امریکی گروتھ کا غبارہ پھٹنے کے قریب: ماہرین کا انتباہ

دنیا کی سب سے بڑی معیشت پر 36ٹریلین ڈالر کا قرض ۔ معاشی بحران کے خدشات بڑھنے لگے

0

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

مستقبل کی معیشت: کیا سونا اور چاندی سب سے محفوظ سرمایہ ہیں؟
عالمی بازاروں میں امریکہ کا حصہ غیر معمولی طور پر بہت زیادہ ہے جسے ماہرین اب "غبارہ” (Bubble) کہہ رہے ہیں جو بہت جلد پھٹنے والا ہے۔ تقریباً تمام وال اسٹریٹ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 2025 میں بھی امریکی معیشت بقیہ دنیا کے مقابلے میں بہتر مظاہرہ کرے گی۔ وال اسٹریٹ کا رجحان اب مرکزی میڈیا تک بھی پہنچ رہا ہے۔ یہ بازار کے رجحانات کو عموماً اسی وقت نمایاں کرتا ہے جب وہ پوری طرح ثابت ہوچکے ہوتے ہیں اور اختتام کے قریب ہوتے ہیں۔
ایسے حالات میں امریکی عظمت کا ڈھنڈورا محض ریڈیو، ٹی وی، پوڈکاسٹ، اور اخباروں کے کالموں تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ مستقبل کے رجحانات کو جھٹلانے کا امریکیوں کا پرانا طریقہ ہے۔ البتہ امریکہ اپنے کارپوریٹس کی بے تحاشا آمدنی کی وجہ سے بلند مقام پر برقرار رہ سکتا ہے۔ اگر بڑی ٹیک کمپنیوں کو غیر معمولی منافع نہ ہو اور ان کی کمائی میں کمی آجائے یا حکومت بڑے پیمانے پر خرچ نہ کرے تو اس کی آمدنی میں بھی اضافہ نہیں ہوگا۔ وقت کے ساتھ بڑے پیمانے پر حاصل کردہ منافع مسابقت کے تحت منظم ہوجاتے ہیں۔ پھر اب تک درج شدہ سب سے بڑے خسارے کے اخراجات سے ترقی اور منافع کو مصنوعی طور پر بڑھا ہوا دکھایا جا رہا ہے۔
اکثر ماہرین اقتصادیات کا ماننا ہے کہ امریکی خاندانوں اور کمپنیوں کی بیلنس شیٹس اچھی حالت میں ہونے کی وجہ سے معیشت میں استحکام رہے گا۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ٹیرف اور امیگریشن پالیسیوں کے حوالے سے چند ماہرین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس عمل سے امریکہ کے بجائے زیادہ تر غیر ملکی معیشتیں خسارے میں چلی جائیں گی۔
اگر کوئی دوسرا ملک اس طرح بے تحاشا اخراجات کر رہا ہوتا تو سرمایہ کار وہاں سے اپنا سرمایہ نکال چکے ہوتے، لیکن چونکہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور ریزرو کرنسی جاری کرنے والا ملک ہے اس لیے وہ مختلف اقتصادی چالیں آزمانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم، یہ بھی ممکن ہے کہ بڑے خسارے یا نیلامی سے پریشان ہو کر سرمایہ کار اگلے سال تک امریکہ میں بلند شرحِ سود یا کم مالی خسارے (Fiscal Deficit) کی پالیسی کے رجحان کا جائزہ لینے لگیں۔ اگر ایسا ہوا تو امریکہ کا سرکاری خرچ پر انحصار کم ہوجائے گا جس کے نتیجے میں معاشی نمو اور کارپوریٹ منافع کمزور ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ کے سرکاری قرضے کی لت خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے اور ملک پر قرض کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ فرانس اور جرمنی اپنی معیشتوں کو بہتری کی جانب لے جانے کی کوشش کریں گے، جیسے ایک دہائی قبل اسپین اور یونان نے کیا تھا جب عالمی اقتصادی بحران آیا تھا۔
ممکن ہے کہ صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اور گھریلو طلب کی کمی کے دباؤ میں آ کر چین بھی اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کھپت (Consumption) میں اضافہ کرے۔ اگر امریکہ کی اقتصادی شرح نمو کم ہوجائے یا دنیا کی دیگر بڑی معاشی طاقتیں تیزی سے ترقی کرنے لگیں تو امریکہ کی غیر معمولی برتری ختم ہو سکتی ہے۔
بڑے اقتصادی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ گزشتہ ایک صدی سے دنیا کا سب سے بڑا بازار رہا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ گزشتہ گیارہ دہائیوں میں سے چھ میں اس کا شیئر بازار بقیہ دنیا کے مقابلے میں پیچھے رہا۔ ابھی حالیہ 2000 کی دہائی میں اس نے صفر ریٹرن دیا جبکہ ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی قدر تین گنا بڑھ گئی۔ اقتصادی غبارے (Bubble) ہمیشہ غیر متوقع طور پر پھٹتے ہیں اور ان کا قبل از وقت اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔
امریکی معیشت پر بڑھتے ہوئے قرضے کا بحران
جاریہ سال میں امریکی معیشت کے کساد بازاری (Recession) کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ ملک پر بڑھتا ہوا قرض ہے۔ امریکہ پر اس وقت 36 ٹریلین ڈالر کا قرض ہے جو عالمی قرض کا 34.6 فیصد بنتا ہے۔ یہ قرض ایک نئی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔
زیادہ مالی خسارے (Fiscal Deficit) اور مسلسل قرض لینے کی پالیسی کے باعث امریکی حکومت پر قرض کا بوجھ حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ اس بھاری قرض پر سالانہ سود ہی ایک ٹریلین ڈالر (10 لاکھ کروڑ روپے) سے تجاوز کر چکا ہے۔ یہی مسلسل قرضے امریکی ڈالر کو مصنوعی طور پر مضبوط رکھے ہوئے ہیں جبکہ دوسری کرنسیاں جیسے بھارتی روپیہ، کمزور ہو رہا ہے۔
مالیاتی ٹیکنالوجی کمپنی "اسمال کیس” کی ایک تحقیقی رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ اسٹاکس، بٹ کوائن، بڑے قرضوں پر مبنی سرمایہ کاری اور میم اسٹاکس میں غیر معمولی اور غیر مستحکم تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ مندی کی صورت میں سونا اور چاندی محفوظ سرمایہ ثابت ہوئے ہیں اور یہی رجحان حالیہ برسوں میں بھی دیکھنے کو ملا ہے، خاص طور پر 2000 اور 09-2008 کے عالمی معاشی بحران کے دوران۔ اگر امریکہ میں مندی آتی ہے تو سونے اور چاندی کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں اور سرمایہ کار ان دھاتوں کو ایکویٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا متبادل سمجھ سکتے ہیں۔
ایلن مسک اور امریکی معیشت کے بحران پر انتباہ
ایلن مسک نے جو امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کے حامی رہے ہیں، چند ماہ قبل اپنے ایک ٹویٹ میں جو خدشات ظاہر کیے تھے وہ اب حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔ ٹرمپ کے اقتدار میں واپسی کے بعد یہ بیانیہ مزید کھل کر سامنے آ رہا ہے کہ "امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں گے”— جو اسی وقت ممکن ہوگا جب معیشت کے پاس مناسب مالی وسائل ہوں۔
ٹرمپ نے چینی صدر کو امریکہ آنے کی دعوت دی ہے تاکہ دونوں ممالک معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے مذاکرات کریں کیونکہ امریکہ خود "دیوالیہ ہونے” (Bankruptcy) کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اگر امریکہ واقعی دیوالیہ ہوگیا تو ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے، بے چینی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا جس سے مہنگائی بھی قابو سے باہر ہو جائے گی۔
گزشتہ سال امریکی حکومت نے جو پرسنل انکم ٹیکس جمع کیا اس کا 23 فیصد صرف قرض کے سود کی ادائیگی میں چلا گیا۔ ایسی صورت میں حکومت کے پاس اسکولوں، ہسپتالوں اور سوشل سیکیورٹی کے لیے فنڈز نہیں بچتے۔ اس وقت امریکہ کا مجموعی قرضہ اس کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہو چکا ہے جو ایک خطرناک اشارہ ہے۔
ایلن مسک نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی حکومت نے اپنی مالیاتی پالیسی میں اصلاحات نہیں کیں تو امریکی ڈالر کی قدر کمزور ہو جائے گی اور یہ معمولی معیشتوں کی کرنسیوں کے برابر آ سکتا ہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ امیروں پر ٹیکس میں اضافہ کریں اور عوام کو مشورہ دیا ہے کہ اگر افراطِ زر (Inflation) بڑھتا ہے تو وہ رئیل اسٹیٹ، زیادہ منافع دینے والی کمپنیوں اور سونے میں سرمایہ کاری کریں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025