امریکہ میں دہشت گردانہ کارروائی ، اسلاموفوبیائی بازگشت
دونوں مبینہ ملزمین پیدائشی امریکی شہری، ایک سابق اور دوسراحاضر سروس فوجی
مسعود ابدالی
امریکہ میں سالِ نو کا آغاز بہت اچھا نہیں ہوا۔ صبح سوا تین بجے جب نیو اورلینز (New Orleans) کے فرنچ کوارٹرز کے نام سے مشہور مرکزِ رقص و موسیقی میں ہزاروں لوگ نئے سال کا والہانہ استقبال کررہے تھے کہ ایک تیز رفتار پک اپ ٹرک نے 14 افراد کو کچل کر ہلاک کردیا۔ درجنوں افراد شدید زخمی ہیں۔ مرنے والوں میں ایک 18 سالہ فلسطینی نژاد امریکی، کریم بدوی بھی شامل ہے۔ دو اسرائیلی شہری زخمی ہوئے۔ نیو اورلینز امریکی ریاست لوزیانہ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ہجوم کو کچلنے کے بعد ڈرائیور نے گاڑی سے نکل کر فائرنگ کی جس سے کئی پولیس والے زخمی ہو گئے۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور موقع پر ہی دم توڑگیا۔اس واقعہ کے تقریباً سات گھنٹے بعد جوئے و سٹے کے لیے مشہور لاس ویگاس (Las Vegas) میں ٹرمپ ہوٹل کے مرکزی دروازے پر بیٹری سے چلنے والا ٹیسلا کا ایک سائبر ٹرک دھماکے سے پھٹ گیا جس کے نتیجے میں ٹرک کا ڈارئیور ہلاک اور قریب کھڑے ہوئے سات افراد زخمی ہوگئے۔ ہوٹل کی عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
خبر نشر ہوتے ہی نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس کا الزام غیر ملکی تارکین وطن کے سر دھر دیا تودوسری طرف صدر بائیڈن کے خیال میں دونوں واقعات ایک منحوس سلسلے کی جڑی ہوئی دو کڑیاں تھیں۔تاہم ابتدائی تحقیقات سے ہی یہ واضح ہوگیا کہ نیو اورلینز اور لاس ویگاس کے واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ فرنچ کوارٹرز حملے کے مبینہ ملزم کی 42 سالہ شمس الدین جبار کے نام سے شناخت کرلی گئی۔ سابق امریکی فوجی، شمس الدین جبار امریکی شہری تھا جو ہیوسٹن سے وہاں آیا جبکہ لاس ویگاس واقعہ میں 37سالہ حاضر سروس امریکی فوجی میتھیو لائیوزبرگر (Matthew Livelsberger) ملوث تھا۔ یعنی دونوں جگہ پیدائشی امریکی شہریوں، بلکہ فوج سے وابستہ افراد نے گُل کھلائے۔تحقیقات مکمل ہونے کے بعد بھی ڈونالڈ ٹرمپ اپنے موقف سے رجوع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔سماجی رابطے کے اپنے چبوترے Truthپر وہ آتش فشاں ہوئے کہ ‘ہمارا ملک عذاب اور دنیا کے لیے ہنسی کا سامان بنا ہوا ہے صرف اس وجہ سے کہ سرحدیں چوپٹ کھلی اور قیادت کمزور، غیر موثر اور عملی طور پر غیر موجود ہے۔
شمس الدین جبار کا نام سامنے آتے ہی ‘اسلامک ٹیررازم’ کی بازگشت سنائی دی اور پھر تحقیقات کاروں نے اس کے ٹرک سے داعش کا ایک جھنڈا بھی برآمد کرلیا۔ ابتدا میں کہا جارہا تھا کہ یہ داعش کی ایک منظم اور سوچی سمجھی کارروائی ہے جس میں جبار کے علاوہ مزید سہولت کار شامل ہیں۔ چنانچہ تحقیقات کا دائرہ اس کی رہائش گاہ تک پھیلادیا گیا۔ اتفاق سے جبار شمالی ہیوسٹن میں مسجدِ بلال کے قریب رہتا تھا لہٰذا مسجد اور مصلیوں کی بھی چھان پھٹک کی گئی۔ تفصیلی جانچ پڑتال سے پتہ چلا کہ یہ کارروائی جبار نے اکیلے کی ہے اور کسی اور فرد کی معاونت کے شواہد نہیں ملے۔
افریقی نژاد حملہ آور کے والد مسلمان ہو گئے تھے اور کم عمری میں شمس الدین نے بھی اسلام قبول کرلیا تھا لیکن اس کی والدہ مسیحیت پر قائم رہیں۔ جبار امریکی فوج کے شعبہ افرادی قوت میں بطور انفارمیشن ٹیکنالوجی اسپیشلسٹ بھرتی ہوا اور فروری 2009 سے جنوری 2010 تک اسے افغانستان میں تعینات کیا گیا۔واپسی پر اس نے active duty سے رخصت لے لی لیکن وہ 2020 تک بطور reserve امریکی فوج کا حصہ رہا جس کے بعد فوج سے باعزت ریٹائر ہوگیا۔ فوج سے سبکدوشی کے بعد شمس الدین نے جامعہ جارجیا سے BBA کیا اور وہ ایک کثیر القومی ادارے Deloitte میں بطور بزنس ڈیولپمنٹ منیجر کام کرتا تھا۔ اس کا جائیداد کی خرید و فروخت کا اپنا کاروبار بھی تھا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے FBI کے مطابق شمس الدین کے والد، بھائی، کاروباری احباب اور فوجی افسر، کسی نے بھی اس سے کوئی انتہا پسندانہ بات نہ سنی۔ اسے مسجد بلال میں کبھی نہیں دیکھا گیا اور وہ ہیوسٹن کے مسلمانوں کی تنظیم ISGH کا رکن بھی نہیں تھا۔
