امریکہ کی جمہوری قبا میں پائے کوب فسطائیت بے نقاب

پُرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کا نعرہ صدا بہ صحرا کے سوا کچھ نہیں

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کے دعویدار ملک میں جو بائیڈن اور ٹرمپ کی رسہ کشی
امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر پچھلے ہفتے جب گولی چلی تو اس وقت تک وہ اپنی پارٹی کی جانب سے صدارت کے لیے نامزد نہیں ہوئے تھے مگر قتل ہونے سے بال بال بچنے کے بعد انہوں اعلان کیا کہ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ خدا ان کے ساتھ تھا۔ یہ سنتے ہی نام نہاد پوری خدا ترس پارٹی بھی ان کے ساتھ ہوگئی اور ہفتہ بھر بعد ریپبلکن نیشنل کنونشن میں ان کا تقرر ہوگیا ۔ اب اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ حملہ خود انہوں نے ہی کروایا تھا تو اس کی کیا غلطی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ پھر ایک بار تھامس کروک کی گولی نے امریکہ کے جمہوری نظام میں سوراخ کرکے فسطائیت کو سر ابھارنے کا نادر موقع عطا کردیا۔ سرزمین امریکہ پر یہ نیلم پری پہلی باربے لباس نہیں ہوئی بلکہ ماضی میں بھی ایسے متعدد سانحات رونما ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر پر لعن طعن کرنے والا امریکہ بہادر ایسے واقعات کی پردہ پوشی کرکے اپنے سینے پر دنیا کی سب سے عظیم جمہوریت کا تمغہ لگائے رہتا ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ دیگر سیاسی نظام کے حاملین کو یہ کہہ کر عار دلاتا رہتا ہے کہ ان کےیہاں اقتدار کی منتقلی کے لیے خون خرابہ ہوتا ہے جبکہ جمہوریت کے اندر نہایت مہذب انداز میں پر امن طریقہ سے یہ سب ہوجاتا ہے۔ یہ دنیا کا بہت بڑا جھوٹ ہے کیونکہ امریکی صدور نے انتخابی کا میابی کے لیے دنیا بھر میں جو خون خرابہ کیا اس کے الزام سے یہ نظام بری نہیں ہوسکتا ۔ مغربی قوم پرستی میں اپنے ملک کے فائدے کی آڑ میں جو دراصل حکم راں کا ذاتی مفاد ہوتا ہے دوسروں کی ایذارسانی کارِ ثواب سمجھی جاتی ہے لیکن ملک کے اندر بھی اس کی خاطرعام و خاص لوگوں کا خون خرابہ ہوتا رہا ہے مثلاً حالیہ حملے میں ٹرمپ تو بچ گئے مگر ایک شریک جلسہ اور خود حملہ آور ہلاک کردیا گیا ۔ امریکی سیاست میں اس کی ابتدا جمہوریت کا کلمۂ طیب ’ عوام کا( نظام حکومت) عوام کے لیے، عوام کے ذریعہ سے ‘ وضع کرنے والے ابراہم لنکن سے ہوئی۔موصوف امریکہ کے 16 ویں صدر تھے ان پر 14؍ اپریل 1865 کو واشنگٹن ڈی سی کے فورڈ تھیٹر میں گولی چلی اور اگلے دن وہ فوت ہو گئے۔ ان کا قصور سیاہ فام افراد کے حقوق کی پیروی اور غلامی کا خاتمہ تھا۔ دنیا کے نام نہاد مہذب لوگ اپنے رہنما کے کارِ خیر کی ایسی پذیرائی کرتے ہیں۔
قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ جاری رہا یہاں تک 20ویں امریکی صدرجیمز گارفیلڈ بھی دو جولائی 1881 کو گولی کھاکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ امریکہ کے 25 ویں صدر ولیم مکنلی کو 6؍ ستمبر 1901 کو بفیلو میں خطاب عام کے دوران ایک بے روزگار نوجوان کی گولیوں کا شکار ہونا پڑ ااور ایک ہفتہ زیرِ علاج رہنے کے بعد 14 ستمبر 1901 کو ان کی موت ہو گئی ۔فرینکلن ڈی روز ویلٹ، امریکہ کے 32 ویں صدرتھے جن پر فروری 1933 میں گولی چلی مگر وہ ٹرمپ کی طرح بچ گئے۔ 33 ویں امریکی صدر ٹرومین پر 1950 میں صدارتی مہمان خانے کے اندر حملہ ہوا مگر وہ بھی بچ گئے۔ابراہم لنکن کے بعد امریکی تاریخ کے سب سے مقبول ومعروف صدر جان ایف کینیڈی تھے۔ ان کو نومبر 1963 میں کھلی گاڑی کے اندر شہر ڈلاس کا دورہ کر تے ہوئے گولی مار دی گئی۔کینیڈی کا قاتل جیل جاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تاکہ قتل کی وجہ کا انکشاف ہی نہ ہو ۔
امریکہ کے 38 ویں صدرجیرالڈ فورڈ پر 1975 میں دو قاتلانہ حملے ہوئے اور خوش قسمتی سے وہ دونوں میں محفوظ رہے۔ اتفاق سے دوسری مرتبہ حملہ کرنے والی ایک خاتون تھی۔رونالڈ ریگن جو 40 ویں امریکی صدر تھے ان پر ایک پرحملہ کرنے والے کو گوں ناگوں وجوہات کی بنیاد پر خبط الحواس کہا گیا حالانکہ کسی پاگل کے ذریعہ ایسے جرم کا ارتکاب تقریباً ناممکن ہے۔ مارچ 1981 میں ہونے والے اس حملہ نے انہیں زخمی تو کیا مگر علاج کے بعدوہ صحت یاب ہو گئے ۔ ٹرمپ سے قبل 43 ویں امریکی صدرجارج ڈبلیو بش کی طرف 2005 میں جیارجیا میں ایک دستی بم پھینکا گیا۔ وہ بم صرف 100 فٹ کے فاصلے پر گرا لیکن چونکہ پھٹا نہیں اس لیے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ جان ایف کینیڈی کے بھائی صدارتی امیدوار بننے کے لیے کوشش کر رہے تھےکہ انہیں 1968 میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ۔ ریاست الاباما کے گورنرجارج والس پر بھی صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں 1972 کی انتخابی مہم کے دوران فائرنگ ہوئی اور وہ جزوی طور پر مفلوج ہوکررہ گئے ۔ دنیا کی عظیم ترین جمہوریت میں وقوع پذیر ہونے والے ان واقعات کے باوجود جو لوگ اس چنگیزی سیاست کواقتدار کی منتقلی کاپرامن وسیلہ سمجھتے ہیں۔ ان کی آنکھوں پر مرعوبیت کا پردہ نہیں تو اورکیا ہے؟
سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ازخود اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے سے متعلق سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھا کر ایک تنازع کھڑا کردیا ۔انہوں نے حفاظتی دستوں سے پوچھا کہ کوئی شخص چھت پر چڑھا کیسے اور اس کی اطلاع کیوں نہیں دی گئی؟ٹرمپ کے مطابق اگر انہیں پیشگی اطلاع دی گئی ہوتی تو وہ 15 سے 20 منٹ انتظار کر لیتے۔ ویسے ذرائع ابلاغ کے مطابق پچاس منٹ قبل ایک مشکوک شخص دکھائی دیا مگرپھر بھیڑ میں کھو گیا۔حملےسے 20 منٹ پہلے صدر کے دستے کو خبردار کیا گیا اور چند منٹ قبل شرکائے جلسہ نے اسے دیکھا اس کے باوجود حملہ ہوگیا۔ ستم بالائے ستم حملہ آور کو گرفتار کرکے معاملے کی جڑ تک پہنچنے کے بجائے اس کا فوراً ہلاک کردیا جانا مزید شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ جس عمارت سے گولیاں چلائی گئیں اس کے اندر اور باہربھی پولیس اہلکار تعینات تھے۔ اس کے باوجود حملہ آور تھامس میتھیو کروک ٹرمپ سے صرف 130 میٹر کی قربت پر پہنچ گیا ۔ عمارت کے اندرموجود مقامی پولیس کے تین اسنائپر نے حملہ آور کروکس کو عمارت کی چھت کی طرف جا تے دیکھا تھا مگر روکنے سے گریز کیا۔ حفاظت کے لیے موجود پولیس اہلکاروں اور ایجنٹس کے ذریعہ سخت انتظامات کے باوجود مسلح حملہ آور کا ٹرمپ کے اتنے قریب پہنچ جانا بھی حیرت انگیز ہے ؟
