جملے استعمال کیے اور سوشل میڈیا پر دونوں طرف خاصی تلخ کلامی بھی ہوئی۔ چین کی طرف جھکاؤ کو کم کرنے کے لیے بھارت نے اسی سال جون میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری تقریب میں شرکت کے لیے مالدیپ کے صدر ڈاکٹر محمد موعزّو کو نئی دہلی مدعو کیا اور ابھی حال ہی میں 6 تا 10 اکتوبر ڈاکٹر معزّو نے بھارت کا پانچ دن کا کامیاب دورہ کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ خیرسگالی قدم کے طور پر بھارت کا ایئرکرافٹ انہیں نئی دہلی لانے کے لیے مالے بھیجا گیا۔
تعلقات کی ترشی دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں تھی چنانچہ بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اگست کے دوسرے ہفتہ میں مالدیپ کا تین روزہ دورہ کیا اور صدر معزو سمیت دیگر وزراء اور حکام سے ملاقاتیں کیں۔ بعد میں ڈاکٹر معزو نے بھارت کو مالدیپ سے ’باہر کرنے‘ کے ایجنڈے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی سر زمین پر غیر ملکی فوجی جوانوں کی موجودگی ناقابل قبول ہے۔ ان کی درخواست پر بھارت نے فوراً عمل کیا اور اپنے فوجی جوان ہٹاکر ان کی جگہ تکنیکی عملہ کو تعینات کیا۔ معزو کی پیپلز نیشنل کانگریس اور ان کی اتحادی پروگریسیو پارٹی آف مالدیوز نے انتخابات میں بھارتی فوج کے جوانوں کو ملک سے باہر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ بھارتی فوجی مالدیپ کو عطیہ کیے گئے دو ہیلی کاپٹرز اور ایک ایئرکرافٹ کی دیکھ ریکھ کے لیے مالدیپ میں تھے۔
مالدیپ کے صدارتی انتخابات میں ’بھارت کو باہر کرو‘ کے نعرہ کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے والے معزو نے نئی دہلی میں بھارت کو اپنا اسٹراٹیجی اتحادی اور قریبی دوست قرار دیا۔ بھارت کے ساتھ خاص تعلق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے معزو نے کہا ’’۔۔۔۔یارانہ جاری رہے گا‘‘۔
گزشتہ ستمبر میں جب معزّو نے اپنے بھارت کے دورے کا حتمی اعلان کیا تو ان کے دو وزیروں نے استعفیٰ دے دیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مالدیپ میں بھارت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا اس پر بھارت کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
معزو ایسے وقت بھارت آئے جب مالدیپ کا فارین ایکسچینج ریزور گھٹ کر 440 ملین امریکی ڈالر رہ گیا جس سے صرف ڈیڑھ ماہ تک کی درآمدات کا خرچ برداشت کیا جا سکتا تھا۔ مالدیپ کی کریڈٹ ریٹنگ کم ہوگئی۔ ادھر چین کے دورہ پر معزو کو کوئی خاص مالی مدد نہیں مل پائی تھی۔ مالدیپ نے چین سے کئی بڑے قرض لے رکھے ہیں۔
بھارت دورے پر دونوں ممالک نے دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے پر زور دیا۔ بھارت نے مالدیپ کے لیے کئی ملین ڈالر کی مدد کا اعلان کیا۔ سارک کرنسی سویپ فریم ورک کے تحت 750 ملین امریکی ڈالر کے کرنسی تبادلہ معاہدہ کو منظوری دی، قرض کی ادائیگی میں سہولت دی اور مالدیپ میں استعمال کے لیے روپے کارڈ بھی لانچ کیا گیا۔ مالے ایئرپورٹ سے بھیڑ کم کرنے کے لیے تھلا فوشی جزیرہ پر ایک جدید کمرشیل بندرگاہ کی تعمیر کے لیے دونوں ممالک نے تعاون پر رضامندی ظاہر کی ہے ۔
بھارت، مالدیپ کا تیسرا سب سے بڑا کاروباری شراکت دار اور بڑا انویسٹر ہے۔ بھارت، مالدیپ میں کئی تعمیراتی پروجیکٹوں پر کام کر رہا ہے جن میں گریٹر مالے کنیکٹیویٹی پروجیکٹ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے تکمیل کے بعد مالدیپ کا دارالحکومت کئی جزائر سے مربوط ہو جائے گا۔اس کے علاوہ 28 جزیروں میں پانی سپلائی اور سیوریج کے کام بھی جاری ہیں۔ معزو کے دورہ پر کاروبار، توانائی، مالیاتی امور اور دفاعی تعاون کو گفت و شنید میں مرکزیت حاصل رہی۔ سیاحت مالدیپ کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں کے 1192 جزائر پر لگژری سیاحتی مقامات ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے بعد مالدیپ کی سیاحت بری طرح متاثر ہوئی۔
