امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ ۔ایک جائزہ

بھارت میں اقلیتوں کے مذہبی حقوق سلب کیے جانے اور نفرتی قوانین کا الزام

شہاب فضل، لکھنؤ

بھارتی حکومت کی نظر میں امریکی رپورٹ متعصبانہ اور ‘سیاسی ایجنڈے’کا نتیجہ
امریکہ کی دُہری پالیسی کے باعث کمیشن کی رپورٹ کے سیاسی معانی نکال کر دامن چھڑانے کی کوشش
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے بھارت میں مذہبی آزادی کے گرتے ہوئے حالات پر 2 اکتوبر کو واشنگٹن ڈی سی میں کنٹری اپڈیٹ کے طور پر اپنی ایک رپورٹ جاری کی جو اس بات کو نمایاں کرتی ہے کہ بھارت میں کس طرح 2024ء کے دوران چوکس نگرانی والے متشدد گروہوں نے لوگوں کو قتل کیا، پیٹ پیٹ کر مارڈالا یا بری طرح زدو کوب کیا، مذہبی رہنماؤں کو من مانے طور پر گرفتار کیا گیا اور گھروں اور عبادت گاہوں کو مسمار کیا گیا۔ یہ واقعات خاص طور پر مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ رپورٹ میں مذہبی اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف پرتشدد حملوں کو اکسانے کے لیے سرکاری اہلکاروں کی طرف سے نفرت انگیز تقاریر سمیت غلط اور گمراہ کن معلومات کے استعمال کا ذکر کیا گیا ہے اور جون 2024 کے عام انتخابات کے دوران منافرت انگیز تقریروں و بیانات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہندوستان کے قانونی ڈھانچے میں تبدیلیوں، بشمول شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) ریاستوں میں یکساں سِول کوڈ اور ریاستی سطح کے تبدیلی مذہب مخالف اور گائے ذبیحہ مخالف قوانین کے نفاذ کا بھی ذکر ہے۔
بھارت نے رپورٹ کو مسترد کیا
حکومت ہند نے اس رپورٹ کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور کہا کہ یو ایس سی آئی آر اپنا وقت امریکہ میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں صرف کرے تو بہتر ہوگا۔ بھارت کی حکومت نے حالانکہ امریکہ کے کسی کیس کا ذکر نہیں کیا مگر ایسا کم ہی ہوا ہے جب حکومت نے امریکہ میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی کی بات کہی ہو۔
ملحوظ خاطر رہے کہ ادھر کچھ برسوں سے امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹس میں بھارت میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں اور تبدیلی مذہب کے اقلیت مخالف سخت قوانین سمیت دیگر اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سالانہ رپورٹ جاری کرنے کے ساتھ ہی یہ ادارہ وقفہ وقفہ سے مذہبی آزادی سے متعلق الگ الگ مسائل پر (اپڈیٹ) پیش رفت رپورٹ بھی جاری کرتا ہے اور 2 اکتوبر کو ایسی ہی ایک رپورٹ پر بھارتی حکومت نے اپنا ردّعمل ظاہر کیا اور کہا کہ یو ایس سی آئی آر ایف ایک متعصب ادارہ ہے جس کا اپنا سیاسی ایجنڈا ہے۔
بہر حال 7 صفحات پر مشتمل پیش رفت رپورٹ کی تلخیص کچھ یوں ہے: ’’ہندوستان میں مذہبی آزادی کے حالات بدستور بگڑے ہوئے ہیں اور خطرناک راہ پر ہیں۔ بھارتی حکومت تبدیلی مذہب مخالف قوانین، گائے ذبیحہ کی روک تھام کے قوانین اور انسداد دہشت گردی قوانین جیسی متعصبانہ قانون سازی کے ذریعے مذہبی طبقات پر جبر اور پابندیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسا کرتے ہوئے حکام نے متعدد افراد کو من مانی طور پر حراست میں لیا ہے جو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ گرفتار شدگان میں مذہبی رہنما، صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں اور بعض صورتوں میں انہیں برسوں سے بغیر کسی کارروائی کے حراست میں رکھا گیا ہے۔ بھارتی حکام نے مذہبی اقلیتوں کے بارے میں جھوٹے بیانیہ کو تقویت دینے کے لیے مسلسل طور سے نفرت انگیز اور توہین آمیز زبان اور جھوٹی باتوں کا سہارا لیا ہے اور وسیع پیمانہ پر تشدد، لنچنگ اور عبادت گاہوں کے انہدام پر اکسایا ہے‘‘۔
رپورٹ کے پس پشت سیاسی ایجنڈا!
