
امریکہ کی معیشت اور تعلیم و صحت کا زوال: ایچ ون بی ویزا پر سختی
مہنگائی قابو سے باہر، فیڈرل ریزرو بے بس
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
جے پی مورگن کے مطابق طویل مدتی کساد بازاری کا خطرہ- بھارت سمیت دنیا عالم گیر منفی اثرات کا اندیشہ
امریکی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو معیشت پوری طرح بیٹھ جائے گی۔ معروف امریکی ماہرِ اقتصادیات مارک زینڈی جو موڈیز کے چیف اکانومسٹ ہیں، ان کا تجزیہ ہے کہ امریکہ میں مہنگائی اپنی انتہا پر ہے جسے قابو میں رکھنا فیڈرل ریزرو کے لیے ممکن نہیں رہا۔ شرح سود میں کمی و زیادتی سے معیشت کو کسی حد تک کنٹرول کیا جاتا ہے مگر یہ طریقہ ہر وقت مؤثر نہیں ہوتا۔ امریکہ میں بے روزگاری میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ موڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی میں جہاں ایک لاکھ نوکریاں پیدا ہونی چاہیے تھیں وہاں صرف 75 ہزار نوکریاں ہی دستیاب ہو سکیں۔ یعنی روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی طرح امریکہ میں بھی ڈیٹا میں ہیرا پھیری کی جا رہی ہے۔ مئی اور جون کا ڈیٹا بھی کم کر کے دکھایا گیا ہے۔ ان مہینوں میں اوسطاً صرف 35 ہزار نوکریاں بڑھیں۔ امریکہ سرمایہ دارانہ نظام کے بل بوتے پر دنیا پر حکم رانی کا خواب دیکھتا ہے مگر اس کی اپنی معیشت کی حقیقت کیا ہے؟ وہاں بے روزگاری کی شرح 4.42 فیصد کے قریب ہے۔ یہ شرح اس لیے بھی مستحکم ہے کیونکہ غیر ملکی مزدور جو کم اجرت پر کام کرتے تھے، ان کی بڑی تعداد کو وطن واپس بھیج دیا گیا ہے۔ تقریباً بارہ لاکھ افراد واپس کر دیے گئے جس کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح کم ہوئی۔ اگر یہ لوگ موجود ہوتے تو بے روزگاری چار فیصد سے زیادہ ہوتی۔ موڈیز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی جی ڈی پی کی شرح نمو سست ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اشیاء کی پیداوار کم ہو رہی ہے اور طلب بھی گھٹ رہی ہے۔ امریکی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں اور مہنگائی بھی عروج پر ہے۔ جی ڈی پی میں اضافہ تب ہی مؤثر ہوتا ہے جب وہ افراطِ زر کے تناسب سے ہو ورنہ اسے ترقی نہیں کہا جا سکتا۔ امریکہ میں بنیادی مہنگائی (core inflation) کے لیے دو فیصد کا ہدف مقرر تھا مگر جولائی میں یہ 2.8 فیصد تک جا پہنچی، جو اپریل میں 2.6 فیصد تھی۔ یعنی مہنگائی کی رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے اور پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ تعمیراتی شعبے میں بھی تنزلی دیکھی جا رہی ہے۔ نئی عمارتوں کی تعمیر بند ہو گئی ہے اور سنگل فیملیز بھی مکانات خریدنے سے قاصر ہیں۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ’’سب کچھ امریکہ میں تیار ہو‘‘ کے نعرے کے تحت تجارتی جنگ (Trade War) کا آغاز ہوا لیکن مینوفیکچرنگ کے شعبے میں ترقی نہیں ہورہی۔ پچھلے دو ماہ سے اس میں کمی آ رہی ہے۔ گھریلو طلب میں مسلسل کمی ہے اور صارفین کا خرچ جمود کا شکار ہے۔ جے پی مورگن کے مطابق گزشتہ تین مہینوں میں اوسطاً صرف 52 ہزار نئی نوکریاں پیدا ہوئیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی جمود ہے۔ محنت کشوں کی طلب میں کمی بتاتی ہے کہ امریکہ کساد بازاری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ریٹنگ ایجنسیاں اس پر متفق ہیں۔ جے پی مورگن اسے طویل مدتی کساد بازاری قرار دے رہے ہیں ۔ اگر امریکہ میں مندی آتی ہے تو اس کا اثر دنیا بھر میں محسوس ہوگا، خاص طور پر بھارت پر پڑے گا کیونکہ بھارت کا امریکہ کے ساتھ تجارتی انحصار زیادہ ہے۔ جب کہ امریکہ کی جانب سے ٹیرف (محصولات) میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ کے دور میں تعلیمی اداروں پر بھی شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ 31 جولائی کو ایک فیڈرل جج نے امریکی انتظامیہ سے وضاحت طلب کی کہ ہارورڈ یونیورسٹی کی فنڈنگ میں اربوں ڈالر کی کٹوتی کیوں کی گئی؟ دنیا بھر میں دائیں بازو کی حکومتیں فنڈنگ کی دھمکیوں اور امداد میں کمی کے ذریعے تعلیمی اداروں پر اپنے نظریاتی ایجنڈے مسلط کر رہی ہیں۔ دنیا کے اعلیٰ تعلیمی ادارے ہمیشہ آزاد خیال اور تحقیق و تجسس کے مراکز سمجھے جاتے تھے مگر اب وہ بھی سیاسی اکھاڑے بنتے جا رہے ہیں۔ امریکہ میں یہ دباؤ واضح نظر آ رہا ہے، جہاں ٹرائی لینگوئج یونیورسٹیاں اب تہذیبی تنازعات کا مرکز بن گئی ہیں۔ امریکی حکومت ان اداروں کو امریکہ مخالف اڈے قرار دے رہی ہے۔ ٹرمپ نے غیر ملکی طلبہ کے ویزا قوانین سخت کر دیے ہیں اور کالجوں کو دھمکی دی ہے کہ اگر افکار کی آزادی کی بات ہوگی تو ان کی فنڈنگ میں کٹوتی کر دی جائے گی۔ 2023 میں امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے سے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو داخلے میں زیادہ اختیارات مل گئے ہیں جس سے داخلہ نظام میں بڑی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کو بھی سخت اینٹی سیمیٹزم قوانین اپنانے پر مجبور کیا گیا ہے تاکہ اسرائیل کے خلاف مباحثے بند کیے جا سکیں۔ 2024 کے دوران ہارورڈ یونیورسٹی کی صدر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا اور بڑے عطیہ دہندگان نے کروڑوں ڈالر کی فنڈنگ روک دی ہے۔ نتیجتاً وہاں خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے اور تعلیم، جنس، نسل اور خارجہ پالیسی جیسے موضوعات پر بحث و مباحثہ متاثر ہوا۔ اگرچہ حالات سنگین ہیں مگر پھر بھی اساتذہ اور طلبہ سِول سوسائٹی کے تعاون سے فکری دباؤ کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں اور شمولیت پر مبنی تعلیم کو فروغ دینے کی کوشش جاری ہے جس کی وجہ سے بعض اداروں کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی پڑی ہے۔
اعلیٰ تعلیم کو نیو لبرل ازم کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ تعلیم کو کارپوریٹ شکل دی جا رہی ہے۔ طلبہ کو صرف گاہک اور اساتذہ کو سروس فراہم کرنے والے سمجھا جا رہا ہے۔ اداروں کے ٹرسٹیز محض انتظامی امور سنبھالنے میں مصروف ہیں۔ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں تب سے تعلیمی پالیسیوں میں شدید تبدیلیاں کر رہے ہیں اور اب انہوں نے مرکزی محکمہ تعلیم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط بھی ہو چکے ہیں۔ تاہم، اسے مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کانگریس کی منظوری ضروری ہے جہاں تاحال مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہے۔ 1979 میں قائم ہونے والا محکمہ تعلیم طلبہ کو قرضے اور اسکالرشپ فراہم کرتا ہے، خاص طور پر کم آمدنی والے طبقے کو۔ اگرچہ امریکہ میں سرکاری اسکولوں میں تعلیم مفت دی جاتی ہے مگر وفاقی محکمہ تعلیم کی مدد اہم سمجھی جاتی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس محکمے میں 4,400 افراد کام کرتے ہیں مگر اس کے باوجود اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو رہا ہے اور اس پر سالانہ 1.7 ٹریلین ڈالر کا خسارہ ہوتا ہے جو حکومت کو قرض لے کر چکانا پڑتا ہے۔ 2024 میں دفاعی بجٹ سے زیادہ رقم قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہوئی اسی لیے ٹرمپ اخراجات میں کٹوتی کے لیے پر عزم ہیں، چاہے تعلیم کا جنازہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔ ایچ ون بی ویزا پر بھی سختیاں عائد کی جا رہی ہیں تاکہ امریکہ میں غیر ملکی طلبہ کی آمد میں کمی آئے۔ سب سے زیادہ بھارتی طلبہ اس ویزا کے ذریعے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور بعد میں نوکری بھی کرتے ہیں۔ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو یہ بات ناگوار گزر رہی ہے۔ ایچ ون بی ویزا درحقیقت امریکہ کے لیے ایک ’’خفیہ ہتھیار‘‘ ہے اس کے بغیر گوگل، نیٹ فلیکس یا سیلیکان ویلی جیسے ادارے ممکن نہ ہوتے۔ تقریباً 30 فیصد پی ایچ ڈی کے طلبہ بیرونِ ملک سے آتے ہیں اور سو فیصد پی ایچ ڈی ہولڈرز غیر ملکی ہوتے ہیں۔ امریکہ ان باصلاحیت افراد کو اپنی جانب راغب کرتا ہے تاکہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہیں قیام کریں۔ مگر اب امریکہ کی پالیسی کی وجہ سے یہ افراد چین اور بھارت واپس جا رہے ہیں اور وہاں اپنی ’’سیلیکان ویلی‘‘ قائم کر رہے ہیں۔