معزو نے بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش کی ہے مگر بھارت کے پہلو سے دیکھا جائے تو مالدیپ اور سری لنکا دونوں ممالک میں چین کی ’موجودگی‘ بھارت کے لیے مشکل کھڑی کرنے والی ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مالدیپ کے جنوب میں واقع لکشدیپ میں بھارت نے اپنی بحریہ کا ایک بیس قائم کیا ہوا ہے۔
مالدیپ کا محل وقوع بھارت کے نقطہ نظر سے اہم ہے۔ بھارت کے مغربی ساحلوں سے قریب بحر ہند میں واقع مالدیپ کا خطہ ایک بڑی سمندری تجارتی گزرگاہ ہے، عالمی تجارت اور توانائی وسائل کی آمدو رفت اسی علاقے سے ہوتی ہے۔
صدر معزو نے بھارت کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ مالدیپ ایسا کچھ نہیں کرے گا جس سے بھارت کی سلامتی کو خطرہ ہو، مالدیپ دیگر ممالک کے ساتھ مختلف شعبوں میں باہمی مفاد کے امور میں تعاون کرے گا البتہ ایسا کوئی اقدام نہیں کرے گا جس سے خطہ کی سلامتی اور استحکام مجروح ہو۔ انہوں نے بین الاقوامی اشتراک و تعاون کے ذریعہ ترقی کی راہ پر چلنے کا عزم ظاہر کیا، ساتھ میں یہ بھی کہا کہ وہ کسی ایک ملک پر انحصار نہیں چاہتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مالدیپ اب پہلے سے زیادہ جری اور اپنے مفادات کا خیال رکھنے والا نظر آتا ہے لیکن بھارت کے ساتھ ان بن یا بھارت کے مفادات سے منہ موڑنے سے انہوں نے انکار کیا۔
معزو نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اگلے سال مالدیپ کے دورہ کے دعوت دی ہے۔ یہ بھارت کی بڑی کامیابی ہے اور خوشگوار تعلقات کی بحالی کی جانب ایک بڑا قدم ثابت ہوگا۔
مشرقی ایشیا کانفرنس میں پی ایم نریندر مودی کی شرکت کی معنویت
وزیر اعظم نریندر مودی، مشرقی ایشیا کانفرنس اور اکیسویں بھارت-آسیان چوٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے 10 اکتوبر کو دو روزہ دورے پر مشرقی ایشیا کے ملک لاؤس کے دارالحکومت وینتیان پہنچے۔ لاؤس کے وزیر اعظم سونیکسے سیفاندون کے ساتھ مودی کی ملاقات ہوئی اور صلاحیت فروغ، آفات مینجمنٹ، قابل تجدید توانائی، اقتصادی تعلقات، دفاع اور ثقافتی تعلقات کے میدان میں باہمی تعاون پر اتفاق ہوا۔ یہ ملاقات ایسٹ ایشیا چوٹی کانفرنس سے الگ ہٹ کر ہوئی۔ خاص طور سے اقتصادی اور دفاعی تعلقات کو بڑھانے پر بات چیت ہوئی۔ لاؤس میں یونیسکو عالمی ورثہ کے مقام وات فوؤ کے کنزرویشن پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا، لاؤس کی حکومت کی مدد کرے گا۔ بھارت اور لاؤس کے درمیان میکانگ-گنگا تعاون کے تحت تین کوئیک امپیکٹ پروجیکٹ پر بھی اتفاق ہوا ہے، جو لاؤس رامائن ورثہ کے تحفظ، رامائن سے متعلق دیواری خاکوں والے بودھ مندر کی بحالی اور رامائن پر مبنی سایہ کٹھ پتلی کو تعاون دینے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان تینوں پروجیکٹس کو بھارت تقریباً ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر کا تعاون دے گا۔ بھارت، لاؤس میں غذائی تحفظ میں اصلاح کے لیے تقریباً دس لاکھ امریکی ڈالر کا تعاون بھی دے گا۔ بھارت-اقوام متحدہ ترقیاتی پارٹنرشپ فنڈ کے تحت جنوب مشرقی ایشیا میں مذکورہ فنڈ کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا پروجیکٹ ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اکیسویں بھارت-آسیان چوٹی کانفرنس میں کہا کہ بھارت-آسیان کاروبار گزشتہ ایک دہائی میں دوگنا ہوکر 130 بلین امریکی ڈالر ہوچکا ہے۔ مودی نے آسٹریلیا، ملائشیا، جاپان اور نیوزی لینڈ کے اپنے ہم منصبوں، یوروپی کونسل کے صدر چارلس مشیل، فلپائن کے صدر بانگ بونگ مارکوس اور عالمی اقتصادی فورم کے ایکزیکیٹیو چیئرمین مسٹر کلاز شواب سے بھی ملاقات کی۔
ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنس (آسیان) میں ملائشیا، تھائی لینڈ، برونئی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، میانمار، فلپائن، ویت نام، لاؤس اور سنگاپور شامل ہیں۔ مودی نے کہا کہ بھارت کی ایکٹ ایسٹ پالیسی کے دس سال ہوگئے ہیں۔ سال 2025 کو آسیان-بھارت سال برائے سیاحت کے طور پر منایا جائے گا۔ نالندہ یونیورسٹی میں وظائف کو دوگنا کیا جائے گا اور بھارت کی زرعی یونیورسٹیوں میں آسیان کے طلبہ کو نئی گرانٹس دی جائیں گی۔ آسیان-بھارت سائنس و ٹکنالوجی ڈیولپمنٹ فنڈ کے تحت آسیان-بھارت کی خاتون سائنسدانوں کا اجتماع بھی منعقد کیا جائے گا۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ بھارت اور آسیان ممالک پڑوسی ہیں، عالمی جنوب میں شراکت دار ہیں اور یہ ایسا خطہ ہے جہاں تیزی سے اقتصادی نمو ہو رہی ہے۔
دوسری جانب مشرقی ایشیا چوٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ بھارت-پیسیفک خطہ کو توسیع پر مبنی ایجنڈے کے بجائے ترقی پر مبنی ایجنڈا اپنانا چاہیے۔ انہوں نے چین کی توسیع پسندانہ پالیسی کی جانب سے اشارہ کرتے ہوئے اس کے خلاف آگاہ کیا۔ ساؤتھ چائنا سمندر میں سرحد کے مسئلہ پر چین اور فلپائن میں شدید اختلافات ہیں۔
مودی کی امریکی محکمہ خارجہ کے سکریٹری اینٹونی بلنکن سے بھی ملاقات ہوئی۔ امریکہ، ساؤتھ چانئا کے سمندر میں چین کے بڑھتے ہوئے عمل دخل پر ناراض ہے اور آسیان سمیت بھارت اور دیگر حلیف ملکوں کو وہ چین کے خلاف محاذ آرائی میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ ملاقاتیں اور گفت و شنید بین الاقوامی سفارتی و دفاعی کاوشوں کے تحت اشتراک اور چین-روس بلاک کو روکنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
جی-7 اجلاس میں بھارت کی شرکت
جون 2024 میں اٹلی میں جی-7 کی میٹنگ میں جو سات ترقی یافتہ ممالک امریکہ، کناڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، یو کے اور جاپان کی انجمن ہے، بھارت سمیت اردن، تیونس، کینیا، ترکی، عرب امارات، الجیریا، ارجنٹائن، برازیل اور موریطانیہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ رکن ممالک نے یوکرین سے روس کی جنگ کے تناظر میں روس کے خلاف سخت لب و لہجہ اپنایا اور چین کے بیلٹ اور روڈ اقدام کے خلاف بنیادی ڈھانچہ میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ جی-20 کی تشکیل نے جی-7 کو مجبور کیا کہ ان ممالک کو اہمیت دے جو معاشی اعتبار سے تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، جن میں برازیل، چین، بھارت، روسی، میکسیکو اور جنوبی امریکہ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ سب جی-20 میں شامل ہیں۔ جی-20 ممالک کا عالمی جی ڈی پی میں تقریباً 78 فیصد حصہ ہے اور یہاں کی آبادی بھی بہت ہے۔
اسرائیل کی جارحیت اور امریکی بلاک کی طرف بھارت کا جھکاؤ