ٹرمپ کی حفاظت کی مشترکہ ذمہ داری سیکرٹ سروس اور مقامی پولیس پر تھی ۔ وہ دونوں اس بنیادی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام ہوگئے تو اس کے بعد اب وہ دوسروں پر الزام تراشی کرنے میں جٹ گئے ۔ سیکرٹ سرویس کے ترجمان انتھونی گولیلمی نے بات تو تسلیم کی کہ انتخابی ریلی کے مقام کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری ان کے ادارے پر تھی مگر ان کا کہنا ہے کہ اردگرد علاقے کو سیکیور کرنا مقامی پولیس کا کام تھا اور جس نجی عمارت سے حملہ آور نےگولی چلائی اس کی نگرانی مقامی پولیس کے ذمہ آتی ہے۔ مقامی شیرف بھی اس کے لیے ریاستی پولیس کو جواب دہ مانتے ہیں جبکہ ریاستی پولیس اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کرکے سیکرٹ سرویس کو موردِ الزام ٹھیراتی ہے۔ اس تو تو میں میں کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر امریکی میڈیا نے نامعلوم حکام کے حوالے سے ٹرمپ کے قتل میں ایرانی سازش کا شوشہ چھوڑ دیا۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ خفیہ ذرائع نے کبھی نہ کبھی بتایا تھا کہ ایران ڈونالڈ ٹرمپ کو قتل کروانےکی سازش کرسکتا ہے۔ اس طرح سنسنی پھیلا کر عوام کی توجہ ہٹانے کے کارِ خیر میں امریکی ذرائع ابلاغ نے گودی میڈیا کو بھی مات دے دی ۔
ایران نے امریکی انٹیلیجنس کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے بدنیتی قرار دیا ۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ ایرانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ٹرمپ ایک مجرم ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کاحکم دینے پر انہیں سزا ملنی چاہیےمگر ایران نے (مغرب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ٹارگیٹ کلنگ جیسا بزدلانہ ہتھکنڈا استعمال کرنے کے بجائے) ٹرمپ کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا قانونی راستہ منتخب کیا ہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان سیاسی پختگی کا فرق اس طرح بھی نمایا ں ہوتا ہےکہ پچھلے دنوں ایران کے صدر روحانی کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تو کسی نے اس کا الزام اسرائیل یا امریکہ پر دھرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ مصدقہ خبر امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک عہدیدار کی جانب سے آئی ہے کہ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے قتل کی کوشش کرنے والے مسلح شخص نے حملے سے پہلے ریلی کی جگہ کے ارد گرد ڈرون اڑایا تھا۔ ایسے میں اگر ایران پر الزام کو درست مان لیا جائےتو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایرانی ایجنٹ امریکہ کے اندرون ڈرون سے جائزہ لینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ امریکہ کے لیے شرم کا مقام ہے مگرفی الحال اس کی فکر کسی کو نہیں ہے۔
