!امریکی صدارتی انتخابات کچھ نئے زاویے۔کرسی کی دوڑ میں بھارتی نژاد امیدوار ان بھی شامل

ڈونالڈ ٹرمپ اور جے ڈی وینس کی امیدواری ؛ ایک بڑا امریکی طبقہ تذبذب کا شکار

اسد مرزا
سینئر سیاسی تجزیہ نگار

بھارتی نژاد کملا ہیرس کی فتح سےنہ صرف امریکہ بلکہ کئی ممالک پر مثبت اثرات متوقع
حالیہ برسوں میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہونے والے بھارتی نژاد امریکیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس کی سب سے بڑی مثال امریکی نائب صدر کملا ہیرس ہیں۔2024 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ایک وقت چار بھارتی نژاد امریکی صدارتی دوڑ میں شامل تھے، لیکن اب صرف کملا ہیرس ہی اس دوڑ میں اکیلی رہ گئی ہیں۔ آئیے ان امیدواروں کے سیاسی کیریئر پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
کملا ہیرس
58 سالہ کملا ہیرس، جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، ریاستہائے متحدہ امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر اور امریکی تاریخ کی اعلیٰ ترین خاتون عہدیدار کے ساتھ ساتھ پہلی افریقی امریکی اور پہلی ایشیائی امریکی نائب صدر بھی ہیں۔ ہیرس نے 2011 سے 2017 تک کیلیفورنیا کے اٹارنی جنرل کے طور پر اور 2017 سے 2021 تک کیلیفورنیا کی نمائندگی کرنے والے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سینیٹر کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔ کملا ہیریس دو تارکین وطن والدین یعنی ایک سیاہ فام باپ اور ایک بھارتی ماں (محقق کینسر) کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈونالڈ ہیرس کا تعلق جمائیکا سے تھا جبکہ ان کی ماں شیاملا گوپالن چنئی سے تعلق رکھتی ہیں۔
نکی ہیلی
51 سالہ نکی ہیلی جنوبی کیرولینا کی دو بار گورنر اور اقوام متحدہ میں سابق امریکی سفیر رہ چکی ہیں۔ تارکین وطن پنجابی سکھ والدین کی بیٹی ہیں اور جنوبی کیرولینا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں نسل پرستانہ طعنوں کو برداشت کرتے ہوئے پلی بڑھی ہیں۔ ان کا پورا نام نمرتا نکی رندھاوا ہے اور وہ ایک کامیاب اکاؤنٹنٹ تھیں جب انہوں نے 2004 میں جنوبی کیرولینا ہاؤس کے سب سے طویل عرصے تک جیتنے والے رکن کو شکست دیتے ہوئے عوامی عہدے کے لیے پہلی مرتبہ فتح حاصل کی تھی۔اس کے بعد تجربہ کار سیاستدانوں کے ایک بڑے شعبے کے خلاف انہوں نے گورنر کے لیے اپنی 2010 کی فتح کے ساتھ، جنوبی کیرولینا کی پہلی خاتون اور اقلیتی گورنر بنی تھیں۔اس وقت 38 سال کی عمر میں وہ ملک کی سب سے کم عمر گورنر تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے 2012 کے ریپبلکن نیشنل کنونشن میں تقریر کرنے کا مقام حاصل کیا اور 2016 میں صدر بارک اوباما کے اسٹیٹ آف دی یونین میں GOP یعنی کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو اپنی پارٹی کا جواب دیا۔
وویک راماسوامی
وویک راماسوامی 37 سالہ بھارتی نژاد امریکی ریپبلکن اور بزنس مین ہیں، جنہیں نیویارکر میگزین نے ’’اینٹی ووک انکارپوریشن کا سی ای او‘‘ یعنی کہ مزدور طبقے کے خلاف ذہنیت رکھنے والے شخص کے طور پر تشبیہ دی تھی۔ وہ بھارتی تارکین وطن کے بیٹے ہیں، ان کے والد ایک جنرل الیکٹرک انجینئر اور ان کی والدہ ایک جراثیمی نفسیاتی ماہر ہیں۔ راماسوامی سنسناٹی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ہارورڈ اور ییل یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی اور مبینہ طور پر ان کی مالیت پانچ سو ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔
رو کھنہ
رو کھنہ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ایک بھارتی نژاد امریکی کانگریس مین ہیں، جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ 1976 میں فلاڈیلفیا میں پیدا ہوئے، رو کھنہ امریکی ایوان نمائندگان میں چار بھارتی نژاد امریکی قانون سازوں میں سب سے کم عمر ہیں۔ دیگر تین ڈاکٹروں میں امی بیرا ہیں، جو نام نہاد ’’سموسا کاکس‘‘ کے سب سے سینئر ممبر ہیں ان کے علاوہ راجہ کرشنامورتی اور پرمیلا جے پال بھی ہیں۔ پولیٹیکو میگزین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر صدر بائیڈن انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو رو کھنہ 2024 کی صدارتی دوڑ کے لیے اپنے آپشن کھلے رکھے ہوئے تھے۔ تاہم رو کھنہ نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ وائٹ ہاؤس کے لیے انتخابات لڑیں گے۔
لیکن آج ان چاروں امیدواروں میں سے صرف ایک یعنی کہ کملا ہیرس ہی میدان میں رہ گئی ہیں اور باقی سب امیدواروں نے اپنی نامزدگی کے دعوے واپس لے لیے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کے نائب صدر کے عہدے کے لیے ڈونالڈ ٹرمپ نے جس شخص کا انتخاب کیا ہے اس کا آدھا تعلق بھارت سے ہے، کیونکہ اس کی اہلیہ اوشا چلوکوری بھارتی نژاد ہیں۔