پریس کلب آف انڈیا کے صدر اور چالیس سال سے سرگرم صحافت سے وابستہ مسٹر گوتم لاہری نے بھارت میں مذہبی آزادی کے مسئلہ کو ایک داخلی معاملہ قرار دیا۔ ایک خاص بات چیت میں انہوں نے کہا کہ امریکی کمیشن کی رپورٹ پڑھنے میں تو اچھی لگتی ہے مگر یہ سیاسی ایجنڈے سے خالی نہیں اور اسے بہت زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔ ان ہوں نے کہاکہ بعض دفعہ ان رپورٹوں کا مقصد عوام کو بھڑکانا ہوتا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے حکومتوں کو کمزور کیا ہے اور انہیں گرایا ہے ۔
یو ایس سی آئی آر ایف کی سالانہ رپورٹ کی سفارشات
دنیا بھر میں مضبوط حکومت اور حکم رانوں کے سامنے اور استعماری و سیاسی چالبازیوں کے درمیان حقوق انسانی کی تنظیموں کی حیثیت حالانکہ کاغذی نظر آتی ہے، مگر بڑی عالمی تنظیموں کے دستاویزات کو پوری طرح نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا ۔
اس سے قبل یکم مئی 2024ء کو جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ 2024 میں یو ایس سی آئی آر ایف نے سفارش کی تھی کہ امریکی محکمہ خارجہ بھارت کو مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کے باعث خاص’ تشویش والا ملک‘ (سی پی سی) قرار دیا تھا۔ اس رپورٹ میں متعدد پالیسی سفارشات تجویز کی گئیں جنہیں امریکی حکومت ہندوستان میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے اپنا سکتی ہے۔ ان سفارشات میں مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے ذمہ دار سرکاری اہلکاروں پر ہدفی پابندیاں عائد کرنا، مذہبی آزادی کے بہتر حالات کے ساتھ اسلحے کی فروخت کو مشروط کرنا اور ہندوستانی حکومت کے ہم منصب عہدیداروں کے ساتھ دو طرفہ میٹنگوں میں مذہبی آزادی کی ترجیحات کو سامنے رکھنا شامل ہیں۔
سالانہ رپورٹ میں یو ایس سی آئی آر ایف نے کہا کہ 2023ء میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ بی جے پی کی زیرقیادت حکومت نے امتیازی قوم پرست پالیسیوں کو تقویت دی، نفرت انگیز بیان بازی کو بڑھاوا دیا اور فرقہ وارانہ تشدد سے نمٹنے میں ناکام رہی جن سے مسلمان، عیسائی، سکھ، دلت اور آدیواسی وسیع پیمانہ پر متاثر ہوئے۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) غیر ملکی عطیات ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر اے) شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) اور تبدیلی مذہب اور گائے ذبیحہ قوانین کے مسلسل نفاذ سے مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مذہبی اقلیتوں کی وکالت کرنے والے افراد اور اداروں، ان کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والی نیوز میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں (این جی او) کو ایف سی آر اے کے ضوابط کے تحت سخت نگرانی کا نشانہ بنایا گیا۔ فروری 2023 میں بھارت کی وزارت داخلہ نے سنٹر فار پالیسی ریسرچ کا ایف سی آر اے لائسنس معطل کر دیا۔ یہ ایک این جی او ہے جو سماجی مسائل اور مذہبی و نسلی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے بارے میں رپورٹنگ کے لیے وقف ہے۔ اسی طرح حکام نے نیوز کلک کے صحافیوں کے دفاتر اور گھروں پر چھاپے مارے جن میں تیستا سیتلواڈ بھی شامل ہیں جنہوں نے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران مسلم مخالف تشدد پر رپورٹنگ کی۔ 2023 میں متعدد این جی اوز نے عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 687 واقعات کی اطلاع دی جنہیں مختلف ریاستوں میں انسداد تبدیلی مذہب قوانین کے تحت حراست میں رکھا گیا۔ جنوری میں ہندو ہجوم نے مشرقی ہندوستان میں چھتیس گڑھ میں عیسائیوں پر حملہ کیا، گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور لوگوں کو ’دوبارہ ہندو مذہب‘ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ ایک اندازے کے مطابق 30 افراد کو اپنے عقیدے سے انکار کرنے پر مارا پیٹا گیا۔ اسی مہینے دو عیسائیوں کو بغیر ضمانت کے حراست میں لیا گیا جن پر درج فہرست قبائل و درج فہرست ذات کے افراد کی زبردستی تبدیلی مذہب کرنے کا الزام ہے۔اس رپورٹ کے مطابق منی پور میں جون 2023 میں تشدد میں 500 سے زیادہ گرجا گھروں اور دو یہودی عبادت گاہوں کو تباہ کیا گیا اور تشدد کے دوران 70000 سے زائد لوگ بے گھر ہوگئے۔
