امیرملک میں غریبوں کی بد حالی

ناقص تغذیہ ایک سنگین چیلنج ۔تعلیم ،صحت اور روزگار پر یکساں توجہ ضروری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

بھارت کا 123 ممالک میں عالمی بھکمری اشاریے (Global Hunger Index) میں 107واں مقام ہے۔ یہ انڈیکس جنگ زدہ افغانستان کو چھوڑ کر تمام پڑوسی جنوبی ایشیائی ممالک سے بدتر ہے۔ گزشتہ سال بھارت 101 نمبر پر تھا۔ اس فہرست میں کل 121 ممالک شامل ہیں۔ پاکستان کی رینکنگ 99، بنگلہ دیش کی 84، نیپال کی 81 اور سری لنکا کی 64 ہے۔ صرف افغانستان 109 رینک پر ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں بھارت کی پوزیشن میں 13 ہندسوں کی گراوٹ آئی ہے۔ 2019 میں ہم 94ویں رینک پر تھے اس فہرست میں 17 ممالک ایک ساتھ ٹاپ پر فائز ہیں جس میں کویت، ترکی اور چین شامل ہیں ان کا جی ایچ آئی اسکور 5 سے کم ہے۔ یعنی بہت بہتر حال میں ہے۔ ہر ملک کا جی ایچ آئی اسکور تین ڈائمنشن کے چار پیمانوں پر شمار کیا جاتا ہے۔ اس میںChild Undernourishment
Child undernutrition Child mortality
موخر الذکر میں دو درجات ہیں۔
Child wasting
Child stunting
انڈر نرشمنٹ میں ایک صحت مند فرد کو دن بھر کے لیے ضروری کیلوریز(حراروں) کا دستیاب نہ ہونا۔ بچوں کی شرح اموات میں ایک ہزار ایسے بچوں کی تعداد ہے جن کی موت 5 سال سے کم عمر میں ہوگئی اور چائلڈ انڈر نیوٹریشن میں دو درجے ہوتے ہیں چائلڈ ویسٹنگ میں پانچ سال سے کم عمر کے ایسے بچے جن کا قد وزن کے حساب سے کم رہتا ہے۔ ایسے بچوں کو بروقت اچھی غذائیں نہیں ملیں جس کی وجہ سے ایسے بچے کمزور ہو گئے اور چائلڈ اسٹنٹنگ میں بچے کا قد عمر کے لحاظ سے کم ہوتا ہے کیونکہ قد کا براہ راست تعلق تغذیہ سے ہے۔ ان تینوں پیمانوں کا ایک تہائی حصہ ہوتا ہے۔ اسکور اسکیل پر صفر سب سے اچھا اسکور مانا جاتا ہے جبکہ 100 بدترین ہے۔ بھارت میں چائلڈ ویسٹنگ (قد کے مقابلے کم وزنی) 19.3 فیصد ہے جو 2014 کے 15.1 فیصد سے بدتر ہے۔ 2000 میں یہ پوزیشن 17.15 فیصد تھی جو دنیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔2018-20 میں انڈر نریشمنٹ کی کیفیت 14.6 فیصد تھی جو 2019-20 میں بڑھ کر 16.3 فیصد ہو گئی۔ اس طرح ملک میں 22.43 کروڑ لوگ تغذیہ کی کمی کا شکار ہیں۔ ایک خوشی کی بات ضرور ہے کہ 2014 اور 2022 کے درمیان اسسٹنٹنگ کا مقابلہ 38.7 فیصد سے کم ہو کر 35.5 فیصد پر آگیا ہے۔ اموات طفلان 4.6 فیصد سے کم ہو کر 3.3 فیصد ہو گئی ہے۔ مجموعی اعتبار سے 2014 میں جی ایچ اسکور 28.2 فیصد سے بڑھ کر 2022 میں 29.1 فیصد ہو گیا۔ اس انڈیکس میں غور طلب امر یہ ہے کہ سوڈان، ایتھوپیا، نائجیریا، کینیا، گمبیا، نمبیا، عراق، کمبوڈیا جی ایچ آئی انڈیکس میں بھارت سے نیچے آنے والے ممالک ہیں۔ جنوبی سوڈان، سیریا وغیرہ ممالک کی ٹکنیکل وجوہات کے بنا پر درجہ بندی نہیں ہو سکی۔
