امریکہ میں2024ء کی انتخابی مہم کا آغاز

امیدواروں کے درمیان مباحثہ۔اسقاط، دفاع، اسرائیل سے تعلقات، یوکرین جنگ، LGBT اور غیر قانونی تارکین وطن بحث کا موضوع

مسعود ابدالی

ڈیموکریٹک پارٹی میں صدر بائیڈن کے مقابلے میں جان ایف کینیڈی کے بھتیجے رابرٹ کینیڈی اور میرین ولیمسن دعویدار
چار مقدمات اور 131 سنگین الزامات کے باوجود ری پبلکن پارٹی سے ڈونلڈ ٹرمپ بھی امیدوار
بدھ 23 اگست کو ریپبلکن پارٹی کی ٹکٹ کے خواہش مندوں کے درمیان مباحثے سے 2024ء کی انتخابی مہم کا آغاز ہوگیا۔ امریکہ میں عام انتخابات کے لیے تاریخیں نہیں دی جاتیں بلکہ صدارتی انتخابات چار پر تقسیم ہونے والے سال کے نومبر میں پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس بار صدارتی انتخابات 5 نومبر 2024ء کو ہوں گے۔ ایک اور اہم بات کہ امریکہ میں کوئی مرکزی الیکشن کمیشن نہیں ہے اور انتخابات کا انتظام و انصرام ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
پانچ نومبر کو ایوانِ نمائندگان (لوک سبھا) کی جملہ 435 نشستوں کے لیے بھی ووٹ ڈالے جائیں گے۔ سینیٹ (راجیہ سبھا) کی 33 نشستوں پر اور 11 ریاستوں میں گورنروں کا معرکہ بھی سجے گا۔ دو امریکی کالونیوں، سمووا Samoa اور پورتوریکو کے گورنروں کا چناو بھی اسی دن ہوگا۔ یہاں صدر کی مدتِ چار سال ہے جبکہ ایوان نمائندگان کے ارکان 2 برس اور ارکانِ سینیٹ 6 سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ امریکہ میں امیدواروں کو ٹکٹ کا اجرا پارٹیوں کے پارلیمانی بورڈ سے نہیں ہوتا بلکہ نامزدگی کے لیے پارٹیوں کے پرائمری انتخابات منعقد ہوتے ہیں یعنی امیدواروں کو ٹکٹ کے لیے عام انتخابات کی طرح باہم مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ پرائمری انتخابات میں عام لوگ ووٹ ڈالتے ہیں اور پارٹی رکنیت کے لیے ووٹ رجسٹر کراتے وقت جماعتی وابستگی ظاہر کرنا بہت کافی ہے۔ بعض ریاستوں میں تو یہ تکلف بھی غیر ضروری ہے۔ پرائمری کے روز پولنگ اسٹیشن جاکر آپ کسی بھی پارٹی کا بیلٹ حاصل کرسکتے ہیں۔
اس وقت پارٹی ٹکٹ کے لیے مقابلہ درپیش ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں صدر بائیڈن کے مقابلے میں آنجہائی سینیٹر رابرٹ کنیڈی کے صاحب زادے اور صدر جان ایف کینیڈی کے بھتیجے رابرٹ کینیڈی جونئیر کے علاوہ ایک دانش ور محترمہ میرین ولیمسن نے پارٹی ٹکٹ کی خواہش ظاہر کی ہے، لیکن فی الحال ایسا لگ رہا ہے کہ جناب بائیڈن کو نامزدگی میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ کے لیے سابق صدر ٹرمپ سمیت 16 امیدوار میدان میں ہیں۔ بدھ کے مباحثے کے لیے ان 9 امیدواروں کو دعوت دی گئی تھی جن کے انتخابی فنڈ میں امریکی شہریوں نے کم ازکم 40 ہزار ڈالر کے عطیات دیے ہیں اور رائے عامہ کے جائزوں میں کم از کم ایک فیصد ووٹروں نے ان کی حمایت کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ نے مباحثے سے معذرت کرلی تھی۔ جناب ٹرمپ نے موقف اختیار کیا کہ امریکی عوام نہ صرف انہیں اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ وہ ان کی کارکردگی بھی دیکھ چکے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کے پاس ’غیر اہم‘ لوگوں سے مباحثہ کے لیے فرصت نہیں ہے۔ دوسرے دن صدر ٹرمپ کی ریاست جارجیا کی عدالت میں پیشی تھی۔ جہاں ان پر 2020ء کے انتخابی نتائج تبدیل کرنے کی سازش اور متعلقہ افسروں کو ڈرانے دھمکانے کے 13 الزامات پر مشتمل فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔
ریاست وسکونسن کے شہر ملواکی کی عظیم الشان رونالڈ ریگن لائبریری میں ہونے والے مباحثے کا اہتمام فاکس FOX ٹیلی ویژن نے کیا تھا جس میں فلوریڈا کے گورنر راب ڈی سینٹس (Rob DeSantis) سابق نائب صدر مائک پینس، جنوبی کیرولینا کی سابق گورنر نمرتا نکی رندھاوا المعروف نکی ہیلی، جنوبی کیرولینیا کے سیاہ فام سینیٹر ٹِم اسکاٹ، ریاست نیوجرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی (Chris Christie) شمالی ڈکوٹا کے گورنر ڈَگ برگم (Doug Burgum) ریاست آرکنسا کے سابق گورنر اسا ہچنسن (Asa Hutchinson) کے علاوہ مشہور کاروباری شخصیت ووک راما سوامی نے شرکت کی۔ گویا اسٹیج پر ایک خاتون، دو ہند نژاد، تین رنگ دار، دو گورنر، تین سابق گورنر اور ایک نائب صدر کھڑے تھے۔
حسبِ روایت تمام امیدواروں نے گفتگو کا آغاز لطیف فقروں سے کیا۔ نکی ہیلی نے سابق برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کا یہ جملہ دہرایا کہ زبانی جمع خرچ مطلوب ہے تو مرد کو لاو لیکن اگر ٹھوس کام چاہیے تو خاتون کو آگے بڑھاو۔
سیاست میں نووارد ووک راماسوامی نے کہا ’آپ جاننا چاہتے ہوں گے کہ سینئر سیاست دانوں کے جھرمٹ میں یہ دبلا، سانولا سا نوجوان کون ہے تو سنیں کہ میرے والدین جب کیرالا سے امریکہ آئے تو ان کی جیب خالی تھی اور آج ان کا بیٹا اربوں ڈالر کا کاروبار کر رہا ہے۔ ایسا امریکہ ہی میں ممکن ہے، یہ ہے امریکی خواب کی حسین تعبیر۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے دس نکاتی ’سیاسی عقیدے‘ (10commandments) کا اعلان کیا۔
خدا ایک حقیقت ہے، انسانوں کی صرف دو جنسیں ہیں، انسانی نشو و نما کے لیے تیل اور گیس ضروری ہے۔ جوابی نسل پرستی بھی نسل پرستی کی ایک شکل ہے، کھلی سرحد کوئی سرحد نہیں، بچوں کی تعلیم کا تعین والدین کی ذمہ داری ہے، خاندان کی بنیادی اکائی مرکزیت ہے، سرمایہ داارنہ نظام ہی غربت سے نجات کا راستہ ہے اور امریکی حکومت کی صرف تین شاخیں ہیں۔ ان نکات کے تجزیے کی ضرورت نہیں کہ 38 سالہ ووک راماسوامی نے بہت واضح اور دوٹوک انداز میں اپنا قدامت پسند نظریاتی ایجنڈا پیش کر دیا۔
گورنر ڈگ برگم نے کہا میرا تعلق جس شہر سے ہے اس کی کل آبادی 300 سے بھی کم ہے اس لیے آج اتنے بڑے اسٹیج پر جہاں ابلاغ عامہ کے طفیل کروڑوں امریکی انہیں دیکھ رہے ہیں، ان کی کیفیت کچھ عجیب سی ہے۔
مباحثے سے غیر حاضر رہنے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے سامعین کا جوش وخروش بہت واضح تھا۔ جب میزبان نے پوچھا کہ سابق صدر ٹرمپ پر چار مقدمات ہیں۔ دوسری طرف وہ ریپبلکن پارٹی میں مقبول بھی ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کی روایت ہے کہ نامزدگی حاصل کرنے والے امیداور کی پوری جماعت یکسو ہوکر حمایت کرتی ہے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگئے تو کیا آپ سب لوگ مقدمے کے باوجود عام انتخابات میں ان کی حمایت کریں گے؟ جواب میں آٹھ میں سے چھ افراد نے ہاتھ بلند کر دیے اور ووک راماسوامی جذباتی انداز میں بولے ’یقیناً، اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس صدی کے سب سے موثر امریکی صدر تھے جو وزارت انصاف کے انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں۔ سینیٹر ٹم اسکاٹ نے بھی مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے وعدہ کیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو حلف اٹھاتے ہی اٹارنی جنرل کو برطرف کریں گے۔ جب کرس کرسٹی نے کہا کہ صدر کے لیے اجلا کردار ضروری ہے تو حاضرین کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا اور ہوٹنگ اتنی شدید تھی کہ میزبان کو مداخلت کرنی پڑی۔
اسقاط، دفاع، اسرائیل سے تعلقات، یوکرین جنگ، LGBT اور غیر قانونی تارکین وطن بحث کا موضوع رہا۔ تارکین وطن کے معامے میں تمام کے تمام افراد ایک سے بڑھ کر ایک سخت موقف پیش کرتے رہے۔ اکثر امیدوار میکسیکو کی سرحد پر نگرانی سخت کرنے کے لیے فوج تعینات کرنے کے حق میں تھے۔ راماسوامی تو یہاں تک کہہ گئے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں تعینات امریکی فوج کو واپس بلاکر میکسیکو کی سرحد پر لگا دیا جائے اور بقراطی چھانٹی کہ open border is no border۔ سچ ہے کہ آدمی بے حیا ہو جائے تو جو چاہے کہتا پھرے۔ سات سمندر پار سے ان کے والدین امریکہ آئے تو درست لیکن دہلیز پر موجود میکسیکو کے لوگوں کو امریکہ آنے سے روکنے کے لیے مہلک فوجی قوت کا استعمال بھی غلط نہیں؟
