امریکہ و اسرائیل کا بغل بچہ بننے میں عرب ملکوں کا خسارہ

اپنی بقا کے لیے ہر اعتبار سے طاقتور، خود مختار، خودکفیل اور جمہوری بننا ضروری

0

شہاب فضل، لکھنؤ

ایران کے سامنے اپنے حلیفوں سے رابطے مستحکم کرنے اور حریفوں سے مذاکرات کی میز پر’معقول معاہدے‘کے حصول کا چیلنج
اسرائیل، امریکہ اور اس کے دیرینہ حلیف، ایران اور اس کے پروردہ بالواسطہ معاونین کو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ مغربی دنیا کے لیے ایک مسلسل سلامتی خطرہ اور خطہ میں امریکی و اسرائیلی مفادات کی خاطر امن یقینی بنانے کے اپنے نام نہاد عزم کی تکمیل میں رخنہ مانتے ہیں۔ 27 جون کو امریکی سینیٹ میں وار پاورز ریزولیوشن (جنگی اختیارات سے متعلق قرارداد) پر بحث کے دوران خاص طور سے ریپبلیکن نمائندوں نے ایسی باتیں دہرائیں، جسے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی خود کئی دفعہ کہہ چکے ہیں۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹ ٹِم کین نے یہ قرارداد پیش کی تھی جس کا مقصد ایران کے ساتھ جنگ کو بڑھانے کے لیے مسلح افواج کے کمانڈر انچیف یعنی امریکی صدر کے حتمی اختیار کو محدود کرنا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹی سے ایک ایک منتخب نمائندے نے اس قراردار پر پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دیا۔ بہرحال یہ قرارداد 47 کے مقابلے 53 ووٹوں سے نامنظور کردی گئی۔ اگر یہ قرارداد منظور ہوجاتی تو ٹرمپ کو ایران پر کوئی حملہ کرنے سے قبل امریکی کانگریس کی منظوری لینی پڑتی۔ امریکی صدر کو کسی ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے اختیار دینے کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے جنگ چھیڑنے کے لیے صرف ایک شخص یعنی امریکی صدر کا ہامی بھردینا کافی ہے۔ ٹرمپ نے جمعہ 27 جون کو ہی ایک بار پھر کہا ’’امریکی بمباری کے بعد ایران نے اپنے نیوکلیائی عزائم ترک کردیے تھے، البتہ مجھے اگر لگا کہ اس نے پھر یورینیم کی افزودگی شروع کردی ہے تو یقیناً میں ایران کے نیوکلیائی ٹھکانوں پر بمباری جاری رکھوں گا۔ آگے کیا ہوگا یہ وقت بتائے گا‘‘۔ ایران نے ترکی بہ ترکی ٹرمپ کے ہی انداز میں مائیکروبلانگ سائٹ ایکس پر اس کا جواب دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اسرائیل کو امریکہ کا بغل بچہ کہا، جس پر ٹرمپ اور تمام صہیونیوں کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ یہ زبانی و نفسیاتی جنگ جاری ہے۔ اس ماحول میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک اور وہاں کی حکومتیں کیا کررہی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی مملکتیں، ان کا رویہ اور ایران
