مسعود ابدالی
2024کے انتخابات سے قبل ڈونالڈ ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت بہت کچھ ظاہر کر رہی ہے
امریکہ کے صدارتی انتخابات اگلے برس 5 نومبر کو ہوں گے یعنی ابھی 13 مہینوں سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے لیکن انتخابی مہم بھر پور انداز میں شروع ہوچکی ہے۔ عام انتخابات میں امریکیوں کی اکثریت پارٹی کی بنیاد پر ووٹ ڈالتی ہے، لہٰذا اصل میدان پارٹی ٹکٹ کے لیے ہونے والے پرائمری انتخابات میں سجتا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا مقابلہ 15 جنوری کو ریاست Iowa میں ہوگا اور 4 جون کو واشنگٹن پرائمری سے ٹکٹ کے لیے ہونے والے انتخابات کی تکمیل ہوجائے گی۔
ٹکٹ کے لیے صدر بائیڈن کو اپنی پارٹی کی جانب سے کسی قابلِ ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں ہے تاہم اندرونِ خانہ صدر کی پیرانہ سالی پر چہ مہ گوئیاں شروع ہوچکی ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ کے جارحانہ رویے اور تیزی سے بڑھتی مقبولیت کی بنا پر حکم راں ڈیموکریٹک پارٹی میں امیدوار تبدیل کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ تبدیلی کی بات ابھی مدھم لہجے میں ہے جسے سرگوشی کہنا زیادہ مناسب ہوگا لیکن میدان سیاست میں سرگوشی کے کوٹھے چڑھتے بہت دیر نہیں لگتی۔
رییپلکن پارٹی میں صدارتی ٹکٹ کے لیے انتخابی مہم زور شور سے جاری ہے اور امیدواروں کے درمیان دو دھواں دھار مباحثے بھی ہوچکے ہیں لیکن یہ دونوں ٹاکرے بِن دلہا باراتی تھے کیونکہ پارٹی کے مقبول ترین رہنما ڈونالڈ ٹرمپ ان میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ جناب ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی عوام انہیں آزما چکے ہیں اس لیے انہیں اس ‘تماشے’ میں شریک ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے مباحثے کو Stupid (احمقانہ) قرار دیا جو ان کے خیال میں جاب انٹرویو ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں میں ریپبلکن پارٹی میں ان کی مقبولیت 59 فیصد سے زیادہ اور ان کے قریب ترین حریف فلوریڈا کے گورنر ران ڈیسنٹس (Ron DeSantis) کی حمایت 16 فیصد ہے۔ باقی امیدوار سات فیصد سے بھی کم ہیں۔ قومی سطح پر بھی جناب ٹرمپ، صدر بائیڈن سے کافی آگے ہیں۔ حالیہ جائزے میں امریکی صدر 42 اور ڈونالڈ ٹرمپ کو 52 فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہے۔
مباحثوں میں شرکت نہ کرکے جناب ٹرمپ، پارٹی میں اپنے حریفوں کو غیر اہم و غیر ضروری ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ برملا کہہ رہے ہیں کہ مباحثے دوسری پوزیشن کے لیے ہیں۔ اسی کے ساتھ ان کے وکلا نے عوامی خطاب کے دوران انہیں احتیاط سے گفتگو کرنے کا مشورہ دیا ہے کہ وہ چار مقدمات میں زیر ضمانت ہیں اور انہیں غداری و بدعنوانی سمیت سو کے قریب سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ وکلا خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ بحث و مباحثے میں ان کی کسی لغزشِ زبان کو استغاثہ رائی کا پہاڑ بنا سکتا ہے۔
غیر حاضری کے باوجود دونوں مباحثوں پر ڈونالڈ ٹرمپ چھائے رہے۔ نیوجرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی کے علاوہ کسی نے ان پر تنقید کی جرات نہیں کی بلکہ شری وویک راماسوامی نے سابق صدر ریگن اور صدر ٹرمپ کو امریکی تاریخ کے دو بہترین صدور قرار دیا۔ ران ڈی سینٹس نے جناب ٹرمپ کے مباحثے میں شرکت نہ کرنے پر شکوہ تو کیا لیکن ان کا انداز بھی مودبانہ تھا۔ سیاسی منچلوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کی نامزدگی تقریباً یقینی ہے اور میدان میں موجود باقی امیدوار اب نائب صدارت کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ ضابطے کے تحت بیلٹ پیپر پر نائب صدارت کے لیے ساتھی کا انتخاب نامزد صدارتی امیدوار کا صوابدیدی حق ہے۔