جی ایچ آئی کے مصنفوں نے 15 اکتوبر کو اپنی اشاعت میں واضح کیا ہے کہ بھارت میں بھکمری کی حالت بہت سنگین ہے۔ پوشن ابھیان اور مڈ ڈے میل کے نفاذ سے بھی حالت میں کوئی نمایاں فرق نہیں آیا۔ گزشتہ سال کی طرح خواتین اور بچوں کی وزارت نے جی ایچ آئی کی رپورٹ کو بڑی بے شرمی سے خارج کرتے ہوئے مصنفوں کی نیت پر سوال اٹھایا اور کہا کہ غلط جانکاری دینا جی ایچ آئی کا ہال مارک لگتا ہے۔ بھارت کو ایسے ملک کی شکل میں دکھایا جاتا ہے جو اپنی آبادی کے لیے فوڈ سیکیورٹی اور غذائیت کو پورا نہیں کر رہا ہے۔ وزارت نے اپنے بیان میں کہا کہ فوڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (FAO) کی دی اسٹیٹ آف فوڈ سیکوریٹی اینڈ نیوٹریشن ان دی ورلڈ پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ ہنگر انڈیکس میں Undernourishment کا ڈاٹا FAO کی اسی رپورٹ سے لیا گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا قہر نے بھارت میں تغذیہ کے بحران کو زیادہ ہی گمبھیر بنا دیا ہے جبکہ national food security کے تحت 80 کروڑ سے زائد شہریوں کو 5 کلو مفت اناج پہنچایا تاکہ وہ بھوکوں نہ مریں مگر کرپشن زدہ پبلک ڈسٹریبوشن سنٹر (پی ڈی ایس) نے اس مصیبت کی گھڑی میں بہت سارے ضرورتمندوں کو اس راحت سے محروم کر دیا۔ اکثر محققین مانتے ہیں کہ بچوں میں تغذیہ کا فقدان دراصل PDS کی وجہ سے ہے۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں امراء بھی اچھی مقدار میں پھل سبزی اور پروٹین والی غذائی استعمال نہیں کرتے ہیں۔ اکثر ریاستوں کے مڈ ڈے میل میں انڈا ندارد ہوتا ہے۔ جی ایچ آئی کے طرز کا ڈاٹا نیشنل فیملی ہیلتھ سروے سے سامنے آیا ہے۔ اس سروے پر کچھ لوگ سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ NFHS-5 کورونا قہر کے پہلے کیے گئے سروے میں بھی 5 سال کی عمر کے 20 فیصد سے زائد بچوں کا وزن اتنا نہیں ہوتا جتنا کہ ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے گھروں میں خوردنی اشیا کے ساتھ تغذیہ کا فقدان اکثر رہتا ہے۔ اس لیے عالمی اور ملکی سرویز کے مد نظر حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ تغذیہ کے فقدان کے چیلنج کو موثر طریقے سے نمٹے، مگر موجودہ حالت میں یہ ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ ہمارے ملک کا امپورٹ، ایکسپورٹ سے زیادہ ہے۔ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر گرتے گرتے تاریخی سطح 83 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ بیرونی زر مبادلہ 100 بلین ڈالر کم ہو گیا ہے۔ کرنٹ اکاونٹ ڈیفیسٹ تجارتی خسارہ کی طرح برا حال ہے اس لیے حکومت کے لیے تغذیہ کی فراہمی کے لیے مزید اقتصادی بوجھ برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود عوام الناس تک خوردنی اشیا کی رسائی حکومت کے لیے بہت ضروری ہے۔ ایسا نہیں کیا گیا تو مفلوک الحال لوگوں میں منفی سوچ پیدا ہو گی جس کے اثرات سے ملک پاک نہیں رہ سکتا۔ اس لیے جی ایچ آئی کی رپورٹ پر سنجیدگی سے غور کرنے اور ایسے مثبت اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ ملک کا کوئی شہری بھوکا نہ رہے۔