لیکن جے ڈی وینس کی امیدواری کو امریکی عوام پسند نہیں کر رہے ہیں کیونکہ ایسا کرکے ٹرمپ نے ایک واضح اشارہ دیا ہے کہ اگر وہ پھر صدر منتخب ہوتے ہیں تو ان کی America First یعنی امریکہ کی سابقہ خارجہ پالیسی دوبارہ نافذ کی جائے گی جس کے بعد دنیا ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے نائب صدر کے ذریعے غیر متوقع اقدامات لینے اور غیر مہذب زبان کو سننے کے لیے چار سال تک مجبور ہوجائے گی۔ کیونکہ ٹرمپ کی طرح ہی جے ڈی وینس بھی اپنی تقاریر کے دوران اپنے مخالفین کے لیے سخت اور غیر مہذب الفاظ استعمال کرنے کے عادی ہیں۔
اب جو تصویر ہمارے سامنے آرہی ہے اس میں صرف کملا ہیرس ہی واحد بھارتی نژاد سیاست داں ہیں جو صدارتی دوڑ میں ابھی بھی قائم ہیں حالانکہ اب وہ نائب صدر کے بجائے صدر کے عہدے کی امیدوار ہیں۔
کملا ہیرس اچانک صدر کے عہدے کے لیے امیدوار اس وقت بن گئیں جب صدر جو بائیڈن نے پچھلے دنوں غیر متوقع طور پر 2024 کے صدارتی انتخابات سے اپنی نامزدگی واپس لے لی۔ اس کی وجہ ان کی بڑھتی ہوئی عمر اور غالباً ان کے الزائمر کے مرض کا شکار ہونا ہے۔ ان کی یادداشت کی وجہ سے پچھلے مہینے سے اب تک ان کی مقبولیت 61 سے گھٹ کر 39 فیصد تک آچکی تھی۔ لیکن اس کے باوجود گزشتہ چار سالوں میں ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اپنی صدارت کے دوران صدر بائیڈن نے ایسے کئی اہم فیصلے کیے جن کا اثر امریکی معیشت اور امریکہ کی خارجہ پالیسی دونوں پر رونما ہوا ہے۔ اگرچہ ان کے اثرات فوراً ہی ظاہر نہیں ہوں گے بلکہ ان کے معاشی فیصلوں کے مثبت اثرات کم از کم یک عشرے بعد اپنا اثر دکھائیں گے، جیسا کہ منموہن سنگھ کی اقتصادی پالیسیوں نے اپنا اثر دس سال کے بعد دکھایا تھا جس کا آج بی جے پی فائدہ اٹھا رہی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات جے سن فرمن جو کہ اوباما انتظامیہ میں ایک اعلیٰ ماہر اقتصادیات کے عہدے پر فائز تھے، ان کے بقول صدر بائیڈن اس وقت اقتدار میں آئے جب امریکی معیشت کووڈ کی زد میں تھی اور انہوں نے اسے ایک ایسی معیشت میں تبدیل کرنے کا کام کیا جو اب کسی بھی دوسری معیشت سے زیادہ تیزی سے ترقی پذیر ہے اور اس کی وجہ سے امریکی افراطِ زر میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے عالمی سپلائی چین کو ختم کرنے کے لیے انتظامی اقدامات کی ایک نئی مہم شروع کی تھی اور ایک ٹریلین ڈالر کے دو طرفہ بنیادی ڈھانچے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا جس نے نہ صرف پرانے امریکی انفراسٹرکچر کو تبدیل کیا بلکہ انٹرنیٹ پر عوام کی رسائی کو بہتر بنایا اور کمیونٹیز کو موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا۔ 2022 میں صدر بائیڈن اور ان کے ساتھی ڈیموکریٹس نے دو اقدامات کی پیروی کی جس سے امریکی مینوفیکچرنگ شعبے کے مستقبل کو تقویت ملی۔ان کے CHIPS اور سائنس ایکٹ نے نئی فیکٹریوں کی تعمیر اور کمپیوٹر چپس کو مقامی طور پر بنانے کے لیے نئے ادارے بنانے کے لیے 52 بلین ڈالر فراہم کیے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ امریکہ کو اقتصادی ترقی اور قومی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے درکار جدید ترین سیمی کنڈکٹر تک بآسانی رسائی حاصل ہوسکے۔مجموعی طور پر انہوں نے امریکہ کو اپنے دورِ اقتدار میں ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ امریکی معیشت اب دوبارہ چین سے مقابلہ کرنے کی حامل ہوسکے۔
اگر کملا ہیرس امریکہ کی صدر بن جاتی ہیں تو پھر برطانیہ، کینیڈا، آئر لینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے بعد امریکہ بھی ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہوجائے گا جہاں پر بھارتی یا ایشیائی نژاد افراد ان ملکوں کے اعلیٰ ترین سیاسی عہدوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
***

 

***

 ’’اس سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کئی پہلوسے کافی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اگر سابقہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ فتح یاب ہوتے ہیں یا ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کامیاب ہوتی ہیں تو دونوں ہی صورتوں میں پوری دنیا میں اس کے اثرات مختلف انداز میں مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔ ٹرمپ کی فتح میں منفی اور کملا کی فتح میں تھوڑی بہت مثبت۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024