اس سالانہ رپورٹ میں سال 2023 میں بنیادی امریکی پالیسی کے نکات کا احاطہ کرتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ امریکی محکمہ خارجہ آزادی سے متعلق سنگین تشویش کے باوجود بھارت کو اپنے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت خاص تشویش والا ملک (سی پی سی) قرار دینے میں ناکام رہا۔
یو ایس سی آئی آر ایف کیا ہے؟
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) امریکی وفاقی حکومت کا ایک آزاد ادارہ ہے جسے 1998 کے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ (آئی آف ایف اے) کے تحت قائم کیا گیا۔
یو ایس سی آئی آر ایف امریکہ سے باہر مذہب یا عقیدے کی آزادی کے عالمی حق کی نگرانی کرتا ہے، امریکی صدر، سکریٹری آف اسٹیٹ اور امریکی کانگریس کو پالیسی سفارشات پیش کرتا ہے اور ان سفارشات کے نفاذ پر نظر بھی رکھتا ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف کے 9 کمشنروں کی تقرری امریکی صدر یا امریکی کانگریس میں ہر سیاسی پارٹی کے لیڈر کرتے ہیں، جنہیں غیرجانبدار پیشہ ور عملہ کا تعاون حاصل ہوتا ہے۔حالانکہ یو ایس سی آئی آر ایف، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ یعنی محکمہ خارجہ سے آزاد ہے تاہم بین الاقوامی مذہبی آزادی کا سفیر (امبیسڈر ایٹ لارج) کمیشن کا ممبر ہوتا ہے جسے ووٹنگ کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
یو ایس سی آئی آر ایف کے مطابق ان کا تجزیہ بین الاقوامی معیارات پر مبنی ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کا آرٹیکل 18کہتا ہے کہ’’ہر کسی کو فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق ہے۔ اس حق میں اپنے مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے کی آزادی اور انفرادی یا کمیونٹی کے اراکین کے ساتھ عوامی یا نجی طور پراپنے مذہب یا عقیدے کو تعلیم، عمل اور عبادت میں ظاہر کرنے کی آزادی شامل ہے‘‘۔
کمیشن کے تنظیمی ڈھانچہ میں اعلیٰ سطح پر فی الوقت 8 اہلکار ہیں جن میں ایک چیئر مسٹر اسٹیفن شنیک، ایک وائس چیئر ایرک اوئلینڈ اور 6 کمشنرز بشمول محمد السنوسی، مورین فرگوسن، سوسی گلمین، وکی ہارٹزلر، آصف محمود اور میر سولوویشک ہیں جو اپنے اپنے میدان کے نامور ماہر ہیں۔
مذہبی آزادی کا مفہوم
یو ایس سی آئی آر ایف نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ مذہبی آزادی کے تصور میں اپنے ضمیر کے مطابق کچھ ماننے یا نہ ماننے کا حق اور اپنے ان عقائد کو کھلے طور پر امن کے ساتھ اور بلا خوف عمل کرنے کا حق پوشیدہ ہے۔ مذہب یا عقیدے کی آزادی ایک وسیع حق ہے جس میں فکر، ضمیر، اظہار، انجمن اور اجتماع کی آزادی شامل ہے۔ اگرچہ مذہبی آزادی امریکہ کی پہلی آزادی ہے، یہ ایک بنیادی انسانی حق کا بین الاقوامی قانون اور معاہدہ بھی ہے، جو امریکی خارجہ پالیسی کا ایک لازمی جزو اور عالمی سطح پر جمہوریت اور آزادی کے دفاع کے لیے امریکہ کا عزم اور قومی سلامتی کا ایک اہم عنصر ہے جو ایک زیادہ پرامن، خوشحال اور مستحکم دنیا کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے۔
یو ایس سی آئی آر ایف کا دائرہ عمل
یو ایس سی آئی آر ایف امریکی کانگریس کے دفاتر کے ساتھ کام کرکے، سماعتوں، گواہیوں اور ممالک و موضوعات پر بریفنگ کا اہتمام کرکے امریکی کانگریس کو مشورے دیتا ہے۔
معلومات کے اشتراک، تشویش کے حالات کو اجاگر کرنے اور یو ایس سی آئی آر ایف کی پالیسی سفارشات پر تبادلہ خیال کے لیے انتظامی شاخ کے اہلکاروں کے ساتھ مسلسل میٹنگ کا اہتمام کرتا ہے۔