مشرق وسطیٰ کی شاہی حکومتیں یا مملکتیں، تفویض اختیارات، آزادی اور جمہوریت کی ضد ہیں، جس کے اندوہناک عواقب ایران کی صہیونی اسرائیل و امریکہ کے ساتھ حالیہ ٹکراؤ سے کھل کر سامنے آگئے اور اس ضرورت کا احساس شدت سے ہونے لگا کہ اس خطہ کے ملکوں میں ایسا جمہوری نظام حکومت قائم ہونا چاہیے جس میں عوام کی رائے، پسند و ناپسند، امنگوں اور تمناؤں کا خیال رکھا جاتا ہو۔ ایسی جمہوری حکومتیں جو خود کفیل اور غیور ہوں اور ظالموں سے ٹکر لینے کا مادہ رکھتی ہوں، ایسی جمہوریتیں جو ظالموں کا پٹھو بننے کے بجائے دستیاب مال و دولت اور وسائل کا جائز استعمال کرتے ہوئے طویل مدتی حکمت عملی اپنا کر خود کو ہر اعتبار سے مضبوط و مستحکم اور طاقتور بنائیں اور عوام کو حقیقی آزادی کا احساس کراتے ہوئے ضرورت پڑنے پر وقت کے فرعونوں کے سامنے سینہ سپر ہوجائیں اور انہیں منہ توڑ جواب دیں۔
المیہ یہ ہے کہ اسرائیل خود کو مشرق وسطیٰ میں ‘دشمنوں’ سے گھرا ہوا، خطہ کی واحد جمہوریت قرار دیتا ہے۔ اسی طرح امریکہ خود کو جمہوریت اور آزادی کا پاسباں بتاتا ہے مگر دونوں ممالک اپنے یہاں تو جمہوریت کے مؤید ہیں البتہ دنیا کے مختلف ممالک میں منتخب حکومتوں کو گرانے اور اپنی پسند کے حکم رانوں کو کرسی پر بٹھانے کی خاطر درپردہ اور اعلانیہ ہر قسم کی حرکات میں لگاتار مصروف دیکھے جاسکتے ہیں۔ مخصوص عالمی نظام کے پیروکار امریکہ اور اس کے یوروپی حلیف، مشرق وسطیٰ میں شاہی نظام حکومت کو جوں کا توں قائم و دائم دیکھنا چاہتے ہیں جہاں نہ کسی قسم کی سیاسی آزادی ہے، نہ ہی وہاں کے شاہی حکم رانوں میں اتنی طاقت ہے کہ غزہ میں اکتوبر 2023 سے جاری صہیونی نسل کشی کو روک سکیں۔ برعکس اس کے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ وہ اسرائیل و امریکہ کو مختلف شکلوں میں مدد فراہم کررہے ہیں، جبکہ نتن یاہو کھلے عام ان سب کو ‘اسرائیل کا دشمن’ قرار دیتا ہے۔ سمجھ سے پرے ہے کہ یہ کیسے ‘دشمن’ ہیں جو اسرائیل کے حلیف بنے ہوئے ہیں۔ اردن، شام، مصر، عرب امارات، سعودی عرب، کویت، بحرین، عمان سب کا یہی معاملہ ہے۔ قطر میں تو مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ ‘العدید’ موجود ہے جو امریکی سنٹرل کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ 23جون کو جب ایران نے اس امریکی فوجی اڈے پر میزائل داغے، جس کی اس نے اصولوں کے مطابق پہلے سے ہی اطلاع قطر کو دے دی تھی تو قطری فضائیہ نے امریکی افواج سے مربوط ہوکر ان میزائیلوں کو روکنے کا کام کیا اور امریکی اڈے کو کوئی نقصان نہیں ہونے دیا۔ قطر نے ایران کے میزائل حملے کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
ایران کے سیاسی نظام یا موجودہ مقتدرہ سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہوسکتا ہے مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسرائیل و امریکہ کی جارحیت کا جس انداز میں ایران نے سامنا کیا وہ مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں درج ہوگیا اور پوری دنیا نے اس کا احساس بھی کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹ اور نظریاتی امریکی، یوروپی اور صہیونی میڈیا اداروں کے بیانیہ کی بھرپور کاٹ، غیرجانبدار، متبادل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ایران کے نطقہ نظر کی تائید والے بیانیے سے مسلسل ہورہی ہے۔