امریکی میڈیا اور انٹیلی جنس ایران تک تو پہنچ گیا مگر یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ 20 سالہ حملہ آور تھامس میتھیو کروک ایک یہودی نوجوان ہے۔ ٹرمپ کی سفید فام عیسائی انتہا پسندی کے منفی اثرات مسلمانوں سمیت عام یہودیوں پر بھی پڑتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کو دور کی کوڑی لانی ہو تو اسے اسرائیل کے ساتھ تھامس کے ڈانڈے ملانے چاہئیں مگر دنیا کی عظیم ترین جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی کا یہ حال ہے کہ میڈیا ہاوس کے مالکین کی متوقع ناراضی یا قہر اس جرأت کی اجازت نہیں دیتے ۔ امریکی قومی سلامتی کے اہلکار تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سیکرٹ سرویس اور ٹرمپ الیکشن ٹیم کو ریلی سے پہلے خطرے سے آگاہ کردیا گیا تھا۔ٹرمپ کی الیکشن ٹیم نے قتل کے منصوبے یا سازش کی تصدیق کو سیکیورٹی تفصیلات پر تبصرہ نہیں کرنے کا بہانہ بناکر گول کردیا۔انہیں اٹکل بازیوں کے سبب ڈونالڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی خبر آتے ہی چند منٹوں کے اندر امریکہ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ’سٹیجڈ‘ (یعنی ڈرامہ) کا لفظ ٹرینڈز میں شامل ہوگیا ۔ اس کےعلاوہ سازشی نظریات کا اظہار کرنے والوں نے حملے کے حوالے سے شکوک و شبہات کا زبردست طوفان برپا کردیا ۔
سماجی رابطے کی سائیٹس پربیشتر صارفین نے سیکیورٹی کی مبینہ ناکامی پر انگشت نمائی کرتے ہوئےپوچھا کہ حملہ آور چھت پر کیسے چڑھا؟ اسے کسی نے روکا کیوں نہیں؟ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ’تنہائی پسند‘ اور ’خاموش‘ نوجوان کی بابت یہ معلومات بھی فراہم کی گئی کہ وہ کالج میں بعض اوقات ’شکاریوں کا لباس پہن کر آتا تھا‘۔ایکس پر یہ بھی لکھا گیا کہ ’یہ بہت بڑا ڈرامہ لگ رہا ہے، ہجوم میں بھگدڑ کیوں نہیں مچی، اور کسی نے گولی چلنے کی آواز کیوں نہیں سنی؟ مجھے اس حملے کی حقیقت پر شک ہے۔ میں ان (ٹرمپ) پر بالکل بھروسا نہیں کرتا۔‘ ڈونالڈ ٹرمپ کی مکّا لہرانے والی تصویر میں ان کے چہرے پر بہتا ہوا خون اور پیچھے امریکی پرچم موضوع بحث بن گیا۔ ایک یوٹیوب اکاؤنٹ کے تبصرہ میں لکھا گیا کہ یہ تصویر ’بہت ہی زیادہ پرفیکٹ ہے‘ اور ’جھنڈا بہت ہی صحیح جگہ نظر آ رہا ہے اور باقی چیزیں بھی اپنی جگہ برابر ہیں۔‘ ایکس پر اس تبصرے کو تقریباً 10 لاکھ لوگوں نے دیکھا۔کچھ لوگوں کےنزدیک گولی چلنے پر ڈونالڈ ٹرمپ کا اپنا ہاتھ ہوا میں بلند کرنا کسی ڈرامہ کا تاثر دیتاہے ۔ ایک نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ’ہمدردی کے لیے ڈرامہ؟ آپ ان لوگوں پر بالکل بھروسا نہیں کر سکتے۔ میں ان کے لیے دعا بھی نہیں کروں گا۔‘ اس سانحہ کو جہاں ٹرمپ کے بدخواہ ڈرامہ کہہ ر ہے تھے وہیں حامی اسے ایک بہت بڑی سازش بتا تے ہوئے صدر بائیڈن کو موردِ الزام ٹھیرا رہے تھے ۔
