!امریکی امداد:خیرخواہی یا اقتصادی غلامی کی زنجیر

ڈالرس کی سوغات اور بھارتی سیاست: کون کس کو قابو میں رکھ رہا ہے؟

0

نوراللہ جاوید

سیاسی الزامات اور بیرونی مداخلت: حقیقت کیا ہے؟
بھارت کی خودمختاری پر عالمی طاقتوں کی نظریں ۔ غیر ملکی اثر و رسوخ کا تجزیہ
امریکی امداد اور بیرونی ممالک کے شہریوں سے تعلقات کے حوالے سے ایک واضح قانون اور اصول مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی آلودگی اور بے جا الزامات سے بچا جا سکے۔
تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک کے سیاسی و معاشی امور میں ترقی یافتہ اقوام کی مداخلت، من پسند حکم رانوں کو اقتدار سونپنے یا انہیں معزول کرنے کا کھیل کوئی نیا نہیں ہے۔ غیر ملکی امداد کے بعض مثبت معاشی اور سیاسی اثرات بھی ہوتے ہیں، مگر ترقی پذیر ممالک میں سیاسی شرکت اور سماجی پروگراموں کے لیے دی جانے والی فنڈنگ کے ذریعے عطیہ دہندگان اکثر اپنے مفادات کے مطابق سیاسی یا اقتصادی پالیسیاں ترتیب دلواتے ہیں یا پورے نظام کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ابھرتی ہوئی معیشتوں جیسے بھارت کو اپنے سیاسی، سماجی اور معاشرتی ترقی کے لیے غیر ملکی امداد لینی چاہیے یا نہیں، یہ ایک اہم سوال ہے، کیونکہ غیر ملکی امداد قومی وقار اور خودمختاری کے خلاف بھی سمجھی جا سکتی ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، دوسری مدت کے آغاز کے بعد غیر روایتی بیانات کے ذریعے عالمی سطح پر ہنگامہ برپا کر چکے ہیں۔ جارحیت اور استعماریت کے خطرات کئی گنا بڑھ چکے ہیں اور ٹرمپ اپنے ہی حلیف ممالک اور دیرینہ اتحادیوں کو خوف زدہ کر چکے ہیں۔ وہ سفارتی تعلقات کو ازسرنو مرتب کر رہے ہیں اور اس کے لیے سفارتی آداب کی بھی پروا نہیں کر رہے ہیں۔
یہ سوال اہم ہے کہ ٹرمپ عالمی امن کے لیے کس قدر خطرہ ہیں اور بھارت کی جانب سے ان کے لیے حد سے زیادہ عقیدت کا اظہار ملک کے مفاد میں ہے یا نہیں؟ مگر اس اہم بحث کو عوامی گفتگو کا حصہ بنانے کے بجائے بھارتی میڈیا اور سیاست دانوں نے محض اس پہلو پر زور دیا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے USAID (جس کے ذریعے امریکہ دنیا بھر میں مختلف سماجی و معاشرتی پروگراموں میں مدد فراہم کرتا ہے) کو بند کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اس کے بعد ٹرمپ نے بھارت کے لیے امداد بند کرنے کے فیصلے کو جس انداز میں عوامی گفتگو کا حصہ بنایا وہ انتہائی تضحیک آمیز تھا اور ان کی استعماری سوچ کی عکاسی کرتا تھا۔
بھارتی میڈیا اور سیاست دانوں نے اس معاملے کو جس انداز میں پیش کیا وہ نہ صرف میڈیا کے زوال کو ظاہر کرتا ہے بلکہ سیاسی مباحثے کے معیار پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ USAID نے طویل عرصے تک بھارت میں مختلف شعبوں میں حکومت کے ساتھ شراکت داری کی مگر اس پروگرام کی حد کیا تھی اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے، اس کے بارے میں مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ اس وجہ سے اس موضوع پر ہونے والی کسی بھی بحث کا غیر متعلقہ اور متعصب ہونا فطری امر ہے۔
گلوبلائزڈ دنیا میں دشمن ممالک پر ہتھیاروں سے حملہ کرنے یا سرحدوں پر جنگ لڑنے کے بجائے سرمایہ، ٹیکنالوجی اور صلاحیت کے ذریعے انہیں زیر کیا جاتا ہے۔ ایسے میں سیاسی مخالفین کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دینا محض ایک پروپیگنڈہ حربہ ہو سکتا ہے، مگر اس طرح کی بحث نہ صرف سیاسی ماحول کو زہر آلود کرتی ہے بلکہ عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کی بھارت کی خواہشات کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ پوری گفتگو کا زیادہ تر حصہ غلط معلومات اور غلط تشریحات پر مشتمل ہے۔ امریکہ کو اپنے داخلی اسباب کی بنیاد پر کسی بھی پروگرام کو جاری رکھنے یا بند کرنے کا مکمل حق حاصل ہے، مگر جس انداز میں ٹرمپ نے تضحیک آمیز لہجے میں اس پروگرام کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے اس پر بھارت کی جانب سے سخت تنقیدی ردعمل دینا ضروری تھا۔ یا پھر یو ایس اے آئی ڈی پروگرام کے تحت فراہم کی جانے والی امداد کا شفاف آڈٹ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ بھارت کو یہ امداد لینا چاہیے یا نہیں۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اگر مختلف سماجی و معاشی پروگراموں میں غیر ملکی تعاون یا اشتراک کو داخلی معاملات میں مداخلت تصور کیا جائے تو بھارت بھی دنیا کے مختلف ممالک کو امداد فراہم کرتا ہے۔ 2000ء سے بھارت کی وزارتِ خارجہ نے 65 سے زائد ممالک کو گرانٹس، لائن آف کریڈٹ اور صلاحیت سازی کے پروگراموں کے ذریعے 48 بلین ڈالر سے زیادہ کی مالی امداد فراہم کی ہے۔ یہ ایک خوش آئند پہلو ہے کہ بھارت کا عالمی کردار گزشتہ دہائیوں میں تبدیل ہو رہا ہے اور اب وہ بھی عطیہ دہندگان کی صف میں شامل ہو چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا بھارت بھی ان 65 ممالک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر غیر ملکی امداد پر بے جا تنقید اور غیر متعلقہ مباحث کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کے بجائے ایک واضح پالیسی اور مضبوط حکمتِ عملی مرتب کرنا زیادہ ضروری ہے۔ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ جب بھارت خود گزشتہ 25 برسوں سے مختلف ممالک کو امداد فراہم کر رہا ہے، تو پھر اسے یو ایس اے آئی ڈی پروگرام کے تحت عطیات لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکی امداد مودی حکومت کے دور میں بھی بھارت کو ملتی رہی ہے۔ ٹی وی چینلوں کی گمراہ کن بحثوں میں چاہے جو بھی دعوے کیے جائیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا گزشتہ دس برسوں میں امریکہ سے ملنے والی امداد کے بارے میں مودی انتظامیہ کو علم نہیں تھا؟
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے انتخابی عمل پر امریکی امداد نے کوئی اثر ڈالا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ ایک سنگین مسئلہ اور جمہوری اقدار کے لیے ایک المیہ ہے۔ مزید برآں، یہ بھی غور طلب ہے کہ صدر ٹرمپ نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) کی شفافیت پر جو سوالات اٹھائے تھے کیا وہ بھارت کے انتخابی عمل میں مداخلت کے مترادف نہیں تھے؟
میڈیا اور حکومتی گٹھ جوڑ کے تحت کانگریس کو نیچا دکھانے کی بحث کے دوران انگریزی اخبار "انڈین ایکسپریس” نے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کرکے بحث کا رخ موڑ دیا۔ اخبار نے 2013 سے بھارت کو ملنے والی امریکی امداد کا جائزہ لیا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ یو ایس ایڈ نے بھارت کو "ووٹر ٹرن آؤٹ” بڑھانے کے لیے 21 ملین ڈالر فراہم کیے مگر انگریزی اخبار نے اپنی رپورٹ میں اس دعوے کو مکمل طور پر غلط قرار دیا۔ 2008 سے 2024 کے درمیان یو ایس اے آئی ڈی نے بنگلہ دیش میں ووٹر ٹرن آؤٹ کے لیے 23.6 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی تھی جو اس وقت کی وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت میں دی گئی۔
گزشتہ پندرہ برسوں میں حسینہ واجد نے انتخابی عمل کو متاثر کیا اور جمہوریت کو محض ایک رسمی حیثیت دے دی، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ آج اپنے زوال کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھیرا رہی ہیں۔ بھارتی میڈیا میں بھی ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ امریکہ نے اپوزیشن جماعتوں اور طلبہ کی مدد کرکے حسینہ واجد کے زوال پر مہر لگا دی۔