ایران حامی بیانیہ یہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ آپ اقتصادی پابندیاں لگاسکتے ہیں، دنیا میں سب سے الگ تھلگ کرکے تنہا کرسکتےہیں، سائنس دانوں کو چن چن کر خفیہ ایجنٹوں کی مدد سے قتل کراسکتے ہیں، بم گراسکتے ہیں، بنیادی ڈھانچوں کو تباہ و برباد کرسکتے ہیں، انسانوں کی جانیں لے سکتے ہیں، مگر حوصلے، جذبہ اور عزم راسخ کو شکست نہیں دے سکتے۔ یہ کوئی جیوپولیٹیکل گیم نہیں، پختہ عزم و حوصلے کا معاملہ ہے جس میں قربانی دینی پڑتی ہے۔ جنہیں جھک جانے اور ‘سرینڈر’ کرنے کے بجائے جان دینا پسند ہو انہیں کیسے ڈرایا اور ‘کنٹرول’ کیا جاسکتا ہے۔ اس جذبہ کے حامل افراد اور اقوام نڈر اور بے باک ہوتے ہیں، انہیں راحت و اطمینان عزیز نہیں ہوتا بلکہ مزاحمت اور جدوجہد ان کا شیوہ ہوتا ہے اور اگر اس میں خود کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی، طویل مدتی منصوبہ سازی اور نیٹ ورکنگ بھی شامل ہو تو ایسی قومیں ناقابل تسخیر بن جاتی ہے، جس میں اسلحہ یا افواج کی تعداد یا وسائل کی کمی معنی نہیں رکھتے۔
جنہیں خریدا نہ جاسکے، ڈرایا نہ جاسکے، کنٹرول نہ کیا جاسکے، آج کے دور میں ایسے ملک اور ایسے حکم راں عنقا ہیں۔ جرأت، بے خوفی اور مزاحمت کی صفت عنقا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا منظرنامہ اس کا گواہ ہے۔ غزہ کے مظلوموں کی آہ و بکا اور ہر دن لاشوں کی گنتی کی خبریں آج بھی شائع ہورہی ہیں مگر ٹرمپ جیسے ‘امن کے سربراہ’ کو ایران کے نیوکلیائی طاقت بن جانے کی فکر دامن گیر ہے، ایک ڈر ہے جو صہیونی لابی کو ستارہا ہے، چنانچہ ایران کو گھیرنے اور ‘تسخیر’ کرنے کی کوششیں لگاتار جاری ہیں۔
ایران کے سامنے دو بڑے چیلنج اور بیانیہ کی جنگ
اسرائیل-ایران میں جنگ بندی کے بعد ایران کو اپنے حلیفوں سے رابطے مستحکم کرنے اور حریفوں سے بات چیت کی میز پر دو دو ہاتھ کرنے کے دو بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی، اپنے ملک کے نیوکلیائی پروگرام پر سال 2013 میں پی 5 پلس1 گروپ (امریکہ، چین، فرانس، روس، برطانیہ اور جرمنی) کے ساتھ مذاکرات کرچکے ہیں۔ تقریباً دو سال کی بات چیت کے بعد 2015 میں مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) پر دستخط کیے گئے تھے۔ ایران کو پابندیوں سے تھوڑی راحت دی گئی اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی نگرانی میں اسے ایک محدود نیوکلیائی پروگرام کی اجازت دی گئی، لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آتے ہی 8 مئی 2018 کو مذکورہ بالا پلان آف ایکشن سے امریکہ نے خود کو الگ کرلیا۔ 3 جنوری 2020 کو بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں ایران کی قدس فورس کے سپہ سالار اعلیٰ قاسم سلیمانی کے مارے جانے کے بعد ایران نے یہ اعلان کردیا کہ اب وہ اپنے نیوکلیائی پروگرام کو، جو فوجی مقاصد کے لیے نہیں ہے، بلا روک ٹوک آگے بڑھائے گا۔