شہر مشی گن میں صدارتی نامزدگی کو قبول کرتے ہوئے خطاب عام میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخالفین پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹ پارٹی چونکہ ووٹ لینے والے کو امیدوار نہیں بنانا چاہتی اس لیے جمہوری جماعت نہیں بلکہ جمہوریت کی دشمن ہے۔اس کے برعکس چونکہ انہوں نے جمہوریت کے لیے گولی کھائی ہے اس لیے وہ جمہوریت کے لیے خطرہ نہیں ہوسکتے۔ یہ اس حقیقت کا بلاواسطہ اعتراف ہے کہ ہندوستان میں ان کے جگری دوست مودی کو جس طرح لوگ آئین کا دشمن سمجھتے ہیں اسی طرح امریکہ کے اندر ٹرمپ کو بھی جمہوریت کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے ورنہ اس صفائی کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ امریکہ کا گودی میڈیا تو مفادات کے پیش نظر اپنے ملک کو دنیا سب سے بڑی جمہوریت کہہ کر پیٹھ تھپتھپاتا رہتا ہے مگر وہاں کے روشن خیال دانشور اس حقیقت کا اعتراف کرتے رہتے ہیں حقیقت میں اس نظامِ فاسد کے بطن سے پیدا ہونے والی فسطائیت نے امریکہ بہادر کو اپنے خونیں پنجے میں جکڑ لیا ہے۔ اس کا ایک ثبوت ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعہ جے ڈی وینس کا نائب صدارتی امیدوار کی حیثیت سے انتخاب ہے۔ ٹرمپ کے مقابلے وہ کریلا نیم چڑھا ہے۔
2016 میں تیز و طرار وینس نے فیس بک پر لکھا تھا کہ ’میں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ ٹرمپ ایک گھٹیا شخص ہیں یا امریکہ کے ہِٹلر ہیں۔‘ تاہم 2022 میں اپنے سیاسی مفاد کی خاطر اس نے معافی مانگ کر پلٹی ماری اور اب ٹرمپ کی ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ یعنی امریکہ کو دوبارہ سے عظیم بنا نے کی مہم میں جٹ گیا ۔ ٹرمپ کے اس نعرے میں در پردہ یہ اعتراف پوشیدہ ہے کہ اب امریکہ عظیم ترین (سُپر پاور) طاقت نہیں ورنہ اسے دوبارہ اس مقام پر فائز کرنے کی جدوجہد کے کیا معنیٰ؟ جے ڈی وینس کی ابن الوقتی بھی سفید فام انتہا پسندوں کی فسطائیت کا مظہر نہیں تو اور کیا ہے؟ ری پبلکن نیشنل کنونشن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے قاتلانہ حملے کا خوب سیاسی فائدہ اٹھایا ۔ انہوں نے کہا کہ:’ حملے کے وقت اگر آخری لمحے پر میں اپنا سر نہ ہلاتا تو گولی سر پر لگتی اور آج میں یہاں نہیں ہوتا، مجھے جو گولی لگی اگر ایک انچ کا فاصلہ باقی نہ رہتا تو زندگی جاسکتی تھی‘۔
قومی کنونشن میں ٹرمپ اپنے دو دن قبل پوچھے جانے والے سوالات کو بھول گئے اور بولے :’ سیکریٹ سروس نے خود کو خطرے میں ڈال کر مجھے بچایا، میں خدا کے فضل سے آج آپ کے سامنے کھڑا ہوں، میں نے حملے کے بعد اپنا دایاں بازو لہراتے ہوئے فائٹ، فائٹ کا نعرہ لگایا لیکن اس افسوسناک واقعہ میں ایک محب وطن امریکی ماراگیا‘۔ ٹرمپ نے جوش میں یہ اعلان کیا کہ اس سنگین سانحہ کے بعد امریکہ کے لوگ پہلے سے زیادہ متحد اورپرعزم ہیں اور ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی کیونکہ وہ جھکنے والے نہیں ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے حریف ڈیموکریٹس کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر وہ امریکہ کو متحد کرنا چاہتے ہیں تو انہیں عصبیت ترک کرنی ہوگی۔ اس نصیحت کو سن کر ’راون کے منہ سے رامائن‘ والا محاورہ یاد آگیا۔ انہوں نے ڈیموکریٹ سے عدلیہ کو ہتھیار بنانے اور سیاسی مخالف کو جمہوریت کا دشمن قرار دینے سے منع کیا۔