تحقیق، سفر اور غیر ملکی حکام اور بین الاقوامی شراکت داروں، انسانی حقوق کے آزاد گروپوں کے نمائندوں اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں (این جی او) مذہبی رہنماؤں، ظلم و ستم کے شکار افراد اور دیگر متعلقین کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعے بیرون ملک مذہبی آزادی کے حالات کی نگرانی کرتا ہے۔
عوامی تقریبات کے اہتمام، پوڈ کاسٹ ایپی سوڈ کی میزبانی، عوامی بیانات کے اجراء اور اشاعتوں کے ذریعہ عوامی بیداری کو فروغ دیتا ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف مذہب یا عقیدے کی آزادی کی خلاف ورزیوں کے متاثرین کی وکالت بھی کرتا ہے اور اپنے ریلیجس پرزنرس آف کنسائنس (آر پی او سی) پروجیکٹ، ٹام لینٹس ہیومن رائٹس کمیشن کے ڈیفنڈنگ فریڈم پروجیٹ اور مذہب یا عقیدے کی آزادی کی خلاف ورزیوں کے متاثرین کی فہرست تیار کرکے ان قیدیوں کی رہائی پر زور دیتا ہے۔
یو ایس سی آئی آر ایف اپنی ایک سالانہ رپورٹ جاری کرتا ہے اور دیگر اشاعتیں بھی سامنے لاتا ہے جن میں ان ممالک کا جائزہ ہوتا ہے جہاں ایک منظم، مسلسل یا انتہائی سخت طریقے سے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔یہ ادارہ بیرون ملک مذہبی آزادی کو متاثر کرنے والے امور و مسائل کو اجاگر کرتا ہے، امریکی پالیسی کا جائزہ لیتا ہے اور امریکی حکومت کو اپنی سفارشات پیش کرتا ہے۔
امریکی کمیشن کی 2024 کی سالانہ رپورٹ اور بھارت
102 صفحات پر مشتمل اپنی سالانہ رپورٹ 2024 میں امریکی کمیشن نے 17 ممالک بشمول افغانستان، آذربائیجان، برما، چین، کیوبا، اریٹیریا، بھارت، ایران، نکاراگوا، نائیجیریا، شمالی کوریا، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان اور ویت نام کو خاص تشویش والے ممالک (سی پی سی) قرار دینے کی سفارش کی ہے جب کہ گیارہ ممالک بشمول الجیریا، مصر، انڈونیشیا، عراق، قزاقستان، کرغیزستان، ملائشیا، سری لنکا، شام، ترکی اور ازبکستان پر محکمہ خارجہ کی خاص نظر رکھنے کی سفارش امریکی حکومت سے کی ہے۔یہ سالانہ رپورٹ یکم مئی کو جاری کی گئی تھی۔
جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو امریکی کمیشن نے 2 اکتوبر کو یہاں مذہبی آزادی کے گرتے ہوئے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی رپورٹ جاری کی اور اس سے قبل 8 اگست کو حکومت کی جانب سے غلط اطلاعات کی اشاعت پر ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے اسے مذہب یا عقیدہ کی آزادی کے لیے خطرہ بتایا تھا۔اس رپورٹ میں بھارت سمیت چین، ایران، پاکستان اور روس میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والی سرکاری غلط معلومات کی منتخب مثالیں پیش کی گئی ہیں اور امریکی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ غلط معلومات کا استعمال کرنے والی حکومتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کرے ۔اس کے علاوہ دنیا میں مختلف مقامات پر مسلم مخالف نفرت پر ایک رپورٹ 15 مارچ 2024 کو سامنے آئی تھی جس میں کمیشن نے نفرت انگیز حرکات و سرگرمیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں امن و سلامتی اور بقائے باہم کے لیے خطرہ بتایا تھا۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کا حشر چاہے جو ہو یا اس کے جو بھی معانی و مطالب نکالے جائیں اتنا تو طے ہے کہ یہ کمیشن دنیا بھر میں واقعات و حادثات کو دستاویزی شکل دیتا ہے اور امن و سکون، بقائے باہم اور بین المذاہب مفاہمت و ڈائیلاگ کے لئے واضح سفارشات کرتا ہے۔
امریکی حکومت بعض سفارشات کو اپنی جامع سفارتی حکمت عملیوں کے لیے استعمال کرتی ہے اور بعض سفارشات کو سیاسی مضمرات اور اپنے بین الاقوامی مفادات و پالیسیوں کے باعث نظر انداز کردیتی ہے، حالانکہ حقوق انسانی کے علم بردار افراد اور تنظیمیں انہیں اپنے لیے ایک طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں اور حوالہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اکتوبر تا 19 اکتوبر 2024