امریکہ کے صدارتی انتخابات:ووٹ کے مقابلے میں نوٹ فیصلہ کن ثابت ہوئے
جو بائیڈن نے ہتھیار ڈال دیے ،کملا دیوی ہیرس کا مستقبل ؟
واشنگٹن: (دعوت انٹرنیشنل نیوز بیورو)
آخرکار صدر بائیڈن 2024 کی صدارتی دوڑ سے باہر ہوگئے۔ امریکہ کی 236 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ایک صدارتی امیدوار جو تمام کی تمام 50 ریاستوں اور وفاقی دارالحکومت میں انتخابات جیت کر نامزدگی کے لیے مندوبین کی مطلوبہ تعدادکی حمایت حاصل کرچکا ہو، میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس جمہوری تماشے کو سمجھنے کے لیے امریکہ کے انتخابی نظام پر چند سطور جو ہم اس سے پہلے بھی ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں۔
یہاں ٹکٹ، پارٹیوں کے پارلیمانی بورڈ سے جاری نہیں ہوتے، بلکہ نامزدگی کے لیے پارٹیوں کے پرائمری انتخابات منعقد ہوتے ہیں جن کا اہتمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔سیاسی جماعت کی رکنیت کے لیے بھی مرکزی مجلس عاملہ یا قیادت کی منظوری کی کوئی ضرورت نہیں اور ووٹ رجسٹر کراتے وقت جماعتی وابستگی ظاہر کرنابہت کافی ہے۔
بعض ریاستوں میں تو یہ تکلف بھی غیر ضروری ہے۔پرائمری کے روز پولنگ اسٹیشن جاکر آپ کسی بھی پارٹی کا بیلٹ حاصل کرسکتے ہیں۔
تمام جماعتیں اپنے امیدوار کا انتخاب مرکزی اجتماع میں کرتی ہیں اور ریاستی یا پرائمری انتخابات میں سالانہ اجتماع کے لیے مندوبین کا چناوہوتا ہے۔ہر ریاست سے مندوبین کی نشستیں آبادی کے مطابق ہیں۔پرائمری انتخابات میں امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے ان کے مندوبین کو منتخب قرار دے دیا جاتا ہے۔ اِس بار ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی اجتماع 12 سے 19 اگست تک شکاگومیں ہوگا جہاں 4514 مندوبین اپنے امیدوار کاچناوکریں گے۔
پارٹی کے پرائمری انتخابات کاآغاز 23 جنوری کو نیوہیمپشائر سے ہوا اور 8 جون کو جنوبی کیرولینا میں آخری پرائمری کے ساتھ یہ مرحلہ مکمل ہوگیا۔صدر بائیڈن کو ہر ریاست میں کامیابی نصیب ہوئی اور انہوں نے مجموعی طور پر ایک کروڑ 44 لاکھ 65 ہزار ووٹ حاصل کیے جو کل ووٹوں سے 87فیصد سے زیادہ ہے۔ نامزدگی کے لیے مندوبین کے 1886 ووٹوں کی ضرورت ہے جبکہ بائیڈن حمایت سے منتخب ہونے والے یعنی committed مندوبین کی تعداد 3586 ہے۔
بیاسی سالہ بائیڈن امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں۔ معاملہ محض عمر کا نہیں کہ ان کے حریف ڈونالڈ ٹرمپ عمر میں امریکی صدر سے صرف چار سال چھوٹے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے صدر بائیڈن لغزشِ زبان اور وقتی نسیان کا شکار نظر آنے کے ساتھ ان کی حرکات و سکنات سے خیالات کے الجھاو، بے ترتیبی و پراگندگی کا اظہار ہورہا ہے۔ اس کا بڑا مظاہرہ 27 جون کو صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کے مباحثے میں ہوا جب ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ گفتگوکا زیروبم غیر مستحکم تھا یعنی آواز کبھی اتنی ہلکی کہ جیسے سرگوشی فرمارہے ہیں اور کبھی ایسی کہ چلانے کا گماں ہو رہا تھا۔بحث کے دوران کئی بارایسا محسوس ہوا کہ گویا سوال انہیں سجھ میں ہی نہ آیا اور دماغی مشق و سوچ بچار کے بعد جب وہ بات کی تہہ تک پہنچے تو جواب دینے کے لیے الفاظ کے انتخاب میں غیر ضروری تاخیر ہوئی۔ اس صورتحال سے جناب ٹرمپ نے خوب فائدہ اٹھایا۔یعنی سابق صدر دھڑلے سے جھوت بولتے رہے اور بائیڈن صاحب سے بولا ہی نہ گیا۔ اپنی خراب کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے اسے سفرِ یورپ، نزلے اور تھکن کاشاخسانہ قرار دیا۔