سابق صدر نے مودی کا پرانا نعرہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کے خطوط پر دعویٰ کیا کہ وہ تمام امریکیوں کےلیے صدارتی انتخاب لڑرہے ہیں ۔ ان کی جیت نصف امریکہ کے لیے نہیں ہوگی بلکہ وہ مل جل کر ترقی اور آزادی کے نئے دور کا آغاز کریں گے ۔ ویسے ان کے رفیق خاص نے سرزمین ہند پر اس نعرے پر جو عمل در آمد کیا وہ ساری دنیا دیکھ چکی ہے۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ورنہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر جس طرح ٹرمپ نے گوروں اورتارکین وطن کے درمیان نفرت کا زہر گھولا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اور ہنوز وہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ جمہوری نظام سیاست کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ ملوکیت اور آمریت کے برعکس یہاں عوام کے رائے مشورے سے بہترین شخص کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور سونپی جاتی ہے۔ اس کی روشنی میں اگر دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کا جائزہ لیا جائے تو بہت ہی مایوس کن صورتحال نظر آتی ہے۔ اس کا مظاہرہ ابھی حال میں ٹرمپ اور بائیڈن کے درمیان ہونے والی بحث کے دوران ہوا۔
عوامی بحث کےدوران ٹرمپ نے کئی بلاثبوت اوٹ پٹانگ دعوے کر ڈالے اور ایسا کرتے ہوئے جھوٹ کا بھی سہارا لیا لیکن جو بائیڈن اپنے ضعف اور درازی عمر کے سبب ان کی غلط بیانیوں کو بے نقاب نہیں کرسکے۔اسقاط حمل کے موضوع پر ٹرمپ کی غلط بیانی پر صدر بائیڈن فقط اتنا کہہ سکے کہ ’آپ نے جو کیا ہے وہ بہت غلط ہے۔‘ویسے بائیڈن نےجب فحش اداکارہ سٹورمی ڈینیئلز کیس میں ٹرمپ کو ملنے والی سزا کا ذکرکرتے ہوئے انہیں ’آوارہ بِلے‘سے تشبیہ دی تو وہ آگ بگولا ہوگئے ۔اسی طرح 6 جنوری کو کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے پر ٹرمپ کو اپنا قدم پیچھے ہٹانا پڑا۔ ریپبلکن کا قومی اجلاس تو ہوچکا مگر ڈیموکریٹس کنونشن اگست میں شکاگو میں ہونے والا ہے۔ اس وقت یہ فیصلہ ہوگا کہ 81 سالہ جو بائیڈن کو پھر سے موقع دیا جائے یا پھر ان کا متبادل تلاش کیا جائے ؟پارٹی تو انہیں بدلنا چاہتی ہے مگر جوبائیڈن اس دوڑ سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس ماہ کے اوائل میں ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ ’میرا ہر ایک دن ایک علمی امتحان ہوتا ہے اور ہر روز میرا (ذہنی استعداد کا) ٹیسٹ ہوتا ہے۔ جو کچھ میں کرتا ہوں وہ ایک امتحان ہے۔‘
صدر جو بائیڈن نے بعض ڈیموکریٹک عہدیداروں اور عطیہ دہندگان کی متبادل والی سوچ کو مسترد کرتے ہوئے ٹرمپ کے خلاف اپنی خراب کارکردگی کو صحت اور عمر کے بجائے تھکن و بخار سے منسوب کیا اور بولے ’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی شخص مجھ سے زیادہ صدر بننے یا جیتنے کا اہل ہے۔‘ انتخابی دوڑ سے باہر ہونے پر وہ بولے کہ ’اگر خدا خود نیچے (زمین پر) آئے اور کہے کہ اس دوڑ سے باہر ہو جاؤ تو ہی میں مسابقت سے باہر نکلوں گا۔ اور خدا یہ کہنے کے لیےنیچے نہیں آیا۔‘ عوامی اصرار کے علاوہ ان کے اہل خانہ بھی انہیں اس عمر میں سبکدوشی کے لیے رضامند کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر ان کی آراء سے علی الرغم بائیڈن کے جوابات سے معلوم ہوتا ہے جمہوریت نواز صدر کے اندر بھی اقتدار کی ہوس کسی بادشاہ سے کم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کا جمہوری نظام بھی بہترین فرمانروا مہیاکرنے میں ناکام ہورہا ہے۔ موجودہ انتخاب میں فی الحال امریکی عوام کی ایک جانب ٹرمپ کی آگ اور دوسری طرف بائیڈن کی کھائی ہے۔ ڈاکٹر اعظم کے اس شعر میں (بعد ازترمیم ) امریکی سیاسی صورتحال کی بہت خوب عکاسی ہوتی ہے:
یہی جمہوریت کا نقص ہے جو تخت شاہی پر
کبھی مکار بیٹھے گا،یاپھر بیمار بیٹھےگا
اسی دوران اچانک یہ خبر آئی کہ بائیڈن کے اہل خانہ انہیں دوبارہ قسمت آزمائی سے منع کررہے ہیں۔ اس طرح خدا کے بجائے گھر والوں کے دباو میں آکرصدر جو بائیڈن نے اتوار کی شام آئندہ انتخابات سے اپنی دستبرداری کا اعلان کر دیا ۔ بائیڈن نے ایکس پر لکھاکہ "آپ کے صدر کے طور پر خدمات انجام دینا میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز رہا ہے۔ اوراگرچہ میرا یہ پختہ ارادہ تھا کہ میں اس عہدے کے لیے دوبارہ منتخب ہو جاؤں، مجھے یقین ہے کہ میری پارٹی اور ملک کے بہترین مفاد میں یہی ہے کہ میں صدارتی دوڑ سے دستبردار ہو جاؤں ۔‘‘الیکشن کی دوڑ سے الگ ہونے کے تقریباً 30 منٹ بعد، بائیڈن نے نائب صدر کملا ہیریس کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ ،’’آج میں کملا کی نامزدگی کے لیے اپنی مکمل حمایت اور توثیق کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اب وقت آگیا ہےکہ ڈیموکریٹس متحد ہوکر ٹرمپ کو شکست دیں۔‘‘ پچھلی بار ہیلری کلنٹن کی نسوانیت نے ٹرمپ کی کامیابی میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا لیکن کم ازکم وہ سفید فام تھیں۔ اس بار کملا توسیاہ فام ہے اس لیے اگر ڈیموکریٹس نے انہیں کو اتارا تو ٹرمپ کی راہ آسان ہوجائے گی۔کملا کے والدین تمل تھےاس لیےان کی توثیق سےعام ہندوستانی پھولے نہیں سمارہے ہیں مگر مودی اور ان کے بھگت ناراض ہیں کیونکہ وہ سنگھ پریوار کی بہت بڑی مخالف ہیں۔ اب دیکھنا ہے امریکی جمہوریت اس بار کیا گل کھلاتی ہے؟
***

 

***

 امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر پچھلے ہفتے جب گولی چلی تو اس وقت تک وہ اپنی پارٹی کی جانب سے صدارت کے لیے نامزد نہیں ہوئے تھے مگر قتل ہونے سے بال بال بچنے کے بعد انہوں اعلان کیا کہ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ خدا ان کے ساتھ تھا۔ یہ سنتے ہی نام نہاد پوری خدا ترس پارٹی بھی ان کے ساتھ ہوگئی اور ہفتہ بھر بعد ریپبلکن نیشنل کنونشن میں ان کا تقرر ہوگیا ۔ اب اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ حملہ خود انہوں نے ہی کروایا تھا تو اس کی کیا غلطی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ پھر ایک بار تھامس کروک کی گولی نے امریکہ کے جمہوری نظام میں سوراخ کرکے فسطائیت کو سر ابھارنے کا نادر موقع عطا کردیا۔ سرزمین امریکہ پر یہ نیلم پری پہلی باربے لباس نہیں ہوئی بلکہ ماضی میں بھی ایسے متعدد سانحات رونما ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر پر لعن طعن کرنے والا امریکہ بہادر ایسے واقعات کی پردہ پوشی کرکے اپنے سینے پر دنیا کی سب سے عظیم جمہوریت کا تمغہ لگائے رہتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جولائی تا 03 اگست 2024