امریکی ایجنسیاں اور انتظامیہ حسینہ واجد پر جمہوریت کے غلط استعمال اور اپوزیشن کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کے الزامات عائد کرتی رہی ہیں، مگر اس کے باوجود امریکہ نے ووٹر ٹرن آؤٹ میں اضافے کے لیے امداد جاری رکھی۔ اگر حسینہ حکومت نے اس امداد کا استعمال اپوزیشن کو خاموش کرانے کے لیے کیا تو امریکہ نے اس پر کوئی ردعمل کیوں ظاہر نہیں کیا؟
امریکی جریدے "انڈیا ٹوڈے” کے ڈیٹا انٹیلیجنس یونٹ نے 24 برسوں میں بھارت کو ملنے والی امریکی امداد کا تجزیہ کیا اور فارن اسسٹنس ویب سائٹ پر موجود سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر لکھا کہ 2001 سے 2024 کے درمیان یو ایس اے آئی ڈی نے بھارت کو مجموعی طور پر 2.9 بلین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ یہ امداد اوسطاً 119 ملین ڈالر سالانہ بنتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1.3 بلین ڈالر، یعنی کل امداد کا 44.4 فیصد، بی جے پی کی زیر قیادت قائم نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (NDA) حکومت (2014-2024) کے دوران فراہم کیا گیا، جبکہ کانگریس کی قیادت میں متحدہ ترقی پسند اتحاد (UPA) کے دور حکومت (2004-2013) میں بھارت کو 1.2 بلین ڈالر کی امداد ملی جو کُل امداد کا 41.3 فیصد بنتی ہے—یہ مودی حکومت کے حصے سے محض 3 فیصد کم ہے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مودی حکومت کے دوران امریکی امداد میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں یو ایس اے آئی ڈی کے ذریعے ملنے والی رقم کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہ فنڈز کن سالوں میں موصول ہوئے اور کہاں خرچ کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق اس رقم کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ گزشتہ چار برسوں میں ملا ہے۔ یو ایس اے آئی ڈی نے بھارت کو 2021 سے 2024 کے درمیان کل امداد کا 23 فیصد، یعنی 650 ملین ڈالر فراہم کیے، جس میں سب سے زیادہ امداد 2022 میں 228.2 ملین ڈالر رہی۔
علاوہ ازیں، 2.9 بلین ڈالر صحت اور آبادی کے شعبے میں خرچ کرنے کے لیے دیے گئے جو کل فنڈز کا 56 فیصد بنتا ہے، جبکہ "گورننس” کے شعبے کو صرف 4.2 فیصد یعنی 121 ملین ڈالر کی محدود رقم ملی۔ ان 121 ملین ڈالر میں سے 26.6 ملین ڈالر "گورنمنٹ اینڈ سول سوسائٹی” کے تحت تقسیم کیے گئے جبکہ باقی 94.7 ملین ڈالر دیگر سماجی بنیادی ڈھانچے اور خدمات کے لیے مختص کیے گئے۔ "گورنمنٹ اینڈ سول سوسائٹی” کے لیے دیے گئے 26.6 ملین ڈالر میں سے 14.6 ملین ڈالر انتخابات، جمہوری شرکت، اور سول سوسائٹی کے مقاصد کے لیے مختص کیے گئے۔
انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر انکار کیا ہے کہ ووٹ ٹرن آؤٹ میں اضافے کے لیے بھارت کو کوئی امداد دی گئی ہو۔ یہ تفصیلات ظاہر کرتی ہیں کہ گزشتہ 24 برسوں میں مختلف محکموں کو امریکی امداد موصول ہوئی ہے جو کہ مودی حکومت اور کانگریس، دونوں کے دور اقتدار میں جاری رہی۔
یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ طاقتور ممالک کی مالی امداد کے پیچھے محض انسانی خدمات کا جذبہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے اثر و رسوخ بڑھانے کا مفاد کارفرما ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین غیر ملکی امداد کو نوآبادیاتی تجارتی نظام کا تسلسل سمجھتے ہیں۔ کم ترقی یافتہ ممالک جو اکثر سابقہ نوآبادیات رہی ہیں اپنی معیشتوں کو نوآبادیاتی آقاؤں کے صنعتی شعبے کے لیے خام مال فراہم کرنے پر مجبور پاتے ہیں۔ آزادی کے بعد، بیشتر سابق نوآبادیاتی ممالک کے پاس جدید صنعتی معیشتیں یا تربیت یافتہ افرادی قوت نہیں تھی جو عالمی منڈی میں مسابقت کر سکتی۔ نتیجتاً انہوں نے بدستور سستا خام مال برآمد کیا جبکہ صنعتی ممالک نے تیار شدہ مصنوعات انہی ممالک کو مہنگے داموں فروخت کیں۔