اس کے دو ہفتے بعد واشنگٹن میں نیٹو کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات ہوئیں اور عالمی رہنماوں کے سامنے ان کی کارکردگی خاصی بہتر رہی۔ اسرائیل کے معاملے پر جناب بائیڈن اور ترک صدر کے درمیان سخت جملوں کے تبادلے ہوئے لیکن امریکی صدر نے معاملے کو متانت سے سنبھال لیا۔ اس دوران بھی لغزشِ زبان کاایک دلچسپ واقعہ پیش آیا کہ یوکرین کے صدر ولادیمر زیلینسکی کو دعوت خطاب دیتے ہوئے جناب بائیڈن ان کو صدر پوتن کہہ گئے۔نیٹو اجلاس کے اختتام پرصدر بائیڈن نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔اخباری کانفرنس کا مقصد بھی اپنی صلاحیتوں خاص طورسے معاملہ فہمی اور حاضر جوابی پر اپنے رفقا کو اعتماد میں لینا تھا۔ پریس کانفرنس میں کوئی بڑی غلطی سرزد نہ ہوئی لیکن انہیں صحافیوں کے نام یاد رکھنے میں دقت محسوس ہوئی اور وہ بات چیت کے دوران برجستگی سےمحروم نظر آئے۔
اس خراب کارکردگی پر ڈیموکریٹک پارٹی کے اندرونی حلقوں نے تشویش کا اظہار تو کیا لیکن بھاری اکثریت سےپرائمری انتخابات میں کامیابی کے بعد ان سے دستبردار ہونے کی درخواست کا کوئی قانونی و اخلاقی جواز نہیں تھا۔
جناب بائیڈن بھی ہر تقریب میں جوش خروش سے کہتے رہے کہ میں نومبر میں ٹرمپ کو شکست دوں گا۔انہوں نے خود کو فِٹ ثابت کرنے کے لیےمکمل طبی معائنے کی پیشکش بھی کی۔
***
***
بیاسی سالہ بائیڈن امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں۔ معاملہ محض عمر کا نہیں کہ ان کے حریف ڈونالڈ ٹرمپ عمر میں امریکی صدر سے صرف چار سال چھوٹے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے صدر بائیڈن لغزشِ زبان اور وقتی نسیان کا شکار نظر آنے کے ساتھ ان کی حرکات و سکنات سے خیالات کے الجھاو، بے ترتیبی و پراگندگی کا اظہار ہورہا ہے۔ اس کا بڑا مظاہرہ 27 جون کو صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کے مباحثے میں ہوا جب ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ گفتگوکا زیروبم غیر مستحکم تھا یعنی آواز کبھی اتنی ہلکی کہ جیسے سرگوشی فرمارہے ہیں اور کبھی ایسی کہ چلانے کا گماں ہو رہا تھا۔بحث کے دوران کئی بارایسا محسوس ہوا کہ گویا سوال انہیں سجھ میں ہی نہ آیا اور دماغی مشق و سوچ بچار کے بعد جب وہ بات کی تہہ تک پہنچے تو جواب دینے کے لیے الفاظ کے انتخاب میں غیر ضروری تاخیر ہوئی۔ اس صورتحال سے جناب ٹرمپ نے خوب فائدہ اٹھایا۔یعنی سابق صدر دھڑلے سے جھوت بولتے رہے اور بائیڈن صاحب سے بولا ہی نہ گیا۔ اپنی خراب کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے اسے سفرِ یورپ، نزلے اور تھکن کاشاخسانہ قرار دیا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جولائی تا 03 اگست 2024