شمس الدین کی خانگی زندگی اچھی نہیں تھی اور تینوں نکاح کا اختتام تکلیف دہ طلاق پر ہوا۔ وہ کچھ عرصے سے مالی مشکلات کا شکار تھا۔ کریڈٹ کارڈ پر قرض کا حجم 21 ہزار ڈالر سے تجاوز ہو چکا تھا اور اس کے لیے گھر کے قرضے کی قسط دینا بھی ممکن نہ رہا۔
ایف بی آئی کے مطابق 2024میں شمس الدین ‘انتہا پسند’ ہوگیا تھا۔ ثبوت کے طور پر اس کی کچھ گفتگو بیان کی گئی جس میں وہ موسیقی اور شراب سے مسلمانوں کو منع کررہا تھا۔شمس الدین 2023 میں ایک مہینے کے لیے مصر گیا تھا جسے یار لوگ مشکوک قرار دے رہے ہیں۔تحقیقات کاروں کے مطابق ہیوسٹن سے نیو اورلینز جاتے ہوئے اس نے فیس بک پر جو بصری تراشے نصب کیے اس میں اس نے داعش خراسان سے بیعت کا اعلان کیا اور کہا کہ ‘یہ اہل ایمان اور منکرین حق کی جنگ ہے’۔ اس کے ٹرک میں موجود داعش کے پرچم کو ایک ناقابل تردید ثبوت کے طور پر پیش کیاگیا۔ ایف بی آئی نے اپنی رپورٹ میں شمس الدین کے اس بھیانک جرم کو "100% inspired by ISIS” قرار دیا ۔حیاتِ شمس کی تمام تفصیلات، تحقیقات کاروں کی فراہم کردہ ہیں اور انہیں دیکھ کر ہمیں یہ شخص کسی بھی اعتبار سے انتہاپسند محسوس نہیں ہوتا۔شمس الدین اس سے پہلے چھوٹی موٹی چوریوں، جعلی ڈرائیونگ لائسنس رکھنے اور نشے کی حالت میں گاڑی چلانے پر گرفتار بھی ہوچکا تھا۔ ایف بی آئی کے مطابق ویڈیو میں شمس الدین نے طلاقوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے اہل خانہ کے قتل کی خواہش کا اظہار کیا لیکن اس خیال کو جھٹکتے ہوئے بولا’منکرین کو ہلاک کرنا زیادہ بہتر ہے’۔
شمس الدین نے افغانستان میں ایک سال گزارا ہے اور وہاں سے آنے والے کئی فوجی ذہنی رویے کی خرابی میں مبتلاپائے گئے جسے نفسیاتی اصطلاح میں Post-traumatic stress disorder یا PTSD کہتے ہیں۔ ذہنی رویے کی اسی خرابی کا شک لاس ویگاس کے واقعے میں بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ برگ کے نام سے مشہور اس سپاہی کی امریکی فوج سے وابستگی کو 19 سال ہوچکے تھے۔ برگ، تزویراتی علوم میں بی اے اور فوج کے خصوصی Green Beret دستے کا رکن تھا۔ اس نے افغانستان کے علاوہ یوکرین، کانگو، جارجیا اور دوسرے ممالک میں خدمات انجام دیں اور اعلیٰ کارکردگی پر کئی اعزاز حاصل کیے۔ اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی اعتبار سے قدامت پسند لیکن معتدل خیالات کا حامل تھا۔
برگ نے اپنے ایک فوجی دوست کو ای میل میں امریکی فوج کے خفیہ آپریشن اور ممکنہ جنگی جرائم کا ذکر کیاتھا۔ اس نے دوست سے کہا کہ ان واقعات کی جان کاری کی بنا پر اس کی جاسوسی کی جارہی ہے۔برگ نے لکھا کہ افغان صوبے نمروز کے 2019 آپریشن میں سیکڑوں شہری مارے گئے۔ اس کارروائی پر پردہ رکھنے کے عمل میں وہ بھی شریک تھا۔
اس نے خود کو گولی مارکر ٹرک اڑانے سے پہلے اپنے موبائل فون پر لکھا ‘یہ ایک انتباہی دستک ہے۔ میں اپنے ذہن کو ان بھائیوں کی یاد سے پاک کرنا چاہتا ہوں جنہیں میں نے کھو دیا ہے اور مجھے ان زندگیوں کے بوجھ سے نجات کی ضرورت ہے جو میں نے لی ہیں۔
قوم پرستی اور اسلاموفوبیا کو بالائے طاق رکھ کر ان دونوں واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ذہنی مماثلت بہت واضح ہے۔ مالی و معاشرتی پریشانیاں، ذہنی دباو، تنہائی کا احساس اور ضمیر کا بوجھ ان المناک و مکروہ وارداتوں کے بنیادی محرکات لگ رہےہیں۔
(مضمون نگار سے رابطہ : [email protected])
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024