پڑوسیوں کے ہمراہ رشتوں کے ساتھ ساتھ بھارت کے سامنے ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ امریکی بلاک کا حصہ بنے یا روس و چین کے ساتھ جائے یا پھر ناوابستہ رہ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرے؟ فلسطین اور لبنان سمیت آس پاس کے خطوں میں اسرائیلی جارحیت اور کارروائیوں کو امریکہ کی بھرپور تائید و حمایت حاصل رہی ہے جس میں فی الوقت یو کے اور جاپان قریبی حلیف ہیں۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوئتریس کے اپنے ملک میں داخلہ پر پابندی لگادی ہے جو ایک طریقہ سے اقوام متحدہ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا ہے۔ اس کے خلاف 104 ملکوں نے ایک خط جاری کرکے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جس پر بھارت نے دستخط نہیں کیے ہیں۔ اسرائیل کی تنقید والے کئی امور سے بھارت نے خود کو الگ رکھا ہے اور عالمی جنوب کے زیادہ تر ملکوں سے مختلف رخ اپنایا ہے۔ مذکورہ خط پر حالانکہ جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا، جنوبی امریکہ اور افریقہ کے تقریباً سبھی ملکوں نے دستخط کیے ہیں، اس میں اسپین، فرانس، روس، چین، سوئزرلینڈ، سلووینیا جیسے ممالک شامل ہیں لیکن امریکہ، یو کے، جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ بھارت نے اس پر دستخط نہیں کیے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت ایک جداگانہ راہ پر گامزن ہے جس میں اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ اور امریکی بلاک کی بھرپور حمایت کو اولیت حاصل ہے ۔
پڑوسیوں سے بھارت کے رشتے
آج کے حالات میں یہ سوال معنی خیز ہے کہ کیا بھارت اپنے پڑوسیوں سے بھی اسی بنیاد پر رشتے مضبوط یا کمزور رکھے گا جس میں امریکی بلاک کے مفادات مضمر ہوں اور چین کو روکا جا سکے یا ماضی کی روایات پر عمل پیرا ہو کر عالمی جنوب میں ترقی پذیر ملکوں کے مفادات کا حامی و پیروکار بنے گا، چاہے اس میں امریکہ یا اسرائیل کی ناراضگی ہی کیوں نہ مول لینی پڑے؟
بین الاقوامی سفارت اور تعلقات کے حوالے سے بھارت کے سامنے کافی بڑا چیلنج ہے۔ایک طرف سری لنکا میں بائیں بازو کی حکومت ہے تو دوسری طرف بنگلہ دیش میں ’بھارت حامی حکومت‘ جاتی رہی ہے اور وہاں بھارت پر انحصار کا رجحان ختم ہوچکا ہے جس سے مستقبل قریب میں اس بات کا امکان نہیں کے برابر ہے کہ بنگلہ دیش، بھارت کے سامنے دوئم درجہ کی حیثیت قبول کرے گا۔
مالدیپ سے رشتوں کی استواری ایک فال نیک ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو بھارت، پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہا ہے مگر رشتوں میں بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔
گزشتہ ماہ بھارت نے پاکستان کو ایک نوٹس جاری کرکے 64 سال قدیم دریائے سندھ آبی معاہدے میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے جو چھ دریاؤں کے پانی میں حصہ داری کا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت جہلم، چناب اور سندھ کا پانی پاکستان کے لیے ہے اسی طرح راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے لیے ہے۔ بھارت کی جانب سے کشن گنگا اور چناب پر ہائیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹس کی تعمیر پر پاکستان کو اعتراض ہے۔ دوسری جانب بھارت کا کہنا ہے کہ اسے ان چھ دریاؤں کا بیس فیصد پانی ہی مل پاتا ہے جب کہ 80 فیصد پانی پاکستان استعمال کرتا ہے۔ اس تنازعہ کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔
پاکستان کے ساتھ تلخ رشتوں کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے ساتھ سری لنکا، مالدیپ، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور افغانستان پر مشتمل جنوب ایشیائی ایسوسی ایشن برائے علاقائی تعاون (سارک) کی میٹنگ 2014ء سے نہیں ہو پائی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024