وکلا کی جانب سے احتیاط کی درخواست کے باوجود صدر ٹرمپ اپنے جارحانہ انداز سے رجوع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 22 ستمبر کو سماجی رابطے کے نجی پلیٹ فارم ”Truth Social” پر جناب ٹرمپ نے امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی کو زبردست تنقید کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے لکھا کہ ساری قوم کو اس ہفتے جشن منانا چاہیے کہ اس نااہل و بزدل جرنیل سے قوم کی جان چھوٹ رہی ہے۔ جنرل ملی یکم اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوگئے۔ دلچسپ بات کہ جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے منصب پر 2019 میں ان کا تقرر صدر ٹرمپ نے خود کیا تھا۔
جناب ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان سے پسپائی کے وقت جنرل ملی نے اربوں ڈالر کا قیمتی اسلحہ وہاں چھوڑ دیا۔ سوشل میڈیا پر انہوں نے لکھا کہ ’’اگر ’فیک نیوز‘ کی رپورٹنگ درست ہے تو یہ شخص دراصل چین کے ساتھ مل کر بیجنگ کو امریکی صدر کی سوچ سے آگاہ رکھتا تھا۔ یہ اس قدر گھناؤنا عمل ہے کہ پرانے وقتوں میں اس کی سزا موت ہوتی‘‘۔ جناب ٹرمپ کا خیال ہے کہ جنرل ملی کی اس غداری کے نتیجے میں چین اور امریکہ کے درمیان جنگ ہوسکتی تھی۔ یاد رہے کہ جناب ٹرمپ’ فاکس نیوز‘ کے سوا امریکہ کے تمام ٹی وی چینلوں کو fake news کہتے ہیں۔
اس پورے معاملے کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ 2020 کے انتخابات میں شکست کو سابق امریکی صدر نے تسلیم نہیں کیا، نو منتخب صدر کے حلف اٹھانے تک وہ مبینہ طور پر نتائج کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس کام کے لیے انہوں نے اپنے صدارتی اختیارات بھی استعمال کیے۔ اس بنا پر جناب ٹرمپ کے مخالفین کو ڈر ہوا کہ کہیں صورتحال کو ڈرامہ خیز بنانے کے لیے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے وہ چین پر فوجی حملہ نہ کروا دیں۔ آئین کے تحت جنگ یا کسی بڑی عسکری کارروائی سے پہلے کانگریس کی توثیق ضروری ہے لیکن کسی فوری خطرے کے سدباب کے لیے دشمن پر قبل از وقت یا Preemptive حملہ کمانڈر انچیف کا صوابدیدی حق ہے۔
گزشتہ دنوں CBS News کے نامہ نگار باب ووڈورڈ (Bob Woodword) اور رابرٹ کوسٹا (Robert Costa) نے اپنی کتاب Peril (خوف) میں انکشاف کیا کہ ٹرمپ کی جانب سے نتائج تسلیم نہ کیے جانے پر جنرل ملی نے پیپلز لبریشن آرمی کے جنرل لی زوچینگLi Zuocheng کو یقین دلایا کہ امریکہ چین کے خلاف حملہ نہیں کرے گا۔صدر ٹرمپ جنرل صاحب کی اس کوشش کو ایسی سنگین غداری قرار دے رہے ہیں آئین میں جس کی سزا موت ہے۔
جناب ٹرمپ کے اس پیغام پر جنرل ملی کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا اور انہوں نے اسے دھمکی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جناب ٹرمپ کا کوئی انتہاپسند ساتھی انہیں نشانہ بنا سکتا ہے۔ جنرل صاحب نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کر رہے ہیں۔ جنرل ملی نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بن گئے تو انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جائے گا۔ اسی دن جناب ڈونالڈ ٹرمپ کے ایک ترجمان نے سماجی رابطے کی ایک سائٹ پر کہا کہ سابق صدر نے ریاست جنوبی کیرولینا میں اسلحے کی دکان سے ایک پستول خریدا ہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد جناب ٹرمپ نے پستول خریدنے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اسلحے کی دکان کا دورہ امریکی آئین کے تحت اسلحہ رکھنے کے شہری حق کی حمایت کا اظہار تھا اور فوراً ہی وہ پوسٹ بھی ہٹالی گئی۔ جنرل ملی نے اس خبر کو تشویشناک قرار دیا۔
دوسرے دن ریاست ایریزونا (Arizona) کی سینیٹر جان مک کین (John McCann) یادگاری لائبریری میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے صدر ٹرمپ کی سرگرمیوں کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ MAGA تحریک ہماری جمہوریت کے بنیادی عقائد سے متصادم ہے۔ جناب ٹرمپ تبدیلی کے پیغام کو امریکی نشاۃ ثانیہ تحریک یا (MAGA)Make America Great Again کہتے ہیں. اس کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی ریپبلکن پارٹی میگا انتہا پسندوں سے متاثر اور خوفزدہ ہے۔ ‘‘انہوں نے خبردار کیا کہ میگا انتہا پسند ایجنڈے کا نفاذ جمہوری اداروں کی بنیادی ہئیت کو مسخ کردے گا۔ میرے پیشرو کی سیاست آئین اور شائستگی کے بجائے انتقام اور عداوت سے عبارت ہے۔ جناب ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ وہ صدر کی حیثیت سے جو چاہیں کر سکتے ہیں۔جنرل ملی کی پھانسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا میں نے کسی امریکی صدر یا منتخب نمائندے کو مذاق میں بھی کبھی ایسا کہتے ہوئے نہیں سنا۔