بھارت بھی انہی سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں سے ایک ہے تاہم، اس کے پاس ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کی بھرپور صلاحیت اور افرادی قوت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے، جیسے کہ عالمی بینک، ورلڈ ٹریڈ یونین اور دیگر مالیاتی ادارے، بھارت جیسے ممالک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مختلف معاہدوں کے ذریعے ایسی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں جو ان کی معاشی خود مختاری کو متاثر کرتی ہیں۔ امریکی سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹیرف کے مسئلے پر بھارت کے خلاف کئی بیانات دیے، جس کا مقصد بھارت کی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کی حیثیت کو کمزور کرنا تھا۔ اس تاثر کو بھی فروغ دینے کی کوشش کی گئی کہ بھارت امریکی امداد پر انحصار کرتا ہے، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
امریکی امداد اور غیر ملکی حکومتوں سے تعلقات کے حوالے سے بھارت کو ایک واضح قانون اور پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں سیاسی الزامات اور غداری کے لیبل چسپاں کرنے کا جو سلسلہ جاری ہے، وہ ایک سنگین مذاق بن چکا ہے۔ آسام میں گورو گگوئی کی برطانوی نژاد بیوی کے معاملے پر سیاست جس انداز میں کی جا رہی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اگر ان کا تعلق کسی غیر ملکی ایجنسی سے رہا ہے تو اس کی تحقیقات کا اختیار وزارت خارجہ اور مرکزی حکومت کی ایجنسیوں کو حاصل ہے، مگر آسام حکومت نے اس معاملے پر ایس آئی ٹی تشکیل دے کر اسے مقامی سیاست کی نذر کر دیا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ مرکز اور آسام، دونوں جگہ بی جے پی کی حکومت ہے اور آسام حکومت جانچ کی محض سفارش کر سکتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا آسام ایس آئی ٹی کو بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کا اختیار حاصل ہے؟
دراصل، بھارت میں ایک دوسرے کو غدار قرار دینے کا کھیل کافی پرانا ہے۔ ماضی میں اس کا نشانہ زیادہ تر مسلمان بنتے رہے۔ ان کی وفاداری پر شبہ کرنا اور انہیں بار بار مشکوک قرار دینا عام بات تھی۔ تاہم، جب ہندو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد غداری اور جاسوسی کے الزامات میں گرفتار ہوتے ہیں تو میڈیا اور سیاسی حلقوں میں مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں کئی اعلیٰ عہدے داروں کو گرفتار کیا گیا، مگر سوال یہ ہے کہ ان میں سے کتنے افراد کے خلاف مکمل تحقیقات ہوئیں اور کتنے کو سزا دی گئی؟
یہ بھی غور طلب ہے کہ اگر یہی لوگ مسلمان ہوتے تو میڈیا اور سیاسی قیادت کا ردعمل کس قدر شدید ہوتا؟ ٹرمپ اور ایلون مسک کے بیانات کے بعد کانگریس کو بدنام کرنے کے لیے جو مہم چلائی گئی وہ انتہائی افسوسناک تھی اور جھوٹ اور فریب کی سیاست کی واضح مثال ہے۔

 

***

 یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ طاقتور ممالک کی مالی امداد کے پیچھے محض انسانی خدمات کا جذبہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے اثر و رسوخ بڑھانے کا مفاد کارفرما ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین غیر ملکی امداد کو نو آبادیاتی تجارتی نظام کا تسلسل سمجھتے ہیں۔ کم ترقی یافتہ ممالک جو اکثر سابقہ نوآبادیات رہی ہیں، اپنی معیشتوں کو نوآبادیاتی آقاؤں کے صنعتی شعبے کے لیے خام مال فراہم کرنے پر مجبور پاتے ہیں۔ آزادی کے بعد، بیشتر سابق نوآبادیاتی ممالک کے پاس جدید صنعتی معیشتیں یا تربیت یافتہ افرادی قوت نہیں تھی جو عالمی منڈی میں مسابقت کر سکتی۔ نتیجتاً، انہوں نے بدستور سستا خام مال برآمد کیا، جبکہ صنعتی ممالک نے تیار شدہ مصنوعات انہی ممالک کو مہنگے داموں فروخت کیں


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 مارچ تا 08 مارچ 2025