عمل سے زندگی بنتی ہے۔۔

دورحاضر کا بڑا مسئلہ لاعلمی نہیں بے عملی ہے

ڈاکٹر شکیل احمد خان، جالنہ۔

قوموں کے عروج و زوال میں علم اور عمل کا کلیدی کردار
آج حالات ناگفتہ بہ ہیں، موجودہ سیاسی جبر کا سامنا کرنے کے لیے اندرونی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے اور یہ علم کے ساتھ عمل کو جوڑنے سے ہی ممکن ہے۔
یونان کے عظیم تہذیبی مرکز اتھینس  Athens کے مشہور تھیٹر میں ایک پروگرام میں شرکت کے لیے لوگوں کا ہجوم ہے۔ گنجائش سے ذیادہ افراد کے مجموعے میں ایک عمر رسیدہ شخص بیٹھنے کے لیے کسی جگہ کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔ نشستوں پر براجمان اس کے ہم وطن اتھینین اسے اور اس کے بڑھاپے کونظر انداز کر رہے ہیں۔لکڑی ٹیکتے ہوئے وہ اگلی نشستوں کی طرف جا نکلتا ہے جہاں غیر ملکی اسپارٹن مہمانوں کے لیے نشستوں کا انتظام کیا گیا ہے۔اس عام اتھینین باشندے کو دیکھ کر فوراً کئی اسپارٹن عہدیدار اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اسے اپنی جگہ پر بیٹھنے کی پیشکش کرتے ہیں۔اسپارٹنس کے اس حسن سلوک پر عمر رسیدہ شخص حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور تمام لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اتھینینس جو ابھی تک اپنے ہم وطن بوڑھے سے بے اعتنائی برت رہے تھے، اسپارٹنس کے اس خوش اخلاقی کے مظاہرے کی تعریف کرتے ہوئے تالیاں بجانے لگتے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر ایک اسپارٹن جو جملہ ادا کرتا ہے وہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔یہ جملہ نہ صرف سارے اتھینین باشندوں کو آئینہ دکھاتا ہے بلکہ ان کے کردار کا یک سطری تجزیہ بھی ہوتا ہے۔وہ جملہ یہ ہے ’’These Athenians know what good behaviour is, but they don’t practice it   ( یہ اتھینینس جانتے تو ہیں کہ اچھا رویہ کیا ہوتا ہے لیکن وہ اس پر عمل نہیں کرتے)۔ مشہور رومن فلسفی Marcus Tullius Cicero  نے اپنی کتابDe Senectute  میں اس واقعہ کاذکر کرتے ہوئے بڑے معنی خیز نتائج اخذ کیے ہیں ۔ شاید اہل ایتھینز کے کردار کی اسی کمزوری کے باعث اسپارٹنس Peloponnesian War (431–404 BC)  میں ایتھینز کو شکست دے سکے۔Athens  کوئی معمولی سٹی اسٹیٹ نہیں تھا بلکہ قدیم یونان کا نہایت اہم علمی و تہذیبی مرکز تھا جہاں سقراط اور افلاطون جیسے جید عالم موجود رہے، اور جن کے ذریعہ اتھینس کے لوگ بہت کچھ جانتے تھے ۔ لیکن صرف جاننا کبھی بھی کافی نہیں رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عہدِ قدیم سے ’جاننے اور کرنے‘ میں تفاوت کی اسی کمزوری کے باعث کئی افراد و اقوام ناکام و نامراد ہوتی رہی ہیں۔ کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ آج ڈھائی ہزار سال بعد بھی یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ کیا آج بھی ایک ایسی عظیم قوم شکست و ریخت سے دوچار نہیں ہے جس میں جید عالم و دانشور پیدا ہوتے رہے جن کے ذریعے اس کے افراد بہت کچھ جانتے رہے اور جانتے ہیں؟کسی بات کا معلوم ہونا ایک چیز ہے اور اسے اپنانادوسری چیزہے۔ جیسے اہل ایتھینز یہ بات جانتے تو تھے کہ بزرگی کا احترام کیا جانا چاہیے، لیکن ان کا یہ جاننا صرف معلومات کی حد تک محدود تھا۔ عمل نہ ہونے کی صورت میں کسی چیز کا معلوم ہونا یانہ ہونا برابر ہوتا ہے۔علم اور عمل ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ تیر اگرعلم ہے تو تیر اندازی عمل، قلم اگر علم ہے تو لکھنا عمل۔ وہ تیر کس کام کا جو چلایا ہی نہ جائے؟وہ قلم کس کام کا جس سے کبھی لکھا ہی نہ جائے؟  وہ معلومات کس کام کی جس کا استعمال ہی نہ ہو؟ وہ جانکاری کس کام کی جس سے فائدہ ہی نہ اٹھایا جائے ؟ مرزا غالب بھی کہہ گئے کہ ’’ فائدہ کیا سوچ آخر تُو بھی دانا ہے اسد‘‘۔