جناب جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر بھی زیر بحث آئی۔ نئے صدر کی حلف برداری کے دن یعنی 20 جنوری 2025 کو صدر بائیڈن کی عمر 83 سال اور ڈانلڈ ٹڑمپ 79 برس کے ہوں گے۔ میزبان نے سوال کیا کہ کیا ان دونوں کا دماغی معائنہ ہونا چاہیے تو سابق نائب صدر مائک پینس نے مسکراتے ہوئے کہا ’میرا خیال ہے کہ واشنگٹن کے سارے اہلکاروں کا دماغی معائنہ ہونا چاہیے ۔ساتھ ہی کہا کہ امریکی صدر نہ بہت عمر رسیدہ درست نہ کھلنڈرا نوجوان بلکہ ’مناسب عمر‘ کا تجربہ کار فرد ہونا چاہے کہ ایوان صدر سیکھنے کی نہیں کچھ کر دکھانے کی جگہ ہے۔ اس معاملے میں محترمہ نکی ہیلی کا رویہ ہمیں ناشائستہ لگا۔ وہ صدر بائیڈن کی عمر کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہیں، بلکہ مباحثے کے بعد ABC ٹیلی ویژن پر باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا اگر جوبائیڈن 2024ء کا انتخاب جیت گئے تو حلف اٹھاتے وقت ان کی عمر 83 سال کے قریب ہوگی اور وہ کسی صورت اپنی چار سالہ مدت مکمل نہیں کر پائیں گے۔ یہ سن کر ہمیں جناب منور حسن مرحوم کا یہ جملہ یاد آیا کہ ’موت کا تعلق نہ عمر سے ہے اور نہ صحت سے، یہ بس ہمارے رب کے حکم سے مشروط ہے‘
مباحثے میں سارا زور اس بات پر تھا کہ ٹکٹ مل جانے پر کون صدر بائیڈن کو عام انتخابات میں ہرا سکتا ہے۔ سابق نائب صدر پینس کا دعویٰ تھا کہ وہ گورنر، رکن کانگریس اور اپنے خیال میں امریکی تاریخ کی سب سے شاندار ( ٹرمپ) انتظامیہ کے نائب صدر رہ چکے ہیں لہذا ان کے لیے صدر بائیڈن کو ہرانا کچھ مشکل نہیں۔ کچھ ایسا ہی دعویٰ نکی ہیلی اور سینیٹر ٹِم اسکاٹ کا تھا جبکہ نیوجرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی نے بہت فخر سے کہا کہ نیوجرسی ڈیموکیٹک پارٹی کا گڑھ ہے جہاں میں نے برسر اقتدار ڈیموکریٹ گورنر John Corzine کو شکست دی۔ اس اعتبار سے سب کی طنزیہ نظریں سووک راماسوامی پر تھیں جو میدان کے نئے کھلاڑی ہیں۔ مائک پینس نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’دنیا میں سب سے مشکل کام امریکی صدارت ہے جس کے لیے تجربہ چاہیے، یہ کسی rookie (نئے رنگروٹ) کے بس کی بات نہیں۔ جس پر راما سوامی تڑخ کر بولے مجھے سرکاری فنڈ اڑانے کا نہیں لیکن محنت مشقت سے روزی کمانے کا تجربہ ہے اور امریکی عوام کے لیے روزگار کے باعزت مواقع پیدا کرنا میری ترجیح ہوگی کہ یہی سرمایہ دارانہ نظام کا سرمایہ ہے۔
مباحثے کے بعد جاری ہونے والے جائزے میں ریپبلکن پارٹی کے 44 فیصد حامیوں نے جناب ٹرمپ کی حمایت کا عندیہ دیا جبکہ 22 فیصد لوگ گورنر راب دی سینٹس کے حامی ہیں۔ یعنی چار مقدمات اور 131 سنگین الزامات کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی میں بہت مقبول ہیں۔ تاہم انتخابات میں پندرہ ماہ باقی ہیں گویا ابھی پلِ سیاست کے نیچے سے بہت سا پانی بہنا ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 جناب جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر بھی زیربحث آئی۔ نئے صدر کی حلف برداری کے دن یعنی 20 جنوری 2025 کو صدر بائیڈن کی عمر 83 سال اور ڈونلڈ ٹڑمپ 79 برس کے ہوں گے۔ میزبان نے سوال کیا کہ کیا ان دونوں کا دماغی معائنہ ہونا چاہیے تو سابق نائب صدر مائک پینس نے مسکراتے ہوئے کہا ’میرا خیال ہے کہ واشنگٹن کے سارے اہلکاروں کا دماغی معائنہ ہونا چاہیے۔ساتھ ہی کہا کہ امریکی صدر نہ بہت عمر رسیدہ درست نہ کھلنڈرا نوجوان بلکہ ’مناسب عمر‘ کا تجربہ کار فرد ہونا چاہے کہ ایوان صدر سیکھنے کی نہیں کچھ کر دکھانے کی جگہ ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023