ٹرمپ دھمکی اور لالچ دونوں کے ذریعہ ایرانی قیادت کو مذاکرات کی میز پر لاکر ایسا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جو ہر طرح سے اسرائیل کے حق میں ہو۔ ایرانی قیادت کو ایسا کوئی معاہدہ منظور ہوگا بھی یا نہیں یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے، لیکن اتنا طے ہے کہ ایران کے سامنے اپنے حلیفوں سے تعلقات زیادہ مستحکم کرنے اور آبنائے ہرمز کو کسی بھی وقت بند کر سکنے کی طاقت اور اس کے لیے دفاعی صلاحیت حاصل کرنا بڑے ترجیحات کہے جاسکتے ہیں اور اسی پر منحصر ہوگا کہ وہ امریکہ اور عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کی صورت میں اپنے لیے ایک معقول اور سازگار معاہدہ تک پہنچ سکے گا یا نہیں۔ ایک کمزور ایران کے لیے کسی معقول معاہدے کا حصول مشکل ہوگا۔ آبنائے ہرمز سے دنیا کا ایک تہائی تیل اور گیس گزرتے ہیں۔ اس پر کون کنٹرول کرتا ہے یہ معنی رکھتا ہے۔ تیل اور گیس کے بغیر صنعتیں ٹھپ پڑجائیں گی۔ جدید دنیا کا دل دھڑکنا بند ہوجائے گا۔ اس لیے ایران کے پاس یہ طاقت حاصل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
ایران اپنے حلیفوں کو یہ باور کرانے کی بھی کوشش کررہا ہے کہ خطہ اور دنیا کے لیے وہ خطرہ نہیں بلکہ دراصل صہیونی اسرائیل، خطہ اور دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے، جس کا مشاہدہ دنیا نے حالیہ چند برسوں میں کرلیا ہے۔ اس کی وجہ سے صہیونیت کیا ہے اسے بھی لوگ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہولوکاسٹ میں بچ جانے والے کئی یہودیوں نے بھی صہیونیت کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کردیا ہے۔ صہیونیت، پروپیگنڈے کو ایک مخصوص ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ نتن یاہو پچھلے 30 برس سے یہ شور مچارہے ہیں کہ ایران نیوکلیائی ہتھیار بنانے کی دہلیز پر کھڑا ہے، ایسا ہوا تو دنیا میں تباہی مچ جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل کے پاس 80 سے زائد نیوکلیائی وارہیڈز ہیں مگر اس پر کوئی دباؤ نہیں بنایا جاتا اور اسے امن کے لیے خطرہ نہیں مانا جاتا! حالانکہ اسرائیل کی سرگرمیوں پر مختلف بین الاقوامی اداروں نے تنقید کی ہے۔ فلسطینی علاقوں پر طویل اسرائیلی قبضے کو بین الاقوامی عدالت نے غیرقانونی قرار دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک ‘ذمہ دار’ جمہوریت نہیں بلکہ غیرقانونی قبضے اور نسل کشی کا مرتکب ہے۔
بیانیہ کی یہ جنگ بھی بڑی پیچیدہ ہے۔ اسرائیلی اخبار ہارتز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ و اسرائیل کے قائم کردہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کی جانب سے غزہ میں غذائی اجناس تقسیم کیے جانے کے مقام پر جب فلسطینی امداد لینے جارہے تھے تو اسرائیلی فوجیوں کو گولیاں چلانے کا حکم دیا گیا۔ ایک ماہ قبل اس امریکی اسرائیلی فاؤنڈیشن نے غزہ میں اجناس تقسیم کرنے شروع کیے ہیں اور تب سے اب تک 500 سے زائد فلسطینی غذائی اجناس تقسیم کے مقامات کے آس پاس مارے جاچکے ہیں۔ غزہ میں لاشوں کی گنتی جاری ہے اور باضمیر ادارے، افراد اور ممالک اسرائیل کے حملوں کو نسل کشی قرار دے رہے ہیں۔ یہ ان عرب مملکتوں سے غنیمت ہیں جو کم از کم اسرائیلی کارروائیوں کو غلط کہہ رہے ہیں اور اس سے تعاون کرنے سے باز رہ رہے ہیں۔ عرب مملکتوں کے حکم راں تو آن لائن اور آف لائن یہ بھی نہیں کرسکتے۔ زحمت و مصیبت سے بچنے کی نفسیات نے انہیں ضمیرفروش بنادیا ہے۔ انہوں نے اصولوں پر آرام کو اور جدوجہد پر عیش وعشرت کو ترجیح دی ہے۔ حالانکہ ذلت کے مقابلے مزاحمت کو ترجیح دینے میں عزت ہے۔ انہیں اسرائیلی عفریت کے سامنے اپنی تمام کمیوں کے باوجود مزاحمت کو ترجیح دینا تھا مگر وہ ایسا نہیں کرسکے۔ ایران کی مثال بتاتی ہے کہ طاقت مجتمع کرنے سے اور مضبوطی سے ڈٹ جانے سے دنیا ڈرتی ہے۔ خودمختاری کے زیاں اور بڑے نقصان کی قیمت پر سمجھوتہ کرلینا دراصل تھوڑی سی راحت کے لیے اعلیٰ ترین اصولوں اور قدروں کو ترک کردینا ہے۔
ٹرمپ فی الحال افریقہ کے دو متحارب ملکوں کانگو اور روانڈا میں جنگ بندی کرواکے فارغ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کانگو میں معدنیاتی وسائل کے حقوق امریکہ کے لیے حاصل کر لیے ہیں۔ اب وہ غزہ میں اسرائیل کو حملوں سے روکنے کے لیے ‘کوششیں’ کررہے ہیں، جسے وہ نوبل انعام برائے امن کے حصول تک جاری رکھ سکتے ہیں۔
امریکہ اور اس کے مغربی ہمنواؤں کے متضاد رویوں کے پس منظر میں دیکھا جائے تو ایران-اسرائیل کے ٹکراؤ سے یہ واضح سبق ملتا ہے کہ خود کو مضبوط و مستحکم، خود کفیل اور ہر اعتبار سے طاقتور بنانے میں فائدہ ہے، جس میں دفاعی اور فوجی طاقت کو اولیت حاصل ہو۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 دنوں کی لڑائی اور اس میں امریکی شمولیت نے صہیونیت اور نیوکنزرویٹیوز لابی کی طرف بھی دنیا کی توجہ مبذول کروائی ہے۔ تاہم حتمی بات یہی رہے گی کہ طاقتور بنے بغیر اپنا تحفظ کرنا مشکل ہے۔ بوسنیا ہرزیگووینا، فلسطین اور غزہ، عراق، افغانستان، لیبیا اور لبنان اور سیریا وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ نہ جانے عرب ملکوں کے شاہوں کی آنکھیں کب کھلیں گی؟ کیا وہاں شاہی نظام حکومت کو کے بدلنے کی ضرورت نہیں ہے؟ امریکی اور اسرائیلی ماڈل آف کنٹرول، آزاد ملکوں کے لیے خطرہ ہے۔ اس کا احساس مشرق وسطیٰ کے شاہی حکم رانوں اور وہاں کے عوام کو جتنی جلد ہوجائے اتنا ہی بہتر ہے۔
***

 

***

 اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 دنوں کی لڑائی اور اس میں امریکی شمولیت نے صہیونیت اور نیوکنزرویٹیوز لابی کی طرف بھی دنیا کی توجہ مبذول کروائی ہے۔ تاہم حتمی بات یہی رہے گی کہ طاقتور بنے بغیر اپنا تحفظ کرنا مشکل ہے۔ بوسنیا ہرزیگووینا، فلسطین اور غزہ، عراق، افغانستان، لیبیا اور لبنان اور سیریا وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ نہ جانے عرب ملکوں کے شاہوں کی آنکھیں کب کھلیں گی؟ کیا وہاں شاہی نظام حکومت کو کے بدلنے کی ضرورت نہیں ہے؟ امریکی اور اسرائیلی ماڈل آف کنٹرول، آزاد ملکوں کے لیے خطرہ ہے۔ اس کا احساس مشرق وسطیٰ کے شاہی حکم رانوں اور وہاں کے عوام کو جتنی جلد ہوجائے اتنا ہی بہتر ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025