لیکن آج بر صغیرکے ممالک اور خصوصاً  ملت کے افراد اسی کرائسس سے گزررہے ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنے میں شاید ہی کسی کو تامل ہو کہ آج ملت کے بیشترافراد کا حال ان اہلِ ایتھینزکی طرح ہو چکا ہے جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہThese Athenians know what good behaviour is, but they don’t practice it  ”   ۔عہد حاضر کو انفارمیشن ایج بھی کہا جا رہاہے۔ہر فرد پر ہر لمحہ ہر قسم کی معلومات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔ ہر نوعیت کی معلومات ایک کلک کی دوری پر موجود ہیں۔ اچھے برے میں تمیز کرنا اب چنداں دشوار نہیں۔ ان حالات میں آج کوئی بھی شخص جس کے پاس موبائل فون موجود ہے بھولا، لاعلم اور معصوم نہیں ہے۔لیکن اس کے باوجود ہماری اکثریت کاحال یہ ہے کہ بقول میر تقی میر، ’’ پھرتے ہیں میر خوار ، کوئی پوچھتا نہیں‘‘ ۔ معلومات کی فراوانی کے باوجود ملت سیاسی بے وقعتی اور تہذیبی اضمحلال کا شکار ہے۔ اسی لیے مشہور مصنف ڈیل کارنیگی کا تجزیہ صد فیصد درست محسوس ہوتا ہے کہ Our problem is not ignorance but inaction یعنی ہمارا مسئلہ لاعلمی نہیں بلکہ بے عملی ہے۔جاننا آج مسئلہ نہیں ،ہاں عمل ضرور مسئلہ ہے۔ یعنی کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے، یہ ہم جانتے تو ہیں لیکن اس لحاظ سے عمل نہیں کرتے ۔مثلاً آج ہر کوئی جانتا ہے کہ شکر کا استعمال نہایت مضر ہے لیکن ہمارے محلوں میں فجر کے بعد سے تہجدتک چائے خانوں میں بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ میدے سے بنی اور تلی ہوئی چیزیں بیماریوں کی جڑ قبض اور تیزابیت کاباعث ہوتی ہیں لیکن ہمارے محلوں میں ہر پانچویں دکان بیکری اور چائنیز فوڈ کی ہوتی ہے۔کون نہیں جانتا کہ ورزش اور مارننگ واک طویل و صحتمند زندگی کے لیے لازمی ہے لیکن ہماری بڑی آبادی رات دیر گئے تک جاگنے اور صبح دیر تک سونے کی عادی ہے۔اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ آدھی آدھی رات تک جاگ کر واٹس ایپ پر حفظانِ صحت اور طبِ نبوی کے ویڈیوز دیکھے اور شئیر کیے جاتے ہیں۔علم اور عمل یعنی جاننے اور کرنے میں تفاوت کی اور کتنی مثالیں پیش کی جائیں۔جمعہ کے خطبوں کے باعث ہر کوئی اسلامی اخلاق اور اسوہ رسول سے واقف ہے لیکن اس کے باوجود ایسی کون سی اخلاقی خرابی ہے جس میں ہمارا معاشرا لتھڑا ہوا نہیں ہے ۔سب جانتے ہیں کہ رشوت لے کر غبی و ناخواندہ افراد کا اسکولوں میں تقرر ہماری نسلوں کی بربادی کا باعث بن رہا ہے لیکن ہمارے اکثر نمازی و حاجی مالکینِ مدرسہ اس رویہ کو بدلنے کا عمل نہیں کرتے۔اب تک ہر کسی نے اسلام میں عورتوں کے حقوق پر پچاسوں ویڈیوز دیکھے ہوں گے لیکن آج بھی کمزور و مجبور والدین کی بیٹیاں سسرالوں میں ستائی و جلائی جا رہی ہیں۔وہیں عالمیت کا کورس کر چکی لڑکیوں نے بھی سسرال کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ملت کی ترقی کے لیے عصری و دینی تعلیم کی ضرورت اور علم کی اہمیت پر ہر کوئی دو چار حدیثیں سنا سکتا ہے لیکن کتابیں تو چھوڑیے اخبار تک خریدنے کی زحمت نہیں کرتا۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۲۷ میں فضول خرچ کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے لیکن شادی بیاہ اور تہواروں میں اپنی استطاعت اور قوم کی حالت کے لحاظ سے خرچ کرنے کا عمل ندارد ہے۔ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ پاک نے قرآن حکیم میں ہر جگہ احکام کے ساتھ انہیں احسن طریقے سے انجام دینے کی بھی تلقین کی ہے لیکن ہماری ازدواجی اور گھریلو زندگیوں میں سلیقہ اور نظم و ضبط دور دور تک نظر نہیں آتا۔ نہ کسی مقصدکا تعین ہے نہ ہی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی آمدنی و خرچ کا بہی کھاتا۔ یعنی علم و عمل میں تال میل کا شدید فقدان ہو چکا ہے۔ اس طرح ہماری نئی نسلیں دو پاٹوں کے بیچ پسی جا رہی ہیں۔ ایک طرف غیروں کا سیاسی جبر اور مخالفت ہے تو دوسری طرف اپنوں کی بے حسی اور منافقت۔ اسی منافقت اور بے عملی نے ملت کو اندر سے کھوکھلا کر کے مخالفین  کے لیے اسے لقمہ تر بنا دیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ علم بھی کم اہم نہیں ہے۔ علم ہوگا تو کبھی عمل کی توفیق بھی ہوگی۔علم حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا بھی ایک عملِ صالح ہے لیکن جس طرح صرف ایک طرف سے چھپی ہوئی نوٹ بازار میں نہیں چلتی، اسی طرح عمل سے جدا علم بھی دنیا و آخرت کے بازار میں کھوٹا سکہ ہی ثابت ہوگا ۔ عمل کے بغیر علم کی اہمیت باقی نہیں رہتی۔عمل خواب اور حقیقت کے درمیان فاصلے کو پاٹنے کا نام ہے ۔
آپ کیا سمجھتے ہیں اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا؟ ایسی بات نہیں ہے فرق پڑتا ہے ۔ آپ کیا کرتے ہیں اس سے دنیا کو بھی واسطہ ہے اور دنیا بنانے والے کو بھی۔یہ عمل کی جگہ  ہے یہاں عمل سے ہی ترقی ہے۔ وہ ممالک اور وہ قومیں جو صحیح دین نہیں جانتیں، ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہیں کیوں؟ اپنے عمل اور رویہ کے باعث۔جاپانیوں کی اکثریت تو ملحد ہے۔ انہیں یہ حدیث تو نہیں معلوم کہ صفائی آدھا ایمان ہے لیکن چشم دید گواہ کہتے ہیں کہ وہاں سڑکوں پر تنکا تک نظر نہیں آتا، کوئی تھوکتا ہوا نظر نہیں آتا، سگریٹ کی راکھ جھاڑنے کے لیے ڈبی جیب میں ساتھ لیے گھومتے ہیں۔امریکی عوام یہ تو نہیں جانتے کہ مسلمانوں کے نبی نے کسی کا مال غلط طریقہ سے کھانے سے منع فرمایا ہے لیکن وہ اس پر عمل کرتے ہیں۔مذہبی وضع قطع بنا کر ایک ایک پلاٹ چار چار لوگوں کو نہیں بیچتے۔راستوں پر انکروچمینٹ نہیں کرتے، وقت کی پابندی کرتے ہیں ، بدزبانی نہیں کرتے ، وعدہ خلافی نہیں کرتے، دھوکے سے خراب اشیاء نہیں بیچتے، ملازمت پوری ایمان داری اور ذمہ داری سے کرتے ہیں۔یعنی حرام مال نہیں کھاتے۔ اور ہماری اکثریت حلال و حرام کے بارے میں جاننے کے باوجود یہ سب کرتی ہے۔ ہم نے تو حرام کو صرف شراب پینے، خنزیر کھانے اور غیر محرم سے جسمانی رشتہ تک محدود کر لیا ہے، باقی سب چلتا ہے۔ یہ تو ہوئے دنیاوی ترقی کے معاملات، اور جہاں تک دنیا بنانے والے کا تعلق ہے تو بقول عادل سہیل (اردو محفل: اسلام میں عمل کی اہمیت) ’’اللہ کی کتاب میں کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جس میں ایمان لانے کا حکم ہو اور اس کے ساتھ ہی  عمل کرنے کا حکم نہ ہو‘‘۔ آج حالات ناگفتہ بہ ہیں، موجودہ سیاسی جبر کا سامنا کرنے کے لیے اندرونی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے اور یہ علم کے ساتھ عمل کو جوڑنے سے ہی ممکن ہے۔ ملت کی کئی تنظیمیں اور کئی دردمند افراد ایسا کر بھی رہے ہیں۔ اس کا اعتراف نہ کرنا بھی ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ ملت کے جو لوگ ایسا کر رہے ہیں اللہ انہیں کامیابی اور عزت سے نواز بھی رہا ہے۔ہمارے باعمل نوجوان کلکٹر بن رہے ہیں، ایس پی بن رہے ہیں ، ججس بن رہے ہیں۔ہمارےملک عزیز میں اسروکے سورج مشن کی سربراہ نگار شاجی ’’یقیں محکم، عمل پیہم ‘‘ کی روشن مثال ہیں ۔بس ہماری اکثریت کو بھی عمل کی طرف زیادہ توجہ دینے اور اس رویہ سے پیچھا چھڑانے کی ضرورت ہے کہ:
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر  طبیعت  ادھر  نہیں آتی
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023