امریکہ ایچ ون بی ویزا پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کر رہا ہے تاکہ وہاں جانے والے غیر ملکی طلبہ کی تعداد کم ہو جائے۔ سب سے زیادہ بھارتی طلبہ اس ویزا کے ذریعے امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر چند سال قیام کرکے وہیں ملازمت کرتے ہیں۔ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ ایچ ون بی ویزا امریکہ کے لیے ایک ’’خفیہ ہتھیار‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ویزا کے بغیر نہ گوگل وجود میں آتا، نہ سیلیکان ویلی جیسا تکنیکی مرکز قائم ہوتا۔ یہ واقعی ایک ’’جینیئس ویزا‘‘ ہے۔ تقریباً 30 فیصد پی ایچ ڈی طلبہ بیرونِ ملک سے آتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر سو فیصد پی ایچ ڈی ہولڈروں کا تعلق بیرونِ امریکہ سے ہوتا ہے۔ امریکہ ان ذہین افراد کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ لیتا ہے تاکہ یہ لوگ تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس اپنے وطن نہ جائیں۔ مگر اب نئی امریکی پالیسیوں کے سبب یہ لوگ چین اور بھارت واپس لوٹ رہے ہیں، جہاں وہ اپنی سیلیکان ویلی قائم کر رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو امریکہ کی ترقی اور خوشحالی کے اصل انجن تھے۔ اگر امریکہ ایچ ون بی ویزا کو ختم کر دیتا ہے تو اس کی معیشت سنگین بحران کا شکار ہو جائے گی۔ امریکی کانگریس کے ایک رکن نے وال اسٹریٹ جرنل میں لکھا کہ غیر ملکی ماہرینِ فنون و سائنس امریکیوں کی ملازمتوں پر قابض ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ ٹیکنالوجی کی معراج پر ہیں، بڑی صنعتیں قائم کر رہے ہیں اور دنیا بھر کے ماہرین امریکہ کی ساکھ اور معیشت کے ستون بن چکے ہیں۔ ہمارے اپنے ملک کو بھی ماہر طبیعات دانوں، سوشیالوجسٹوں اور انجینئروں کی ضرورت ہے تاکہ ہم بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔ یہی لوگ سیلیکان ویلی جیسے ترقیاتی ماڈل اپنے ملکوں میں بنا رہے ہیں۔
دو دن قبل ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ٹروتھ‘‘ پر ٹیرف سے متعلق ایک بڑا بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ٹیرف کی وجہ سے شیئر بازار میں بڑا اچھال آیا ہے اور روزانہ نئے ریکارڈ بن رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹیرف کے ذریعے سیکڑوں ارب ڈالر ملک کے خزانے میں آ رہے ہیں۔ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر کسی انتہا پسند بائیں بازو کی عدالت نے اس ٹیرف کے خلاف کوئی فیصلہ سنایا تو نہ صرف یہ دولت بلکہ قومی وقار بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ ان کے بقول ایسا فیصلہ امریکہ کو 1929 جیسے "گریٹ ڈپریشن” میں دھکیل سکتا ہے جس سے معیشت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی مگر اقتصادی ماہرین اس موقف سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے مطابق زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور عام صارفین کی جیب پر بوجھ بڑھ چکا ہے۔ ٹرمپ کے ابتدائی دور میں اوسط ٹیرف کی شرح 2.4 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 20.1 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اگر واقعی امریکہ ایک اور گریٹ ڈپریشن کی طرف بڑھ رہا ہے تو اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے، خاص طور پر بھارت پر، کیونکہ بھارت کی سب سے بڑی برآمدات امریکہ ہی کو جاتی ہیں۔
***
امریکہ میں مہنگائی ایک بار پھر قابو سے باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ "کور انفلیشن” (Core Inflation) — جو کہ روزمرہ اشیاء جیسے خوراک، توانائی، کرایہ اور بنیادی خدمات کو شامل کرتی ہے — جولائی 2025 میں 2.8 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو فیڈرل ریزرو کے مقررہ ہدف 2 فیصد سے خاصی زیادہ ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے کے سبب متوسط طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، اور صارفین کی قوتِ خرید میں نمایاں کمی آئی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025