جنرل ملی کو پھانسی اور پستول کی خریداری کے ذکر نے جناب ٹرمپ کے لیے قانونی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ امریکی قانون کے تحت زیرِ ضمانت فرد کی آتشیں اسلحے تک رسائی غیر قانونی ہے کجا یہ کہ وہ خود اسلحہ خریدے، اسی طرح ضمانت پر رہا فرد اگر تشدد کا مرتکب ہویا کسی کو دھمکائے تو ملزم کی ضمانت منسوخ کرکے اسے جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ سرکاری وکلا نے آنے والے دنوں میں یہ معاملہ عدالت میں زیربحث لانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
اس بات کا امکان تو کم ہے کہ عدالت جناب ٹرمپ کی ضمانت منسوخ کرکے انہیں جیل بھیج دے لیکن حرکت محدود کر دینے اور ان کی زباں بندی کا حکم جاری ہوسکتا ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ وکلا اور خود ان کی پارٹی کے کچھ ارکان ریپبلکن پارٹی کی قیادت کو درخواست دے رہے ہیں کہ غداری جیسے سنگین الزامات میں نامزد فرد کو پارٹی ٹکٹ کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے تاہم جناب ٹرمپ کی آسمان سے باتیں کرتی مقبولیت کے تناطر میں پارٹی کی مجلس عاملہ ایسا کرنے کی جرات نہیں کرسکتی اور اگر قیادت یہ ہمت کر بھی لے تو سابق صدر ٹرمپ عدالت سے حکم امتناعی لے سکتے ہیں۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ امریکہ میں جماعت اسلامی کی طرح Write-in Ballot کی سہولت بھی موجود ہے۔ یعنی بیلٹ پیپر پر نامزد امیدواروں کے ناموں کے ساتھ ایک خانہ خالی رکھا جاتا ہے جس میں رائے دہندہ کو اپنے امیدوار کا نام لکھنے کی اجازت ہے۔ ماضی قریب میں ایسا ہوچکا ہے۔ 2010 کے انتخابات میں الاسکا سے ریپبلکن پارٹی کی رہنما محترمہ لیسا مرکاوسکی پرائمری انتخابات میں پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ انہوں نے عوام سے درخواست کی کہ بیلٹ پیپر پر نام لکھ کر انہیں ووٹ دیا جائے اور محترمہ نے عام انتخابات میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ یافتگان کو ہرادیا۔ اگر جناب ٹرمپ انتخابات سے پہلے جیل بھیج دیے گئے اور عدالت نے ان کا نام بیلٹ پیپر سے ہٹانے کی منظوری دے دی تب بھی وہ دوڑ میں پورے عزم سے شریک رہیں گے۔ آئین و قانون کی بالادستی اپنی جگہ لیکن سابق صدر کی غیر معمولی مقبولیت کی بنا پر عدالت کے لیے فرمانِ خلق (مینڈیٹ) کو نظر انداز کر دینا بھی اتنا آسان نہ ہوگا۔
***
***
قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ امریکہ میں جماعت اسلامی کی طرح Write-in Ballot کی سہولت بھی موجود ہے۔ یعنی بیلٹ پیپر پر نامزد امیدواروں کے ناموں کے ساتھ ایک خانہ خالی رکھا جاتا ہے جس میں رائے دہندہ کو اپنے امیدوار کا نام لکھنے کی اجازت ہے۔ ماضی قریب میں ایسا ہوچکا ہے۔ 2010 کے انتخابات میں الاسکا سے ریپبلکن پارٹی کی رہنما محترمہ لیسا مرکاوسکی پرائمری انتخابات میں پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ انہوں نے عوام سے درخواست کی کہ بیلٹ پیپر پر نام لکھ کر انہیں ووٹ دیا جائے اور محترمہ نے عام انتخابات میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ یافتگان کو ہرادیا۔ اگر جناب ٹرمپ انتخابات سے پہلے جیل بھیج دیے گئے اور عدالت نے ان کا نام بیلٹ پیپر سے ہٹانے کی منظوری دے دی تب بھی وہ دوڑ میں پورے عزم سے شریک رہیں گے۔ آئین و قانون کی بالادستی اپنی جگہ لیکن سابق صدر کی غیر معمولی مقبولیت کی بنا پر عدالت کے لیے فرمانِ خلق (مینڈیٹ) کو نظر انداز کر دینا بھی اتنا آسان نہ ہوگا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023