عالمی ہمہ جہت غریبی رپورٹ (ایم پی آئی) 2022 کے مطابق بھارت میں تقریباً 22 کروڑ افراد ہمہ جہت غربت سے نبرد آزما ہیں۔ اس ہمہ جہت غربت کی اصطلاح میں غربت کے ساتھ تعلیم، صحت اور معیار زندگی شامل ہے۔ واضح رہے کہ ان غربا میں سے 90 فیصد دیہی علاقوں میں اور بقیہ 10 فیصد شہری علاقے میں رہتے ہیں۔ ایم پی آئی 2022 کے مطابق بھارت میں کم غذائیت، گھروں کی عدم دستیابی، ایندھن کی قلت اور صفائی سے دوری مفلسی کے بنیادی اسباب ہیں۔ 60 فیصد ایسے غربا ہیں جن کو پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ دو تہائی غریب ایسے گھروں میں رہتے ہیں جس میں ایک شخص کم غذائیت سے پریشان ہے۔ ہمارے پالیسی ساز ادارہ نیتی آیوگ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ بھارت کی پچیس فیصد آبادی غریب ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں اسی ملک نے ترقی کی ہے جہاں تعلیم، صحت، اور روزگار کی حالت بہتر ہو گی مگر ہمارے یہاں تینوں ہی پیمانے مفقود ہیں۔ تعلیم کا پرائیوٹائزیشن ہونے کی وجہ سے غریبوں کے بچوں کا وہاں بھارتی بھرکم فیس کی وجہ سے داخلہ ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح ملک کا طبی ڈھانچہ بدحال ہے اور پرائیویٹ نرسنگ ہومس اور اسپتالوں کے اخراجات غربا برداشت نہیں کر سکتے۔ روزگار کے میدان میں ہمارے پی ایچ ڈی ہولڈرس پکوڑے تل رہے ہیں اور چائے بیچ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی یوتھ ترقیاتی اشاریے 2020 میں 181 ممالک میں ہماری رینکنگ 122 تھی۔ عالمی غذائی تحفظ انڈیکس (جی ایف ایس انڈیکس) 2021 کی رپورٹ کے مطابق 113 ممالک میں ہمارا مقام 110واں تھا جبکہ پریس کی آزادی کے مقابلے میں ہم 180 ممالک میں 150ویں مقام پر ہیں۔ یہ ہے مستقبل کے وشوگرو کی شبیہ۔
***

 

***

 پالیسی ساز ادارہ نیتی آیوگ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ بھارت کی پچیس فیصد آبادی غریب ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں اسی ملک نے ترقی کی ہے جہاں تعلیم، صحت، اور روزگار کی حالت بہتر ہو گی مگر ہمارے یہاں تینوں ہی پیمانے مفقود ہیں۔ تعلیم کا پرائیوٹائزیشن ہونے کی وجہ سے غریبوں کے بچوں کا وہاں بھارتی بھرکم فیس کی وجہ سے داخلہ ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح ملک کا طبی ڈھانچہ بدحال ہے اور پرائیویٹ نرسنگ ہومس اور اسپتالوں کے اخراجات غربا برداشت نہیں کر سکتے۔ روزگار کے میدان میں ہمارے پی ایچ ڈی ہولڈرس پکوڑے تل رہے ہیں اور چائے بیچ رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 نومبر تا 19 نومبر 2022